03 مارچ, 2019

خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
    حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی عبداللہ ہے۔ آپ کے اجداد کے اسماء یہ ہیں: عبداللہ (ابو بکر صدیق) بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمروبن کعب بن سعد بن تَیم بن مرّہ بن کعب بن لوی بن غالب قرشی۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نسب پاک سے مرّہ میں ملتا ہے ۔ آپ کا لقب عتیق و صدیق ہے۔ ابو یعلی نے اپنی مسند میں اور ابن سعد و حاکم نے ایک حدیثِ صحیح ام المؤمنین حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ایک روز میں مکان میں تھی اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب صحن میں تھے میرے ان کے درمیان پردہ پڑا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو ''عَتِیْقُ مِّنَ النَّار''(1)کا دیکھنا اچھا معلوم ہو وہ ابوبکر کودیکھے۔ اس روزسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب عتیق ہوگیا۔ آپ کا ایک لقب صدیق ہے۔ ابن اسحق حسن بصری اور قتادہ سے راوی کہ صبحِ شبِِ معراج سے آپ کا یہ لقب مشہور ہوا۔(2)
     مستدرک میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مشرکین پہنچےاور واقعہ معراج جو انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سناتھا۔حضر ت ابو بکر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کو سنا کر کہنے لگے کہ اب حضور کی نسبت کیا کہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: لَقَدْ صَدَقَ اِنِّیْ لَاُصَدِّقُہٗ (حضور نے یقینا سچ فرمایا، میں حضور کی تصدیق کرتا ہوں) اسی وجہ سے آپ کا لقب صدیق ہوا۔ (1)
    حاکم نے مستدرک میں نزال بن سبرہ سے باسناد جید روایت کی کہ ہم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے بزبان جبریلِ امین و بزبانِ سرورِانبیا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم صدیق رکھا ، وہ نمازمیں حضور کے خلیفہ تھے۔حضور نے انھیں ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تو ہم اپنی دنیا کے لئے ان سے راضی ہیں۔ (2) (یعنی خلافت پر )
     دار قطنی وحاکم نے ابو یحییٰ سے روایت کیا کہ میں شمار نہیں کرسکتا کتنی مرتبہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبرسرِمنبر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر ابو بکر کا نام صدیق رکھا۔ (3)
    طبرانی نے بسندِجید صحیح حکیم بن سعد سے روایت کی ہے کہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحلف فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا۔(4)

1۔۔۔۔۔۔یعنی آتشِ دوزخ سے آزاد۔۱۲منہ  2۔۔۔۔۔۔مسند ابی یعلٰی، مسند عائشۃ، الحدیث:۴۸۷۸،ج۴، ص۲۸۲/و تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی اسمہ ولقبہ،ص۲۳1۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، الاحادیث المشعرۃ    ۔۔۔۔۔ بتسمیۃ ابی بکر صدیقاً، الحدیث:۴۴۶۳، ج۴،ص۴۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، الاحادیث المشعرۃ /بتسمیۃ ابی بکرصدیقاً، الحدیث:۴۴۶۲ ،ج۴،ص۴/وتاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی اسمہ ولقبہ،ص۲۳ /3۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی اسمہ ولقبہ،ص۲۳ /4۔۔۔۔۔۔المعجم الکبیر للطبرانی،الحدیث:۱۴،ج۱،ص۵۵
مشاہد میں حضور کے ساتھ حاضر ہوئے۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور اپنے عیال و اولاد کوخدا اور رسول کی محبت میں چھوڑ دیا۔آپ جو دوسخا میں اعلیٰ مرتبہ رکھتے ہیں۔ اسلام لانے کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزار دینار تھے۔یہ سب اسلام کی حمایت میں خرچ فرمائے۔ بردوں کو آزاد کرانا، مسلمان اسیروں کو چھڑانا آپ کا ایک پیار ا شغل تھا۔ بذل و کرم میں حاتم طائی کو آپ سے کچھ بھی نسبت نہیں۔ (1)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم پر کسی شخص کا احسان نہ رہا، ہم نے سب کا بدلہ کر دیا سوائے ابو بکر کے کہ ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت عطا فرمائے گا اور مجھے کسی کے مال نے وہ نفع نہیں دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا۔ ( )(رواہ الترمذی عن ابی ہریرہ)
    زہے نصیب صدیق کے کہ حضور انورسلطان دارین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی شان میں یہ کلمے ارشاد فرمائے۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام میں سب سے اعلم واذکیٰ ہیں۔اس کا بارہاصحابہ کرام نے اعتراف فرمایا ہے۔قرأتِ قرآن، علمِ انساب، علمِ تعبیرمیں آپ فضلِ جلی رکھتے ہیں۔قرآنِ کریم کے حافظ ہیں۔(3) 

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی صحبتہ ومشاہدہ،۔۔۔(ذکرہ النووی فی التہذیب)
ص۲۷ و فصل فی انفاقہ مالہ علی رسول اﷲ...الخ،ص۲۹ملخصاً 
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، 
الحدیث:۳۶۸۱،ج۵،ص۳۷۴
3۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ،فصل فی علمہ...الخ،ص۳۱۔۳۳ملخصاً
افضلیت
   اہل ِسنت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد تمام عالَم سےافضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں،
 ان کے بعدحضرت عمر،ان کے بعدحضرت عثمان ، ان کے بعد حضرت علی،ان کے بعد تمام عشرہ مبشرہ ، ان کے بعد باقی اہل بدر، ان کے بعد باقی اہل احد، ان کے بعد باقی اہل بیعت ، پھر تمام صحابہ۔ یہ اجماع ابو منصور بغدادی نے نقل کیاہے۔ابن عسا کر نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی فرمایا کہ ہم ابو بکر و عمرو عثمان و علی کو فضیلت دیتے تھے بحالیکہ سروراکرم علیہ الصلوٰۃ و السلام ہم میں تشریف فرما ہیں۔ اما م احمد وغیرہ نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا کہ اس امت میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے بہتر ابوبکر و عمر ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ذہبی نے کہا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بتواتر منقول ہے۔(1)
    ابن عساکر نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی کہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے فرمایا: جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا تو میں اس کو مُفْتَرِی کی سزادوں گا۔(2)     حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں بہت آیتیں اوربکثرت حدیثیں واردہوئیں جن سے آپ کے فضائل جلیلہ معلوم ہوتے ہیں۔ چند احادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں:
    ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرما یا :تم میرے صاحب ہو

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی انہ افضل الصحابۃ 
وخیرہم،ص۳۴ 
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی انہ افضل الصحابۃ 
وخیرہم،ص۳۵

حوض کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔
     ابن عساکرنے ایک حدیث نقل کی کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: نیکی کی تین سو ساٹھ خصلتیں ہیں۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ حضور ان میں سے کوئی مجھ میں بھی ہے۔ فرمایا: تم میں وہ سب ہیں تمھیں مبارک ہو۔ انھیں ابن عساکرنے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ابوبکر کی محبت اور ان کا شکر میری تمام امت پر واجب ہے۔ (2)
    بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ابوبکر ہمارے سیّد وسردار ہیں۔(3)
     طبرانی نے اوسط میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، آپ نے فرمایا :بعد رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے بہتر ابوبکر و عمر ہیں، میری محبت اور ابوبکر و عمر کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہ ہوگا۔(4)


1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،الحدیث:۳۶۹۰،ج۵،ص۳۷۸
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث الواردۃ فی 
فضلہ...الخ،ص۴۴
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب بلال بن رباح...الخ، 
الحدیث:۳۷۵۴،ج۲،ص۵۴۷
4۔۔۔۔۔۔المعجم الاوسط للطبرانی،الحدیث:۳۹۲۰،ج۳،ص۷۹ملخصاً
خلافت
    بکثرت آیات واحادیث آپ کی خلافت کی طرف مشیر ہیں۔ ترمذی وحاکم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
جولوگ میرے بعد ہیں، ابوبکر و عمر، ان کا اتباع کرو۔(1)
     ابن عسا کرنے ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ ایک عورت حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ کچھ دریافت کرتی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا :پھر آئے گی۔ عرض کی: اگر میں پھرحاضر ہوں اور حضورکو نہ پاؤ ں یعنی اس وقت حضورپردہ فرما چکیں۔ اس پر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو آئے او ر مجھے نہ پائے تو ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوجانا کیونکہ میرے بعد وہی میرے خلیفہ ہیں۔ (2)
    بخاری ومسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام مریض ہوئے اور مرض نے غلبہ کیا تو فرمایا کہ ابوبکر کو حکم کروکہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وہ نرم دل آدمی ہیں آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھاسکیں گے۔ فرمایا:حکم دو ابوبکر کو کہ نماز پڑھائیں۔حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پھر وہی عذر پیش کیا۔ حضور نے پھر یہی حکم بتاکید فرمایا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک میں نماز پڑھائی۔ یہ حدیث متواتر ہے۔حضرت عائشہ و ابن مسعود و ابن عباس وابن عُمر و عبداللہ بن زمعہ وابو سعید وعلی بن ابی طالب و حفصہ وغیرہم سے مروی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس پربہت واضح دلالت ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مطلقاً تمام صحابہ سے افضل اور خلافت و امامت کے لئے سب سے احق واولیٰ ہیں۔(1)
    اشعری کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت کاحکم دیاجب کہ انصار ومہاجرین حاضر تھے ۔اور حدیث میں ہے کہ قوم کی امامت وہ کرے جو سب میں اَقْرَء ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ میں سب سے اقرء اور قرآن کریم کے سب سے بڑے عالم تھے۔ اسی لئے صحابہ کرام نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اَحَقْ بِالْخِلَافَہ ہونے کااستدلال کیاہے۔ ان استدلال کرنے والوں میں سے حضرت عمر اور حضرت علی بھی ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ ایک جماعت علماء نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت آیات قرآنیہ سے مُسْتَنْبَطْ کی ہے۔(2)
 وَقَدْ ذَکَرَھَا الشَّیْخُ جَلاَلُ الدِّیْن اَلسُّیُوْطِیُّ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فِیْ تَارِیْخِہٖ۔
    علاوہ بریں اس خلافتِ راشدہ پر جمیع صحابہ اور تمام امت کا اجماع ہے۔ لہٰذا اس خلافت کا منکر شرع کا مخالف اور گمراہ بددین ہے۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ خلافت مسلمانوں کے لئے ظِلِّ رحمت ثابت ہوا اور دین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جو خطرات عظیمہ اور ہولناک اندیشے پیش آگئے تھے وہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے صائب، تدبیر صحیح اور کامل دینداری و زبردست اتباع سنت کی برکت سے دفع

1۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم،احادیث فضائل الشیخین، 
الحدیث:۴۵۱۱،ج۴،ص۲۳
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث والآیات 
المشیرۃ الی خلافتہ...الخ،ص۴۷
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب اہل العلم والفضل...الخ، الحدیث:۶۷۸، 
ج۱،ص۲۴۲و تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث 
والآیات المشیرۃ الی خلافتہ...الخ، ص۴۷،۴۸ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث والآیات 
المشیرۃ الی خلافتہ...الخ،ص۴۸-۴۹
 ہوئے اور اسلام کو وہ استحکام حاصل ہوا کہ کفار و منافقین لرزنے لگے اور ضعیف الایمان لوگ پختہ مومن بن گئے آپ کی خلافت راشدہ کا عہدا گر چہ بہت تھوڑا اور زمانہ نہایت قلیل ہے لیکن اس سے اسلام کو ایسی عظیم الشان تائیدیں اور قوتیں حاصل ہوئیں کہ کسی زبردست حکومت کے طویل زمانہ کو اس سے کچھ نسبت نہیں ہوسکتی۔
    آپ کے عہد مبارک کے چند اہم واقعات یہ ہیں کہ آ پ نے جیشِ اسامہ کی تَنْفِیْذکی جس کو حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے عہد مبارک کے آخر میں شام کی طرف روانہ فرمایاتھا۔ ابھی یہ لشکر تھوڑی ہی دو ر پہنچا تھا اور مدینہ طیبہ کے قریب مقامِ ذی خُشُب ہی میں تھا کہ حضور اقدس علیہ الصلوٰ ۃ و السلام نے اس عالم سے پردہ فرمایا ۔یہ خبر سن کر اطرافِ مدینہ کے عرب اسلام سے پھر گئے اور مرتد ہوگئے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مجتمع ہو کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر زوردیا کہ آپ اس لشکر کو واپس بلالیں۔ اس وقت اس لشکر کاروانہ کرنا کسی طرح مَصْلَحَتْ نہیں،مدینہ کے گِرْد تو عرب کے طوائف کثیرہ مرتد ہوگئے اور لشکر شام کو بھیج دیا جائے۔ اسلام کے لئے یہ نازک ترین وقت تھا، حضور اقد س علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے کفار کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ان کی مردہ ہمتوں میں جان پڑگئی تھی، منافقین سمجھتے تھے کہ اب کھیل کھیلنے کا وقت آگیا۔ ضعیفُ الایمان دین سے پھر گئے۔ مسلمان ایک ایسے صدمے میں شکستہ دل اور بے تاب وتواں ہور ہے ہیں جس کا مثل دنیا کی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا۔ان کے دل گھائل ہیں اور آنکھوں سے اشک جاری ہیں، کھانا پینا برا معلوم ہوتا ہےزندگی ایک ناگوار مصیبت نظرا ۤتی ہے۔ اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین کو نظم قائم کرنا، دین کا سنبھالنا ، مسلمانوں کی حفاظت کرنا، ارتداد کے سیلاب کو روکنا کس قدر دشوار تھا۔ باوجود اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روانہ کئے ہوئے لشکر کو واپس کرنا اور مرضئ مبارکہ کے خلاف جرأت کرنا صدیق سراپا صدق کا رابطہ نیا ز مندی گوارانہ کرتاتھا اور اس کو وہ ہر مشکل سے سخت ترسمجھتے تھے۔اس پر صحابہ کا اصرار کہ لشکر واپس بلالیاجائے اور خود حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لوٹ آنا اورحضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کرنا کہ قبائل عر ب آمادۂ جنگ اور درپے تخریب ِاسلام ہیں اور کار آزمابہادر میرے لشکر میں ہیں انھیں اس وقت روم پر بھیجنا اور ملک کوایسے دلاور مردانِ جنگ سے خالی کرلینا کسی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا۔یہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اور مشکلات تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اعتراف کیا ہے کہ اس وقت اگرحضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ دوسرا ہوتا تو ہرگز مستقل نہ رہتا اور مصائب وافکار کا یہ ہجوم اور اپنی جماعت کی پریشان حالت مبہوت کر ڈالتی مگر اللہ اکبر حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پائے ثبات کوذَرَّہْ بھر لغزش نہ ہوئی اور ان کے استقلال میں ایک شمّہ فرق نہ آ یا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر پرند میری بوٹیاں نوچ کھائیں تومجھے یہ گوارا ہے مگر حضور انور سیّدعالَم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مرضئ مبارک میں اپنی رائے کودخل دینا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روانہ کئے ہوئے لشکر کو واپس کرنا ہرگز گوارا نہیں۔یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ایسی حالت میں آپ نے لشکر روانہ فرمادیا۔
اس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیرت انگیز شجاعت و لیاقت اور کمالِ دلیری و جوانمردی کے علاوہ ان کے توَكّلِ صادق کا پتہ چلتا ہے اور دشمن بھی انصافاً یہ کہنے پر مجبور ہوتاہے کہ قدرت نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعدخلافت و جانشینی کی اعلیٰ قابلیت و اہلیت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمائی تھی۔اب یہ لشکر روانہ ہوا اور جو قبائل مرتد ہونے کے لیے تیار تھے اور یہ سمجھ چکے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے بعد اسلام کا شیرازہ ضرور درہم برہم ہوجائے گا اور اس کی سَطْوَت وشوکت باقی نہ رہے گی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ لشکر اسلام رومیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوگیا اسی وقت ان کے خیالی منصوبے غلط ہوگئے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ سید عالم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے عہد مبارک میں اسلام کے لیے ایسا زبردست نظم فرمادیا ہے جس سے مسلمانوں کا شِیْرَازَہ درہم برہم نہیں ہوسکتا اور وہ ایسے غم و اَنْدُ وْہ کے وقت میں بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے سامنے اقوام عالم کو سَرْنِگُوْں کرنے کے لیے ایک مشہور و زبردست قوم پر فوج کَشی کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ اسلام مٹ جائے گا اور اس میں کوئی قوت باقی نہ رہے گی بلکہ ابھی صبر کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ یہ لشکر کس شان سے واپس ہوتاہے۔ فضلِ الٰہی سے یہ لشکرِ ظفر پیکر فتحیاب ہوا، رومیوں کو ہزیمت ہوئی۔
    جب یہ فاتح لشکر واپس آیا وہ تمام قبائل جو مرتد ہونے کا ارادہ کرچکے تھے اس ناپاک قصد سے باز آئے اور اسلام پر صدق کے ساتھ قائم ہوئے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صائب الرائے صحابہ علیہم الرضوان جو اس لشکر کی روانگی کے وقت نہایت شدت سے اختلاف فرمارہے تھے اپنی فکر کی خطا اور صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے مبارک کے صائب اور ان کے علم کی وسعت کے معترِف ہوئے۔(1)
    اسی خلافت مبارکہ کا ایک اہم واقعہ مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ عَزْمِ قِتال ہے جس کا مختصر حال یہ ہے جب حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر مدینہ طیبہ کے حوالی و ا طراف میں مشہو ر ہوئی تو عرب کے بہت گروہ مرتد ہوگئے اور انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے قتال کرنے کے لئے اٹھے، امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے وقت کی نزاکت ،اسلام کی نو عمری ،دشمنوں کی قوت، مسلمانوں کی پریشانی،پَراگَنْدَہ خاطِری کا لحاظ فرماکر مشورہ دیا کہ اس وقت جنگ کے لئے ہتھیار نہ اٹھائے جائیں مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ارادہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا! جو لوگ زمانہ اقدس میں ایک تسمہ کی قدر بھی ادا کرتے تھے اگر آج انکار کریں گے تو میں ضرور ان سے قتال کروں گا۔ آخر کار آپ قتال کے لئے اٹھے اور مہاجرین و انصار کو ساتھ لیا اور اعراب اپنی ذریتوں کولے کر بھاگے۔ پھر آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر لشکر بنایا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح دی اور صحابہ نے خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحتِ تدبیر اور اِصابتِ رائے کا اعتراف کیااور کہا :خداکی قسم! اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ کھول دیا جو انہوں نے کیا حق تھا۔(1)     اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اگر اس وقت کمزوری دکھائی جاتی تو ہر قوم اور ہر قبیلہ کو احکامِ اسلام کی بے حرمتی اور ان کی مُخالَفَت کی جرأٔت ہوتی اور دینِ حق کا نظم باقی نہ رہتا۔ یہاں سے مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے کہ ہر حالت میں حق کی حمایت اور ناحق کی مخالفت ضروری ہے اور جو قوم ناحق کی مخالفت میں سستی کرے گی جلد تباہ ہوجائے گی۔ آج کل کے سادہ لوح فرقِ باطلہ کے رد کرنے کو بھی منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس   

1۔۔۔۔۔۔الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،القسم الثانی،الباب الاول فی مناقب خلیفۃ رسول اﷲ ابی بکر الصدیق...الخ، الفصل التاسع فی خصائصہ، ذکر شدۃ باسہ وثبات قلبہ...الخ،ج۱، الجزء۱،ص۱۴۸،۱۴۹ملخصاً۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی ما وقع فی خلافتہ، ۔۔۔۔ص۵۶۔۵۷ملخصاً
وقت آپس کی جنگ موقوف کرو۔ انھیں حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طریق عمل سے سبق لینا چاہیے کہ آ پ نے ایسے نازک وقت میں بھی باطل کی سرشِکَنی میں توقف نہ فرمایا۔ جو فرقے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ان سے غفلت کرنا یقیناً اسلام کی نقصان رسانی ہے۔ 
    پھر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکر لے کریمامہ کی طرف مسیلمہ کذاب کے قتال کے لئے روانہ ہوئے۔ دونوں طرف سے لشکر مقابل ہوئے ، چند روزجنگ رہی۔ آخِرُ الا َمْر مسیلمہ کذاب ، وحشی (قاتل حضرت امیر حمزہ) کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مسیلمہ کی عمر قتل کے وقت ڈیڑھ سو برس کی تھی۔ 12ھ ؁ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علا ابن حضرمی کو بحرین کی طرف روانہ کیا۔ وہاں کے لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ جُواثيٰ میں ان سے مقابلہ ہوا اور بکرمہ تعالیٰ مسلمان فتح یاب ہوئے۔ عمان میں بھی لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ وہاں عکرمہ ابن ابی جہل کو روانہ فرمایا۔ نجیر کے مرتد ین پر مہاجربن ابی امیہ کو بھیجا۔ مرتدین کی ایک اور جماعت پر زیاد بن لبید انصاری کو روانہ کیا اسی سال مرتدین کے قتال سے فارغ ہوکر حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرزمین بصرہ کی طرف روانہ کیا۔ ا ۤپ نے اہل ابلہ پر جہاد کیا اور ابلہ فتح ہوا اور کسریٰ کے شہر جو عراق میں تھے فتح ہوئے۔ اس کے بعد آ پ نے عمر وبن عاص اور اسلامی لشکروں کو شام کی طرف بھیجا اور جمادی الاولیٰ13ھ؁میں واقعہ اجنادین پیش آیا او ر بفضلہٖ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اسی سال واقعہ مرج الصفرہوا اور مشرکین کو ہزیمت ہوئی۔(1)   حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے تھوڑ ے سے زمانہ میں شب و روز کی پیہم سعی سے بدخواہان اسلام کے حو صلے پست کردئیے اور ارتداد کاسیلاب روک دیا۔ کفار کے قلوب میں اسلام کا وقار راسخ ہوگیا اور مسلمانوں کی شوکت و اقبال کے پھریرے عرب و عجم بحروبر میں اڑنے لگے۔
    آپ قرآن کریم کے پہلے جامع ہیں اور آپ کے عہد مبارک کا زرین کارنامہ ہے کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جہادوں میں وہ صحابہ کرام جو حافظِ قرآن تھے شہید ہونے لگے تو آپ کو اندیشہ ہوا کہ اگر تھوڑے زمانہ بعد حفاظ باقی نہ رہے تو قرآن پاک مسلمانوں کو کہا ں سے میسر آئے گا۔ یہ خیال فرماکر آپ نے صحابہ کوجمعِ قرآن کا حکم دیا اور مصاحف مرتب ہوئے۔




1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی ما وقع فی خلافتہ، 
ص۵۸ ملخصاً




حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات
    آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا اصلی سبب حضور انور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہے جس کا صدمہ دمِ آخر تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلب مبارک سے کم نہ ہوا اور اس روزسے برابر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم شریف گھلتا اور دبلا ہوتا گیا ۔
    7 جمادی الاخر ی 13 ھ؁ روز دو شنبہ کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غسل فرما یا ، دن سرد تھا ، بخار آگیا۔ صحابہ عیادت کے لئے آئے۔ عرض کرنے لگے: اے خلیفۂ رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ورضی اللہ تعالی عنہ اجازت ہوتو ہم طبیب کو بلائیں جو آپ کو دیکھے۔ فرمایا کہ طبیب نے تو مجھے دیکھ لیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ پھر طبیب نے کیا کہا؟ فرمایا کہ اس نے فرمایا: اِنِّیْ فَعَّالٌ لِّمَا اُرِیْدُ۔ یعنی میں جو چاہتا ہو ں کرتاہوں۔ مراد یہ تھی کہ حکیم اللہ تعالیٰ ہے اس کی مرضی کو کوئی ٹال نہیں سکتا، جو مشیت ہے ضرور ہوگا۔یہ
حضرت کاتوکلِ صادق تھا اور رضائے حق پر راضی تھے۔
     اسی بیماری میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبدالرحمن عوف اور حضرت علی مرتضی اور حضرت عثمان غنی وغیر ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بعد خلافت کے لئے نامزد فرمایااور پندرہ روز کی علالت کے بعد 22 جمادی الاخری 13 ھ؁ شب ِسہ شنبہ کو تریسٹھ سال کی عمر میں اس دارِنا پائیدار سے رحلت فرمائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
    حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ کی نماز پڑھائی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی وصیت کے مطابق پہلوئے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں مدفون ہوئے۔ 
    آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو سال اور سات ماہ کے قریب خلافت کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات سے مدینہ طیبہ میں ایک شور برپا ہوگیا۔ آپ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کی عمر اس وقت ستانوے برس کی تھی۔ دریافت کیا کہ یہ کیسا غوغا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ کے فرزند رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رحلت فرمائی۔ کہا بڑی مصیبت ہے ان کے بعد کارِ خلافت کو ن انجام دے گا؟ کہا گیا: حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ آپ کی وفات سے چھ ماہ بعد آپ کے والد ابو قحافہ نے بھی رِحْلَت فرمائی۔(1)
    کیا خوش نصیب ہیں خود صحابی، والد صحابی ، بیٹے صحابی ، پوتے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہم و رضواعنہ۔




