09 نومبر, 2017

اسلام میں فقہی مذاہب اربعہ پر اکتفا کیوں؟ حصہ اول

اسلام میں فقہی مذاہب اربعہ پر اکتفا کیوں؟(حصہ اول)
عنوان کی سمجھ دوسرے حصہ میں آئے گی ۔۔ میری بات کو سمجھنے کے لئے آپ کو حصہ اول و دوم کا مطالعہ کرنا ہو گا ۔۔چند دلائل اجتہاد یعنی فقہہ پر 
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔۔
یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین و انما انا قاسم واللہ یعطی
اللہ تعالیٰ جب کسی کے ساتھ خیر چاہتا ہے تو اُسے دین میں سوجھ بوجھ عطا کرتا ہے ۔ میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے ۔(حدیث مبارکہ ) 
یعنی دین کی سمجھ (فقہہ)اللہ کی طرف سے خیر ہے ۔۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں وہ صحابۂ کرام جنہوں نے مختلف موضوعات پر فتوے دیے ان کی تعداد ایک سو تیس چالیس (130/ 140) تک ہے تقریبا ، ان میں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ باوجود اسکے کے سیکھا سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مگر فتویٰ سب نے نہیں دیا۔۔۔ آج کل ایک مخصوص طبقہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ تم سب ہی مفتی ہو تمہیں کسی فقہ کی ضرورت نہیں۔
اسلام نے معاشرتی مسائل کے ذیل میں جگہ جگہ ’معروف‘ یعنی( جو جہاں کی ضرورت ہو) کے مطابق عمل کی ہدایت کی ہے، چنانچہ ایک جگہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ عورت کے ساتھ معروف کے مطابق سلوک کرنا چاہیے (النساء:۱۹)۔
اس میں نان نفقہ بھی شامل ہے، لیکن اللہ نے اس کی حدبندی نہیں کی۔ یہ کبھی اشخاص کے اختلاف سے ، معاشروں کے اختلاف سے ملکوں اور زمانہ کے اختلاف سے بھی بدل سکتا ہے ۔ ان بدلتی ہوئی صورتوں کے لحاظ سے اس کا تعین کرنا ایک ’اجتہادی عمل‘ ہے جسے فقہی مسائل کہا جاتا ہے ۔۔
حضرت عمرو بن العاصؓ کی ایک روایت میں اجتہاد کی بڑی حوصلہ افزائی موجود ہے ۔ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا ہے :
اذا حکم الحاکم فاجتھد ثم اصاب فلہ اجران و اذا حکم فاجتھد ثم اخطا فلہ اجر
جب حاکم فیصلہ کرے، اس کے لیے کوشش کرے او ر درست فیصلہ کرے تو اسکے لئے دو اجر ہیں ۔ اور جب حاکم فیصلہ کرے، اس کے لیے کوشش کرے، لیکن اس کے باوجود غلطی کر جائے تو اس کا ایک اجر ہے ۔
یہاں حاکم سے مراد وہ حاکم ہے جو دین کا علم رکھتا ہو اور جس کے اندر متعلقہ مسئلہ میں اجتہاد کی صلاحیت پائی جائے ۔۔
مگر جب اسلامی حکومت نہ ہو پھر یہ اختیار حکمرانوں نہیں دیا جا سکتا ۔۔ پھر یہ ذمہ داری فقہائے کرام کی ہے کہ وہ دین کو سمجھ کر عوام تک پہنچائیں ۔
اجتہاد کی تربیت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ۔
ایک خاتون نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی، لیکن اپنی نذر پوری کرنے سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا، کیا میں اُس کی طرف سے حج کروں ؟ آپؐ نے اس سے پوچھا: بتاؤ اگر تمھاری ماں پر کسی کا قرض ہوتا تو کیا تم اُسے ادا نہ کرتیں ؟ اس نے عرض کیا: ہاں ضرور کرتی۔ آپؐ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اس قرض کو بھی ادا کرو۔ یہ تو دوسرے قرضوں سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ وہ ادا ہو۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجتہاد۔۔۔۔۔
جنگِ ’احزاب‘ کے موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کرام سے کہا کہ وہ فوراً ’بنی قریظہ‘ پہنچ جائیں او ر وہیں عصر کی نماز پڑھیں، لیکن یہ لوگ راستے ہی میں تھے کہ عصر کا وقت ہو گیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ حضورؐ ﷺکا مطلب یہ تھا کہ ہم ’بنو قریظہ‘ پہنچنے میں جلدی کریں ۔ آپؐ ﷺ کا منشا یہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے نمازِ عصر میں تاخیر کر دی جائے ۔ چنانچہ ان لوگوں نے وقت پر نماز پڑھ لی، لیکن بعض دوسرے صحابہ نے اس سے اختلاف کیا، چوں کہ آپ نے عصر کی نماز ’بنو قریظہ‘میں پڑھنے کی ہدایت کی تھی، اس لیے وہیں پہنچ کر رات میں انھوں نے نماز پڑھی، پہلے گروہ نے آپؐ کے منشا کو سمجھنے کی کوشش کی اور دوسرے گروہ نے آپؐ کے الفاظ کو سامنے رکھا، جب آپؐ کو اس کی اطلاع ملی، تو آپؐ نے کسی بھی گروہ کو ملامت نہیں کی۔
ایک اور روایت ۔ 
دو صحابی رسولﷺسفر میں تھے، نماز کا وقت آیا تو وضو کے لیے پانی نہیں تھا، چنانچہ انھوں نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، لیکن وقت کے ختم ہونے سے پہلے ہی پانی مل گیا، تو ایک صاحب نے نماز دہرائی اور دوسرے نے نہیں دُہرائی، آپؐ نے دونوں کو درست قرار دیا۔
انتہائی اہم معاملہ نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد مسئلہ خلافت پیش آیا، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے مستحق خلافت ہونے کی ایک دلیل حضرت عمرؓ نے یہ دی کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اپنی زندگی میں نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھایا تھا۔ یہ ان کے نزدیک اس بات کا ثبوت تھا کہ خلافت کے لیے بھی حضرت ابوبکرؓ ہی سب سے زیادہ آپ کی نظر میں مستحق تھے ۔ اس طرح انھوں نے ’امامتِ نماز " سے اجتہاد کیا اور مسلمانوں کی امامت کا مستحق جانا۔۔۔
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے منکرین زکوٰۃ سے جہاد کیا وہ بھی اجتہاد کے ذریعے سے ۔۔۔۔
اور صحابہ کرام کے وظائف مقرر کرنے کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق کا اجتہاد برابری کی بنیاد پر تھا ۔۔اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالئ عنہ کا اجتہاد ان کی دینی خدمات کی بنیاد پر تھا۔
فقہاء کے درجات۔
فقہ حنفی میں مجتہدین اور ان کی اتباع کرنے والے علماء و فقہاء کے سات طبقات بیان کئے گئے ہیں :
(1)پہلا طبقہ ’مجتہدین فی الشرع‘ کا ہے، جنھوں نے شریعت کے احکام سے براہِ راست اجتہاد کیا۔ جیسے ائمہ اربعہ۔۔
(2) دوسرا طبقہ ’مجتہدین فی المذہب‘ کا ہے ۔ فقہ حنفی میں امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ وغیرہ یہ لوگ فروع اور جزئیات میں بسا اوقات امام صاحب سے اختلاف بھی کرتے ہیں، لیکن اصول میں وہ ان سے متفق ہیں ۔
(3)تیسرا طبقہ ’مجتہدین فی المسائل‘ کا ہے ۔ یہ لوگ فقہ حنفی کے اصول و فروع کسی بھی چیز سے اختلاف نہیں کرتے صرف اگر کسی مسئلہ میں اختصار ہو تو اسکی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
(4)چوتھا طبقہ ’اصحابِ تخریج‘ کا ہے، جو اجتہاد کی صلاحیت تو نہیں رکھتے، البتہ جس کے ایک سے زیادہ پہلو ہو سکتے ہیں، تعیین اور وضاحت کر سکتے ہیں۔
(5)پانچواں طبقہ ’اصحابِ ترجیح‘ کا ہے ۔ یہ لوگ اپنے مذہب کی مختلف روایات میں کسی ایک کو ترجیح دے سکتے ہیں ۔
(6)چھٹا طبقہ ، ان علماء کا ہے جو اپنے مذہب کی مختلف روایات میں یہ فرق کر سکتے ہیں کہ ان میں کونسی قوی ہے او ر کونسی ضعیف؟
(7)ساتواں طبقہ۔۔ ان مقلدین (عوام )کا ہے جو اپنے مذہب کی کمزور اور مضبوط یا غلط اور صحیح روایات میں کوئی فرق نہیں کر سکتے، عوام کیلئے پہلے چھ طبقات کی روایات پر اعتماد اور عمل کرنا ہو گا۔
اب میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو دیکھے کہ ان سات طبقات میں کون سے طبقے میں ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں اپنےآپ کو ساتویں طبقہ میں پاتا ہوں اور فقہائے کرام کے اقوال پر عمل کرتا ہوں۔
بقیہ مضمون دوسرے حصے میں۔۔۔۔۔ 
جاری ہے۔۔

