02 مارچ, 2019

ایک فرق سمجھیے

ایک فرق سمجھیے
وکلاء اورجج صاحبان ، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو عزت ہمارے قانون نے دی۔
اور علماء کو عزت اللہ اور اس کے رسول ﷺنے دی۔
علماءکو ایسےہی سمجھ لیجئے جیسے وکلاء اورجج صاحبان ، جیسے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج صاحبان ،پس جس طرح ہائی کورٹ کے جج بلکہ ایک ٹرائل کورٹ کے جج کی بھی مخالفت جائز نہیں۔
تو اسی طرح عوام کو علماء کی مخالفت کب جائز ہوگی، میں یہ نہیں کہتا کہ علماء سے غلطی نہیں ہوتی ،بلکہ غلطی ہوجاتی ہے 
مگر اس کا پکڑنا عوام کا کام نہیں بلکہ علماء ہی کاکام ہے۔
بہت سے لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں وہ مذاہب فقہاء اور علماء حق کے فتوؤں میں اختلاف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ جب علماء میں اختلاف ہے تو ہم کدھر جائیں۔
حالانکہ بات بالکل صاف ہے کہ جس طرح کسی بیمار کے معاملہ میں ڈاکٹروں کا اختلاف رائے ہوتا ہے تو ہر شخص یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سے فنی اعتبار سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار،سپیشلسٹ کون ہے۔
بس جس کو زیادہ تجربہ کار، ماہر ،سپیشلسٹ سمجھتے ہیں اس سے علاج کرواتے ہیں دوسرے ڈاکٹروں کر برابھلا نہیں کہتے۔
اسی طرح ایک ہی آئین و قانون کو پڑھنے کے باوجود مقدمہ کے وکیلوں میں اختلاف ہو جاتا ہے، تو جس وکیل کو زیادہ قابل اور تجربہ کار جانتے ہیں اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں، دوسروں کی بدگوئی کرتے نہیں پھرتے۔
عوام کو یہی طریقہ علماء کے بارے اپناناچا ہئے،جس کو تقویٰ پرہیز گاری ،علمی اعتبار سے مستند،اور اپنے فن میں ماہر سمجھیں اس کی بات کو لے لیں دوسروں کو چھوڑ دیں،بد زبانی اور بد کلامی سے پرہیز کریں۔
جس طرح انجینئر وکالت میں ماہر ، معتبر نہیں ہوتا۔
جس طرح ڈاکٹر کی رائے انجینئر کے لیے اہمیت نہیں رکھتی۔
جس طرح ایک درزی گاڑی مرمت کرنے میں مہارت نہیں رکھتا۔
جس طرح ایک جج ملاح کی طرح کشتی کنارے لگانے میں ماہر نہیں ہوتا۔
جس طرح ہر شعبہ زندگی میں ما ہر ،سپیشلسٹ کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔
اسی طرح دین کے معاملے میں بھی دین کے ماہر لوگوں کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
تفصیلات اگلے کالم میں
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

کمی ہے یا احساس کمتری

کمی ہے یا احساس کمتری
جب کسی بھی معاشرے میں رہنے والا احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم میں یقیناََ کوئی کمی ہے ،کبھی کہتاہےہم میں یہ بھی کمی ہے ،وہ بھی کمی ہے۔
کبھی ایک پھول کو معیار محبت سمجھنے لگ جاتا ہے۔
سارا سال اولڈ ہاوس میں چھوڑ کر ایک دن ماں باپ کو یاد کرکے معاشرے کو مکمل سمجھتا ہے۔
اے مسلمان ! تیرے مذہب ومعاشرے میں کمی کوئی نہیں ہے صرف اپنانے کی ضرورت ہے ۔
اور الحمد للہ ! پھر اسلامی معاشرہ ، کامل ، اکمل ، احسن !
گھر بسانے کے انداز ِمحبت اسلام کے ہے ہی نرالے ۔
قرآن میں میرا رب کہتا ہے۔
اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً
ۭ اس نے تمہاری جنس ہی سے تمہاری بیویاں پیداکیں تاکہ تم ان کی طرف مائل ہو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کو پیداکیا:۔
باقی تو اللہ کے بنائے رشتوں کی قدر ہے،مگر یہ رشتہ اللہ کی اجازت سے تم نے بنایا ہے،اس لئےمحبت کا معیار صرف بیویاں ہیں جن کے ساتھ تم نے مودۃ ومحبت رکھنی ہے، ہر عورت پر نظر نہیں :۔
ایک پھول کو جسم و روح کی قیمت سمجھنے والے۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم بھی دیکھ لے۔
میاں بیوی کا بیٹھ کر محبت وپیار کی باتیں کرنا، ہنسی و دل لگی کرنا، نفلی نمازوں سے بھی بہتر ہے۔ 
کسی ایک بار کےاظہار محبت کو سب کچھ سمجھنے والے