1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی مرضہ ووفاتہ...الخ، 
ص۶۲۔۶۶ملتقطاً





02 مارچ, 2019

کس کا کہا مانیں؟

کس کا کہا مانیں؟ 
چار تعلق ایسے ہیں جن کا حکم ماننے کا پابند اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، ممکن ہے کوئی اور بھی ہو لیکن اس وقت میرے ذہن میں یہ چار ہیں۔
پہلا : اللہ تعالی
اللہ تعالی کا ہر حال میں حکم ماننا ہر صاحب ایمان پر ضروری ہے ۔
دوسرا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے جو دیں وہ لے لیں، جس سے روکیں اس سے رک جائیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآ ؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃُ ُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَآ أَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِی سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (التوبۃ:) 
’’آپ کہہ دیجئیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے ا ور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو،اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیزہیں ،تو اللہ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو۔اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا۔‘‘
تیسرا: والدین
سورہ لقمان میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴿۱۴﴾وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا.. 
میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔میری ہی طرف لوٹنا ہے۔
اور اگر وہ دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دے-
چوتھا: استاد 
استاد کو اسلام نے روحانی باپ کا درجہ دیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن ماجہ۔229)
یہ اعزاز کیا کم ہے کہ پہلا معلم خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے جس نے آدم علیہ سلام کو تمام اسمائے گرامی سکھا دئیے،
جس نے رسول اللہ سے فرمایا۔
پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا"۔(العلق ۔6) 
حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔
یہ چار تعلق تھے جو دین اسلام نے ہمیں سکھائے اور انکے حکم ماننے کا بھی پابند فرمایا۔
ایک پانچواں تعلق ہمارے بزرگان دین نے ہمیں سکھایا جس کو آج کی زبان میں ہم پیرومرشد کہتے ہیں۔
میرا ماننا یہ ہے کہ اگر ہم چار ہستیوں کی فرمابرداری کر لیں تو شاید پانچویں کی ضرورت پیش نہ آئے۔
لیکن اگر ماننا ہی ہے تو پھر اس کی بھی حدود اور شرائط ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے. 
آخری بات کو سمجھنے سے پہلے ایک بار کھلے لفظوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پیر کا بیٹا پیر نہیں ہوتا جب تک وہ شریعت مطہرہ کے تمام تقاضے پورے نہ کر رہا ہو۔
اب پانچواں تعلق پڑھیے
پانچواں : پیر و مرشد 
بیعت کے معنی : بیعت کے معنی بیچنے کے ہیں ۔درحقیقت مرید اپنی مرضی کو مرشد کامل کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اسی وجہ سے اس عمل کو بیعت کہتے ہیں ۔
اب ظاہر ہے کہ بیچنے کی کچھ شرائط ہیں، 
بیعت کرنے والا (بکنے والا) خریدار (پیر) سے چار شرائط پر سودا طے کرتا ھے وہ شرائط اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے بیان فرمائی ہیں ۔
(1) سُنی صحیح العقیدہ ہو۔
(2) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔
(3) فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو
(4) اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ )
بیعت کرنی بھی چاہیے اس لئے کہ حدیبیہ کے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت لی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اپنے ہی ہاتھ کو بیعت کے لئے عثمان کا ہاتھ قرار دیا ۔
اللہ نے اس کا تذکرہ اپنی رضا کے اعلان کے ساتھ قرآن میں فرمایا۔
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ اور بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے، 
کہ جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے۔
اس بات کو اس حدیث مبارکہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دل ایک ایسے پر کی مثل ہے جسے ہوا الٹتی پلٹتی رہتی ہے ۔(مشکوٰۃ) 
تو ہم سمجھتے ہیں کہ پیر و مرشد اس ہوا کو روکنے والی دیوار ہے کہ جو بندے کے دل کو الٹ پلٹ کرتی ہے ۔
تو دوستو : اپنا ہاتھ اس مرشد کامل کے ہاتھ میں دیجئے جو آپ کے لئے دیوار کا کام کر سکے۔
آخری جملہ 
آج کل بہت مسندوں پر گدی نشین نہیں بلکہ
: گندی مشین: ہیں ۔
ولایت کا تعلق صاحبزادہ ہونے سے نہیں صاحب کردار ہونے سے ہے، اور صاحب کردار وہ ہے جس نے تقوی کو اختیار کیا۔
اگر کوئی سیاستدان اپنے بڑوں کے کردار کے قصیدے پڑھے تو سمجھیے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
اور اگر کسی جگہ پر کوئی گدی نشین اپنے بڑوں کی کرامتیں بیان کرے تو سمجھیے اپنے عمل سے اس نے بھی کچھ نہیں کیا ۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

جادو، معجزہ اور کرامت

جادو، معجزہ اور کرامت
اولیاء اللہ کی نسبت سے ربیع الثانی میں کرامات پر ایک تحریر۔
جادو ،معجزہ اور کرامت کو سمجھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشین رکھیئے۔
کرامت اللہ کے ولی کی پہچان کی ختمی شکل نہیں
اگر اللہ کے ولی کی پہچان کا معیار کرامت کو ہی بنا لیا جائے، کرامت کو ہی معیار ولایت سمجھنے والے، یا کرامت کے دھوکے میں شعبدہ بازی دکھانے والے کو ولی اللہ سمجھنے لگیں۔
اگر ایسے لوگ سامری جادوگر کے زمانے میں ہوتے تو اس کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کردیتے یا سامری کو بڑا پہنچا ہوا سمجھنا شروع کردیتے۔
فرعون کے جادوگروں کو تو بڑا ولی اللہ سمجھ بیٹھتے کہ رسیوں کے سانپ بنا دیئے ۔
ذرا غور کیجیے! 
کل ان لوگوں کا کیا حال ہوگا ۔
کہ جب دجال آئے گا اور اپنے دائیں اور بائیں جنت و دوزخ لیے ہوئے ہو گا، جس کو چاہے گا نفع پہنچائے گا جس کو چاہے گا نقصان پہنچائے گا، مردے زندہ کردے گا۔
تو نعوذ باللہ کیا ہم اس کو اللہ کا ولی سمجھ لیں گے؟ 
تو دوستو اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم معیار ولایت سمجھیں۔
لیکن یہ مت سمجھئے کہ آج کرامت نہیں ہو سکتی اللہ کے ولی قیامت تک آتے رہیں گے اور کرامت کا ظہور بھی ہوتا رہے گا کیونکہ اللہ کے ولیوں کی کرامت کا تذکرہ قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔
آصف بن برخیا: یعنی تخت بلقیس کو لے کر آنے والے کی کرامت۔
حضرت مریم علیہ السلام کی کرامتیں، اصحاب کہف، وغیرہ 
لیکن اللہ کے ولی کی پہچان صرف کرامت سے نہیں بلکہ
اللہ کے ولی کی پہچان تین بنیادی چیزوں پر ہے. 
نمبر 1
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے
ان اولیآؤہ الّاالمتّقون
بے شک متقی (ولی اللہ) وہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں. 
نمبر 2
اللہ کی طرف بلانے والا ہو، اورخود ایسا ہو کہ اسے دیکھ کر خدا یاد آ جائے. 
نمبر 3
رزق حلال ہی اس کا ذریعہ ہو بلکہ شبہ والی چیزوں سے بھی اپنے آپ کو بچا کر رکھنے والا ہوں۔
اللہ کے ولی کا اللہ تعالی سے ڈر اور خوف دنیا والوں کی طرح نہیں ہے کہ جس سے وحشت پیدا ہوتی ہے، 
بلکہ اللہ کا ولی اللہ کی معرفت حاصل کرلیتا ہے اللہ کو پا لیتا ہے تو اس کا ڈر محبوب والا ڈر بن جاتا ہے
محبوب والاڈر کیا ہوتا ہے؟ 
کہ محبوب کی رضا ، چاہت اور قرب کے لئے کام کرتا ہے نہ کے محبوب کے خوف کی وجہ سے ۔
اب آتے ہیں کہ ان تینوں چیزوں کی تھوڑی سی پہچان ہو جائے
بظاہر ایک جیسے نظر آنے والے یہ تین کام جادو، معجزہ اور کرامت ۔
1) جادو، اللہ کی طرف سے حرام کر دیا گیا۔
2) معجزہ، اب ہو نہیں سکتا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
3) کرامت، اولیاء اللہ کی کرامتوں کا ظہور ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔
جادو، معجزہ اور کرامت کی تعریف۔
جادو
جادو، دین میں ہلاکت لانے والے کئی امور کا مجموعہ ہے۔مثلا جنّوں اور شیاطین سے مدد طلب کرنا، غیر اللہ کا دل میں خوف، شیطان جادو گر کو بھڑکاتا ہے کہ جادوگر اللہ کے بندوں کو اذیت و تکلیف پہنچائے، اس کی ایک دو مثال قرآن کریم سے عرض کردیتا ہوں
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے :
فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ
وہ ان سے وہ ( جادو ) سیکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ میاں بیوی کے مابین تفریق و علیحدگی پیدا کر دیتے ہیں۔
اور دوسری جگہ پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ
وہ ایسی چیز ( جادو ) سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان ہی پہنچاتا ہے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
معجزہ 
معجزہ مِن جانبِ اللہ ہوتا ہے، معجزہ کا صدُور اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول کے ذرِیعہ ہوتا ہے، معجزہ قوانینِ فطرت کے خلاف نظر آتا ہے، اور عالمِ اَسباب کے برعکس ہوتا ہے، معجزہ نبی اور رسول کا ذاتی نہیں بلکہ عطائی فعل ہوتا ہے، معجزے کے سامنےعقلِ اِنسانی ماند پڑ جاتی ہے ۔
اب کسی سے معجزہ کا ظہور نہیں ہوگا اس لیے کہ اللہ تعالی نے نبوت کا دروازہ خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بند کر دیا ہے۔
اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے آج کل ہمارے بعض جہلاء میں معجزہ کے نام پر کچھ کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں جو کہ سراسر تعلیمات اسلامی کے خلاف ہیں۔
کرامت
کرامات دو قسم کی ہیں۔ (۱) حسی۔ (۲) معنوی۔
عام مسلمان تو صرف حسی کرامت کو ہی کرامت سمجھتے ہیں، مثلاً کسی کے دل کی بات بتا دینا، پانی پر چلنا، فوراً دعا کا قبول ہو جانا وغیرہ۔ جس طرح حضرت خضر علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں موجود ہے۔
اور کچھ اس میں جعلی کرامتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں، 
مثلاً ! بنانا کا چھلکا اتارے بغیر اندر سے کٹا ہوا ہونا، حالانکہ وہ کپڑے سینے والی سوئی اس کیلے کے درمیان میں داخل کرکے گھماتے ہیں اور اس کو کاٹ دیتے ہیں،
انڈے میں سے سوئیاں نکالنا، حالانکہ انڈے کو سرکے میں بھگو دیتے ہیں اور اس کا چھلکا نرم ہوجاتا ہے اور اس میں سوئیاں داخل کر دیتے ہیں۔
اس طرح کے بے شمار شعبدوں کو لوگ کرامت تصور کرلیتے ہیں ۔
مگر میری گفتگو کا لبِ لباب یہ ہے کہ 
کرامت معنوی جو خواص اہل اللہ کے یہاں معتبر ہے وہ یہ ہے۔
کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو شریعت مطہرہ کی پابندی نصیب کرے،
نیک اخلاق کا مالک ہو،
فرائض، واجبات اور سنتوں پر عمل کرے، 
برے اخلاق مثلاً دھوکہ دہی، حسد، کینہ اور ہر بری خصلت سے دل پاک و صاف رکھے۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
خرق عادت(خلاف عادت کسی بات کا ظاہر ہونا) نہ تو ولایت کے لئے شرط ہے، نہ رکن۔
تاہم اولیاء اللہ سے کرامات کا ظاہر ہونا مشہور و معروف ہے، لیکن کثرت کرامت کا ظاہر ہونا کسی کے افضل ہونے کی دلیل نہیں، افضلیت کا مدار اللہ تعالیٰ کے حضور قرب درجات پر ہے۔

