میں دین کا ایک ادنی سا طالب علم ہوں، دینی کتابوں اور علماء کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے تعلق کی بنا پر دین کا جو فہم مجھے ملا اسکی روشنی میں مختلف موضوعات پر لکھتا رہتا ہوں، دینی موضوعات پر کتابوں میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ میرے جیسے طالب علم کی بہت سے معاملات میں لکھنے کی ضرورت نہیں رہتی
26 ستمبر, 2017
حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق کہنا
محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ
محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃوَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے یعنی محرم سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دئے ہیں۔ اس ماہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ تعالیٰ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے ۔ (ترمذی ج۱ ص ۱۵۷)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے ماہ محرم الحرام کے روزے ہیں ۔ (صحیح مسلم)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو اس لئے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے ۔اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی ج۱ ص ۱۵۷) جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ قوم بنی اسرائیل ہے جیساکہ اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔
عاشورہ کا روزہ:
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ اس دن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پہلے تو یہ روزہ واجب تھا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کو اختیار دے دیاگیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے سال گذشتہ کے چھوٹے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔پہلے یہ روزہ ایک دن رکھا جاتا تھا لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لئے آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو انشاء اللہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا لیکن اس خواہش پر عمل کرنے سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔
عاشورہ کے روزہ سے متعلق احادیث:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کے دن بیت اللہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔جب رمضان فرض ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ص ۲۱۷)
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا بھی حکم دیا ۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے ۔ (صحیح بخاری ص ۲۵۴، ص ۲۶۸)
حضرت رُبیع بنت مُعوِذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھاپی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے )اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے ۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لئے اون کا کھلونا بناتی تھیں ۔جب کو ئی بچہ کھانے لئے روتا تویہ کھلونا اس کو دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ (صحیح بخاری ج۱ ص ۲۶۳، صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۶۰)
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو بھیجا جو لوگوں میں یہ اعلان کررہا تھا کہ جس نے کھالیاوہ پورا کرے یا فرمایا بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے ( یعنی روزہ رکھے )۔ (بخاری ج ۱ ص ۲۵۷)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطافرمائی، ہم اس دن کی تعظیم کے لئے روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص۲۶۸)
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم کررہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں، اس کو عید بنارہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اس روزہ کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص ۲۶۸، ۵۶۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دن کے روزہ کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔ (بخاری ج۱ص ۲۶۸) یعنی ان روزوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر عاشورہ کے دن (کھڑے ہوکر) فرمایا: اے اہل مدینہ کہاں ہیں تمہارے علماء، میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا ہے، میں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے جوچاہے روزہ نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ج ۱ ص ۲۶۲)
عاشورہ کے روزہ کا ثواب:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائیگا۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ سال گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترمذی ج ۱ ص ۱۵۱) ان احادیث میں گناہ سے صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لئے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
عاشورہ کے روزہ رکھنے کا طریقہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا تو ان شاء اللہ نویں کو (بھی) روزہ رکھوں گا لیکن آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔ (مسلم ج۱ص ۳۵۹)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد ج ۱ ص ۲۴۱) یہ حدیث بعض نسخوں میں او کی جگہ پر و اوکے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت مان لی جائے تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی ۴ شکلیں بنتی ہیں : ۹ ،۱۰ اور ۱۱ تینوں دن روزے رکھ لیں۔۹ اور ۱۰ دو دن روزہ رکھ لیں۔ ۱۰اور ۱۱ دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے ۲ روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔
خلاصۂ کلام:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے ، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ۱۰ محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے اِس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ ۹ یا ۱۱ محرم الحرام کو رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں‘ صحابۂ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ۹ یا ۱۱ محرم الحرام کا ایک روزہ ملاکر رکھنے کا اہتمام فرمایا، اور اسی کو مستحب قرار دیا اور صرف عاشورہ کاروزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا ۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ۲ روزے رکھنے کی تھی اس لئے اس خواہش کے تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ اور ملاکر دو روزے رکھے جائیں۔
وضاحت:
بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً ۵۰ سال بعد ۶۱ ہجری میں نواسۂرسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس دن کی اہمیت ہوئی ہے حالانکہ اس دن کی فضیلت واہمیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وعمل کی روشنی میں پہلے ہی سے ثابت ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وعمل کی روشنی میں ذکر کیا گیا، ہاں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کے لئے اللہ تبارک نے اس بابرکت دن کا نتخاب کیا جس سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کی مزید اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
محمد نجیب قاسمی ،ریاض
23 ستمبر, 2017
فضائل سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ
فضائل سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ
---------------------------------------------------
اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعہ ہمیں دولت ایمان ونعمت اسلام سے مالا مال وسرفراز فرمایا ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں اسلام کے احکام بتلائے قرآنی آیات سنائیں دین کی تمام تر تفصیلات بتلادیں لیکن آپ نے احکام کی تبلیغ پر کوئی بدلہ وعوض نہ چاہاالبتہ اہل بیت اطہار رضی اللہ ت
عالی عنہم سے محبت کا حکم فرمایا- جیساکہ ارشاد الہی ہے:
قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی۔
ترجمہ :ائے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرمادیجئے! میں تم سے اس پر کچھ اجر نہیں چاہتا ہوں بجز قرابت داروں کی محبت کے۔ (سورئہ شوریٰ:23)
جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا کہ وہ قرابت دار کون ہیں جن سے محبت کرنا ہم پر ضروری ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علی فاطمہ اور ان کے دونوں شہزادے (رضی اللہ تعالی عنہم)۔ (معجم کبیر طبرانی،حدیث نمبر2575)
عَنِ ابْنٍ عَبَّاسِ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُمَا ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ : "قُلْ لا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی" قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ ہَؤُلاءِ الَّذِینَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّتُہُمْ ؟ قَالَ : عَلِیٌّ وَفَاطِمَۃُ وَابْنَاہُمَا.
اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت کرنے کا مطالبہ بظاہر تبلیغ اسلام کا بدلہ معلوم ہوتا ہے لیکن بات ایسی نہیں ہے بلکہ ایمان کے حصول کے بعد اس کی حفاظت کا انتظام انتہائی ضروری ہوتا ہے شیطان ہروقت ایمان کو تاراج کرنے کے مواقع ڈھونڈتاہے حفاظت ایمان کی خاطر اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہم کی محبت ومودت کا حکم دیاگیا ،ان پاکباز ہستیوں سے تعلق ووابستگی باعث نجات اور ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے-
اسی مناسبت سے آج جنتی جوانوں کے سردار،جگر گوشۂ بتول،نواسۂ رسول،سید الشہداء ،امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل وکمالات آپ حضرات کے سامنے بیان کئے جارہے ہیں-
فضائل سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ
امام عالی مقام سیدالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل وکمالات متعدد احادیث شریفہ سے ظاہر ہیں، آپ حضور اکرم سید الانبیاء سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسہ ولخت جگر اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی صاحبزادی،سیدۃ نساء اہل الجنۃ سیدہ بتول زہراء رضی اللہ عنہا کے پارئہ دل ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی دائمی نسبت اور کمال قربت کوظاہرکرتے ہوئے بیان فرمایا:
حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ ۔
ترجمہ:حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں -(جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام .ج2ص218 حدیث نمبر 4144)
ولادت باسعادت کی بشارت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی جان صاحبہ نے ایک فکر انگیز خواب دیکھا اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیں تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی فرحت آفریں تعبیر بیان فرمائی اور امام عالی مقام کی ولادت کی بشارت دی جیساکہ امام بیہقی کی دلائل النبوۃ میں مذکور ہے :
عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ ، أَنَّہَا دَخَلَتْ عَلَی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہَ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَاَلَتْ : یَا رَسُوْلَ اللہِ ، إِنِّیْ رَأَیْتُ حُلْمًا مُنْکَرًا اَللَّیْلَۃَ . قَالَ : وَمَا ہُوَ ؟ قَالَتْ : إِنَّہُ شَدِیْدٌ . قَالَ : وَمَا ہُوَ ؟ قَالَتْ : رَأَیْتُ کَأَنَّ قِطْعَۃً مِنْ جَسَدِکَ قُطِعَتْ وَوُضِعَتْ فِیْ حِجْرِیْ . فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہَ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَأَیْتِ خَیْرًا ، تَلِدُ فَاطِمَۃُ إِنْ شَاءَ اللہُ غُلَامًا فَیَکُوْنُ فِیْ حِجْرِکِ . فَوَلَدَتْ فَاطِمَۃُ الْحُسَیْنَ فَکَانَ فِیْ حِجْرِیْ کَمَا قَالَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہَ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَدَخَلْتُ یَوْمًا عَلَی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہَ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُہَ فِیْ حِجْرِہِ ، ثُمَّ حَانَتْ مِنِّیْ اِلْتِفَاتَۃٌ ، فَإِذَا عَیْنَا رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہَ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُہْرِیْقَانِ الدُّمُوْعَ . قَالَتْ : فَقُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ ، مَا لَکَ ؟ قَالَ : أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَأَخْبَرَنِیْ أَنَّ أُمَّتِیْ سَتَقْتُلُ اِبْنِیْ ہَذَا ، فَقُلْتُ : ہَذَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَأَتَانِیْ بِتُرْبَۃٍ مِنْ تُرْبَتِہِ حَمْرَاء - رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ۔
ترجمہ:حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ وہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آج رات ایک خوف ناک خواب دیکھا ہے، سرکار نے ارشاد فرمایا آپ نے کیا خواب دیکھا؟ عرض کرنے لگیںوہ بہت ہی فکر کا باعث ہے ،آپ نے ارشادفرمایاوہ کیا ہے؟ عرض کرنے لگیں : میں نے دیکھا گویا آپ کے جسد اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، ان شاء اللہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو صاحبزادے تو لد ہونگے اوروہ آپکی گود میں آئینگے چنانچہ ایساہی ہوا ،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ تولد ہوئے اوروہ میری گود میںآئے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی ، پھر ایک روز میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئی او رحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو آپ کی خدمت بابرکت میں پیش کیاپھر اسکے بعد کیا دیکھتی ہوں کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمان اقدس اشکبار ہیں، یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان !اشکباری کا سبب کیاہے ؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل علیہ السلام نے میری خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: عنقریب میری امت کے کچھ لوگ میرے اس بیٹے کو شہید کرینگے ۔ میں نے عرض کیا سرکار کیا وہ اس شہزادے کو شہید کرینگے ؟ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں! او رجبرئیل امین علیہ السلام نے اس مقام کی سرخ مٹی میری خدمت میں پیش کی ۔ ( دلائل النبوۃللبیہقی، حدیث نمبر:-2805مشکوۃ المصابیح ،ج1 ص 572، زجاجۃ المصابیح ج 5ص227/228: باب مناقب اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہاکی حدیث پاک میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت مبارک کی بھی بشارت ہے اس کے ساتھ ساتھ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غیب دانی کی شان بھی آشکار ہے کہ آپ اللہ کی عطا سے ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے جانتے ہیں ،سورۂ لقمان کی اخیر آیت ’’وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ ‘‘ (سورۃ لقمان:34)میں جو ذکر ہے اس سے مراد ذاتی علم ہے وہ صرف اللہ علیم و خبیر کی صفت ہے چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطائے خداوندی سے نہ صر ف ولادت مبارک کی بشارت دی بلکہ جنس کا تعین بھی فرمادیا ارشاد فرمایاغلاماً لڑکا تو لد ہوگا ونیزیہ بھی فرمادیا کہ وہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا کی گود میں آئینگے ۔
ولادت مبارک
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت کے پچاس دن بعدحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شکم مادر مہربان میں جلوہ گرہوئے آپ کی ولادت باسعادت روز سہ شنبہ5 شعبان المعظم4 ھ مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔
ولد لخمس لیال خلون من شعبان سنۃاربع من الہجرۃ۔(معرفۃ الصحابۃلابی نعیم الاصبھانی، باب الحاء من اسمہ حسن)
القاب مبارکہ
امام عالی مقام سید الشہداء حضر ت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور القاب مبارکہ ، ریحانۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیدشباب اہل الجنۃ ،الرشید، الطیب ، الزکی ،السید، المبارک، ہیں۔
جب آپ کی ولادت ہوئی توحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے کان میں اذان کہی جیساکہ روایت ہے:
عَنْ أَبِی رَافِعٍ ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : " أَذَّنَ فِی أُذُنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ حِینَ وُلِدَا ۔(معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر 2515)
معجم کبیر طبرانی میں روایت ہے :
عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ , أَنَّہُ سَمَّی ابْنَہُ الأَکْبَرَ حَمْزَۃَ ، وَسَمَّی حُسَیْنًا جَعْفَرًا بِاسْمِ عَمِّہِ ، فَسَمَّاہُمَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَسَنًا وَحُسَیْنًا ".