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: “تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے حق میں سب سے اچھا ہو، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے حق میں سب سے اچھا ہوں۔” (مشکوٰة ص:۲۸۱)
اور ہر وقت عورت کو سیدھا کرنے کے چکر میں رہنے والے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں فرماتے ہیں:۔ کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ ٹیڑھی پسلی کی مانند ہے۔( بخاری شریف) 
دیکھو تمہاری ٹیڑھی پسلی کام دے رہی ہے یا نہیں؟
اگر سیدھی کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر ٹیڑھی رہنے دو تو تمہارے لیے مفید ہے، پس ان کے ٹیڑھے پن سے کام چلاؤ۔
اسلام گھر بسانے کے انداز تو سکھاتا ہی ہے، اگر کبھی نوبت یہاں تک پہنچ جائے۔۔
اگر بیوی کو چھوڑنا ہی پڑ جائے، تو پھر بھی حسن سلوک کے ساتھ چھوڑو۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ مہذب معاشرہ ہوسکتا ہے؟
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌ بِاِحْسَانٍ :۔ترجمہ۔ طلاق دو بار ہے، پھر یا تو بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
قرآن کریم تو دولت کے لالچ سے اس حال میں بھی بچا رہا ہے
کیونکہ قرآن میں ہے آیت:۔ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا:۔ 4 ۔ النسآء :20) 
یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو۔
میرا دین کامل ہے بس اپنانے کی ضرورت ہے۔
حضرت انس رضی اﷲتعالیٰ عنہ ہیں کہ جو اپنے بڑے بوڑھوں کی عزت کرے گا اﷲتعالیٰ اس کے چھوٹوں سے اس کو عزت دلائیں گے
جس مذہب اور معاشرے میں ماں باپ کو ہر بار(بار بار) محبت کی نگاہ سے دیکھنا ایک حج و عمرہ کا ثواب ہو۔
اور بیت اللہ کا حج ایک ہی بار فرض ہو، اس سے مہذب معاشرہ کیا ہو گا؟
ماں کے قدم چومنا اور باپ کے ہاتھوں کو بوسہ دینا جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دینا ہو۔
ماں کے قدموں تلے جنت۔
باب جنت کا دروازہ ہو۔
اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا صدقہ ہو۔
سلام میں پہل کرنا نوے نیکیاں،اورسلام کا جواب دینا تیس نیکیاں ہوں۔
صفائی نصف ایمان ہو۔
اور نکاح بھی آدھا ایمان ہو۔
جس مذہب و معاشرے میں ازدواجی حقوق ادا کرنا بھی رات بھر کے نوافل سے افضل ہو۔
جب کہ مجھے یہ سکھایا گیا ! اپنے بھائی کے ساتھ تعاون کرو اگرچہ اس کے ڈول میں پانی ڈال دینا ہی ہو۔
جب ہنڈیا چولہے پر چڑھاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ ڈال لو تاکہ تمہارا ہمسایہ بھی اس سے نفع حاصل کرے۔
اللہ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت گھر لے کر آؤ تو اگر ہمسائے کو نہیں دے سکتے تو چھپا کر لاؤ۔
جب راستہ سے ایک کانٹا ہٹا دینا بھی صدقہ ہو۔
جب یہ سکھایا جائےیتیم کے سامنے اپنے بچے سے پیار مت جتاؤ۔
اسی لئے کہتا ہوں مجھے کمی کیا ہے،کیوں احساس کمتری کا شکار ہوں
مدعا کیا ہے؟
یورپ کہتا ہے۔
اگر پابندیاں ماں باپ لگائیں تو اولڈ مائنڈڈ، حقوق پہ ڈاکا ہے۔
اور اگر وہی پابندیاں بوائے فرینڈ /شوہر لگائے تو وہ بڑا حسّاس ، ذمہ دار ،حیا والا ہے۔
لیکن میرا خالق و مالک جس نے کائنات کو تخلیق کیا سب سے بڑھ کربہت حیا والا ہے، 
اورمیرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیا ایسی تھی کہ جیسے ایک کنواری حیادار لڑکی ہو۔
جب ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یہ جراءت کی کہ مجھے زنا کی اجازت دیجئے صحابہ قتل کو دوڑے، رسول اللہ ﷺنے قیامت تک کے لئے ایک حکمت بھرا ارشاد فرمایا :۔ 
فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کوئی تیری ماں ،بہن، بیٹی کے ساتھ زنا کرے؟ اس نے کہا ہرگز نہیں
فرمایا اس طرح کوئی بھی اپنی ماں ،بہن،بیٹی کے لئے اس رستے کو پسند نہیں کرتا۔
پھول کے جھوٹ سے کسی کی زندگی برباد مت کرنا کیونکہ ان پھولوں کا تعلق خوشی و غمی سےبھی ہے ، ایک دن جنازے اور قبر پر بھی ایسے ہی پھول ساتھ جائیں گے۔
تحریر :۔ محمدیعقوب نقشبندی اٹلی