تحریر:۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

نسب یا تقویٰ

نسب یا تقویٰ
آجکل سادات کرام اور ان کی حمایت یا مخالفت میں ہونے والی پوسٹوں کے تناظر میں اہم تحریر....... مکمل پڑھیں 
(1)نسبت اول ایمان و تقویٰ 
قالﷲ تعالی: انما المومنون اخوۃ۔
ﷲتعالی نے فرمایا بیشک تمام مومن بھائی بہن ہیں۔
معلوم ہوا ایک نسبتِ ایمان بھی ہے۔
قرآن میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا
شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ
تمہیں شاخیں اور قبیلے بنایا کہ آپس میں پہچان رکھو۔
بندہ عرض کرتا ہے اے اللہ : پھر عزت کا معیار کیا ہے؟ 
جواب آتا ہے
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ 
بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔
کہیں ہم پڑھتے ہیں کہ اہل بیت رسول، آل رسول افضل ہیں، اور کہیں قرآن میں 
ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم
بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو سب سے بڑا پرہیزگارہے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے افضل کون ہیں، اہل بیت رسول یا تقوی والے۔
میرے نزدیک یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی پوچھنے والا پوچھےکہ کھانوں میں سب سے مزیدارکھانا کون سا ہے ؟
تو ایک کہے کہ نمکین سب سے زیادہ مزیدارہے، 
تو دوسرا شخص اُس کا رد کرنے کی لئے یہ کہے: نہیں بلکہ سب سے زیادہ مزیدار میٹھی چیزہے۔
جس طرح نمکین اور میٹھا کا مزے دار ہونا موقع کی مناسبت سے ہے اسی طرح اہل تقوی اور اہلبیت رسول ان دونوں کے بھی اپنے اپنے مقام ہیں۔
سادات کرام اگر بخشے جائیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔
لیکن متقی بھی نسبت رسول سے ہی بخشے جائیں گے،مگر وہ قرآن و سنت کے مطابق بخشوائیں گے بھی، اور اگر سید بھی ہو اور عالم و متقی بھی تو سونے پہ سہاگا ہے۔
(2)نسبت دوم آل رسول و سادات کرام
قرآن کریم کی یہ آیات مبارکہ دو مفہوم بیان کرتی ہے ایک یہ کہ اہل تقوی کا فائدہ ان کی اولادوں کو پہنچتا ہے۔
اور یہ کہ سادات کرام کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کا نفع پہنچے گا۔
قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے ۔
وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ 
وہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یا علی ان اول اربعۃ یدخلون الجنۃ انا وانت والحسن والحسین وذرار ینا خلف ظھورنا۔
اے علی! سب میں پہلے وہ چار کہ جنت میں داخل ہوں گے میں ہوں اور تم، حسن اور حسین، اور ہماری ذریتیں۔ ہمارے پس پشت ہوں گی۔ (طبرانی) 
دوسری حدیث 
اول من یرد علی الحوض اھل بیتی ومن احبنی من امتی۔
سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر آنیوالے میرے اہل بیت ہیں اور میری امت سے میرے چاہنے والے۔ 
تیسری حدیث 
اللھم انھم عترۃ رسولک فھب مسیئھم لمحسنھم وھبہم لی۔
الہی! وہ تیرے رسول کی آل ہیں، تو ان کے بدکار ان کے نیکوکاروں کو دے ڈال اور ان سب کو مجھے ہبہ فرمادے۔
پھر فرمایا:ﷲ تعالی نے ایسا ہی کیا۔ 
اس روایت سے ایک بات تو واضح ہے کہ آل رسول کی بخشش کا مدار رسول اللہ کی سفارش پر ہے اسی طرح جس طرح اس امت کے گناہ گاروں کا مدار رسول اللہ کی شفاعت پر ہے۔
ایک روایت میں ہے 
بے شک اللہ عزوجل کی تین حرمتیں ہیں۔ جو ان کی حفاظت کرے اللہ تعالی اس کے دین ودنیا محفوظ رکھے، اور جو ان کی حفاظت نہ کرے اللہ اس کے دین کی حفاظت فرمائے نہ دنیا کی، ایک اسلام کی حرمت، دوسری میری حرمت، تیسری میری قرابت کی حرمت، 
معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کی عزت لازم ہے ان کی اتباع نہیں۔
کسی کی پیروی علم اور تقویٰ کی بنیاد پر ہوگی۔
(3) نسبت سوم علم اور علماء 
(1)…علماء زمین کے چراغ اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے وارث ہیں ۔
(2)…ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔
(3)…علم کی مجالس جنت کے باغات ہیں ۔
(4)…علم کی طلب میں کسی راستے پر چلنے والے کے لئے اللہ تعالی جنت کا راستہ اسان کر دیتا ہے۔
(5)…قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کا وزن کیا جائے گا تو ان کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آجائے گی۔
(6)…عالم کے لئے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے حتی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں ۔
(7)…علماء کی تعظیم کرو کیونکہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے وارث ہیں ۔
(8)…اہل جنت ،جنت میں بھی علماء کے محتاج ہوں گے۔
(9)…علماء آسمان میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے۔
(10)…قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد علماء شفاعت کریں گے۔
ان تمام روایات کو ان کتابوں سے منتخب کیا گیا ہے
کنزالعمال،مسند الفردوس، مسلم شریف، ترمذی شریف،معجم الکبیر، ابن عساکر، 
(4) نسبت چہارم غلام یا نو مسلم
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: 
مولی القوم انفسھم 
کسی قوم کا آزاد کردہ غلام ان میں سے ہے۔(صحیح بخاری) 
نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
من اسلم من اھل فارس فھو قرشی 
اہل فارس سے جو اسلام لائے وہ قرشی ہے ۔ (کنز العمال)
ہماری دعا بھی یہی ہے کہ
جعلنا اللہ تعالی فی الدنیا و الاخرۃ من موالیھم فان مولی القوم منہم ۔
اللہ تعالی ہمیں دنیا و آخرت میں ان کے غلاموں میں رکھے کیونکہ کسی قوم کا آزاد کردہ غلام اسی قوم سے شمار ہوتا ہے ۔
(5) نسبت پنجم منقطع نسب 
حضرت سیدنا نوح علیہ السلام سے منقطع نسب 
وقال تعالی :
قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَھلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۔
اے پیارے نوح علیہ السلام یہ آپ کی اہل میں سے نہیں بیشک اس کے کام بڑے نالائق( غیر صالح) ہیں
قرآن میں ہے
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ ۔ 
تو جب صور پھونکا جائے گا تو نہ ان میں رشتے رہیں گے نہ کوئی ایک دوسرے کی بات پوچھے ۔
اور ہمارے علمائے کرام نے یزید کو بھی نسب کا فائدہ نہیں دیا
تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ آج کے سیدوں کو ان کی نسبتوں کی وجہ سے ہم قابل اطاعت سمجھیں۔
جبکہ عمل کی کوتاہیاں واضح نظر آ رہی ہوں...... 
حدیث مسلم: 
عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالی عنہ من ابطأبہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جو عمل میں پیچھے ہوا اسکا نسب نفع بخش نہ ہوگا۔ 
لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: 
وہ صعقہ اولی (قیامت کی پہلی کڑک) ہے اس میں رشتے کام نہ آئیں گے۔...... 
پوری تحریر کا لب لباب یہ ہے سادات کرام کی عزت و توقیر لازم ہے مگر اتباع لازم نہیں اتباع اس وقت کی جائے گی جب ان میں سے کسی کو قرآن وسنت کا صحیح عالم یا متقی پائیں گے. 
عالم چاہے سادات میں سے ہوں یا کسی بھی قوم و گروہ سے
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں... 
تحریر : ۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