ترجمہ: حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بڑے شہزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کانام مبارک حمزہ اور سید نا حسین رضی اللہ عنہ کا نام مبارک ان کے چچا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھا،پھر حضو راکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا نام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رکھا۔ (معجم کبیر طبرانی ، حد یث نمبر2713)
حسن و حسین جنتی نام
حسن اور حسین یہ دونوں نام اہل جنت کے اسماء سے ہیں اور قبل اسلام عرب نے یہ دونوں نام نہ رکھے۔
علامہ ابن حجر مکی ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے الصواعق المحرقۃ ص:115، میں روایت درج کی ہے:
أَخْرَجَ ابْنُ سَعْدٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ سُلَیْمَانَ قَالَ : " اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ " اِسْمَانِ مِنْ أَسْمَاءِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، مَا سَمَّتِ الْعَرَبُ بِہِمَا فِیْ الْجَاہِلِیَّۃِ. (الصواعق المحرقہ، ص115 ،تاریخ الخلفاء ،ج1ص149)
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ فرمایا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشًا کَبْشًا.
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرات حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ میں ایک ایک دنبہ ذبح فرمایا۔ (سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فی العقیقۃ ، ص392، حدیث نمبر2843۔سنن نسائی،کتاب العقیقۃ ، حدیث نمبر- 4230سنن بیہقی، حدیث نمبر1900)
حضر ات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما جنت کی زینت
امام طبرانی کی معجم اوسط اورکنزالعمال میں روایت ہے:
لَمَّا اِسْتَقَرَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ قَالَتْ الْجَنَّۃُ: یَا رَبِّ أَلَیْسَ وَعَدتَّنِیْ أَنْ تُزَیِّنَنِیْ بِرُکْنَیْنِ مِنْ أَرْکَانِکَ؟ قَالَ: أَلَمْ أُزَیِّنْکِ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ؟ فَمَاسَتِ الْجَنَّۃُ مَیْسًا کَمَا یَمِیْسَ الْعَرُوْسُ-
ترجمہ:جب جنتی حضرات جنت میں سکونت پذیر ہونگے تو جنت معروضہ کریگی پروردگار ! ازراہ کرم کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ تو، دو ارکان سے مجھے آراستہ فرمائیگا ؟ تو رب العزت ارشاد فرمائیگا: کیا میں نے تجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہماسے مزین نہیں کیا؟ یہ سن کر جنت دلہن کی طرح فخر و ناز کرنے لگے گی۔( معجم اوسط طبرانی،حدیث نمبر343۔جامع الاحادیث للسیوطی، حدیث نمبر-1331الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر-1342مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث نمبر-15096کنزالعمال، ج13ص106،حدیث نمبر34290)
حسنین کریمین رضی اللہ عنہماکی محبت ، محبوبیت خداوندی کی ضمانت:
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہماسے مروی حدیث شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے متعلق ارشادفرمایا۔ ۔ ۔
فَقَالَ ہَذَانِ ابْنَایَ وَابْنَا ابْنَتِی اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا .
ترجمہ :یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں ائے اللہ !تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اسکو اپنا محبوب بنالے۔(جامع ترمذی، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام،حدیث نمبر 4138 )
اللہ تعالیٰ کا محبوب بنناامام عالی مقام کی محبت سے نصیب ہوتا ہے، حدیث شریف میں ہے:
أَحَبَّ اللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا-
ترجمہ:اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنالے جس نے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت رکھی۔ (جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام .ج2ص218 حدیث نمبر 4144-)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی گود مبارک میں بٹھا یااور آپ کے لبوں کو بوسہ دے کر دعاء فرمائی:
اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا -
ترجمہ:الہی میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اورجو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے ۔ (جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام .ج2ص218 حدیث نمبر4138-)
امام عالی مقام سے محبت پر سرفرازی
سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِی وَمَنْ أَبْغَضَہُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِی.