سبسڈی سے زیادہ ہے ضروری، حکمت عملی

سبسڈی سے زیادہ ہے ضروری، حکمت عملی 
سبسڈی جو عربی میں اِعَانَةُ : اور اردو میں امداد کہلاتی ہے ۔
یہ وہ رقم ہے جو حکومت کسی ادارہ کو برائے ترقی یا بیرونی مقابلہ کے لئے دیتی ہے ۔
کم و بیش تمام اسلامی ممالک اپنے اپنے شہریوں کو حج کے موقع پر سہولیات فراہم کرتے ہیں، حتیٰ کے انڈیا جیسی لبرل ریاست بھی سات سو کروڑ ہر سال حاجیوں کے لیے سبسڈی دیتی ہے۔
ایک دو اہم سوال ہیں جو بار بار انباکس میں رسیو کئیے ۔
سوال :۔ کیا بیت المال سے زکوۃ کے پیسے سے سبسڈی دی جا سکتی ہے؟ 
جواب :۔ جی نہیں 
سوال:۔ تو کیا حکومت دیگر ٹیکسز سے سبسڈی دے سکتی ہے جب کہ وہ پیسہ غریبوں کا ہے؟
جواب:۔ ٹیکسز صرف غریبوں کا پیسہ نہیں اس سے ہر شہری کو سہولت دی جا سکتی ہے اور دی جانی چاہیے،
چاہے وہ حج ہو یا کوئی اور سفر یا صحت کے معاملات ہوں یا خوراک کے۔
سوال:۔ سوال یہ ہے کیا ٹیکسز کے ذرائع تمام کے تمام حلال ہیں یا حلال وحرام مکس ہیں؟ 
جواب:۔ میں سمجھتا ہوں اس کا معقول جواب مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے دیا ہے ۔
حکومت پر حج پر سبسڈی دینا کوئی واجب نہیں اور اگر دینا چاہتی ہے تو شرعاًممنوع بھی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی آمدن مخلوط ہوتی لیکن اس میں جائز ذرائع بھی شامل ہیں ، اس لئے حکومت حج کیلئے جوسبسڈی دے تو وہ یہ سمجھے کے یہ سبسڈی جائز ذرائع سے دے رہی ہے اورحاجی بھی یہ سمجھے کہ اس کویہ سبسڈی جائز ذرائع سے دی جارہی ہے ۔
اگر اس پر اعتراض کیا جائے تو پھر پوری دنیا کے مسلمانوں کے پاس کچھ بھی جائز نہیں بچے گا کیونکہ ہر جگہ پر ملاوٹ ہے کہیں پر سود کی کہیں پہ ناجائز مال کی حتیٰ کہ ہمارے حج، زکوۃ، مساجد کا چندہ بھی اس سے محفوظ نہیں. 
پہلی بات تو یہ یاد رکھیے کہ ٹیکسز کا پیسہ صرف غریبوں کا ہی نہیں ہوتا، 
پیسے کے ذرائع عمومی طور پر امیروں کے ہی ہوتے ہیں لیکن غریبوں کی ضروریات کے لئے اور ملک کی فلاح بہبود کے لئے ہی ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں۔
ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد، ریاست مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور اس میں مزید اصطلاحات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کیں۔
مثلاً :۔ 
ائمہ مساجد کی تنخواہیں مقرر کرنا۔
سڑکوں کی تعمیر اور وقفے وقفے سے سرائے قائم کرنا. 
مجاہدین اور انکی اولادوں کے وظائف مقرر کرنا۔
حاجیوں کے لئے پانی کا انتظام کرنا۔
اسی طرح ہر حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لیے سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے. 
اسلامی حکومتوں میں بھی آمدن کے ذرائع ایک سے زیادہ ہوتے ہیں جس طرح زکوۃ، عشر، خراج، مال غنیمت وغیرہ ۔
اسی طرح موجودہ جمہوری حکومتوں کے پاس بھی آمدن کے ایک سے زائد ذرائع ہیں زکوۃ اور عشر ہے اور ہر قدم ٹیکسز جیسے بجلی، پانی، گیس، پٹرول، حتیٰ کے کھانے پینے پر ٹیکسز ہیں روڈ پر چلنے کا ٹیکس ہے، گاڑی خریدنے اور چلانے پر ٹیکسز ہے ۔
تو ٹیکسز اسی لئے دیئے جاتے ہیں کہ اس کے بدلے میں حکومت شہریوں کو سہولتیں فراہم کرے۔
اس میں دو باتیں ناجائز ہو سکتی ہیں ۔
ایک یہ کہ کوئی حاجی حج پر جانے کے لئے حکومت سے امداد طلب کرے، جبکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا بلکہ ہر سال درخواستیں زیادہ ہوتی ہیں اور حکومت کم لوگوں کو اجازت دیتی ہے، کیونکہ سعودی عرب کی طرف سے ایک مخصوص کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے۔
اور دوسری ناجائز بات اقرباپروی ہے کہ کوئی وزیر، مشیر، یا حکومتی عہدیدار کسی خاص شخص کو سرکاری پیسے سے حج پر لے جائے۔
لیکن جب کسی حاجی کی طرف سے امداد کا مطالبہ بھی نہ ہو۔
اور اقرباپروری بھی نہ ہو ۔
تو بطور پاکستانی شہری کے ان کو سہولت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہ سبسڈی سے ہو یا کسی بھی ذریعہ سے۔
اور یہ کہنا کہ حج صاحب استطاعت اور مالداروں پر فرض ہے اس لیے انہیں جیسے چاہے لوٹا جائے یہ نہ دین ہے نہ انسانیت صاحب استطاعت کا معنی یہ نہیں حکومت جس طرح بھی لوٹنا چاہے صاحب استطاعت لُٹنے کے لئے تیار ہوجائے۔
سبسڈی سے زیادہ ضروری 
1 ۔سرکاری کوٹہ کے حج کو ختم کیا جائے ۔
2۔حجاج کرام کے لیے وی آئی پی اور عام حاجی کی تفریق ختم کی جائے 
3۔ وی آئی پی ہوٹلز کی بکنگ ختم کی جائے.۔
4:۔ عام حجاج کے لیے حرم شریف کے قریب پرانی مگر مہنگی رہائشیں کرائے پر نہ لی جائیں ، 
5:. مہنگی اور پرانی عمارات کے بجائے حرم شریف سے دور نئی عمارات مگر سستی کرایہ پر حاصل کی جائیں۔
6:۔ ٹرانسپورٹ کرایہ پر لیں اور حجاج کو حرم شریف اور حرم شریف سے ہوٹل تک منتقل کریں۔
یہ وہ اقدامات ہے کہ اگر ان کو اختیار کیا جائے اور صحیح طریقے سے عمل درآمد کروایا جائے تو شاید سبسڈی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