اسلام میں فقہی مذاہب اربعہ پر اکتفا کیوں


اسلام میں فقہی مذاہب اربعہ پر اکتفا کیوں ؟(حصہ دوم)
پہلی صدی ہجری میں چونکہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے ،اس لیے لوگ احادیث سنتے اور اس پر عمل کرتے تھے ۔ پھر تابعین کے دور میں کچھ تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔ حتیٰ کہ دوسری صدی ہجری کے اخیر تک بہت ساری تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں ۔ اب مختلف علاقوں میں مسائل شریعہ کی ضرورت پیش آتی منصب قضاء پر متمکن قاضی فیصلے کرتے ۔ لوگ اہل علم سے رجوع کرتے ان میں سے کچھ اہل علم کا مسکن حجاز ہے جن میں امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے شاگرد، سفیان الثوری اور ان کے رفقاء، امام احمد بن حنبل اور ان کے ساتھی اور امام داؤد وغیرہ ۔
اور اہل علم جن کا تعلق عراق سے ہے جن میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہیں، انہی میں امام محمد، امام ابویوسف قاضی، زفر بن ہذیل، حسن بن زیاد، ابن سماعہ، قاضی عافیہ، ابو مطیع البلخی اور بشر المریسی وغیرہ۔۔
اب جس علاقے میں جو اہل علم شخصیات موجود تھیں ان کے علم سے مستفید ہوتے ہوئے فتاویٰ جات دیئے جاتے یوں آہستہ آہستہ تیسری صدی ہجری میں باقاعدہ مذاہبِ اربعہ نے اپنا وجود قائم کرنا شروع کیا۔۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں میں مذہب نے قرار پکڑا تو وہ حنفی کہلائے۔ اہل حجاز (مکہ و مدینہ) والوں کے پیشوا امام مالک رحمہ اللہ بنے اور ان کے شاگردوں کے سبب یہ مالکی کہلائے اور پھر امام شافعی رحمہ اللہ کے ماننے والے شافعی ٹھہرے۔ اور پھر اسی طرح امام احمد بن حنبل کو ماننے والے حنبلی ٹھہرے (مقدمہ ابن خلدون: ۳۸۹)
اندلس میں مالکی فقہاء اور مشرق میں حنفی فقہاء کی اپنے اپنے قاضیوں کی مناصب پر تعیین کے سبب جس جس علاقے میں جس فقیہ کے مطابق فتویٰ دیا جاتا آہستہ آہستہ وہاں پر وہی فقہ جو ھے مشہور ہو گئی۔۔
اور چوتھی صدی ہجری میں مذاہبِ اربعہ پوری قوت سے اپنے وجود میں آچکے تھے ۔اس بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ حجۃ اللہ البالغۃ: ج 1 میں فرماتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ النَّاسَ قَبْلَ الْمِائَۃِ الرَّابِعَۃِکَانُوا غَیرَ مُجْمَعِینَ عَلَی التَّقْلِیدِ الْخَالِصِ لِمَذْہَبٍ وَاحِدٍ بِعَیْنِہِ۔
آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ مسلمان چوتھی صدی ہجری سے قبل کسی ایک مذہب کی تقلید خالص پر متفق نہ تھے۔
مذاہبِ اربعہ کے وجود میں آ جانے کے بعد پھر شدت پسندی ے جگہ پکڑی اس کی ایک مثال تحریر میں لاتا ہوں۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ حنبلی مسلک رکھتے تھے کسی مسئلہ پر تحقیقی وعلمی اندازسے سوچا تو امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے وقیع ومدلل نظر آئی چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق فتوی دے دیا۔ صبح جب اپنے کمرے سے باہر آنا چاہا تو حنبلی عوام نے راتوں رات ان کے دروازے پر دیوار چن دی۔ 
اسی طرح فقہی مسائل پر شوافع اور احناف کے درمیان باقاعدہ مناظرے ہوئے حتی کہ لڑائیاں ہوئیں ۔ یہ تو تھیں مذاہبِ اربعہ کے وجود میں آنے کی وجوہات اور پھر شدت پسندی ۔ پھر اہل علم اس بات پر متفق ہوئے کہ جب سب کا ماخذ قرآن و سنت ہے تو سب ایک ہی ہیں پھر ان مذاہب اربعہ کو اہلسنت و جماعت ہی تسلیم کیا گیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ اہلِ سنت کے چار مکاتبِ فقہ ہیں جن میں‌ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی شامل ہیں۔ کیا ایک شخص کے لیے ان چاروں فقہ پر عمل کرنا جائز ہے یا پھر کسی ایک فقہ پر عمل کیا جائے گا؟ اگر ایسا ہے تو ایک فقہ کی پابندی کیوں‌ کی جائے؟ 
اس کا پہلا جواب ۔
جائز و ناجائز اور اوامر و نواہی کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت لازمی ہے۔
قرآن و سنت میں دوطرح کے احکام ہیں: بعض احکام محکم اور واضح ہیں جن میں اِجمال، اشتباہ، اِبہام یا تعارض نہیں، انھیں پڑھنے والا ہر شخص بغیر کسی اُلجھن کے اُن کا مطلب آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت، زنا، شراب نوشی، چوری، فساد فی الارض اور قتل وغیرہ کی حرمت ہے۔
اس کے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام ایسے بھی ہیں جن میں بادی النظر میں اِبہام پایا جاتا ہے۔ جیسے عبادات اور معاملات وغیرہ کے فروعی مسائل۔ قرآن و سنت سے ان احکام کے مستنبط اور اخذ کرنے کی دو صورتیں ہیں:
1) ۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں اور اس پر عمل کریں۔
2) ۔دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے قرونِ اولیٰ کے جلیل القدر اسلاف کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں اور انہوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ يَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِيْ مَعْرَفَةِ الشَرِيْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِيْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِيْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِيْنَ، وَ هَکَذَا فِيْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ.
’’امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا۔‘‘
مذاہبِ اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید کا فائدہ یہ ہے کہ عام مسلمان تفرقہ و انتشار سے بچ جاتا ہے۔ اگر تقلیدِ مطلق کی عام اجازت ہو اور ہر شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس مسئلے میں جس فقیہ کی چاہے تقلید کر لے تو اس قسم کے اقوال کو جمع کر کے ایک ایسا مذہب تیار ہو سکتا ہے جس میں دین خواہشات کا کھلونا بن کر رہ جائے گا، جسے کسی بھی طور پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فقہاء کے نذدیک اب تقلیدِ شخصی کی پابندی ضروری ہے اور کسی ایک مجتہد (کے مکتبِ فکر) کو معین کر کے ہر مسئلے میں اسی کی پیروی کی جائے تاکہ نفسِ انسانی کو حلال و حرام کے مسائل میں شرارت کا موقع نہ مل سکے۔
اس سوال کی ایک دوسری شکل۔
جب چاروں امام حق پر ہیں، تو پھر ہم جس وقت جس کے مذہب پر چاہیں عمل کرلیں، کوئی نقصان نہ ہونا چاہیے ۔ مثلاً: کبھی رفع یدین کریں، کبھی نہ کریں، کبھی امام کے پیچھے سورة پڑھیں ، کبھی نہ پڑھیں ، وغیرہ وغیرہ۔ 
اس سوال سے چند سوالات پیدا ہوئے مثلا
1) ۔چاروں امام کے حق پر ہونے کا کیا مطلب ہے؟
2)۔۔اگر کوئی شخص کبھی کبھار چاروں اماموں کے مسلک پر عمل کرلے تو کیا حرج ہے؟
3)۔۔۔چاروں اماموں کی باتوں پر عمل، کیا قرآن و حدیث پر عمل نہ ہوگا؟
4)۔۔۔صرف ایک امام کی تقلید کو ضروری سمجھ کر دوسروں کے مسلک پر عمل نہ کرنے کے کیا دلائل ہیں؟
5)۔۔۔عقلی دلائل کے علاوہ چاروں مذہبوں پر عمل نہ کرنے کے شرعی دلائل کیا ہیں؟
اب آتے ہیں جواب کی طرف ۔