صحبت ِ نیک و بد کے اثرات

صحبت ِ نیک و بد کے اثرات
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبۃ/۱۱۹)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور (یہ بات اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے) سچوں کے ساتھ رہو۔
مطلب یہ ہے کہ اے میرے بندو! تم خواہ گناہوں کی وجہ سے کتنے ہی گندے کیوں نہ ہو جاؤ، مگر جب تم میرے پیاروں کی صحبت میں رہوگے تو ان کی معیت و صحبت سے تم میں بھی سچائی، اچھائی اور پرہیزگاری پیدا ہو جائے گی اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔
اگر اثر چاہتے ہوتواولیا ءاللہ کی صحبت کا تو اخلاص شرط ہے ،لیکن اخلاص ہو، اگر اخلاص نہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آئےگا۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اَلْمَرْءُ عَلی دِینِ خَلِیْلِہٖ (مسند احمد) آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے ، اصل بات یہی ہے ۔ تو دیکھ لینا چاہیے کہ کس سے دوستی کر رہے ہو ، چیک کر لو کہ تمہاری دوستی کا رحجان کدھر، ہے، دل کس سے لگتا ہے ، کون ساتھی تمہارے زیادہ ساتھ ہے؟ اگر تمہارا ساتھی اچھا ہے تو تم اچھے ہو ، اگر وہ برا ہے تو تم بھی برے ۔
اور صحبت تو صحبت رہی نظر کا بھی اثر ہوتا ہے۔
حدیث ِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ نظر کا لگنا برحق ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ الْعَیْنُ حَقٌّ‘‘۔(مسلم )
صاحبو! اگر بری نظر لگ سکتی ہے تو اچھی نظر بھی اپنا اثر دکھاتی ہے، بری نظر سے اگر انسان بیمار ہو سکتا ہے تو اچھی نظر سے دل کا روحانی بیمار تندرست بھی ہو سکتا ہے،
اسی کو کسی کہنے والے نے کہا :۔
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 
جو ہو ذوقِ یقین پیدا، تو کٹ سکتی ہیں زنجیریں 
حدیث ِ قدسی سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین کے پاس بیٹھنے والا بھی سعید بن جاتا ہے، 
چنانچہ ارشاد ہے کہ ھُمُ الْجُلَسَائُ لاَ یَشْقیٰ جَلِیْسُھُمْ (بخاری) صالحین کی صحبت سے شقی(بد بخت،بد نصیب) بھی سعید بن جاتا ہے۔
جیسے حضراتِ صحابہؓ سب کے سب سعید تھے، تو وہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کی برکت تھی۔
حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا {کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ} (التوبۃ/۱۱۹) صالحین کی صحبت اختیار کرو تاکہ صحبت ِ صالحین کی برکت سے تمہیں بھی تقویٰ اور تعلق مع اللہ نصیب ہو جائے۔
اور حدیث پاک میں صحبت(بیٹھک،مجلس) کے بارے میں ارشاد نبویﷺ ہے۔
عَنْ أَبِیْ مُوْسٰیؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ : ’’ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَ السُّوْئِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَ نَافِخِ الْکِیْرِ، فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّا أَنْ یُحْذِیَکَ، وَ إِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ، وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا طَیِّبَۃً، وَ نَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّا أَنْ یُحْرِقَ ثِیَابَکَ، وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا خَبِیْثَۃً۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ/۴۲۶)
ترجمہ : حضرت ابوموسٰی اشعریؓ رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ’’اچھے اور برے ہم نشین (ساتھی) کی مثال ایسی ہے، جیسے مشک رکھنے والا اور بھٹی جلانے والا، مشک رکھنے والا (اگر تمہارا ساتھی ہوگا تو) یا تو تمہیں مشک دے گا، یا تم اس سے مشک خرید لوگے، یا کم از کم اس کی خوشبو سے تمہارا دل و دماغ معطر ہو جائے گا، (بہر صورت اس کی خوشبو سے تمہیں ضرور نفع حاصل ہوگا،بالکل اسی طرح نیک ساتھی کا حال بھی ہے کہ اس کی ہم نشینی اور صحبت سے تمہیں دینی اور اُخروی اعتبار سے بہر صورت نفع ہوگا،اس کے برخلاف) بھٹی جلانے والا (اگر تمہارا ساتھی ہوگا) تو وہ تمہارا کپڑا جلا دے گا، یا کم از کم اس کی دِل آزار بدبو سے تمہیں ضرور ہی واسطہ پڑے گا۔‘‘ 
یہی مثال برے ساتھی کی ہے کہ اس کی صحبت سےتمہیں دینی، دنیوی اور اُخروی اعتبار سے ضرور نقصان ہوگا، ورنہ کم از کم جتنی دیر اس کی صحبت میں رہوگے اتنا وقت ضائع ہوگا۔
نیکوں کی صحبت کی برکت اپنی جگہ،اعلیٰ ہستیوں سے منسوب جگہوں کی بھی برکت ہوتی ہے ، اور بے حساب ہوتی ہے۔
جیسے مسجد حرام ہے ، مسجد حرام میں جو نماز پڑھے ایک لاکھ کا ثواب ہے ، اسی طرح سے مسجد نبوی میں پچاس ہزار ، بیت المقدس میں ہزاروں نمازوں کا ثواب ہے۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ! اس حقیقت کو ایک حکایت کے ذریعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک چیونٹی کے دل میں بیت اللہ جانے کی نیک خواہش پیدا ہوئی، مگر وہ مسکین اتنا طویل فاصلہ کس طرح طے کرتی، بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس کی طلب ِ صادق کے نتیجے میں حرم شریف کے ایک کبوتر کو اس کے پاس مرشد بنا کر بھیج دیا، وہ اس کے قدموں سے چمٹ گئی، کبوتر اسے لے کر اُڑا اورسیدھا منزلِ سعادت پر جا پہنچا۔‘‘
مولا نا فرماتے ہیں : 
مورِ مسکین ہوسے داشت کہ در کعبہ رسد
دست بر پائے کبوتر زد و ناگاہ رسید
اور شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ 
گلے خوشبوے در حمام روزے رسید از دست محبوبے بدستم
دیکھئے گلاب کے پاس رہنے سے مٹی میں خوشبو پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اہل محبت کے پاس رہنے سے خدا کی محبت اور دین کے ساتھ مناسبت حاصل ہو جاتی ہے۔
صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ 
مثلاً ایک طرف100 لیٹر اسّی ڈگری گرم پانی (مثلِ مرشد)اوردوسری طرف20 لیٹر ٹھنڈاپانی(مثلِ مرید) جب ملیں گے تو80 اسّی ڈگری والاگرم پانی، ٹھنڈے پانی کو بھی گرم کر دے گا۔ اسی طرح ایمان کی چنگاری والا(مرُشدِ کامل)مُردہ ایمان والے کو بھی جِلا بخش دے گا۔
ایک کانٹا اللہ کی بارگاہ میں رو کر عرض کر رہا تھاکہ اے مخلوق کے عیب چھپانے والے! میرے عیب کو کو ن چھپائے گا؟ کیوں کہ آپ نے تو مجھے کانٹا پیدا کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی فریاد سن لی اور اس کے اوپر پھول پیدا کر دیے جس کے دامن میں اس کانٹے نے اپنا منہ چھپا لیا اور وہ خار گلزا رہو گیا۔ جو کانٹے پھولوں کے دامن میں ہیں مالی بھی ان کو گلستان سے نہیں نکالتا، مگرجو کانٹے پھولوں کے دامن میں نہیں چھپتے ، ان کو گلستان سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ پس اگر تم خار ہو تو اﷲ والوں کے دامن میں اپنا منہ چھپا لو،تم اﷲ کے قرب کے باغ سے نہیں نکالے جاؤ گے۔
اس کی ایک بہترین مثال اصحابِ کہف کا کُتا بھی ہے، اور نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی ہے ،کتے کو دھتکارا نہیں گیا ،اور پسرِ نوح کو اپنایا نہیں گیا بلکہ اہل بیت نبی سے نکال دیا گیا۔
اچھی اور بُری صحبت کا اثر بھی ضرور ہے ۔ دیکھیے! آپ نے زمین میں ایک بیج ڈال دیا، بیج پڑ گیا، یہ ضروری نہیں کہ فوراً درخت سامنے اُگ آئے، بیج پڑ گیا، اب آہستہ آہستہ کام ہوتا رہے گا ۔
الله والوں کی صحبت کا فائدہ بھی یہ ہوتا ہے کہ بیج بعض دفعہ پڑ جاتا ہے، او ر اگرمرشد کامل ہواور طلب سچی، تو بیج پڑ جائے گا اور کچھ دنوں یابرسوں کے بعد رنگ ضرور بدلے گا۔
چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ’’خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘،
اورآپ نے دیکھا ہوگا کہ لوہا جب آگ کی بھٹی میں رکھا جاتا ہے، تو چند منٹ میں وہ آگ کا اثر قبول کر کے آگ ہی کی مانندسرخ، گرم اور روشن ہو جاتا ہے۔
اسی طرح غور کیجیے کہ ایک بے جان و بے حس انڈے کو مرغی کی چند روزہ رفاقت، صحبت اور معیت میسر آتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک حساس و جاندار چوزہ کے روپ میں خالق کائنات کی بے مثال قدرت و صناعی (کاریگری) کا ایک شاہکار وجود میں آجاتا ہے۔
قرآنِ پاک کا حکم ہے :الرَّحْمٰنُ فَاسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا :۔فرقان/۵۹ :۔ رحمن کی رضا و رحمت کا راستہ کسی باخبر سے پوچھو!!!
اور یہ باخبر لوگ اللہ والے ہی ہیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا: 
والفخر والخیلاء فی اہل الخیل والابل
فخر اور تکبر ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جو گھوڑے اور اونٹ پالتے ہیں ان میں تکبر پایا جاتا ہے۔
والسکینۃ فی اہل الغنم (صحیح بخاری شریف: 3125) 
معلوم ہوا جانوروں کی صحبت کا اثر بھی ہوتا ہے۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ سے پوچھا: 
قَالَ: أُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: أُصَلِّي فِي مَبَارِكِ الْإِبِلِ؟ قَالَ: «لَا»
کیا میں بھیڑ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ۔ جی ہاں
انہوں نے اگلا سوال پوچھا۔
کیا میں اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں "
اس حدیث میں حضور ﷺ نے بھیڑ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہیں اور اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔
شایدوجہ اس کی یہ ہے کہ بکریاں عاجز ہوتی ہیں، اور اونٹ گھوڑے متکبر
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ پیروی کس کی کرے۔ تو جانئے
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ: مَنْ کَانَ مُسْتَنًا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْمَاتَ فَاِنَّ الْحَیَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَۃُ اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ مُحَمَّدِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانُوْا اَفْضَلَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اَبَرَّھَا قُلُوْبًا وَّاَعْمَقَھَا عِلْمًا وَّاَقَلَّھَا تَکَلُّفًا اخْتَارَھُمُ اﷲُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ وَلَا قَامَۃِ دِیْنِہٖ فَاعْرِفُوْالَھُمْ فَضْلُھُمْ وَاتَّبِعُوْ ھُمْ عَلَی اَثَارِھِمْ وَتَمَسَّکُوْا بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ اَخْلَاقِھِمْ وَسِیَرِھِمْ فَاِنَّھُمْ کَانُوْا عَلَی الْھُدٰی الْمُسْتَقِیْم۔ (رواہ رزین)
ترجمہ:اور حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو فوت ہو گے ہیں ( اور جن کی پیروی کرنی چاہئے) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہیں، جو اس امت کے بہترین لوگ تھے، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے منتخب کیا تھا لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو (اس لئے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔" (رزین)
اہل اللہ یا علمائے حق کا کردار کیا ہے، مثلاََ
پہلوانی سیکھنے والااگر تمام داؤ پیچ تو سیکھے،مگر بادام اور دودھ ،خوراک نہیں کھائےپیے گا، تومقابلے کے وقت دُشمن اس کو پٹخ دے گا ،کیونکہ اس کو طاقت کی بھی ضرورت ہےجو خوراک سے حاصل ہو گی۔ لہٰذ ا علم (داؤ پیچ )ہیں اور صحبتِ اہل اللہ(خوراک ) ہےیعنی علم و صحبت دونوں بہت ضروری ہے۔ ورنہ روح میں پوری طاقت نہیں آئے گی اور نفس و شیطان اس کو پٹخ دیں گے یعنی مغلوب ہوکر یہ گناہ کر بیٹھے گا۔
جیسے دنیاوی پہلوانی میں ،،پہلوان اُستاد،، اپنے شاگردوں سے کہتا ہے کہ دیکھو میرے اکھاڑے میں آکر مجھ سے (1)داؤ پیچ سیکھنا(2) اور گھر جاکر بادام اور دودھ پینا(3) لیکن اس کے ساتھ ذرا لنگوٹی مضبوط رکھنا، کوئی بدپرہیزی نہ کرنا۔
اسی طرح اللہ والے بھی یہی فرماتے ہیںاور سکھاتے ہیں، (1)علم (داؤ پیچ )سیکھنا (2)اور صحبتِ اہل اللہ(خوراک ) کھاتے کھاتے پیتے رہنا(3)مگر گناہ زہر ہے زہر، لہٰذا لنگوٹی پاک رکھنایعنی گناہ کو اختیار نہ کرنا۔
ایک ڈاکٹر کو ہی دیکھ لیجئے!
ڈاکٹر کوہی دیکھ لیجئے 6 سال پڑھا، ڈگری نہیں ملی ، پڑھنے کے اگلے ہی دن اپریشن کرنے کی اجازت نہیں ملی ،اس وقت تک اجازت نہیں جب تک پریکٹیکل نہ کر لے، اور کچھ نہیں توایک سال اس کو ڈاکٹروں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر کی صحبت میں رہو تب جاکر ڈگری ملے گی ،پہلے مریض دیکھو، ڈاکٹر کی سرپرستی میں تمہاری نگرانی کی جائے گی ۔
مگر دین کے معاملے میں ہم دو لفظ پڑھ لیں تو کسی کو بات نہیں کرنے دیتے ،استاد اور پریکٹیکل کی ضرورت نہیں سمجھتے،بھائی اگر چار لفظ پڑھ لئے ہیں تو ان کو کسی پریکٹیکل سینئر سے سمجھ بھی لے تاکہ گمراہ نہ ہو جائے، 
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتے ہیں: صراط الذین انعمت علیھم :۔ رستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا:۔ 
علم کے ساتھ ساتھ اہل اللہ کی صحبت اختیار کر، اور فضل الٰہی سے امید رکھ کرم رکھ
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتے ہیں: وَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَازَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا
ترجمہ:۔ اگر اللہ کی رحمت اور فضل تم پر نہ ہو تو تم کبھی پاک نہیں ہوسکتے۔
علامہ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ علم دین اس سے سیکھو جو دین دار ہو، اس لیے کہ یہ علم دین ہے ، بے دین سے نہ سیکھو
”فانظروا عمن تأخذون دینکم“ سوچ لو دین کس سے لے رہے ہو ؟
کیوں کہ جب اس کی صحبت میں جاؤ گے تو اس کے اثرات پڑیں گے ،وہ دین کی باتیں تو کرتا ہے، لیکن خو داس کے خلاف ہے ۔ یہ قیامت کی علامت میں سے ہے ۔
”اذا وسد الأمر الیٰ غیر أھلہ فانتظر الساعة“ جب نااہلوں کو کام سپرد کردیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر و۔
نا اہل کی کیا علامات ہیں؟
حضرت امام باقررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی ہے کہ پانچ آدمیوں کے ساتھ نہ رہنا، ان سے بات بھی نہ کرنا، حتیٰ کہ راستہ چلتے ہوئے ان کے ساتھ راستہ بھی نہ چلنا۔ 
۱۔ فاسق شخص کہ وہ تجھے ایک لقمہ بلکہ ایک لقمہ سے کم میں بھی فروخت کر دے گا۔ 
۲۔ بخیل کے پاس نہ جانا کہ وہ تجھ سے ایسے وقت میں تعلق توڑ دے گا جب تو اس کا سخت محتاج ہو۔
۳۔ جھوٹے کے پاس نہ بیٹھناکہ وہ دھوکہ سے قریب کو دُور اور دُور کو قریب ظاہر کرے گااور منزل سے دور کردے گا۔
۴۔ احمق کے پاس سے بھی نہ گزرنا کہ وہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر نقصان پہنچا دے گا۔
۵۔ قطع رحمی کرنے والے کے پاس سے بھی نہ گزرنا کہ اللہ نے اس پر قرآنِ پاک میں تین جگہ لعنت پائی ہے۔ (روض الریاحین)
آخری بات :۔ ! اگر شادی بھی کر رہے ہو تویہ یاد رکھو !!! کہ جسم سے نسب چلتا ہے روح سے نسبت
جسم سے نسب حاصل ہوتا ہے، روح سے نسبت حاصل ہوتی ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ نسب بھی صحیح ہونا چاہیے اور نسبت بھی ۔ 
تحریر:۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