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔( سنن ابن ماجہ شریف، باب فضل الحسن والحسین ابنی علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہم. حدیث نمبر148)
امام حسین کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سجدہ کو دراز فرمادیا
سنن نسائی، مسند امام أحمد، مصنف ابن أبی شیبۃ، مستدرک علی الصحیحین، معجم کبیرطبرانی، مجمع الزوائد، سنن الکبری للبیہقی، سنن کبری للنسائی، المطالب العالیۃ ، مسند أبی یعلی اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی إِحْدَی صَلَاتَیْ الْعِشَاءِ وَہُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَیْنًا فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَہُ ثُمَّ کَبَّرَ لِلصَّلَاۃِ فَصَلَّی فَسَجَدَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِہِ سَجْدَۃً أَطَالَہَا قَالَ أَبِی فَرَفَعْتُ رَأْسِی وَإِذَا الصَّبِیُّ عَلَی ظَہْرِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَی سُجُودِی فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ قَالَ النَّاسُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّکَ سَجَدْتَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِکَ سَجْدَۃً أَطَلْتَہَا حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّہُ یُوحَی إِلَیْکَ قَالَ کُلُّ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ وَلَکِنَّ ابْنِی ارْتَحَلَنِی فَکَرِہْتُ أَنْ أُعَجِّلَہُ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہ۔
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایاکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نمازکیلئے ہمارے پاس تشریف لائے،اس حال میں کہ آپ حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنھما کواٹھائے ہوئے تھے ،پھرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھادیا،پھرآپ نے نمازکیلئے تکبیرفرمائی اور نمازادافرمانے لگے ،اثناء نماز آپ نے طویل سجدہ فرمایا، میرے والد کہتے ہیں :میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں اور شہزادے رضی اللہ عنہ آپ کی پشت انور پر ہیں ، تو میں پھر سجدہ میں چلاگیا، جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے نمازمیں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا، یا آپ پروحی الہی کا نزول ہورہا ہے ،تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پرسوار ہوگیا تھا،اور جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا ناپسند ہوا۔
(سنن نسائی ،حدیث نمبر-1129مسند امام أحمد، حدیث نمبر-15456مصنف ابن أبی شیبۃ،ج7،ص514۔مستدرک علی الصحیحین ، حدیث نمبر-4759/6707معجم کبیرطبرانی، حدیث نمبر-6963مجمع الزوائد،ج9،ص-181سنن الکبری للبیہقی،حدیث نمبر-3558سنن کبری للنسائی،ج1،ص243، حدیث نمبر-727المطالب العالیۃ ، حدیث نمبر-4069مسند أبی یعلی، حدیث نمبر-3334کنز العمال، حدیث نمبر(34380/37705/37706
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہماکی خاطر خطبہ کو موقوف فرمادیا
جیسا کہ جامع ترمذی شریف سنن ابوداؤدشریف ،سنن نسائی شریف میں حدیث مبارک ہے :
حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِی: بُرَیْدَۃَ یَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَہُمَا وَوَضَعَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ اللَّہُ (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ) فَنَظَرْتُ إِلَی ہَذَیْنِ الصَّبِیَّیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّی قَطَعْتُ حَدِیثِی وَرَفَعْتُہُمَا.