چاروں اماموں کے برحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔ چونکہ چاروں امام شرائطِ اجتہاد کے جامع تھے، اور انہوں نے انسانی طاقت کے مطابق مرادِ الٰہی کے پانے کی کوشش کی، اس لئے جس مجتہد کا اجتہاد جس نتیجہ تک پہنچا اس کے حق میں وہی حکمِ شرعی ہے، اور وہ من جانب اللہ اسی پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔ اب ایک مجتہد نے دلائلِ شرعیہ پر غور کرکے یہ سمجھا کہ امام کی اقتداء میں قراء ت ممنوع ہے:اللہ کا ارشاد “فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ” ولقولہ علیہ السلام: “واذا قرأ فانصتوا!” وقولہ علیہ السلام: “اذا امن القاری فامنوا!” تو یہ مجتہد ان دلائلِ شرعیہ کے پیش نظر مجبور ہوگا کہ اس سے سختی کے ساتھ منع کرے۔
دوسرے مجتہد کی نظر اس پر گئی کہ نماز میں سورہٴ فاتحہ کا پڑھنا ہر نمازی کے لئے ضروری ہے، خواہ امام ہو یا مقتدی، یا منفرد، تو یہ اپنے اجتہاد کے مطابق اس کے ضروری ہونے کا فتویٰ دے گا۔
الغرض ہر مجتہد اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرنے اورفتویٰ دینے کا مکلف ہے، یہی مطلب ہے ہر امام کے برحق ہونے کا۔
2)۔۔۔جو شخص شرائطِ اجتہاد کا جامع نہ ہو وہ اختلافی مسائل میں کسی ایک مجتہد کا دامن پکڑنے اور اس کے فتویٰ پر عمل کرنے کا مکلف ہے، اسی کا نام تقلید ہے، پھر تقلید کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کبھی کسی امام کے فتویٰ پر عمل کرلیا، کبھی دوسرے امام کے فتویٰ پر، یا ایک مسئلے میں ایک امام کے فتویٰ کو لے لیا، اور دوسرے مسئلے میں دوسرے امام کے فتویٰ کو، لیکن آدمی کا نفس بہانے تلاش کرنے والا ہے، اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو عام لوگوں کے بارے میں اس کا احتمال غالب ہے کہ اپنے نفس کو جس مجتہد کا فتویٰ اچھا لگے گا، یا جو فتویٰ نفس کی خواہش کے مطابق ہوا کرے گا اس کو لے لیا کرے گا، اس صورت میں شریعت کی پیروی نہیں ہوگی بلکہ ہوائے نفس کی پیروی ہوگی، اس لئے عوام کو خواہشِ نفس کی پیروی سے بچانے اور انہیں شریعتِ خداوندی کا پابند کرنے کے لئے یہ قرار دیا گیا کہ کسی ایک امام کے پابند ہوجائیں۔ 
البتہ بعض صورتوں میں اپنے امام مقتداء کے قول کو چھوڑ کر دوسرے امام کے قول کو لینا جائز اور بعض اوقات بہتر ہے، مثلاً: دوسرے امام کے قول میں احتیاط زیادہ ہے اور یہ شخص کمالِ احتیاط کی بنا پر دوسرے امام کے فتویٰ پر عمل کرتا ہے۔
ہم جیسے عام لوگوں کا اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا بھی مشکل ہے، لہٰذا ہمارے لئے دین و ایمان کی سلامتی اور خود رائی وکج روی سے حفاظت اسی میں ہے کہ ایک امام فتاویٰ پر عمل کریں۔ 
اور یہ کہنا کہ: “کبھی رفع یدین کرلیا، کبھی نہ کیا، کبھی امام کے پیچھے قراء ت کی، کبھی نہ کی” ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو کبھی یکسوئی نصیب نہ ہوگی، بلکہ ہمیشہ متحیر و متردد رہے گا کہ یہ صحیح ہے یا وہ؟ “پھر کبھی کیا، کبھی نہ کیا” کا کوئی معیار تو اس کے ذہن میں ہونا چاہئے کہ کبھی کرنے کی وجہ کیا تھی؟ اور کبھی نہ کرنے کا باعث کیا ہوا؟ کرید کر دیکھا جائے تو اس کا سبب بھی وہی دل کی چاہت نکلے گا ۔ جبکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ چاروں امام اپنے اجتہاد کے مطابق برحق ہیں تو کیوں نہ ان کے اجتہاد پر عمل کیا جائے؟
3)۔۔۔ اختلافی مسائل میں بیک وقت سب پر عمل کرنا تو بعض صورتوں میں ممکن ہی نہیں کہ ایک قول کو لے کر دوسرے کو بہرحال چھوڑنا پڑے گا، اور اگر چاروں کے اقوال پر عمل کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جس مسئلے میں جس کے قول پر چاہا عمل کرلیا یا جب جی چاہا ایک ہی مسئلے میں ایک کے قول پر عمل کرلیا اور جب جی چاہا دوسرے کے قول پر، تو اس کے بارے میں اوپر عرض کرچکا ہوں، بلاشبہ چاروں اماموں کا عمل قرآن و حدیث ہی پر ہے، گو نتیجہِ اجتہاد مختلف ہیں، لہٰذا کسی ایک کی باتوں کو عمل کے لئے اختیار کرلینا بھی قرآن و حدیث پر ہی عمل کرنا ہے۔
4)۔۔۔۔۔کسی ایک امام کی اقتداء کو لازم پکڑنا (خواہ وہ امام ابوحنیفہ ہوں یا امام مالک ، یا امام شافعی، یا امام احمد بن حنبل ) اس میں امام ابوحنیفہ کی تخصیص نہیں، مگر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جس امامِ مجتہد کی پیروی کی جائے اس کے اصول و فروع، راجح مرجوح، قوی و ضعیف کا علم ہونا ضروری ہے، پاک و ہند اور افغانستان سے لے کر مشرقِ بعید تک امام ابوحنیفہ کا مذہب عام طور سے رائج رہا، اور ان ممالک میں فقہ حنفی کی کتابوں کا ذخیرہ اور اس مذہب کے ماہرین بہ کثرت رہے، جن سے رجوع کرنا ہر شخص کے لئے آسان تھا، دوسرے ائمہ کے مذاہب کا رواج ان علاقوں میں نہیں تھا، اس لئے ان علاقوں میں امام ابوحنیفہ کی تقلید رائج ہوئی، جیسا کہ بلادِ مغرب میں مالکی مذہب کا عام چرچا رہا، اور دوسرے مذاہب کا رواج وہاں شاذ و نادر کے حکم میں رہا، اس لئے ان علاقوں میں امام مالک کی تقلید متعین ہوگئی۔ الغرض ہمارے علاقوں میں امام ابوحنیفہ کی تقلید اس بنا پر ضروری قرار پائی کہ یہاں فقہ حنفی کے ماہرین موجود رہے، اور بلادِ مغرب میں فقہ مالکی کی تقلید ضروری ٹھہری کہ وہاں اس کے ماہرین موجود تھے، جہاں دوسری فقہ کے ماہرین ہی موجود نہ ہوں وہاں دوسری فقہ پر عمل کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اور اس پر عمل کیسے ممکن ہے؟
5)۔۔ اوپر والے نکات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس سوال کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، اس لئے کہ مطلق تقلید یا تقلیدِ شخصی محض عقلی چیز نہیں، بلکہ شریعتِ مطہرہ کی تعمیل کی عملی شکل ہے، اور آیتِ شریفہ: “فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ” (النحل:۴۳) ۔
اس مضمون کو جتنا طویل کیا جائے ہو سکتا ہے کیونکہ اس پر بڑی بحث ہے۔
مگر اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہوں گا۔
جب تک اہل علم اس بات پر متفق رہے آئمہ اربعہ حق پر ہیں اور چاروں اہلسنت ہیں تو فرقے نے پیدا نہیں ہوئے جب جب مذاہبِ اربعہ سے کوئی باہر نکلا تو کسی نے فرقے کی بنیاد بنا ۔اگر آج کے دور میں دیکھا جائے فتنہ مرزائیت، غیرمقلدین (اہلحدیث) اور فتنہ جدیدہ غامدی ،اور ایک مرزا جہلمی، میرے نزدیک کئی اور زیر تعمیر ہیں نجانے کب نئے فرقے کا اعلان ہوجائے ۔ جتنے بھی فتنے یا فرقے پیدا ہوئے سب مذاہب ِاربعہ سے نکلنے کا نتیجہ ہے۔۔
میں بھی کسی نئے فرقے کو سچا مان لوں اگر کوئ ہاتھ کھڑے کرکے نماز پڑھنے کا طریقہ نکالے، یا لیٹ کر نمازپڑھنےکاطریقہ نکالے۔ اگر طریقہ پھر بھی وہی رہنا ھے۔ ہاتھ ناف کے نیچے، یا سینے پر، یا ہاتھ کھلے چھوڑ کے، تو پھر ان آئمہ میں سے کسی ایک کی تقلید میں ہی بقا ہے۔ دیکھتا ہوں اگر اس مضمون پر کوئی سوال آیا تو پھر اس کے مطابق جواب پر غور کروں گا۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