ایک فرق سمجھیے

ایک فرق سمجھیے
وکلاء اورجج صاحبان ، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو عزت ہمارے قانون نے دی۔
اور علماء کو عزت اللہ اور اس کے رسول ﷺنے دی۔
علماءکو ایسےہی سمجھ لیجئے جیسے وکلاء اورجج صاحبان ، جیسے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج صاحبان ،پس جس طرح ہائی کورٹ کے جج بلکہ ایک ٹرائل کورٹ کے جج کی بھی مخالفت جائز نہیں۔
تو اسی طرح عوام کو علماء کی مخالفت کب جائز ہوگی، میں یہ نہیں کہتا کہ علماء سے غلطی نہیں ہوتی ،بلکہ غلطی ہوجاتی ہے 
مگر اس کا پکڑنا عوام کا کام نہیں بلکہ علماء ہی کاکام ہے۔
بہت سے لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں وہ مذاہب فقہاء اور علماء حق کے فتوؤں میں اختلاف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ جب علماء میں اختلاف ہے تو ہم کدھر جائیں۔
حالانکہ بات بالکل صاف ہے کہ جس طرح کسی بیمار کے معاملہ میں ڈاکٹروں کا اختلاف رائے ہوتا ہے تو ہر شخص یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سے فنی اعتبار سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار،سپیشلسٹ کون ہے۔
بس جس کو زیادہ تجربہ کار، ماہر ،سپیشلسٹ سمجھتے ہیں اس سے علاج کرواتے ہیں دوسرے ڈاکٹروں کر برابھلا نہیں کہتے۔
اسی طرح ایک ہی آئین و قانون کو پڑھنے کے باوجود مقدمہ کے وکیلوں میں اختلاف ہو جاتا ہے، تو جس وکیل کو زیادہ قابل اور تجربہ کار جانتے ہیں اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں، دوسروں کی بدگوئی کرتے نہیں پھرتے۔
عوام کو یہی طریقہ علماء کے بارے اپناناچا ہئے،جس کو تقویٰ پرہیز گاری ،علمی اعتبار سے مستند،اور اپنے فن میں ماہر سمجھیں اس کی بات کو لے لیں دوسروں کو چھوڑ دیں،بد زبانی اور بد کلامی سے پرہیز کریں۔
جس طرح انجینئر وکالت میں ماہر ، معتبر نہیں ہوتا۔
جس طرح ڈاکٹر کی رائے انجینئر کے لیے اہمیت نہیں رکھتی۔
جس طرح ایک درزی گاڑی مرمت کرنے میں مہارت نہیں رکھتا۔
جس طرح ایک جج ملاح کی طرح کشتی کنارے لگانے میں ماہر نہیں ہوتا۔
جس طرح ہر شعبہ زندگی میں ما ہر ،سپیشلسٹ کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔
اسی طرح دین کے معاملے میں بھی دین کے ماہر لوگوں کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
تفصیلات اگلے کالم میں
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

کمی ہے یا احساس کمتری

کمی ہے یا احساس کمتری
جب کسی بھی معاشرے میں رہنے والا احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم میں یقیناََ کوئی کمی ہے ،کبھی کہتاہےہم میں یہ بھی کمی ہے ،وہ بھی کمی ہے۔
کبھی ایک پھول کو معیار محبت سمجھنے لگ جاتا ہے۔
سارا سال اولڈ ہاوس میں چھوڑ کر ایک دن ماں باپ کو یاد کرکے معاشرے کو مکمل سمجھتا ہے۔
اے مسلمان ! تیرے مذہب ومعاشرے میں کمی کوئی نہیں ہے صرف اپنانے کی ضرورت ہے ۔
اور الحمد للہ ! پھر اسلامی معاشرہ ، کامل ، اکمل ، احسن !
گھر بسانے کے انداز ِمحبت اسلام کے ہے ہی نرالے ۔
قرآن میں میرا رب کہتا ہے۔
اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً
ۭ اس نے تمہاری جنس ہی سے تمہاری بیویاں پیداکیں تاکہ تم ان کی طرف مائل ہو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کو پیداکیا:۔
باقی تو اللہ کے بنائے رشتوں کی قدر ہے،مگر یہ رشتہ اللہ کی اجازت سے تم نے بنایا ہے،اس لئےمحبت کا معیار صرف بیویاں ہیں جن کے ساتھ تم نے مودۃ ومحبت رکھنی ہے، ہر عورت پر نظر نہیں :۔
ایک پھول کو جسم و روح کی قیمت سمجھنے والے۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم بھی دیکھ لے۔
میاں بیوی کا بیٹھ کر محبت وپیار کی باتیں کرنا، ہنسی و دل لگی کرنا، نفلی نمازوں سے بھی بہتر ہے۔ 
کسی ایک بار کےاظہار محبت کو سب کچھ سمجھنے والے
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: “تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے حق میں سب سے اچھا ہو، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے حق میں سب سے اچھا ہوں۔” (مشکوٰة ص:۲۸۱)
اور ہر وقت عورت کو سیدھا کرنے کے چکر میں رہنے والے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں فرماتے ہیں:۔ کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ ٹیڑھی پسلی کی مانند ہے۔( بخاری شریف) 
دیکھو تمہاری ٹیڑھی پسلی کام دے رہی ہے یا نہیں؟
اگر سیدھی کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر ٹیڑھی رہنے دو تو تمہارے لیے مفید ہے، پس ان کے ٹیڑھے پن سے کام چلاؤ۔
اسلام گھر بسانے کے انداز تو سکھاتا ہی ہے، اگر کبھی نوبت یہاں تک پہنچ جائے۔۔
اگر بیوی کو چھوڑنا ہی پڑ جائے، تو پھر بھی حسن سلوک کے ساتھ چھوڑو۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ مہذب معاشرہ ہوسکتا ہے؟
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌ بِاِحْسَانٍ :۔ترجمہ۔ طلاق دو بار ہے، پھر یا تو بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
قرآن کریم تو دولت کے لالچ سے اس حال میں بھی بچا رہا ہے
کیونکہ قرآن میں ہے آیت:۔ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا:۔ 4 ۔ النسآء :20) 
یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو۔
میرا دین کامل ہے بس اپنانے کی ضرورت ہے۔
حضرت انس رضی اﷲتعالیٰ عنہ ہیں کہ جو اپنے بڑے بوڑھوں کی عزت کرے گا اﷲتعالیٰ اس کے چھوٹوں سے اس کو عزت دلائیں گے
جس مذہب اور معاشرے میں ماں باپ کو ہر بار(بار بار) محبت کی نگاہ سے دیکھنا ایک حج و عمرہ کا ثواب ہو۔
اور بیت اللہ کا حج ایک ہی بار فرض ہو، اس سے مہذب معاشرہ کیا ہو گا؟
ماں کے قدم چومنا اور باپ کے ہاتھوں کو بوسہ دینا جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دینا ہو۔
ماں کے قدموں تلے جنت۔
باب جنت کا دروازہ ہو۔
اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا صدقہ ہو۔
سلام میں پہل کرنا نوے نیکیاں،اورسلام کا جواب دینا تیس نیکیاں ہوں۔
صفائی نصف ایمان ہو۔
اور نکاح بھی آدھا ایمان ہو۔
جس مذہب و معاشرے میں ازدواجی حقوق ادا کرنا بھی رات بھر کے نوافل سے افضل ہو۔
جب کہ مجھے یہ سکھایا گیا ! اپنے بھائی کے ساتھ تعاون کرو اگرچہ اس کے ڈول میں پانی ڈال دینا ہی ہو۔
جب ہنڈیا چولہے پر چڑھاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ ڈال لو تاکہ تمہارا ہمسایہ بھی اس سے نفع حاصل کرے۔
اللہ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت گھر لے کر آؤ تو اگر ہمسائے کو نہیں دے سکتے تو چھپا کر لاؤ۔
جب راستہ سے ایک کانٹا ہٹا دینا بھی صدقہ ہو۔
جب یہ سکھایا جائےیتیم کے سامنے اپنے بچے سے پیار مت جتاؤ۔
اسی لئے کہتا ہوں مجھے کمی کیا ہے،کیوں احساس کمتری کا شکار ہوں
مدعا کیا ہے؟
یورپ کہتا ہے۔
اگر پابندیاں ماں باپ لگائیں تو اولڈ مائنڈڈ، حقوق پہ ڈاکا ہے۔
اور اگر وہی پابندیاں بوائے فرینڈ /شوہر لگائے تو وہ بڑا حسّاس ، ذمہ دار ،حیا والا ہے۔
لیکن میرا خالق و مالک جس نے کائنات کو تخلیق کیا سب سے بڑھ کربہت حیا والا ہے، 
اورمیرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیا ایسی تھی کہ جیسے ایک کنواری حیادار لڑکی ہو۔
جب ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یہ جراءت کی کہ مجھے زنا کی اجازت دیجئے صحابہ قتل کو دوڑے، رسول اللہ ﷺنے قیامت تک کے لئے ایک حکمت بھرا ارشاد فرمایا :۔ 
فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کوئی تیری ماں ،بہن، بیٹی کے ساتھ زنا کرے؟ اس نے کہا ہرگز نہیں
فرمایا اس طرح کوئی بھی اپنی ماں ،بہن،بیٹی کے لئے اس رستے کو پسند نہیں کرتا۔
پھول کے جھوٹ سے کسی کی زندگی برباد مت کرنا کیونکہ ان پھولوں کا تعلق خوشی و غمی سےبھی ہے ، ایک دن جنازے اور قبر پر بھی ایسے ہی پھول ساتھ جائیں گے۔
تحریر :۔ محمدیعقوب نقشبندی اٹلی

سبسڈی سے زیادہ ہے ضروری، حکمت عملی

سبسڈی سے زیادہ ہے ضروری، حکمت عملی 
سبسڈی جو عربی میں اِعَانَةُ : اور اردو میں امداد کہلاتی ہے ۔
یہ وہ رقم ہے جو حکومت کسی ادارہ کو برائے ترقی یا بیرونی مقابلہ کے لئے دیتی ہے ۔
کم و بیش تمام اسلامی ممالک اپنے اپنے شہریوں کو حج کے موقع پر سہولیات فراہم کرتے ہیں، حتیٰ کے انڈیا جیسی لبرل ریاست بھی سات سو کروڑ ہر سال حاجیوں کے لیے سبسڈی دیتی ہے۔
ایک دو اہم سوال ہیں جو بار بار انباکس میں رسیو کئیے ۔
سوال :۔ کیا بیت المال سے زکوۃ کے پیسے سے سبسڈی دی جا سکتی ہے؟ 
جواب :۔ جی نہیں 
سوال:۔ تو کیا حکومت دیگر ٹیکسز سے سبسڈی دے سکتی ہے جب کہ وہ پیسہ غریبوں کا ہے؟
جواب:۔ ٹیکسز صرف غریبوں کا پیسہ نہیں اس سے ہر شہری کو سہولت دی جا سکتی ہے اور دی جانی چاہیے،
چاہے وہ حج ہو یا کوئی اور سفر یا صحت کے معاملات ہوں یا خوراک کے۔
سوال:۔ سوال یہ ہے کیا ٹیکسز کے ذرائع تمام کے تمام حلال ہیں یا حلال وحرام مکس ہیں؟ 
جواب:۔ میں سمجھتا ہوں اس کا معقول جواب مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے دیا ہے ۔
حکومت پر حج پر سبسڈی دینا کوئی واجب نہیں اور اگر دینا چاہتی ہے تو شرعاًممنوع بھی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی آمدن مخلوط ہوتی لیکن اس میں جائز ذرائع بھی شامل ہیں ، اس لئے حکومت حج کیلئے جوسبسڈی دے تو وہ یہ سمجھے کے یہ سبسڈی جائز ذرائع سے دے رہی ہے اورحاجی بھی یہ سمجھے کہ اس کویہ سبسڈی جائز ذرائع سے دی جارہی ہے ۔
اگر اس پر اعتراض کیا جائے تو پھر پوری دنیا کے مسلمانوں کے پاس کچھ بھی جائز نہیں بچے گا کیونکہ ہر جگہ پر ملاوٹ ہے کہیں پر سود کی کہیں پہ ناجائز مال کی حتیٰ کہ ہمارے حج، زکوۃ، مساجد کا چندہ بھی اس سے محفوظ نہیں. 
پہلی بات تو یہ یاد رکھیے کہ ٹیکسز کا پیسہ صرف غریبوں کا ہی نہیں ہوتا، 
پیسے کے ذرائع عمومی طور پر امیروں کے ہی ہوتے ہیں لیکن غریبوں کی ضروریات کے لئے اور ملک کی فلاح بہبود کے لئے ہی ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں۔
ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد، ریاست مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور اس میں مزید اصطلاحات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کیں۔
مثلاً :۔ 
ائمہ مساجد کی تنخواہیں مقرر کرنا۔
سڑکوں کی تعمیر اور وقفے وقفے سے سرائے قائم کرنا. 
مجاہدین اور انکی اولادوں کے وظائف مقرر کرنا۔
حاجیوں کے لئے پانی کا انتظام کرنا۔
اسی طرح ہر حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لیے سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے. 
اسلامی حکومتوں میں بھی آمدن کے ذرائع ایک سے زیادہ ہوتے ہیں جس طرح زکوۃ، عشر، خراج، مال غنیمت وغیرہ ۔
اسی طرح موجودہ جمہوری حکومتوں کے پاس بھی آمدن کے ایک سے زائد ذرائع ہیں زکوۃ اور عشر ہے اور ہر قدم ٹیکسز جیسے بجلی، پانی، گیس، پٹرول، حتیٰ کے کھانے پینے پر ٹیکسز ہیں روڈ پر چلنے کا ٹیکس ہے، گاڑی خریدنے اور چلانے پر ٹیکسز ہے ۔
تو ٹیکسز اسی لئے دیئے جاتے ہیں کہ اس کے بدلے میں حکومت شہریوں کو سہولتیں فراہم کرے۔
اس میں دو باتیں ناجائز ہو سکتی ہیں ۔
ایک یہ کہ کوئی حاجی حج پر جانے کے لئے حکومت سے امداد طلب کرے، جبکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا بلکہ ہر سال درخواستیں زیادہ ہوتی ہیں اور حکومت کم لوگوں کو اجازت دیتی ہے، کیونکہ سعودی عرب کی طرف سے ایک مخصوص کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے۔
اور دوسری ناجائز بات اقرباپروی ہے کہ کوئی وزیر، مشیر، یا حکومتی عہدیدار کسی خاص شخص کو سرکاری پیسے سے حج پر لے جائے۔
لیکن جب کسی حاجی کی طرف سے امداد کا مطالبہ بھی نہ ہو۔
اور اقرباپروری بھی نہ ہو ۔
تو بطور پاکستانی شہری کے ان کو سہولت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہ سبسڈی سے ہو یا کسی بھی ذریعہ سے۔
اور یہ کہنا کہ حج صاحب استطاعت اور مالداروں پر فرض ہے اس لیے انہیں جیسے چاہے لوٹا جائے یہ نہ دین ہے نہ انسانیت صاحب استطاعت کا معنی یہ نہیں حکومت جس طرح بھی لوٹنا چاہے صاحب استطاعت لُٹنے کے لئے تیار ہوجائے۔
سبسڈی سے زیادہ ضروری 
1 ۔سرکاری کوٹہ کے حج کو ختم کیا جائے ۔
2۔حجاج کرام کے لیے وی آئی پی اور عام حاجی کی تفریق ختم کی جائے 
3۔ وی آئی پی ہوٹلز کی بکنگ ختم کی جائے.۔
4:۔ عام حجاج کے لیے حرم شریف کے قریب پرانی مگر مہنگی رہائشیں کرائے پر نہ لی جائیں ، 
5:. مہنگی اور پرانی عمارات کے بجائے حرم شریف سے دور نئی عمارات مگر سستی کرایہ پر حاصل کی جائیں۔
6:۔ ٹرانسپورٹ کرایہ پر لیں اور حجاج کو حرم شریف اور حرم شریف سے ہوٹل تک منتقل کریں۔
یہ وہ اقدامات ہے کہ اگر ان کو اختیار کیا جائے اور صحیح طریقے سے عمل درآمد کروایا جائے تو شاید سبسڈی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
تحریر :۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