تحریر :۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

دفاعِ ختم نبوت اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ

دفاعِ ختم نبوت اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم وصال کے حوالے سے ایک تحریر 
خلیفہ اول کو خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی دو طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا(1) ایک منکرین زکوۃ اور(2) دوسرا مرتدین (منکرین ختم نبوت)
دوسری طرف کیفیت یہ تھی۔ کافروں نے کہا نبیﷺ کی برکت جاتی رہی، منافقین کھل کر سامنے آگئے ، ضعیفُ الایمان دین سے پھر گئے،بہت سے قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا، مسلمان ایک ایسے صدمے میں شکستہ دل اور بے تاب وتواں ہور ہے تھے جس کا مثل دنیا کی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا۔ان کے دل گھائل ، اور آنکھوں سے اشک جاری تھے، کھانا پینا لذت نہیں دیتا تھا،زندگی ایک ناگوار مصیبت نظرآ ۤتی تھی۔اذان دینے والے بلال چہرہ مصطفی کے بغیر اذان نہیں دے پاتے تھے، ایسے وقت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین کو نظم قائم کرنا، دین کا سنبھالنا ، مسلمانوں کی حفاظت کرنا، منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کے سیلاب کو روکنا کس قدر دشوار تھا۔۔۔۔
ختم نبوت کے 11 منکرین مختلف جگہوں پر دعوی نبوت کرچکے تھے جن میں سے تین وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری میں ہی دعوی نبوت کر دیا تھا جن میں اسود عنسی مگر یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں واصل جہنم ہو چکا تھا ،مسیلمہ کذاب، وغیرہ 
ایسے وقت میں امیرالمومنین سیدنا صدیق اکبر نے ان تمام حالات کا مقابلہ کیا منکرین زکوۃ کے ساتھ جہاد کر کے ان کو زکوۃ کے نظام میں واپس لے کے آئے دوسری طرف منکرین ختم نبوت کا پوری دنیا سے قلع قمع کیا
اے امیرالمومنین تیری جراءت کو سلام
جہاں پر طاقت کا توازن بھی نہ ہو پھر بھی میدان عمل میں اترے تو یہ ایمان کی قوت ہے۔
جنگ یمامہ میں مسلمانوں کی طاقت 13،000
اور مسیلمہ کذاب بدبخت کی قوت 40،000
اور بارہ سو1200 مسلمانوں کی شہادت جن میں سے 70 حفاظ بعض نے یہ تعداد سات سو بتائی ہے اور اکثریت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تھی۔۔۔۔
اور مسیلمہ کذاب کے 21000 واصل جہنم ہوئے ۔۔۔۔۔
یہ تھا وہ پہرہ جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے ختم نبوت کی حفاظت کے لئے دیا۔۔۔ 
ایک مثال عرض کرتا ہوں!
ایک ضعیف العمر کمزور شخص سارا دن دھوپ میں کھڑا رہ کے تو اپنی عزت نفس اور اپنی اولاد کی عزت نفس پر پہرہ دیتا ہے تو پھر رسول اللہ کی عزت پر کمزوری کا بہانہ کیوں کرتا ہے.... 
آج جب ختم نبوت پر بات کرنے والوں کا لوگ مذاق اڑاتے ہیں تو پھر قرآن کی یہ آیت دل و دماغ میں گردش کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔
آپ بھی قرآن کی آیت کو پڑھیے صرف ترجمے کے الفاظ پہ ہی غور کرلیجئے ۔۔۔
یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ اس آیت کا مخاطب ایمان والا ہے کافر نہیں ۔۔۔۔۔۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ۡ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ۭ 54؀
اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو (پھر جائے) عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا، جن سے اللہ محبت رکھتا ہو اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہوں، مومنوں کے حق میں نرم دل اور کافروں کے حق میں سخت ہوں، اللہ کی راہ میں جہاد کریں، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوں، 
اہل ایمان میں چار نمایاں صفات بیان کی جارہی ہیں۔ (١) اللہ سے محبت کرنا اور اسکا محبوب ہونا۔ (٢) اہل ایمان کے لیے نرم اور کفار پر سخت ہونا (٣) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (٤) اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کو ضرورت نہیں کہ ہم اسلام پر استقامت کے ساتھ رہیں بلکہ ہمیں اپنی بقا کے لئے ضرورت ہے کہ ہم دین اسلام پر ڈٹے رہیں... 
آج ذرا غور کیجئےۤ! آج ہم نے اس آیت کا الٹ نہیں کررہے؟ 
کہ کافروں کے لئے بچھے جا رہے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔۔۔۔
میرے بھائیو غور کرو اس بات پر کہ! 
جب کوئی بڑی عالمی طاقت ایک بلڈنگ کے بدلےمسلمانوں کے پورے ملک تباہ کر دے۔۔
جب عالمی طاقت ایک شخص کی تلاش میں ایک ملک کی سالہا سال اینٹ سے اینٹ بجائے ۔
جب ہمارا ہمسایہ ملک مسلمانوں کا مانا ہوا حق کشمیر اس کو دبائے بیٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے بندہ خدا جب مسلمان کی عزت نفس پر پہرہ دینا سیکھے گا تو بقاء حاصل ہو گی ..... 
تحریر :۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