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا حبیب اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے توحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف سے نیچے تشریف لائے امام حسن وامام حسین رضی ا للہ عنہما کوگود میں اٹھالیاپھر(منبر مقدس پر رونق افروز ہوکر)ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا،تمہارے مال اورتمہاری اولادایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کرچلتے ہوئے آرہے تھے لڑکھڑارہے تھے مجھ سے صبر نہ ہوسکا یہانتک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کرکے انہیں اٹھالیا ہے ۔(جا مع ترمذی شریف ج2،ابواب المناقب ص 218حدیث نمبر3707:۔سنن ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر935:۔سنن نسائی کتاب الجمعۃحدیث نمبر:1396 زجاجۃ المصابیح ج 5ص333)
حسنین کریمین رضی اللہ عنہماکا وجود باجود سراپادین وشریعت
اس حدیث مبارک سے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے شہزادوں کی قدرو منزلت اور ان سے اپنے کامل قلبی تعلق کو واشگاف کردیاکہ بچپن میں شہزادوں کے زمین پرگرجانے کامحض احتمال بھی حبیب پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے لئے ناگوار خاطر مبارک ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے کرم نوازی کی انتہاء فرمادی کہ شہزادوں کی خاطرخطبہ کو موقوف فرمادیامنبرشریف سے نیچے تشریف لاکرانہیں اٹھالیا،اپنے اس عمل مبارک کے ذریعہ روزِروشن کی طرح آشکار کردیا کہ انکا وجود باجود سراسر دین و شریعت ہے ،کیونکہ دنیوی امر کیلئے خطبہ موقوف نہیں کیا جاسکتا،پھرمنبر شریف پر قیام فرماہوکران کے چلنے کی حسین اداؤںکا ذکرمبارک کرتے ہوئے یہ امر بھی واضح فرمادیا کہ ان کی ہر ہراداء دین وشریعت ہے ۔
امام عالی مقام کی حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال قربت کی یہ شان کہ گہوارہ میں آپ کے رونے سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی :
عَنْ زَیْدِ بْنِ اَبِیْ زِیَادَۃَ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَیْتِ عَائِشَۃَ فَمَرَّعَلَی بَیْتِ فَاطِمَۃَ فَسَمِعَ حُسَیْنًا یَبْکِیْ فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَہُ یُؤْذِیْنِیْ.
ترجمہ:سیدنازید بن ابی زیادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضرت رسول اللہ صلی علیہ وسلم ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرئہ مبارکہ سے باہرتشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے دولت خانہ سے گزر ہوا امام حسین رضی اللہ عنہ کی رونے کی آوازسنی توارشادفرمایا:بیٹی کیا آپ کو معلوم نہیں!ان کارونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔(نورالابصارفی مناقب ال بیت النبی المختار ص139 )
بچپن میں امام حسین رضی للہ عنہ کا رونا حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت کا باعث ہے تو غور کرنا چاہئیے کہ جن ظالموں نے معرکۂ کربلامیں امام عالی مقام پر مظالم کی انتہاکردی ،آپ کے حلقوم مقدس کو پیاساذبح کیا،آپ کے تن نازنین پر گھوڑے دوڑائے، دیگر اہل بیت کرام وجانثاران امام کوبے پناہ تکالیف پہونچا کر انہیںشہیدکیا،چھ ماہ کے شیرخوار علی اصغررضی اللہ عنہ کوبجائے پانی پیش کرنے کے تیرچلاکر بے دردی سے شہیدکرڈالاان بدبختوںکے ظالمانہ وبہیمانہ حرکات اور اندوہوناک واقعات سے حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاطرعاطرکو کس قدر تکلیف ہوئی ہوگی ،کیا یہ ایذاء رسانی خالی جائیگی؟ہرگزنہیں! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ لَعَنَہُمُ اللَّہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآَخِرَۃِ وَأَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُہِینًا۔
ترجمہ: بیشک جولوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور ان کے لئے ذلت آمیزعذاب تیار کررکھا ہے ۔(سورۃ الاحزاب:57)
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی حقانیت وصداقت
کچھ لو گ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کا کربلا تشریف لے جانا او رآپ کی شہادت عظمی نعوذ باللہ سیاسی اور حصول اقتدار کیلئے لڑی جانے والی جنگ ہے!
جبکہ نبیوں کے تاجدار احمد مختار حبیب کردگار صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے افرادکومعرکۂ کربلا کے وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تائید ونصرت کرنے کے لئے حکم فرمایا ،کیاکوئی صاحب ایمان یہ کہنے کی جرات کرسکتاہے کہ حضور علیہ الصلوۃ السلام نے حب منصب اوردنیا طلبی میں کسی کی مدد کرنے کے لئے فرمایاہو؟ العیاذباللہ!