دفاعِ ختم نبوت اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ

دفاعِ ختم نبوت اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم وصال کے حوالے سے ایک تحریر 
خلیفہ اول کو خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی دو طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا(1) ایک منکرین زکوۃ اور(2) دوسرا مرتدین (منکرین ختم نبوت)
دوسری طرف کیفیت یہ تھی۔ کافروں نے کہا نبیﷺ کی برکت جاتی رہی، منافقین کھل کر سامنے آگئے ، ضعیفُ الایمان دین سے پھر گئے،بہت سے قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا، مسلمان ایک ایسے صدمے میں شکستہ دل اور بے تاب وتواں ہور ہے تھے جس کا مثل دنیا کی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا۔ان کے دل گھائل ، اور آنکھوں سے اشک جاری تھے، کھانا پینا لذت نہیں دیتا تھا،زندگی ایک ناگوار مصیبت نظرآ ۤتی تھی۔اذان دینے والے بلال چہرہ مصطفی کے بغیر اذان نہیں دے پاتے تھے، ایسے وقت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین کو نظم قائم کرنا، دین کا سنبھالنا ، مسلمانوں کی حفاظت کرنا، منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کے سیلاب کو روکنا کس قدر دشوار تھا۔۔۔۔
ختم نبوت کے 11 منکرین مختلف جگہوں پر دعوی نبوت کرچکے تھے جن میں سے تین وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری میں ہی دعوی نبوت کر دیا تھا جن میں اسود عنسی مگر یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں واصل جہنم ہو چکا تھا ،مسیلمہ کذاب، وغیرہ 
ایسے وقت میں امیرالمومنین سیدنا صدیق اکبر نے ان تمام حالات کا مقابلہ کیا منکرین زکوۃ کے ساتھ جہاد کر کے ان کو زکوۃ کے نظام میں واپس لے کے آئے دوسری طرف منکرین ختم نبوت کا پوری دنیا سے قلع قمع کیا
اے امیرالمومنین تیری جراءت کو سلام
جہاں پر طاقت کا توازن بھی نہ ہو پھر بھی میدان عمل میں اترے تو یہ ایمان کی قوت ہے۔
جنگ یمامہ میں مسلمانوں کی طاقت 13،000
اور مسیلمہ کذاب بدبخت کی قوت 40،000
اور بارہ سو1200 مسلمانوں کی شہادت جن میں سے 70 حفاظ بعض نے یہ تعداد سات سو بتائی ہے اور اکثریت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تھی۔۔۔۔
اور مسیلمہ کذاب کے 21000 واصل جہنم ہوئے ۔۔۔۔۔
یہ تھا وہ پہرہ جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے ختم نبوت کی حفاظت کے لئے دیا۔۔۔ 
ایک مثال عرض کرتا ہوں!
ایک ضعیف العمر کمزور شخص سارا دن دھوپ میں کھڑا رہ کے تو اپنی عزت نفس اور اپنی اولاد کی عزت نفس پر پہرہ دیتا ہے تو پھر رسول اللہ کی عزت پر کمزوری کا بہانہ کیوں کرتا ہے.... 
آج جب ختم نبوت پر بات کرنے والوں کا لوگ مذاق اڑاتے ہیں تو پھر قرآن کی یہ آیت دل و دماغ میں گردش کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔
آپ بھی قرآن کی آیت کو پڑھیے صرف ترجمے کے الفاظ پہ ہی غور کرلیجئے ۔۔۔
یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ اس آیت کا مخاطب ایمان والا ہے کافر نہیں ۔۔۔۔۔۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ۡ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ۭ 54؀
اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو (پھر جائے) عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا، جن سے اللہ محبت رکھتا ہو اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہوں، مومنوں کے حق میں نرم دل اور کافروں کے حق میں سخت ہوں، اللہ کی راہ میں جہاد کریں، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوں، 
اہل ایمان میں چار نمایاں صفات بیان کی جارہی ہیں۔ (١) اللہ سے محبت کرنا اور اسکا محبوب ہونا۔ (٢) اہل ایمان کے لیے نرم اور کفار پر سخت ہونا (٣) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (٤) اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کو ضرورت نہیں کہ ہم اسلام پر استقامت کے ساتھ رہیں بلکہ ہمیں اپنی بقا کے لئے ضرورت ہے کہ ہم دین اسلام پر ڈٹے رہیں... 
آج ذرا غور کیجئےۤ! آج ہم نے اس آیت کا الٹ نہیں کررہے؟ 
کہ کافروں کے لئے بچھے جا رہے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔۔۔۔
میرے بھائیو غور کرو اس بات پر کہ! 
جب کوئی بڑی عالمی طاقت ایک بلڈنگ کے بدلےمسلمانوں کے پورے ملک تباہ کر دے۔۔
جب عالمی طاقت ایک شخص کی تلاش میں ایک ملک کی سالہا سال اینٹ سے اینٹ بجائے ۔
جب ہمارا ہمسایہ ملک مسلمانوں کا مانا ہوا حق کشمیر اس کو دبائے بیٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے بندہ خدا جب مسلمان کی عزت نفس پر پہرہ دینا سیکھے گا تو بقاء حاصل ہو گی ..... 
تحریر :۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