20 اکتوبر, 2018

اولاد کی تعلیم و تربیت

 اولاد کی تعلیم و تربیت
بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک بات یاد رکھیے کہ جانور اور انسان میں ایک بنیادی فرق ہے کہ جانور صرف بچوں کو پالتا ہے مگر انسان اولاد کو پالتا بھی ہے اور ان کی تربیت بھی کرتاہے....
پہلا سوال یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کی مناسب عمر کیا ہے تو یہ بات یاد رکھیے کہ علماء نے فرمایا ہے کہ.
سات سال تک بچے کو اپنے سینے سے لگا کر رکھو تاکہ ماں باپ کی محبت و شفقت کی خوشبو میں اس کی تربیت ہو، پھر 14ویں سال تک اس کو غلاموں کی طرح رکھو یعنی اس کی ہر طرح سے مکمل نگرانی کرو، پھر21 اکیسویں سال تک اس کو دوست بنا کر رکھو تاکہ باہر کے برے دوستوں سے بچنے کا موقع اس کو میسر رہے.. اب 21 سال کے بعد وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے والا ایک نوجوان بن چکا ہوگا......
آج کے ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں کہ بچہ پیدا ہونے کے فورا بعد سیکھنے کے عمل سے گزرنا شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ چھ مہینے کی عمر کو پہنچنے تک کئی سو الفاظ اپنے دماغ میں محفوظ کر لیتا ہے اور تین سال کی عمر کو پہنچنے تک تقریبا ضرورت کی تمام زبان سیکھ لیتا ہے... 
مگر فی زمانہ ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں آج کے اس دور میں دو تین سال کے بچے کی انگلی موبائل فون یا آئی پیڈ وغیرہ پر  چلنا شروع ہوتی ہے... 
بچہ خود سے کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر وہی جو ماں باپ اسے دکھانا چاہیں اس لئے ہمیشہ بچے کی تربیت کے لیے اسے ابتدائی سالوں میں اچھا دکھانے کی کوشش کریں... 
ٹھیک ہے آپ نے جوانی کے ایام شادی سے پہلے جیسے بھی گزارے ہوں جب آپ کی اولاد آپ کے سامنے سیکھنے کے مراحل میں آجائے تو اپنی عادتوں کو بدل لیجئے... 
کیونکہ اَلْوَلَدٌ سِرٌّ لِاَبِیْہِ اولاد والدین کا عکس ہوتی ہے.. 
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور دین فطرت دین اسلام ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں... 
اور یہ یاد رکھیے کی تربیت کوئی گولی یا ٹیبلٹ نہیں کہ آپ بچے کو کھلا دیں گے اور اس کی تربیت ہو جائے گی بلکہ یہ ایک مستقل عمل ہے.. جو آپ کریں گے بچہ اسی سے سیکھے گا... 
ایک عورت اپنے دو سال کے بچے کو لے کر ایک دانشور کے پاس گئی کہ مجھے یہ بتائیں کہ میں اپنے بچے کی تربیت کس طرح سے کروں دانشور نے کہا بی بی تجھے تین سال پہلے میرے پاس آنا چاہیے تھا اس نے کہا مگر بچہ تو ابھی دو سال کا ہے میں تین سال پہلے کیسے آ جاتی دانشور نے کہا پہلے  تجھے (یعنی ماں کو) تربیت کی ضرورت تھی پھر بچے کی تربیت ہوگی.... 
اور تربیت کرنے میں خوف اور ادب میں فرق سکھائیں.. 
ماں باپ کا ادب، نانی، نانا، دادی دادا، کا ادب، اساتذہ کا ادب، اپنے سے بڑوں کا ادب، اُن کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے ادب کرنا سکھائیں نہ کہ ان کا خوف دلوں میں بٹھائیں.. 
خوف اگر سکھانا ہو تو اللہ تبارک و تعالی کا، گناہ سے بچنے کا کسی کا حق کھانے کا، کسی کے ساتھ زیادتی کرنے کا خوف دلوں میں بٹھائیں... 
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
یا ایھالذین آمنو قو انفسکم واہلیکم نارا،،، اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ....... 
تربیت اولاد میں ماں کا کردار
معاشرہ اگر وجود میں آیا تو صرف حضرت آدم علیہ السلام  سے نہیں بلکہ اماں حوا سے معاشرہ بنا...
کیونکہ آدم علیہ سلام اگر اکیلے جنت میں ہزاروں سال بھی رہتے تو اکیلے ہی ہوتے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے معاشرہ( سوسائٹی) بنانا چاہی تو آدم و حوا کو رشتہ ازواج میں جوڑا، پھر اولاد کی نعمت عطا کی اور ان معاشرے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے آئین یعنی شریعت عطا کی، تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانا جا سکے...
                                   پہلی درس گاہ
معاشرے میں سب سے پہلے ماں اپنا کردار نبھائے گی اس نظام عدل و انصاف، معاشرتی تقاضے ماں باپ نے اپنی اولاد کو منتقل کرنے ہیں، یہ درست ہے کہ بیٹا ماں باپ کا سہارا ہے مگر بیٹی کے بغیر یہ معاشرہ مکمل ہی کب ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا!
وجودزن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ
اور تصویر کائنات میں یہ جو رنگ ہے، 
یہ کہیں بے راہ روی اور جنسی آوارگی کا رنگ بھی ہو سکتا ہے
کہیں گناہ کا رنگ بھی ہو سکتا ہے، 
لیکن اللہ قرآن میں فرماتا ہے... 
صبغۃ ﷲ ومن احسن من ﷲ صبغۃ 
ترجمہ) سارے رنگوں میں اللہ کا رنگ ہی بہترین اور خوب ہے..........
وہ عورت جس سے تصویر کائنات میں رنگ ہے اگر اس کے ذریعے رنگ چڑھانا ہے تو سب سے بہترین رنگ اللہ کا رنگ ہے اگر ماں کی تربیت ہوئی تو اولاد کی تربیت ممکن ہے... 
اس لیے اپنی اولادوں کے رشتے طے کرتے ہوئے کردار میں اعلیٰ خاندان، نسل، اخلاق اور تعلیم کا معیار ضرور مد نظر رکھو... 
حسن ظاہری سے اخلاق کا حسن کہیں اعلی ہے ظاہری حسن آج نہیں تو کل اپنی کشش کھو دے گا لیکن اخلاق کا حسن بڑھتی عمر کے ساتھ اور بڑھتا جائے گا جو اولاد کی بہتر تربیت کا سبب بنے گا...... 
کسی صاحب عقل نے کہا! 
ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے اور ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے... 
اور یہ بھی کسی نے کہا ہے .! 
تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا.....
ایک بچے کی سب سے پہلی درس گاہ اس کی ماں ہوتی ہے، اور باپ اس درسگاہ کا پرنسپل ہوتا ہے. ماں تربیت کرتی ہے باپ منتظم ہوتا ہے...... 
ماؤں کے اثرات دیکھنے ہیں توحضرت مریم سلام اللہ علیھا کو دیکھیے، ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت دیکھئے فاطمہ کی صورت میں.. 
سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت دیکھئے امام حسن و حسین کی صورت میں.. 
ام الخیر حضرت فاطمہ والدہ غوث اعظم رضی اللہ تعالئ عنہ کی تربیت غوث اعظم کی صورت میں دیکھیے.. 
حضور غوث اعظم رضٰی اللہ عنہ پانچ برس کی عمر میں جب پہلی مرتبہ بسم اللہ پڑھنے کی رسم کیلئے کسی بزرگ کے پاس بیٹھے تو اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور الم سے لے کر اٹھارہ پارے پڑھ کر سنادئیے ۔اس بزرگ نے فرمایا بیٹے اور پڑھیے۔فرمایا بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیونکہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا۔جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں میں نے سن کر یاد کرلیا ۔
ماں کی تربیت کو دیکھنا ہے تو خواجہ بہاوالدین زکریا کی والدہ کو دیکھیے... 
حضرت خواجہ بہاؤالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ نے بھی زمانہ حمل میں جو چودہ پارے حفظ کئے تھے وہ پڑھتی تھیں ۔ چنانچہ خواجہ بہاوالدین زکریا نے بھی اپنی رسم بسم اللہ میں چودہ پارے سنا دیے اور فرمایا میں نے یہ اپنی ماں کے پیٹ میں اتنے ہی سنے تھے ۔
آج کی مائیں جس انداز میں پرورش کر رہی ہیں ذرا اس کی چند جھلکیاں ملا حظہ کیجئے۔
دوران حمل ماں کا زیادہ تروقت ٹی وی کے آگے گزرتا ہے ۔اگر لائٹ نہیں ہے تو جنسی رومانی ناول پڑھ کر وقت گزارے گی اور اگر زیادہ طبیعت مچلی تو کہیں آؤٹنگ پر نکل جاتی ہے…باہر کی ہوا لگوانے …جی ہاں نماز پڑھتے ہوئے اسے تکلیف ہوتی ہے اس کا بی پی ہائی ہو جاتا ہے ۔لیکن ٹی وی دیکھتے ہوئے اور ناول پڑھتے ہوئے یا باہر کی ہوا لگواتے ہوئے ،گھومتے پھرتے اس کا بی پی ہائی نہیں ہوتا…
خلاصہ کلام یہ..... 
جو بوؤ گے وہی کاٹو گے 
ہمیشہ گالی کے بدلے میں گالی آتی ہے،، سلام کے بدلے میں سلام اچھے والدین کی اولاد عموما اچھی نکلتی ہے... 
کیونکہ فصل بیج سے ہوتی ہے.............
تحریر :-  محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