04 نومبر, 2017

اہلسنت و جماعت کون ہیں ؟

ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﻨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺪﯾﺪ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻭﮐﯿﭙﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ 200 ﻣﻠﯿﻦ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﮨﮯ
ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﺘﺒﮧ ﻓﮑﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﯾﺸﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ اہلسنت وجماعت ہی بریلوی ہیں ۔ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻭﮐﯿﭙﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺩﮦ ﺍﻋﺪﺍﺩ ﻭ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﭨﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻣﮑﺘﺒﮧ ﻓﮑﺮ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﯿﺮﯾﭩﯿﺞ ﻓﺎﺅﻧﮉﯾﺸﻦ ، ﭨﺎﺋﻢ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ
ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔
ﺳﯿﺎﺳﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﺭﻭﮨﻦ ﺑﯿﺪﯼ ﮐﮯ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ 60 ﻓﯿﺼﺪ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﺗﺎﺭﮐﯿﻦ ﻭﻃﻦ ‏( ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ‏)
ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﺩﯾﮩﺎﺕ ﺳﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﻔﻆ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺦ ﺍﻟﻌﻘﯿﺪﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺻﻄﻼﺡ ‏( ﭘﮩﭽﺎﻥ ‏) ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ 1856 ﺀ ﻣﻄﺎﺑﻖ 1272 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ
❣ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﻥ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﺑﮭﺎﺭﺕ ‏( ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﮨﻨﺪ ‏) ﮐﮯ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﻋﻼﻗﮧ ﺟﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﺑﺮﯾﻠﯽ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ 1921 ﺀ ﻣﻄﺎﺑﻖ 1340 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ . ﺑﺮﯾﻠﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺁﺑﺎﺋﯽ ﺷﮩﺮ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡِ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺍﻟﻘﺎﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﮐﺜﺮﯾﺘﯽ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭼﻮﺩﮬﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﻣﺠﺪﺩ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﺪﺩ ﺩﯾﻦ ﻭ ﻣﻠﺖ ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﻮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﮯ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﭘﺮ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﺴﺘﺸﺮﻗﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﺷﺮﭘﺴﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﻓﺘﻨﮧ ﭘﺮﻭﺭ ﻓﺮﻗﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﭘﺮﺳﺮِ ﭘﯿﮑﺎﺭ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﭘﻨﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﯾﺸﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺳﻨﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭼﻨﺪ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﺟﺪﯾﺪ ﻓﺮﻗﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﭘﯿﮕﻨﮉﮮ
ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﻮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﯾﺎ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻣﺴﻠﮏ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﺯ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻗﺪﯾﻢ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮦ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻭﺍﺿﺢ ‏( ﺛﺎﺑﺖ ‏) ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻧﺒﻮﺕ ﭘﺮ ﮐﺎﻣﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ،
ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺒﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ، ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ، ﻋﺎﻟَﻢ ﺑﺮﺯﺥ ﭘﺮ، ﺁﺧﺮﺕ ﭘﺮ، ﺟﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺯﺥ ﭘﺮ، ﺣﯿﺎﺕ ﺑﻌﺪ ﺍﺯ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ، ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻣﻦ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟَﻢ ﺍﻣﺮ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟَﻢ ﺧﻠﻖ ﭘﺮ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﭘﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﺍﺳﻼﻡ، ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﺍﺟﻤﺎﻉ ﭼﻼ
ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﻓﻘﮩﯽ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﺋﻤﮧ ﺍﺭﺑﻌﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﻧﻌﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧ، ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ، ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﻤﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﺗﺤﻘﯿﻘﯽ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﯼ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮐﻮ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﺮﮐﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﺣﻨﻔﯽ، ﺷﺎﻓﻌﯽ، ﻣﺎﻟﮑﯽ، ﺣﻨﺒﻠﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺍﺳﺦ ﺍﻟﻌﻘﯿﺪﮦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺷﻌﺮﯼ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺎﺗﺮﯾﺪﯼ ﻣﺴﻠﮏ ﮐﺎ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺳﻠﺴﻠﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ
ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻌﺘﻘﺪ ﮨﯿﮟ۔ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﻟﻮﮒ ﻗﺎﺩﺭﯼ ، ﭼﺸﺘﯽ ، ﺳﮩﺮﻭﺭﺩﯼ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯼ ﺳﻠﺴﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﻠﺴﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﺯﻭﺭ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﻞ ﺑﻮﺗﮯ ﭘﺮ ﺍﻥ ﺳﺐ ﺳﻼﺳﻞ ﮐﻮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻣﮑﺘﺒﮧ ﻓﮑﺮ ﮐﯽ ﺷﺎﺧﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﺭﺩﮦ ﻟﻮﮒ ﭘﺎﮎ ﻭ ﮨﻨﺪ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻠﻂ ﺗﺎﺛﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﻭ ﺠﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻓﺮﻗﮧ ﻭﺭﺍﻧﮧ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ
ﺟﻤﺎﻋﺘﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻓﺘﻨﮧ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻓﺮﯾﻘﮧ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺷﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺻﻮﻣﺎﻟﯿﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺩﮨﺎﺋﯽ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ، ﺳﻦ 2012 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﻐﺮﺏ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﮐﯽ ﺩﺭﭘﺮﺩﮦ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﺴﺘﺎﺧﺎﻧﮧ ﻓﻠﻢ ﻣﻨﻈﺮ ﻋﺎﻡ ﭘﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﻠﮏ ﻣﺼﺮ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﯿﺎ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﻣﺴﻠﻢ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺭﺩ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺗﺤﺮﯾﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﻠﻢ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻓﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﺬﻣﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﺟﺬﺑﮧ ﺣﺐ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﺜﺮﺕ ﺳﮯ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﺎﮎ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮏ ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻋﻠﯽٰ ﺁﻟﮏ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮏ ﯾﺎ حبیب الله ﭘﮍﮬﻨﺎ ﮨﮯ . ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻧﺒﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻧﺎﺯﯾﺒﺎ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﻨﻨﮯ ﯾﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ . ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺎﺑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽﺣﻮﺍﻟﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﻧﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﯼ ﺭﺳﻮﻝ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺘﯽ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻟﻮﭦ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ
ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﺍﺭﻭﺍﺡ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺗﺮ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﻮﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻥ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻏﯿﺐ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ
ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻭ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ
ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻧﮯ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﺍﺕ ﺩﮮ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮐﻮ ﻋﯿﺪ ﻣﯿﻼﺩ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﻋﻮﺍﻣﯽ ﺟﺸﻦ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﯿﮏ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﺼﺎﻝ ﺛﻮﺍﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭ ﺟﻞ ﺟﺴﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺑﻨﺎﻟﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺟﺐ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮈﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻣﻘﺎﻡ ﺟﻨﺖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮨﮯ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﯿﮏ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺻﻠﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﻭﻋﺪﮦ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﮩﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ، ﺻﺪﯾﻘﯿﻦ، ﺷﮩﯿﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺟﻦ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻓﻀﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻓﻀﻞ ﮨﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮒ ﺩﻧﯿﺎ ﻭ ﺁﺧﺮﺕ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺐ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﺨﺸﺶ ﻭ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻮﺳﻞ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯿﺎﮞ ﻣﺪﺩ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻗﺎ ﮐﺮﯾﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ، ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﺻﺤﺎﺏ، ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﮯﻋﯿﻦ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺰﺍﺭ، ﺩﺭﺑﺎﺭ ﯾﺎ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﻔﺮﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﻌﻈﯿﻤﯽ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﭩﮭﯽ ﺗﮏ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺎﺭﮎ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﮨﮯ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﻥ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﻣﺤﺪﺙ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤۃ ﺍﻟﺮﺣﻤﺎﻥ ﻧﮯ 1904 ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻣﻌﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﺑﺮﯾﻠﯽ
ﺷﺮﯾﻒ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻠﻤﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﭼﺮﭼﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﯾﺸﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﮯ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﮯ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﮯ ﻟﺌﮯﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺑﺎﻃﻞ ﻣﮑﺎﺗﺐ ﻓﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﮑﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮈﮬﻮﻝ ﮐﺎ ﭘﻮﻝ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ۔ ﺩﯾﮕﺮ ﺗﺤﺮﯾﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮯ ﻣﻮﮨﻦ ﺩﺍﺱ ﮐﺮﻡ ﭼﻨﺪ ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮨﻨﺪﻭ ﻟﯿﮉﺭ ﮐﯽ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺧﻼﻓﺖ، ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺗﺮﮎ ﻣﻮﺍﻻﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻃﻌﮧ ‏( ﺑﺎﺋﯿﮑﺎﭦ ‏) ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﮐﺎﻓﺮ ﻭ ﻣﺸﺮﮎ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺷﻤﻦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺣﺎﻣﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺟﺪﻭﺟﮩﺪ ﮐﯽ۔