جیسا کہ کنزالعمال شریف میں حدیث پاک ہے:
إِنَّ اِبْنِیْ ہَذَا یَعْنِی الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِأَرْضٍ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ یُقَالُ لَہَا کَرْبَلَاء ، فَمَنْ شَہِدَ ذَلِکَ مِنْہُمْ فَلْیَنْصُرْہُ- (البغوی وابن السکن والباوردی وابن مندہ وابن عساکر عن أنس بن الحارث بن منبہ-
ترجمہ:یقینا میرا یہ بیٹایعنی حسین رضی اللہ عنہ عراق کے ایک علاقہ میں شہیدکیا جائے گا، جسے کربلا کہا جائے گا،توافراد امت میں سے جو اس وقت موجود ہو اسے چاہئیے کہ ان کی نصرت وحمایت میں کھڑاہوجائے۔ (کنز العمال،حدیث نمبر34314-)
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو کس طرح دنیا کے ناپائدار اقتدار کی طلب ہوسکتی ہے، جبکہ آپ ہی کے گھرانہ سے ساری خلقت کو زہد وورع ، تقوی وپرہیزگاری اور قناعت کی دولت ملی ہے۔ سید الشہدا ء رضی اللہ عنہ کو اس دنیائے فانی کی کس طرح حرص و طمع ہوسکتی ہے جبکہ آپ کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد مبارک ہے :
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا .
ترجمہ:ایک کوڑابرابرجنت کی جگہ دینا اور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے،(بخاری شریف باب ماجاء فی صفۃ الجنۃحدیث نمبر 3250)
جس جنت میں ایک چابک برابرجگہ دنیاومافیہا سے بہتر ہے، آپ تواسی جنت میں رہنے والے جوانوں کے سردار ہیں جیسا کہ جامع ترمذی شریف کی روایت ہے:
الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ:حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔ (جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام .حدیث نمبر4136)
خصوصی سرفرازی
معجم کبیر طبرانی،جامع الاحادیث اورکنز العمال میں حدیث مبارک ہے:
عَنْ فَاطِمَۃَ بنتِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنَّہَا أَتَتْ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَکْوَاہُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ ! ہَذَانِ ابْنَاکَ فَوَرِّثْہُمَا شَیْئًا، فَقَالَ:أَمَّا الْحَسَنُ فَلَہُ ہَیْبَتِی وَسُؤْدُدِی، وَأَمَّا حُسَیْنٌ فَلَہُ جُرْأَتِی وَجُودِی.
ترجمہ:خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !یہ آپ کے شہزادے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں! تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن' میرے جاہ وجلال اور سرداری کا وارث ہے اور حسین' میری جرات و سخاوت کا۔ (معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر-18474جامع الاحادیث للسیوطی، مسانید النساء ، مسند فاطمۃ رضی اللہ تعالی عنہا حدیث نمبر: -43493 کنز العمال،باب فضل الحسنین رضی اللہ عنہما، حدیث نمبر37712)
شہادت عظمی
آپ کی شہادت عظمی ،روز عاشورہ ،دس(10) محرم الحرام سنہ اکسٹھ(61) ہجری میں ہوئی، جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں نقل فرمایاہے:
قال الزبیر بن بکار: قتل الحسین یوم عاشوراء سنۃ إحدی وستین وکذا قال الجمہور۔
اولاد امجاد
آپ کوجملہ نو اولاد امجادہوئیں چھ شہزاد ے اورتین شہزادیاں(1)حضرت علی اکبررضی اللہ عنہ (2)حضرت علی اوسط (امام زین العابدین رضی اللہ عنہ) (3) حضرت علی اصغررضی اللہ عنہ (4)حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ(5)حضرت محمد رضی اللہ عنہ (6)حضرت جعفررضی اللہ عنہ (1)حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا(2) حضرت سیدہ سکینہ رضی اللہ عنہا(3)حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاہیں-(نورالابصارفی مناقب اٰل بیت النبی المختار،ص:52، للعلامہ شبلنجی مولود1250ھ)