30 اگست, 2018

اسلام میں فریڈم آف اسپیچ 
جس کا مطلب ہے آزادی اظہار رائے ۔ 
عام طور پر اسلام یا مسلمان پر الزام لگایا جاتاہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے۔ مگر حقیقت میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ دیا، اس سے پہلے تو لوگ غلام تھے. مگر اسلام نے انسانوں کو انسانیت کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان کیا۔ اسلام ہی ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے، جو چاہے بول سکتا ہے۔ اللہ نے"لااکراہ فی الدین"(دین میں کوئی جبر نہیں)،
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیاسی اور معاشرتی نظام چلانے کے لیے "وشاورھم فی الامر"(کہ معاملات میں لوگوں سے مشورہ کرو)
جیسے سنہری اصولوں سے واضح کیا کہ اسلام اظہاررائے کی آزادی کاحامی ہے۔لیکن اسلام اعتدال پسند ہے، لیکن فساد کے خلاف ہے، چنانچہ اسلام نے انسان کو خبردار کیا تو بے لگام بھی نہیں ہے ارشاد فرمایا:"مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید" انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت لکھنے کے لیے تیار۔
پھر :فریڈم آف سپیچ :کی حدیں مقرر  فرمائیں سورہ حجرات میں فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں اڑا سکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول (جاسوسی نہیں کر) سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکارسکتا۔    سورہ حجرات 
 اظہار رائے کی آزادی میں اسلام نے ایک طرف یہ بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو ساتھ میں حدود بھی مقرر کیں...... 
دوسری طرف مغرب آزادی اظہار رائے کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے. پھر بھی بے شمار اخلاقی حدود اور پابندیاں مجبوری سمجھتا ہے مثلاً ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم کی توقیر  ، عدلیہ اور استاد کی عزت ، کسی کی ہتک عزت اور پھر اس پر دعویٰ کرنے کا حق. اور دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتاہے۔ کینیڈا کے قانون میں عیسائیت کی توہین وتنقیص جرم ہے۔ 
دوسری طرف مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیا جاتا ہے....
مگر کیا کریں اے اہل یورپ جس طرح تمہاری کچھ اخلاقی مجبوریاں ہیں اسی طرح  ہماری کچھ ایمانی مجبوریاں ہیں قرآن ہمیں یہ کہتا ہے قل.. ان کان اباؤکم وابناؤکم( سب سے بڑھ کر رسول اللہ کی محبت) 
ہماری قیمتی ترین اساس محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھے........................ 
جب ان کی حالت یہ ہے27 جنوری 2003 میں ٹیلی گراف اخبار نے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتا دکھایا گیا۔ اس پر اسرائیل اور ان کے ہمنواؤں نے خوب ہنگامہ آرائی کی جس پر بالآخر اخبار نے معذرت کی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے حضرت عیسیٰ ؑکے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا۔
 اب آتے ہیں اس طرف کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا معاملہ نیا نہیں یہ عمل پچھلی کچھ صدیوں سے کسی نہ کسی رنگ و صورت میں جاری ہے۔ اس انتہائی قبیح عمل کے پس پردہ مقاصد بلاشبہ مسلم امت کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ ان کی منزل کا رخ بدلنا ہے
(1) نمبر ایک امت مسلمہ کی اجتماعی قوت کو پامال کرنا ہے. (2) شدت پسندی کی جو چھاپ اسلام اور اہل اسلام پر غیر مسلموں نے چسپاں کر رکھی ہے اس کا عملی ثبوت اپنی عوام کو دکھانا.... 
(3)یورپی ممالک میں اسلام کی نشر و اشاعت کو  روکنا اور لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
(4) مسلمانوں کے اوقات کو احتجاج اور نفرت میں ضائع کرنا ہے..... 
اس لئے مسلمانوں کو اس کے مستقل سد باب کے لیے بڑی ہوش مندی سے کام لینا چاہیے.. 
میرے خیال میں کسی گیرٹ ویلڈر جیسے گھٹیا انسان یا چند لوگوں کی تصویریں شائع کرکے ہمیں نشر و اشاعت کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے.. 
ہولوکاسٹ پر تصویریں اپ لوڈ کرکے یا تبصرہ کرکے یہودیوں کے موقف کو مضبوط نہیں کرنا چاہیے.. 
اور بعض نادان دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہولوکاسٹ پر تبصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کا جواب ہے تو وہ انتہائی نادان ہیں کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با کمال اور کہاں یہودیت ... 
اگر کچھ کرنا ہے تو جو ہالینڈ یا کسی بھی ایسے یورپین ملک کی نیشنلٹی رکھتے ہیں جو ایسے قبیح کاموں میں ملوث ہیں تو ان ممالک کی اعلیٰ عدالتوں میں جائیں اور مستقل سدباب کے لیے اپنا کردار ادا کریں اچھے سے اچھا وکیل کرکے.. 
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لیے وکیلوں کی فیسیں کہاں سے آئیں گی تو جو لوگ لاکھوں روپیہ احتجاج کے لیے پاکستان میں بھیج سکتے ہیں وہ یہاں پر بھی بھرپور تعاون کے لیے تیار ہوں گے... 
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

12 جنوری, 2018

ہمارا معاشرہ کس کا کیا کردار ہے

 خطبہ جمعہ کا مختصر خلاصہ

ہمارا معاشرہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے ایسا نہیں تھا برائیاں تو ہر زمانے میں موجود رہتی ہیں ۔ مگر بیٹیوں کی عزتوں پر اس کثرت سے ڈاکے نہیں ڈالے جاتے تھے۔۔ 
معصوم بچوں بچیوں کو اس قدر بے رحمی بے دردی اور بے حیائی اور بے غیرتی سے نہیں روندا جاتا تھا ۔ 
اس میں کس کس کا کردار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) ملکی اور مغربی میڈیا کا کردار
2) مرد و زن کا بے حجابانہ اختلاط
3) مغربی تہذیب کو اپنانے کی کوشش
4) تفریح کے لیے بے حیائی فحاشی سیکس وڈیو کا فروغ
5) خیالی دنیا یعنی sex فلم سے حاصل کردہ لذت کو حقیقی معنوں میں حاصل کرنے کی کوشش۔
6) دو تہذیبوں میں بٹ جانا ( آدھا تیتر آدھا بٹیر)
7) نکاح میں تاخیر ( جہیز کا مطالبہ اور دیگر وجوہات)
(8) زنا کو اس کا پرسنل فعل کہنا اور دوسرے نکاح کو معیوب سمجھنا
9) زنا سستا اور نکاح مہنگا اور مشکل
10) مذہبی رہنماؤں کا غلط رویہ ( جس طرح عیسائی اپنی رسومات پر اڑے رہے اور آج نہ ان کی رسومات رہی نہ ہی مذہب)
11) تربیتی نظام کا ختم ہو جانا ( جو کہ کسی زمانے میں دادی دادا یا گھر کا سربراہ یا والدہ کہانیوں کے ذریعہ سے تربیت کرتے تھے ۔) مثلا۔۔ بیٹا نمک زمین پر گر جائے تو فورا اٹھاؤ ورنہ قیامت کے دن آنکھوں کی پتلیوں سے اٹھانا پڑے گا اگرچہ بہت سی کہانیاں فرضی ہوتی تھی لیکن نصیحت سے بھرپور
12) اسلامی تہذیب سے کنارہ کشی اور بغاوت
13) صحت مند تفریح کا فقدان( آج کرکٹ ہاکی فٹبال کی جگہ موبائل گیمز اور Sex وڈیوز )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ میری امت کے لئے معافی ہے لیکن جب علانیہ گناہ کرے گی اس کی معافی نہیں ہوگی ۔۔۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