03 نومبر, 2017

بغیر وضو قرآن پاک چھونا جائز نہیں

بغیر وضو قرآن پاک چھونا جائز نہیں
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲ 
اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۝۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝۱۹۴ۙ 
اور یہ قرآن (خدائے) پروردگار عالم کا اُتارا ہوا ہے ،اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اُترا ہے ،(یعنی اس نے) تمہارے دل پر (القا) کیا ہے تاکہ (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو 
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ۝ فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝ لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ۝تَنْزِيْ لٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ 
کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ،(جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے) ،اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں،پروردگار عالم کی طرف سے اُتارا گیا ہے ۔
اور سورہ طٰہ مین اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یوں خطاب فرماتے ہیں:
اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۲ۭ 
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو 

محترم قارئین کرام مجھے ان آیات کریمہ کے ذیل میں اپنے موقف کوآپ حضرات کےسامنے پیش کرنا ہے قبل اس کے کہ کچھ عرض کروں میری آپ حضرات سے گزارش ہے کہ پہلے میرے اس مضمون کو بنظر تحسین دیکھئے اور پھر تنقید کیجئے ، یعنی پہلے حسن دیکھیں پھر نقص ۔اگر تنقید کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تو میری بات میں ہر جگہ ہر جملہ میں اور ہرہر لفظ میں کوتاہی اور نقص ہی نقص نظر آئے گا۔ اس مضمون کولکھتے ہوئے کئی پہلوؤں پر میری نگاہ ہے ۔ اس لیے ان شاء اللہ (انشاءاللہ ) کوئی نہ کوئی بات مفید اور کار آمد مل جائے گی،فائدہ سے خالی نہیں۔
جہاں تک قرآن پاک کی تلاوت کا معاملہ ہے تو اتنا تو طے شدہ ہے کہ جنابت اور حیض و نفاس ِ کے علاوہ بغیر وضو قرآن پاک کی تلاوت کی جا سکتی ہے۔جس طرح کہ حفاظ کرام یا وہ حضرات جن کو قرآن پاک کی کچھ آئتیں یاسورتیں یاد ہوتی ہیں یا کسی چیز کی مدد سے قرآن کوچھوئے بنا اوراق کو بدلنا یا کھولنابغیر وضو کے جائز ہے ، اس لیے چھونے میں اور تلاوت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے جیسا کہ کچھ حضرات نے چھونے اور تلاوت کرنے کو یک ہی تسلیم کرتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کو جائز سمجھ لیا ہے اور خلط مبحث کردیا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
اور یہ سمجھ کر کہ مومن پاک ہوتا ہے اس لیے اس کو بغیر وضو قرآن پاک چھونا جائز ہے ۔ ان کا یہ فیصلہ اور ایسا سمجھنا مناسب نہیں بلکہ محل نظر ہے۔
بغیر وضو کے جواز کے قائلین فرماتے ہیں ،کہ’’ مطھرون‘‘ کی نسبت فرشتوں کی طرف ہے ،جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت بھی اس طرف گئی ہے ، جہاں تک فرشتوں کے طاہر ہونے اور معصوم ہونے کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ تسلیم ہے فرشتے طاہر ہیں اور معصوم ہیں ، لیکن ان کی تطہیر اور معصومیت کا باعث فرشتوں کا بشری تقاضوں سے مبرّا ہونا ہے اور چونکہ ان کی خلقت بھی نور سے ہوئی ہے اور نور خود پاک ہوتا ہے ، اس لیے ان کو مزید کسی طہارت کی ضرورت نہیں جب کہ انسان کی تخلیق گندی مٹی اور ایک ناپاک قطرے سے ہوتی ہے اور بشری تقاضے بھی لاحق ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ناپاک بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا فرشتوں کو ’’من حیث التطہیر‘‘ انسان پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن مرتبہ کے اعتبار سے انسان کو ہی تما م مخلوق پر اشرف ہونے کا شرف حاصل ہے ۔کیوں کہ خلیفۃ الرب ہے اور حامل امانت الٰہی ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۝۷۲ۙ 
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو مخلوق تخلیقی اعتبار سے پاک ہے ان کے بارے میں تو ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کہ نہیں چھوتے ہیں مگر پاک ہی‘‘اور جو تخلیقی اعتبار ناپاک ہوئے یا پاکی کے مکلف ہوئے بوجہ تقاضا بشری اور بوجہ ایمان پاک ہوئے ،یعنی اگر انسان ایمان قبول نہ کرے تو وہ نا پاک ہے،جو یقینی امر ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا فرشتے بھی بوجہ ایمان پاک ہوئے ؟میں کہتا ہوں ایسا نہیں کیوں کہ ان کی تخلیق بحالت ایما ن ہی ہوتی ہے اور یہ عذاب ثواب ،اور دوزخ جنت ، اور حساب کتاب کے بھی مکلف نہیں ،کیوں کہ ان کو خالص عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہےیا جو کام ان کے سپرد کئے جاتے ہیں ان میں کمی بیشی کے بغیر کر گزرتے ہیں ۔ 

تو معلوم ہوا طہارت کا تعلق پہلے بشری تقاضوں کی وجہ سے ہے اور پھر ایمان سے ۔قبول ایمان تو تطہیر روح کا ذریعہ ہے نہ کہ تطہیر جسم کا ۔ قبول ایمان کی وجہ سے روح پاکیزہ ہوتی ہے نہ کہ جسم ،اور یہ بھی معلوم رہے کہ جسم کی حرکات سے ہی روح بھی متاءثر ہوتی ہے ،اس لیے جسم کی پاگیزگی نام ہے حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاک ہوناجس کے لیےایمان شرط نہیں۔ اس کو میں چند مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کامشہور واقعہ ہے ،کہ ابھی انہوں نے ایمان قبول نہیں کیا تھا( پورے واقعہ کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں)آپ ؓ نے اپنی بہن اور بہنوئی سے قرآن پاک کے ان اوراق کا پڑھنے کا اشتیاق ظاہر کیا جس کی یہ دونوں تلاوت کررہے تھے (یا تعلیم حاصل کررہے تھے) انہوں نے دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ پہلے غسل فرمالیں تب اس کو ہاتھ لگا سکتے ہیں ۔الغرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور پھر ان اوراق کی تلاوت کی جیسے جیسے پڑھتے گئے اندر کی کیفیت بدلتی چلی گئی اس کے بعد ایمان قبول کیا ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا، قرآن پاک کوچھونے کے لیے اگر ایمان شرط ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن اور بہنوئی غسل کے ساتھ ساتھ ایمان کی شرط اور لگاتے تب ان کو قرآن پاک کو چھونے دیتے اس سے معلوم ہوا قرآن پاک کو چھونے کے لیے ایمان شرط بلکہ پاکی شرط ہے اور پاکی نام ہے حدث اکبر اور اصغر سے پاک ہونا۔ ایک دوسری مثال اور پیش کرتا ہوں:
سابقہ ایام میں ایشیاء کی مشہورپریس یا مطبع جس کو’’ مطبع نول کشور‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ،اس مطبع میں قرآن پاک سے لیکر احادیث کی تمام کتب اور اسلامیات کا تمام لٹریچر طبع ہوتا تھا ،اور حال یہ تھا کہ اس مطبع کا مالک خود بھی اور تمام ملاذمین جس کمرے میں قرآن پاک کی چھپائی ہوتی تھی بغیر غسل اور بغیر وضو کے کوئی بھی داخل نہیں ہوسکتا تھا دوران طباعت ’’پریس مین‘‘ با وضو رہتے تھے اور جن ان پلیٹوں کو دھویا جاتا تھا اس کا دھو ون زمین پر نہیں گرتا تھا بلکہ اس کو ایک بڑے ٹب کے ذریعہ ڈرم میں بھرا جا تا اور پھر اس کو سمندر میں بہایا جاتا۔ اور یہ اس زمانہ کی بات ہے تمام مسالک کبار علماء موجود تھے اور کسی نے بھی اس مطبع پر اعتراض نہیں کیا ، کہ اس کا مالک غیر مسلم ہے اس لیے یہاں قرآن پاک نہیں چھپنا چاہئے ۔ اس سے معلوم ہوا قرآن پاک چھونے کے لیے ایمان لازم نہیں بلکہ جسم کا پاک ہونا لازم ہے۔
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲ 

اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری
اب آگے چلتے ہیں :
حضرت موسی علیہ السلام کوباری تعالیٰ سے شرف کلامی یا دیدار کا اشتیاق ہوا قصہ مختصر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس روزے اور چالیس راتیں تنہائی میں عبادت کے لیے گزارنی پڑی،اس کے بعد ان کو کوہ طور پر بلایا گیا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لے گئے تو ان کو حکم دیا گیا :

اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۲ۭ 
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو 
یہاں موضوع سے ہٹ کر ایک بات اور عرض کردوں کہ اس آیت شریفہ سے یہ بات معلو م ہورہی ہے کہ مقامات مقدسہ یعنی مساجد میں جوتے پہن کر نہیں جانا چاہئے کیوں کہ یہ مقامات مقدسہ میں شامل ہیں یعنی مساجد بیت اللہ ہیں ،لیکن ہم نے دیکھا ہے حرمیں شریفین میں کچھ عرب اور پولس کے اہلکار ان مقامات مقدسہ میں جوتے لیے پھر تے ہیں اور جوتے پہن کر ہی نماز پڑھتے ہیں کیا ان کے جوتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جوتوں سے زیادہ پاکیزہ ہیں ۔ شاید ان کے سامنے یہ آیت شریفہ نہیں گزری ۔ یا اس کو کہہ دیا جائے گا یہ شریعت موسی علیہ السلام کا حکم ہے (فتدبرو یا الوالابصار):یہ آیت سامنے رہنی چاہئے
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲ 
اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری
معلوم یہ ہوا کہ تمام شعائراللہ کی تعظیم وتکریم کرنا واجب ہے اس میں مساجد بھی شامل ہیں اور کلام الٰہی بھی ۔
خیر یہ میرا موضوع نہیں ، میں عرض کررہا تھا اس کے موسیٰ علیہ السلام کو شرف کلامی حاصل ہوا اس کے بعد ان توریت عنایت کی گئی ، اس وقعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ روحانی پاکیزگی اور جسمانی پاکیزگی کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو توریت عنایت کی گئی ،اب دوسرا واقعہ اور ملاحظہ فرمائیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو دوبار آب زمزم سے دھویاگیا کس لیے اس لیے کہ اس قلب اطہر پر آگے چل کرامانت نازل ہونے والی ہے جس کو قرآن پاک میں اس طرح فرمایا:
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۝۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝۱۹۴ۙ 
اور یہ قرآن (خدائے) پروردگار عالم کا اُتارا ہوا ہے ،اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اُترا ہے ،(یعنی اس نے) تمہارے دل پر (القا) کیا ہے تاکہ (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو 
یہی وجہ رہی کہ نبی کریم بشری تقاضوں کے علاوہ با وضو رہے۔
ان دونوں واقعوں کے تذکرہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جب پاکیزگی اور طہارت کا خصوصی اہتمام ان برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ پیش آیا تو کجا ہم جسے عام انسان ،اس لیے ہمیں تو کچھ زیادہ ہی پاکیزگی اور طہارت کا اہتمام کرنا چاہے، کجا بے وضو قرآن پاک کو چھونے کی اجازت دینا ۔
اب دیکھتے ہیں اس آیت شریفہ کو:

اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ۝ فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝ لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ۝تَنْزِيْ لٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ 
کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ،(جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے) ،اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں،پروردگار عالم کی طرف سے اُتارا گیا ہے ۔
’’مطہرون ‘‘کے بارے میں احقر نے اپنی علمی بے بضاعتی کے با وجود کچھ اظہار کرنے کی جسارت کی ہے؛ 
کچھ تنزیل کے بارے میں عرض کردوں 
سماوی،اور ارضی حکامات میں فرق ہے ۔جب تکی یہ قرآن پاک آسمان میں رہا اس کو ’’ محفوظ ‘‘ سے خطاب کیا گیا مثلاً ’’فی لوح محفوظ‘‘ اور جب دینا میں نازل ہونا شروع ہوا تو اس کو’’ تیزیل ‘‘کہا گیا۔ اس سے معلوم ہوا’’ مطہرون ‘‘کے مصداق انسان ہیں نہ کہ ملائک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ کہاں نازل کیا گیا فرمایا: عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ؛ یعنی معلوم ہوا لوح محفوظ سےحسب ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
خلاصہ کلام : ان تمام توضیحات سے معلوم ہوا بغیر وضو قرآن پاک کو نہیں چھونا چاہیے ،اگر موقعہ محل نہیں ہے تو تیمم کرلینا چاہئے 
اس کے بعد کچھ دلائل پیش خدمت ہیں جو احادیث وغیرہ میں مذکور ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ أَحَدِکُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّی يَتَوَضَّأَ (مسلم)
محمد بن رافع، عبدالرزاق بن ہمام، معمر بن راشد، ہمام بن منبہ سے روایت ہے کہ انہوں نے چند وہ احادیث ذکر کیں جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیں ان میں سے بعض احادیث کو ذکر کیا ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کی جاتی جب وہ بے وضو ہو جائے یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن حزم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا جس میں یہ تھا: أنہ کتب لعمر بن حزم: لا یمسّ القرآن إلاَّ طاہر (احکام القرن مفتی محمد شفیع صاحبؒ) یعنی قرآن پاک نہ چھوئے مگر پاک آدمی

اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا وا قعہ جیسا کہ ماقبل میں مذکور ہوا ،اس میں ہے:فقال لأختہ أعطوني الکتاب الذي کنتم تقروٴون فقالت إنک رجس وإنہ لا یمسہ إلا المطھرون فقم فاغتسل أو توضأ فتوضأ فأخذ الکتاب فقرأہ (أحکام القرآن للجصاص) کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن سے قرآن مانگا۔ بہن نے کہا کہ تم ناپاک ہو، قرآن کو تو پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں، لہٰذا جاوٴ غسل کرو یا وضو کرو! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر قرآن لے کر پڑھا۔
اور حضرت سعد سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو بے وضو قرآن چھونے سے منع کیا، حضرت ابن عمر سے بھی اسی کے مثل منقول ہے۔ (احکام القرآن للجصاص)
اور تفسیر مظہری میں اس طرح ہے:
”فالمعنی لایمس القرآن الا المطہرون من الاحداث فیکون بمعنی النہی والمراد بالقرآن المصحف“(۱۰:۱۸۱)
یعنی قرآن کو نہیں چھوتے مگر پاک اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کو نہ چھوئیں، مگر وہی لوگ جو پاک ہوں اور قرآن سے مراد یہی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
اور ایک دوسری حدیث شریف میں اس طرح ہے:
”عن عبد الرحمن بن یزید قال: کنا مع سلمان فخرج فقضی حاجتہ ثم جاء‘ فقلت: یا ابا عبد اللہ! لو توضأت لعلنا نسالک عن آیات قال انی لست امسہ انہ لایمسہ الا المطہرون فقرأ علینا ما شئنا انتہی“۔و صححہ الدار قطنی (نصب الرایة‘۱:۲۸۴)
یعنی حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سلمان کے ساتھ تھے کہ وہ قضائے حاجت کے لئے گئے اور پھر جب واپس آئے تو میں نے کہا :اے ابو عبد اللہ! اگر آپ وضوکر لیتے تو ہم آپ سے چند آیات کے بارے میں پوچھتے تو آپ نے فرمایا کہ: میں․اس حالت میں قرآن کو نہیں چھوؤں گا،‘ اس لئے کہ قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں پھر ہمارے سامنے ہماری مطلوبہ آیات کی تلاوت کی۔
اور فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
منھا حرمۃ مس المصحف لا یجوز لہما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنہ کالخریطۃ والجلد الغیر المشرز لابما ھو متصل بہ ھو الصحیح ھکذا فی الھدایۃ وعلیہ الفتوی کذا فی الجوھرۃ النیرۃ والصحیح منع مس حواشی المصحف والبیاض الذی لاکتابۃ علیہ (ھکذا فی التبیین)
۔ان ہی امور میں سے مصحف چھونے کی حرمت بھی ہے۔ حیض ونفاس والی کے لئے ،جنب کے لئے ،اوربے وضو کے لئے مصحف چھونا جائز نہیں۔مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو اس سے الگ ہوجیسے جزدان اوروہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو، اس غلاف کے ساتھ چھُونا جائز نہیں جو مصحف سے جُڑا ہوا ہو یہی صحیح ہے، ایسا ہی ہدایہ میں ہے، اسی پر فتوٰی ہے اسی طرح جوہرہ نیرہ میں ہے ۔اور صحیح ہے کہ مصحف کے کناروں اوراس بیاض کو بھی چھونا منع ہے جس پر کتابت نہیں ہے۔ اور ایسا ہی تبیین میں ذکر ہے۔
اور درمختار میں ہے:
ولو مکتوبا بالفار سیۃ فی الاصح الا بغلافہ المنفصل
اور اصح یہ ہے کہ اگر فارسی میں قرآن پاک لکھا ہوتوبھی چھونا جائز نہیں مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو مصحف سے الگ ہو۔
اور جمہور امت اور ائمہ اسلاف اس بات پر متفق ہیں کہ حائضہ عورت قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرسکتی۔ جیسا کہ معارف السنن میں ہے:
ذہب الجمہور وابوحنیفہ رحمہ اللہ والشافعی رحمہ اللہ واحمد رحمہ اللہ اکثر العلماء والائمة الی منع الحائض والجنب عن قراء ة القرآن قلیلہا وکثیرہا(۱:۴۴۵)
الغرض اس طرح کے کثیر تعداد میں فتاویٰ ہیں کہ بغیر وضو قرآن پاک چھونا جائز نہیں بعض نے حرام تک لکھا ہے اور اس بابت جمہور علماء کا اجماع ہے 
امام المحدثین امام بخاری ؒ جب کوئی حدیث شریف لکھتے تواس پہلے دوگانہ ادا کرتے اور پھر حدیث شریف لکھتے ۔ جب حدیث شریف لکھنے کے لیے اتنا اہتمام فرماتے تھے تو قرآن پاک کے بارے میں کیا عمل ہونا چاہئے ؟ بات چونکہ بہت طویل ہوگئی بس اسی پر اکتفاء کرتا ہوں نہیں تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب

02 نومبر, 2017

غیر مسلم کی موت پر ہمارا رویہ

ہم اور ہمارے جذبات
ویسے تو ہم عمومی زندگی میں بھی ایسے ہی ہیں مگر کئی واقعات ہمارا امتحان بن جاتے ہیں۔
آج اس دنیا سے چلے جانے والی ،،دینا واڈیا،، جو کہ قائداعظم محمد علی جناح کی اکلوتی صاحبزادی تھیں۔
مرنے والی نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ہی۔  1938 میں انڈیا کے ایک بزنس مین جو کہ مذہب کے لحاظ سے ایک پارسی تھا یعنی،، آتش پرست،، اس سے شادی کر لی جس کے سبب سے قائداعظم بھی اپنی بیٹی کو وہ عزت و مقام نہیں دے پائے جو کہ اپنی اکلوتی بیٹی کو دینا چاہتے تھے۔ مرنے والی کی اولاد میں سے ایک نسلی واڈیا جو کہ آج بھی آتش پرست ہے۔ اور انڈیا کی شہریت رکھتا ہے۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے آتش پرستوں کے عقیدہ کے بارے میں تھوڑا جان لیجیے۔۔
آتش پرست
ایک پارسی  سکالر لکھتا ہے  :
“آگ کی پرستش کرنا انسان کے لئے ایک قدرتی فعل ہے ۔ کیوں کہ یہ کائنات کے چار بنیادی  اجزاء میں سے ایک جز ہے جس سے انسانی تہذیب کے ارتقاء میں مدد ملی۔ آگ ہی نے انسان کی سردی اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کی، کھانے کو پکایا اور گندگی اور غلاظت کو ختم کیا۔ مسافروں کو راستہ دکھایا اور انسانوں کو آتش دان کے گرد اکٹھا کیا۔ آگ ہی روشنی حرارت اور طاقت کا منبع ہے۔ “
اور پارسی مذہب کی مقدس کتاب۔ جس کا نام ہے۔  ،، اوستا،،اس کی زبان قدیم پہلوی ایرانی سے ملتی جلتی ہے۔
یہ تو تھی پارسی آتش پرستوں کی مختصر کہانی۔
میرا نقطہ نظر
جب کوئی ایسی شخصیت اس دنیا سے چلی جاتی ہے جو کہ مسلمان نہیں ہوتی تو ہم دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔
جب دونوں کے موقف کو سنا جائے تو اپنے اپنے موقف میں دونوں ہی درست نظر آتے ہیں۔
ایک گروہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ وہ  جنت میں چلی جائے  یا چلا جائے۔
اور دوسرا گروپ ایمانی تقاضے سے یہ کہتا ہے جنت مومن کے لئے ہے کافر کے لئے نہیں اس لیے جو غیر مسلم مر جائے تو اس کے لیے جنت کی دعا نہیں کرنی چاہیے۔
ایک بات یاد رکھئیے۔۔۔
بات یہ ہے کہ جس نے اپنی زندگی میں جو بھی مذہب چنا جس مذھب کا بھی انتخاب کیا وہ اس کی ذاتی پسند ہے قابل نفرت ہوتا تو چھوڑ کر پسندیدہ مذہب میں چلا جاتا۔
کل کو مجھے بھی موت آنی ھے۔ اگر کوئی مجھے مسلمان کہے تو یہ میرے لئے فخر کی بات ہے ۔ شرمندگی کی بات نہیں۔
اسی طرح کوئی عیسائی ہے کوئی یہودی ہے ، کوئی پارسی ہے۔
اگر مرنے والے پارسی تھی تو ہم اسے پار سی کہیں تو کونسی بری بات ہے۔۔وہ اس کا پسندیدہ مذہب تھا۔
اگر کسی نے ساری زندگی اسلام کو پسند نہیں کیا تو ہم  کیوں اس کے مرنے کے بعد زبردستی اسے اسلام میں داخل کریں ۔
دوستو  ! اظہار دکھ، رنج ، غم ، افسوس کا اظہار ضرور کیجئے۔۔۔۔
مگر جنت میں بھیجنے کا ۔۔۔ یا جنت سے روکنے کا ٹھیکہ مت لیجیئے۔۔۔۔۔
ایسے مواقع پر خاموشی اختیار کیجئے۔۔۔۔۔
معذرت کے ساتھ اگر کسی کی دل آزاری نہ ہو
دینا واڈیا کی سو سالہ زندگی کا کوئی کردار اسلام کے حق میں یا پاکستان کے حق میں تاریخ میں نہیں ملتا۔ مرنے والی پاکستان بننے سے نو سال پہلے آتش پرست سے شادی کر چکی تھی۔
ہاں ایک بات اس کے کریڈٹ میں ہے کہ وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی صاحبزادی تھی۔
لیکن یہ بات اسلام کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتی۔ وگرنہ یزید جس کو ہم لعنتی اور مجرم گردانتے ہیں۔
وہ کاتبِ وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا صاحبزادہ تھا۔ مگر کوئی صاحبِ ایمان امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیٹا ہونے کے سبب سے اس پر مہربان نہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام  کا بیٹا طوفان میں غرق ہو جاتا ہے مگر اسکو بیٹا ہونے کا کوئی نفع نہیں پہنچتا کیونکہ وہ کافر ہو چکا۔
دوستوں جب وہاں اتنی اتنی بڑی ہستیوں کی اولادوں کو نفع نہیں پہنچا تو ہم کیوں اللہ اور اسکے رسول کی خلاف ورزی کرکے جنت تقسیم کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔

خدارا۔ ! ایسے موقعوں پر جنت بانٹنے والے بھی ۔۔  اور جنت سے روکنے والے بھی احتیاط کریں۔۔۔
محمد یعقوب نقسبندی اٹلی

01 نومبر, 2017

شخصیت پرستی اور اس کے نقصانات

شخصیت پرستی اور اس کے نقصانات (قسط نمبر 4)
ہمارے یہاں شخصیات دین پر اتنا اثر انداز ہوتی ہیں ۔ کہ لوگ شخصیت کے بغیر دین ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔
اس وقت امت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شخصیات کو دین کے اصول و قوانین پر نہیں  پرکھا جاتا ۔ بلکہ دین کو شخصیات کے تابع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ آج شخصیات کے قول کو ہی دین بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج موجودہ دورکے کچھ فرقوں اور فتنوں کے بارے میں کچھ گفتگو کروں گا۔۔۔۔ عموما جو فرقے برصغیر میں میں وجود میں آئے۔
نمبر(1)  دین اکبری یا دین الہی
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ اور اس کو دین اکبری ،،دین الٰہی ،،کا نام دیا جا رہا تھا۔
اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے ذریعے اس فتنے کو مٹایا ۔۔۔۔
امام ربانی شیخ احمد الفاروقی السرہندی رحمت اللہ علیہ
تاریخ پیدائش سنہ 1562 ۔۔۔۔۔ تاریخ وفات سنہ 1624
نمبر 2 ۔۔ فتنہ مرزائیت ،
جسے احمدیہ جماعت بھی کہتے ہیں  1889ء میں مرزا غلام احمد قادیانی (1835ء تا 1908ء) نے لدھیانہ میں قائم کی۔ مرزا غلام احمد نے اعلان کیا کہ انہیں الہام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس نے امام مہدی اور مسیح اور حضرت محمدؐ کے تابع نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد حکیم نورالدین کو اس کا پہلا خلیفہ المسیح منتخب کیا گیا ، 1914ء میں حکیم نور الدین کا انتقال ہوا تو پیروکاروں کا اجتماع دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں سے ایک احمدیہ مسلم جماعت اور دوسرا احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کہلاتا ہے۔۔ اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں نے مرزائیوں کو غیرمسلم قرار دیا ہے اور پاکستان کے آئین کے تحت ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔۔اس لئے یہ مسلمان کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے ۔۔
نمبر 3 ۔۔ فتنہ گوہر شاہی
ریاض احمد گوہر شاہی (25 نومبر1941ء تا 25 نومبر2001) نےانجمن سرفروشان ِاسلام کی بنیاد رکھی۔۔۔
اور بہت تھوڑے وقت میں کافی زیادہ نام بنایا اور مختلف دعوے کبھی چاند نظر آنا ۔ کبھی بیت اللہ میں ۔ تبلیغ کیلئے نوجوان بے پردہ لڑکیوں کا استعمال۔اور دیگر بہت سی خرافات اس نے بکیں ۔ اور اللہ نےاس کو تھوڑے ہی عرصے میں موت دے دی ۔ اور امت پر رحم کیا۔۔۔۔
مگر آج بھی اس کاایک نائب انگلینڈ میں بیٹھا ہوا ہے ،، یونس گوھر ،، جس کا نام ہے اسلام کے بارے میں۔ کا بیت اللہ کے بارے میں۔ وطن عزیز پاکستان کے بارے میں۔ بہت  ہی بیہودہ بکواسیات کرتا ہے۔۔۔۔ یو ٹیوب پر سب موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔
نمبر 4۔۔۔نور بخشیہ یا “نور بخشی“
صوفیہ امامیہ نور بخشیہ ایک فرقہ ہے۔ جسکا بانی شاہ سید محمد نوربخش ایرانی( امامیہ سے مراد خلافت حضرت علی کی الادا میں ہی ماننے والے۔ اہل تشیع فکر ) ۔اس فرقے کے پیروکار بلتستان اور لداخ کے علاقوں میں ایک بڑی تعداد موجود ہیں۔ سید محمد شاہ نورانی اس فرقے کا موجودہ مذہبی رہنما ہیں۔
نمبر 5۔۔۔۔ سلفی فرقہ
فرقہ سلفی ایک ایسا فرقہ ہے جو اپنے مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے اور دوسرے فرقوں کو کافر سمجھتا ہے ،یہ فرقہ اسلامی معاشرہ کو سلف صالح کی پیروی کرنے کی دعوت دیتا ہے۔۔ مگر خود ہی سلف صالحین کا منکر ہے ۔ اپنے علاوہ سب کو  مشرک کہنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔۔۔۔
نمبر 6۔۔۔۔۔۔غیر مقلد (اہل حدیث )
غیرمقلد شریعت اسلامی کی ایک اصطلاح ہے۔ یہ لفظ ان مسلمانوں کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی امام کے مقلد نہ ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔لیکن دراصل وہ اپنے موجودہ علماکے مقلد ہوتے ہیں  ۔ کیونکہ تقلید کہتے ہیں قرآن و حدیث کے مشکل مقامات کو سمجھنے کیلئے کسی متبحر عالم کی طرف رجوع کرنا اور غیر مقلدین قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے اپنے علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی کو تقلید کہا جاتا ہے۔۔۔۔
نمبر7۔۔۔۔۔۔۔فتنہ غامدیت
غامدیت ہے کیا ۔۔۔۔۔۔انکار حدیث
اصح الکتب بعد کتاب الله الصحیح البخاری
میں روایت کی گئی نصف سے زیادہ احادیث کا انکار اور صحاح ستہ میں موجود متعدد احادیث کا بھی برملا انکار کیا ہے،
یعنی کہ غامدی کے نزدیک کسی بھی سنت کے لیے ضروری ہے کہ وہ سنت ہم تک صحابہ کرام اور بعد کی امت کے اجماع اور تواتر سے ہم تک پہنچی ہو
اگر کسی سنت کا اثبات فقط حدیث سے ہورہا ہو تو غامدیت کے نزدیک وہ سنت نہی کہلائی جائے گی ۔
عقیدہ ختم نبوت کے بعد "حدود قرآنیہ " پر بھی من گھڑت تاویلات غامدی کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے چنانچہ جاوید احمد غامدی اپنی کتاب "برہان" کے صفحہ 138 طبع چہارم 2006 پر لکھتے ہیں " شراب نوشی پر کسی بھی قسم کی کوئئ شرعی سزا مقرر نہیں ہے" حالانکہ شراب کی حرمت وہ مسئلہ ہے جو کہ حدود قرآنیہ میں شامل ہے،
جاوید احمد غامدی متعدد مقامات پر قرآن کریم کی سبعہ قرآت کا انکار، قتل و دیت کے شرعی قانون کو وقتی قانون کہنا، مرد و عورت کی دیت کو برابر قرار دینا، شادی شدہ اور کنوارے دونوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا پر اصرار کرنا اور رجم کا انکار کرنا، عورت کے لیے پردے کے وجوب کا انکار کرنا، اور حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان کی طرف زندہ اٹھا لیے جانے کا انکار کرنا بھی غامدی عقائد میں شامل ہے،
غرض کہ دین متین کے ہر شعبے اور مسئلہ کو ایک نیا رخ دے کر شریعت اسلامی کے متوازی ایک نیا دین بنانے کا نام غامدیت ہے۔
نمبر 8۔ اِسی کے پیچھے پیچھے ایک فتنہ انجینئر مرزا محمد علی ہے۔
اُس وقت یوٹیوب چینل پر بیٹھا ہوا ہے علمائے اسلام  ۔ بزرگانِ دین ۔ سلف صالحین۔  اور مسلمانوں کی تحقیق شدہ کتب احادیث۔ اور مستند بزرگانے دین کی کتب کے خلاف زبان درازی کرتا ہے۔۔۔۔ جن کو ابھی اس کے فتنہ ہونے پر یقین نہیں ایک دو سال میں وہ بھی سمجھ جائیں گے۔۔
یہ مضمون چونکہ بہت زیادہ طویل ہو رہا ہے اس لیے باقی اگلے مضمون میں بیان ہوگا۔۔۔۔۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

بلاگ میں تلاش کریں