20 اکتوبر, 2018

اولاد کی تعلیم و تربیت

 اولاد کی تعلیم و تربیت
بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک بات یاد رکھیے کہ جانور اور انسان میں ایک بنیادی فرق ہے کہ جانور صرف بچوں کو پالتا ہے مگر انسان اولاد کو پالتا بھی ہے اور ان کی تربیت بھی کرتاہے....
پہلا سوال یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کی مناسب عمر کیا ہے تو یہ بات یاد رکھیے کہ علماء نے فرمایا ہے کہ.
سات سال تک بچے کو اپنے سینے سے لگا کر رکھو تاکہ ماں باپ کی محبت و شفقت کی خوشبو میں اس کی تربیت ہو، پھر 14ویں سال تک اس کو غلاموں کی طرح رکھو یعنی اس کی ہر طرح سے مکمل نگرانی کرو، پھر21 اکیسویں سال تک اس کو دوست بنا کر رکھو تاکہ باہر کے برے دوستوں سے بچنے کا موقع اس کو میسر رہے.. اب 21 سال کے بعد وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے والا ایک نوجوان بن چکا ہوگا......
آج کے ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں کہ بچہ پیدا ہونے کے فورا بعد سیکھنے کے عمل سے گزرنا شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ چھ مہینے کی عمر کو پہنچنے تک کئی سو الفاظ اپنے دماغ میں محفوظ کر لیتا ہے اور تین سال کی عمر کو پہنچنے تک تقریبا ضرورت کی تمام زبان سیکھ لیتا ہے... 
مگر فی زمانہ ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں آج کے اس دور میں دو تین سال کے بچے کی انگلی موبائل فون یا آئی پیڈ وغیرہ پر  چلنا شروع ہوتی ہے... 
بچہ خود سے کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر وہی جو ماں باپ اسے دکھانا چاہیں اس لئے ہمیشہ بچے کی تربیت کے لیے اسے ابتدائی سالوں میں اچھا دکھانے کی کوشش کریں... 
ٹھیک ہے آپ نے جوانی کے ایام شادی سے پہلے جیسے بھی گزارے ہوں جب آپ کی اولاد آپ کے سامنے سیکھنے کے مراحل میں آجائے تو اپنی عادتوں کو بدل لیجئے... 
کیونکہ اَلْوَلَدٌ سِرٌّ لِاَبِیْہِ اولاد والدین کا عکس ہوتی ہے.. 
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور دین فطرت دین اسلام ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں... 
اور یہ یاد رکھیے کی تربیت کوئی گولی یا ٹیبلٹ نہیں کہ آپ بچے کو کھلا دیں گے اور اس کی تربیت ہو جائے گی بلکہ یہ ایک مستقل عمل ہے.. جو آپ کریں گے بچہ اسی سے سیکھے گا... 
ایک عورت اپنے دو سال کے بچے کو لے کر ایک دانشور کے پاس گئی کہ مجھے یہ بتائیں کہ میں اپنے بچے کی تربیت کس طرح سے کروں دانشور نے کہا بی بی تجھے تین سال پہلے میرے پاس آنا چاہیے تھا اس نے کہا مگر بچہ تو ابھی دو سال کا ہے میں تین سال پہلے کیسے آ جاتی دانشور نے کہا پہلے  تجھے (یعنی ماں کو) تربیت کی ضرورت تھی پھر بچے کی تربیت ہوگی.... 
اور تربیت کرنے میں خوف اور ادب میں فرق سکھائیں.. 
ماں باپ کا ادب، نانی، نانا، دادی دادا، کا ادب، اساتذہ کا ادب، اپنے سے بڑوں کا ادب، اُن کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے ادب کرنا سکھائیں نہ کہ ان کا خوف دلوں میں بٹھائیں.. 
خوف اگر سکھانا ہو تو اللہ تبارک و تعالی کا، گناہ سے بچنے کا کسی کا حق کھانے کا، کسی کے ساتھ زیادتی کرنے کا خوف دلوں میں بٹھائیں... 
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
یا ایھالذین آمنو قو انفسکم واہلیکم نارا،،، اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ....... 
تربیت اولاد میں ماں کا کردار
معاشرہ اگر وجود میں آیا تو صرف حضرت آدم علیہ السلام  سے نہیں بلکہ اماں حوا سے معاشرہ بنا...
کیونکہ آدم علیہ سلام اگر اکیلے جنت میں ہزاروں سال بھی رہتے تو اکیلے ہی ہوتے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے معاشرہ( سوسائٹی) بنانا چاہی تو آدم و حوا کو رشتہ ازواج میں جوڑا، پھر اولاد کی نعمت عطا کی اور ان معاشرے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے آئین یعنی شریعت عطا کی، تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانا جا سکے...
                                   پہلی درس گاہ
معاشرے میں سب سے پہلے ماں اپنا کردار نبھائے گی اس نظام عدل و انصاف، معاشرتی تقاضے ماں باپ نے اپنی اولاد کو منتقل کرنے ہیں، یہ درست ہے کہ بیٹا ماں باپ کا سہارا ہے مگر بیٹی کے بغیر یہ معاشرہ مکمل ہی کب ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا!
وجودزن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ
اور تصویر کائنات میں یہ جو رنگ ہے، 
یہ کہیں بے راہ روی اور جنسی آوارگی کا رنگ بھی ہو سکتا ہے
کہیں گناہ کا رنگ بھی ہو سکتا ہے، 
لیکن اللہ قرآن میں فرماتا ہے... 
صبغۃ ﷲ ومن احسن من ﷲ صبغۃ 
ترجمہ) سارے رنگوں میں اللہ کا رنگ ہی بہترین اور خوب ہے..........
وہ عورت جس سے تصویر کائنات میں رنگ ہے اگر اس کے ذریعے رنگ چڑھانا ہے تو سب سے بہترین رنگ اللہ کا رنگ ہے اگر ماں کی تربیت ہوئی تو اولاد کی تربیت ممکن ہے... 
اس لیے اپنی اولادوں کے رشتے طے کرتے ہوئے کردار میں اعلیٰ خاندان، نسل، اخلاق اور تعلیم کا معیار ضرور مد نظر رکھو... 
حسن ظاہری سے اخلاق کا حسن کہیں اعلی ہے ظاہری حسن آج نہیں تو کل اپنی کشش کھو دے گا لیکن اخلاق کا حسن بڑھتی عمر کے ساتھ اور بڑھتا جائے گا جو اولاد کی بہتر تربیت کا سبب بنے گا...... 
کسی صاحب عقل نے کہا! 
ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے اور ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے... 
اور یہ بھی کسی نے کہا ہے .! 
تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا.....
ایک بچے کی سب سے پہلی درس گاہ اس کی ماں ہوتی ہے، اور باپ اس درسگاہ کا پرنسپل ہوتا ہے. ماں تربیت کرتی ہے باپ منتظم ہوتا ہے...... 
ماؤں کے اثرات دیکھنے ہیں توحضرت مریم سلام اللہ علیھا کو دیکھیے، ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت دیکھئے فاطمہ کی صورت میں.. 
سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت دیکھئے امام حسن و حسین کی صورت میں.. 
ام الخیر حضرت فاطمہ والدہ غوث اعظم رضی اللہ تعالئ عنہ کی تربیت غوث اعظم کی صورت میں دیکھیے.. 
حضور غوث اعظم رضٰی اللہ عنہ پانچ برس کی عمر میں جب پہلی مرتبہ بسم اللہ پڑھنے کی رسم کیلئے کسی بزرگ کے پاس بیٹھے تو اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور الم سے لے کر اٹھارہ پارے پڑھ کر سنادئیے ۔اس بزرگ نے فرمایا بیٹے اور پڑھیے۔فرمایا بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیونکہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا۔جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں میں نے سن کر یاد کرلیا ۔
ماں کی تربیت کو دیکھنا ہے تو خواجہ بہاوالدین زکریا کی والدہ کو دیکھیے... 
حضرت خواجہ بہاؤالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ نے بھی زمانہ حمل میں جو چودہ پارے حفظ کئے تھے وہ پڑھتی تھیں ۔ چنانچہ خواجہ بہاوالدین زکریا نے بھی اپنی رسم بسم اللہ میں چودہ پارے سنا دیے اور فرمایا میں نے یہ اپنی ماں کے پیٹ میں اتنے ہی سنے تھے ۔
آج کی مائیں جس انداز میں پرورش کر رہی ہیں ذرا اس کی چند جھلکیاں ملا حظہ کیجئے۔
دوران حمل ماں کا زیادہ تروقت ٹی وی کے آگے گزرتا ہے ۔اگر لائٹ نہیں ہے تو جنسی رومانی ناول پڑھ کر وقت گزارے گی اور اگر زیادہ طبیعت مچلی تو کہیں آؤٹنگ پر نکل جاتی ہے…باہر کی ہوا لگوانے …جی ہاں نماز پڑھتے ہوئے اسے تکلیف ہوتی ہے اس کا بی پی ہائی ہو جاتا ہے ۔لیکن ٹی وی دیکھتے ہوئے اور ناول پڑھتے ہوئے یا باہر کی ہوا لگواتے ہوئے ،گھومتے پھرتے اس کا بی پی ہائی نہیں ہوتا…
خلاصہ کلام یہ..... 
جو بوؤ گے وہی کاٹو گے 
ہمیشہ گالی کے بدلے میں گالی آتی ہے،، سلام کے بدلے میں سلام اچھے والدین کی اولاد عموما اچھی نکلتی ہے... 
کیونکہ فصل بیج سے ہوتی ہے.............
تحریر :-  محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

30 اگست, 2018

اسلام میں فریڈم آف اسپیچ 
جس کا مطلب ہے آزادی اظہار رائے ۔ 
عام طور پر اسلام یا مسلمان پر الزام لگایا جاتاہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے۔ مگر حقیقت میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ دیا، اس سے پہلے تو لوگ غلام تھے. مگر اسلام نے انسانوں کو انسانیت کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان کیا۔ اسلام ہی ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے، جو چاہے بول سکتا ہے۔ اللہ نے"لااکراہ فی الدین"(دین میں کوئی جبر نہیں)،
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیاسی اور معاشرتی نظام چلانے کے لیے "وشاورھم فی الامر"(کہ معاملات میں لوگوں سے مشورہ کرو)
جیسے سنہری اصولوں سے واضح کیا کہ اسلام اظہاررائے کی آزادی کاحامی ہے۔لیکن اسلام اعتدال پسند ہے، لیکن فساد کے خلاف ہے، چنانچہ اسلام نے انسان کو خبردار کیا تو بے لگام بھی نہیں ہے ارشاد فرمایا:"مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید" انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت لکھنے کے لیے تیار۔
پھر :فریڈم آف سپیچ :کی حدیں مقرر  فرمائیں سورہ حجرات میں فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں اڑا سکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول (جاسوسی نہیں کر) سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکارسکتا۔    سورہ حجرات 
 اظہار رائے کی آزادی میں اسلام نے ایک طرف یہ بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو ساتھ میں حدود بھی مقرر کیں...... 
دوسری طرف مغرب آزادی اظہار رائے کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے. پھر بھی بے شمار اخلاقی حدود اور پابندیاں مجبوری سمجھتا ہے مثلاً ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم کی توقیر  ، عدلیہ اور استاد کی عزت ، کسی کی ہتک عزت اور پھر اس پر دعویٰ کرنے کا حق. اور دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتاہے۔ کینیڈا کے قانون میں عیسائیت کی توہین وتنقیص جرم ہے۔ 
دوسری طرف مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیا جاتا ہے....
مگر کیا کریں اے اہل یورپ جس طرح تمہاری کچھ اخلاقی مجبوریاں ہیں اسی طرح  ہماری کچھ ایمانی مجبوریاں ہیں قرآن ہمیں یہ کہتا ہے قل.. ان کان اباؤکم وابناؤکم( سب سے بڑھ کر رسول اللہ کی محبت) 
ہماری قیمتی ترین اساس محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھے........................ 
جب ان کی حالت یہ ہے27 جنوری 2003 میں ٹیلی گراف اخبار نے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتا دکھایا گیا۔ اس پر اسرائیل اور ان کے ہمنواؤں نے خوب ہنگامہ آرائی کی جس پر بالآخر اخبار نے معذرت کی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے حضرت عیسیٰ ؑکے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا۔
 اب آتے ہیں اس طرف کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا معاملہ نیا نہیں یہ عمل پچھلی کچھ صدیوں سے کسی نہ کسی رنگ و صورت میں جاری ہے۔ اس انتہائی قبیح عمل کے پس پردہ مقاصد بلاشبہ مسلم امت کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ ان کی منزل کا رخ بدلنا ہے
(1) نمبر ایک امت مسلمہ کی اجتماعی قوت کو پامال کرنا ہے. (2) شدت پسندی کی جو چھاپ اسلام اور اہل اسلام پر غیر مسلموں نے چسپاں کر رکھی ہے اس کا عملی ثبوت اپنی عوام کو دکھانا.... 
(3)یورپی ممالک میں اسلام کی نشر و اشاعت کو  روکنا اور لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
(4) مسلمانوں کے اوقات کو احتجاج اور نفرت میں ضائع کرنا ہے..... 
اس لئے مسلمانوں کو اس کے مستقل سد باب کے لیے بڑی ہوش مندی سے کام لینا چاہیے.. 
میرے خیال میں کسی گیرٹ ویلڈر جیسے گھٹیا انسان یا چند لوگوں کی تصویریں شائع کرکے ہمیں نشر و اشاعت کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے.. 
ہولوکاسٹ پر تصویریں اپ لوڈ کرکے یا تبصرہ کرکے یہودیوں کے موقف کو مضبوط نہیں کرنا چاہیے.. 
اور بعض نادان دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہولوکاسٹ پر تبصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کا جواب ہے تو وہ انتہائی نادان ہیں کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با کمال اور کہاں یہودیت ... 
اگر کچھ کرنا ہے تو جو ہالینڈ یا کسی بھی ایسے یورپین ملک کی نیشنلٹی رکھتے ہیں جو ایسے قبیح کاموں میں ملوث ہیں تو ان ممالک کی اعلیٰ عدالتوں میں جائیں اور مستقل سدباب کے لیے اپنا کردار ادا کریں اچھے سے اچھا وکیل کرکے.. 
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لیے وکیلوں کی فیسیں کہاں سے آئیں گی تو جو لوگ لاکھوں روپیہ احتجاج کے لیے پاکستان میں بھیج سکتے ہیں وہ یہاں پر بھی بھرپور تعاون کے لیے تیار ہوں گے... 
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

12 جنوری, 2018

ہمارا معاشرہ کس کا کیا کردار ہے

 خطبہ جمعہ کا مختصر خلاصہ

ہمارا معاشرہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے ایسا نہیں تھا برائیاں تو ہر زمانے میں موجود رہتی ہیں ۔ مگر بیٹیوں کی عزتوں پر اس کثرت سے ڈاکے نہیں ڈالے جاتے تھے۔۔ 
معصوم بچوں بچیوں کو اس قدر بے رحمی بے دردی اور بے حیائی اور بے غیرتی سے نہیں روندا جاتا تھا ۔ 
اس میں کس کس کا کردار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) ملکی اور مغربی میڈیا کا کردار
2) مرد و زن کا بے حجابانہ اختلاط
3) مغربی تہذیب کو اپنانے کی کوشش
4) تفریح کے لیے بے حیائی فحاشی سیکس وڈیو کا فروغ
5) خیالی دنیا یعنی sex فلم سے حاصل کردہ لذت کو حقیقی معنوں میں حاصل کرنے کی کوشش۔
6) دو تہذیبوں میں بٹ جانا ( آدھا تیتر آدھا بٹیر)
7) نکاح میں تاخیر ( جہیز کا مطالبہ اور دیگر وجوہات)
(8) زنا کو اس کا پرسنل فعل کہنا اور دوسرے نکاح کو معیوب سمجھنا
9) زنا سستا اور نکاح مہنگا اور مشکل
10) مذہبی رہنماؤں کا غلط رویہ ( جس طرح عیسائی اپنی رسومات پر اڑے رہے اور آج نہ ان کی رسومات رہی نہ ہی مذہب)
11) تربیتی نظام کا ختم ہو جانا ( جو کہ کسی زمانے میں دادی دادا یا گھر کا سربراہ یا والدہ کہانیوں کے ذریعہ سے تربیت کرتے تھے ۔) مثلا۔۔ بیٹا نمک زمین پر گر جائے تو فورا اٹھاؤ ورنہ قیامت کے دن آنکھوں کی پتلیوں سے اٹھانا پڑے گا اگرچہ بہت سی کہانیاں فرضی ہوتی تھی لیکن نصیحت سے بھرپور
12) اسلامی تہذیب سے کنارہ کشی اور بغاوت
13) صحت مند تفریح کا فقدان( آج کرکٹ ہاکی فٹبال کی جگہ موبائل گیمز اور Sex وڈیوز )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ میری امت کے لئے معافی ہے لیکن جب علانیہ گناہ کرے گی اس کی معافی نہیں ہوگی ۔۔۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

بلاگ میں تلاش کریں