19 دسمبر, 2017

مستحباتِ نماز کی تفصیل

مستحباتِ نماز کی تفصیل
مستحب عمل کو ادا کرنے سے نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے اور اجر و ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔۔۔
مستحب عمل کو ادا کرنے پر ثواب ملتا ہے اگر کسی سے کوئی مستحب رہ جائے تو اس کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوتا۔۔
نماز میں درج ذیل اُمور کا بجا لانا مستحب ہے:

1) قیام میں سجدہ کی جگہ نگاہ رکھنا۔
2) رکوع میں قدموں پر نظر رکھنا۔
3) سجدہ میں ناک کی نوک پر نظر رکھنا۔
4) قعدہ میں گود میں نظر رکھنا۔
5) سلام پھیرتے وقت دائیں اور بائیں جانب کے کندھے پر نظر رکھنا۔
6) جمائی کو آنے سے روکنا، نہ رکے تو حالتِ قیام میں دائیں ہاتھ سے منہ ڈھانک لیں ، اور نماز کی دوسری حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پیٹھ سے ، نماز کے علاوہ بھی یہی طریقہ اپنائیں۔۔
7) مرد تکبیر تحریمہ کے لیے کپڑے سے ہاتھ باہر نکالیں اور عورتیں کپڑے کے اندر رکھیں
(8) کھانسی روکنے کی کوشش کرنا۔
9) حَيَ عَلَی الْفَلَاحِ پر امام و مقتدی کا کھڑے ہونا، بعض فقہاء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔
10) حالتِ قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار
انگل اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کا فاصلہ رکھیں۔

27 نومبر, 2017

آپ کے جسم مبارک سے نکلنے والی ہر چیز پاکیزہ ہے

خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی
ہماری پرابلم یہ ہے کہ ہم کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے ۔ علماء کی مجالس میں نہیں بیٹھتے ۔ سکول کالج کے لٹریچر میں ان مضامین کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ان میں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے ۔ جو ایک طویل عرصے سے روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں ،اسلام سے اور زیادہ دوری ہوتی ہے ،اس کی وجہ مساجد کی کمی ، لائبریری کا نہ ہونا ، اور سب سے بڑی وجہ کام کاج کے اوقات کی وجہ سے ہفتوں  دینی ماحول سے دوری۔۔۔
ان وجوہات کی بنا پر بہت سی احادیث ہماری نظروں سے اوجھل ہو تی ہیں۔۔ اور جب کبھی ہمارے کانوں میں ایسی کوئی حدیث یا روایت پڑ جائے جو ہمارے لئے نئی ہو تو ہماری نظر میں بیان کرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔۔اور قابل نفرت ہوتا ہے۔
حالانکہ اس عالم دین نے وہ بات کسی خاص تناظر میں کہی ہوتی ہے۔تناظر سے یاد آیا
تناظر بھی دو طرح کے ہیں ایک ہے کسی چیز کو اس کے تناظر میں دیکھنا اور دوسرا
تہتر کے آئین کے تناظر میں مولانا فضل الرحمن والا۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا یار پہلے سیاق وسباق دیکھ لیا کرو وہ کہنے لگا قاری جی سیاق وسباق کہنوں کہندے نے ۔۔۔۔۔۔ ہن دسو
قرآن کے رموز و اوقاف میں لکھا ہے
اُٹھو ، مت بیٹھو  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُٹھو مت ، بیٹھو
ہن مینوں کوئی دسے میں اٹھاں یا بیٹھاں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اصل کہانی
پھر کوئی نعوذباللہ کہہ کر آگے شئیر کرتا ہے ۔۔ کوئی گالی دیتا ہے۔۔۔۔
دراصل ایسا کوئی بھی موضوع عوام کے ذہنوں سے تھوڑا اوپر ہوتا ہے۔۔۔۔ تو علماء ایسے عنوان بڑے بڑے علماء کی مجالس میں بیان کرتے ہیں۔۔
مگر برا ہو ایڈیٹنگ فتنہ پروروں کا اس کا ایک پیس اٹھا کر چاہل عوام میں چھوڑ دیتے ہیں۔
تو پھر۔ ۔۔۔  مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے ترنی،
میرے آج کے مضمون کا عنوان میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے شعر میں ہے۔
جب سے ہم پر مفتیانِ فیس بوک یا یوں کہہ لیجیے مفتیان گرام 2 گرام مسلط ہوئے ہیں۔ ہر عالم دین پر گالیوں کی بوچھاڑ ہے۔۔
اس دھرنے کے دوران دو وڈیوز وائرل ہوئیں ۔۔۔
نمبر 1) ۔
مولانا جمال الدین بغدادی صاحب نے علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے بارے ایک خواب ویڈیو میں بیان کیا
اور دوسرا
پیر افضل قادری صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز(یعنی پیشاب پاخانہ) کا پاک ہونا بیان کیا۔۔۔
اس سلسلہ میں یہ جواب عرض ہے

1: )۔۔۔۔ مولانا جلال الدین بغدادی صاحب نے ایک تو جو فرمایا وہ ان کی ذاتی رائے ہے ،
اور "خواب" ہے جسے انہوں " اللہ کی قسم" اٹھا کر بیان فرمایا،
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ جس نے مصطفی کریم علیہ السلام پر جھوٹ باندھا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنایا،

2: )۔۔۔اگر احادیث کی روشنی میں دیکھیں تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں۔۔۔۔۔
1: عن جابر بن عبد اللہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
من زار عالما، فکانما زارنی، ومن صافح العلماء فکانما صافحنی
نبی کریم علیہ السلام فرمایا جس نے کسی عالم کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری زیارت کی۔
اور جس نے کسی عالم سے مصافحہ کیا گویا کہ اس نے میرے سے مصافحہ کیا
حوالہ: الفردوس، امام دیلمی

اسی طرح دوسری حدیث
من زار العلماء فقد زارنی
جس نے علماء کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی

اسی طرح مزید احادیث
حضور ﷺ نے فرمایا:العلماء ورثۃ الانبیاء۔’’علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔‘‘( ابو داؤد و الترمذی)حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :یستغفرللعالم مافی السمٰوٰات والارض۔’’زمین و آسمان کی تمام مخلوق ایک عالم دین کے لئے بخشش کی دعا مانگتی ہے ۔‘‘ (ابو داؤد)

حضور اکرم ،نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:فضل العالم علی عابد کفضلی علی ادنی رجل من اصحابی۔’’ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی میری فضیلت میرے اصحاب میں سے کسی ادنیٰ صحابی پر ۔‘‘(ترمذی شریف)جب قرآن و حدیث میں عالم کے اتنے فضائل ہیں ۔تو دیکھنا ہو گا کہ عالم کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ۔

مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر بغیر ترجمہ کے چند احادیث۔۔۔۔
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: مَنْ زَارَ عَالِما فَكَأَنَمَّا زَارَنِي، وَمَنْ صَافَحَ عَالِما فَكَأَنَّما صَافَحَنِي، وَمَنْ جَالَسَ عَالِما فَكَأَنَّما جَالَسَنِي في الدُّنْيَا، وَمَنْ جَالَسَنِي في الدُّنْيَا أَجْلَسْتُهُ مَعِي يَوْمَ القِيَامَةِ)

وعن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ زَارَ عَالِما فَقَدْ زَارَنِي، وَمَنْ زَارَنِي وَجَبَتْ له شَفَاعَتي، وكانَ لَهُ بِكُلِّ خَطْوَةٍ أَجْرُ شَهِيدٍ»

وعن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «مَنْ زَارَ عَالِما ضَمِنْتُ لَهُ عَلى الله الجَنَّةَ»

وعن علي بن أبي طالب أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ زَارَ عَالِما أيْ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ قَرَأَ عِنْدَهُ آيةً مِنْ كِتَابِ الله أعْطَاهُ الله تَعَالَى بِعَدَدِ خطَوَاتِهِ قُصُورا فِي الجَنَّةِ وَكَانَ لَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ قَرَأَهُ عَلَى قَبْرِهِ قَصْرٌ في الجَنَّةِ مِنْ ذَهَبٍ»،

عَنْ سَفِيْنَةَ رضی الله عنه قَالَ: احْتَجَمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ لِي: خُذْ هٰذَا الدَّمَ فَادْفِنْهُ مِنَ الطَّيْرِ وَالدَّوَابِ وَالنَّاسِ، فَتَغَيَّبْتُ فَشَرِبْتُه، ثُمَّ سَأَلَنِي أَوْ أُخْبِرَ أَنِّي شَرِبْتُه فَضَحِکَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا موضوع
پیر افضل قادری صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز(یعنی پیشاب پاخانہ) کا پاک ہونا بیان کیا۔۔۔
اس سلسلہ میں یہ جواب عرض ہے

وروی ان رجلًا قال رایت النبی ﷺ أبعد فی المذھب فلما خرج نظرت فلم أر شیئاً ورایت فی ذلک الموضع ثلاثۃ الاحجار اللا تی استنجی بھن فأخذ تھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسک فکنت اذا جئت یوم الجمعۃ المسجد اخذ تھن فی کمی فتغلب رائحتھن
روائح من تطیب وتعطر۔
(صحابہ کرام میں سے) ایک مرد سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضور ﷺ ضرورت رفع فرمانے کے لئے بہت دُور تشریف لے گئے جب واپس تشریف لائے تو میں نے اس جگہ نظر کی کچھ نہ پایا البتہ تین ڈھیلے پڑے تھے جن سے حضور ﷺ نے استنجا فرمایا تھا میں نے انہیں اُٹھا لیا، ان ڈھیلوں سے مشک کی خوشبوئیں مہک رہی تھیں، جمعہ کے دن جب مسجد میں آتا تو وہ ڈھیلے آستین میں ڈال کر لاتا ان کی خوشبو ایسی مہکتی کہ وہ تمام عطر اور خوشبو لگانے والوں کی خوشبو پرغالب آجاتی۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ زُبَيْرٍ رضی الله عنه، أَنَّه أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم وَهُوَ يَحْتَجِمُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: يَا عَبْدَ اﷲِ، اِذْْهَبْ بِهٰذَا الدَّمِ فَأَهْرِقْه حَيْثُ لَا يَرَاکَ أَحَدٌ، فَلَمَّا بَرَزْتُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَمَدْتُ إِلَی الدَّمِ فَحَسَوْتُه، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: مَا صَنَعْتَ يَا عَبْدَ اﷲِ؟ قَالَ: جَعَلْتُه فِي مَکَانٍ ظَنَنْتُ أَنَّه خَافَ عَلَی النَّاسِ، قَالَ: فَلَعَلَّکَ شَرِبْتَه؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ أَمَرَکَ أَنْ تَشْرَبَ الدَّمَ؟ وَيْلٌ لَکَ مِنَ النَّاسِ وَوَيْلٌ لِلنَّاسِ مِنْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.

2: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 /638، الرقم: 6343، .

’’حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پچھنے لگوا رہے تھے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: اے عبد اللہ! اس خون کو لے جاؤ اور اسے کسی ایسی جگہ بہا دو جہاں تمہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔ پس جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی (ظاہری) نگاہوں سے پوشیدہ ہوا تو خون مبارک پینے کا ارادہ کیا اور اُسے پی لیا (اور جب واپس پلٹے) تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے عبد اللہ! تم نے اس خون کا کیا کیا؟ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے اسے ایسی خفیہ جگہ پر رکھا ہے کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ (ہمیشہ) لوگوں سے مخفی رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم نے شاید اُسے پی لیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس نے خون پینے کو کہا تھا؟ (آج کے بعد) تو لوگوں (کو تکلیف دینے) سے محفوظ ہوگیا اور لوگ تجھ سے (تکلیف پانے سے) محفوظ ہو گئے۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

. عَنْ حَکِيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ عَنْ أُمِّهَا رضي اﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَبُوْلُ فِي قَدَحِ عِيْدَانٍ، ثُمَّ يُوْضَعُ تَحْتَ سَرِيْرِه، فَبَالَ فِيْهِ ثُمَّ جَاءَ فَأَرَادَه فَإِذَا الْقَدَحُ لَيْسَ فِيْهِ شَيئٌ فَقَالَ لِامْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: بَرَکَةُ کَانَتْ تَخْدِمُ أُمَّ حَبِيْبَةَ رضي اﷲ عنها جَائَتْ بِهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ: أَيْنَ الْبَوْلُ الَّذِي کَانَ فِي الْقَدَحِ؟ قَالَتْ: شَرِبْتُه فَقَالَ: لَقَدِ احْتَظَرْتِ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 /189، الرقم:

’’حضرت حکیمہ بنت اُمیمہ رضی اﷲ عنہا اپنی والدہ سے بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (بیماری کے عالم میں رات کے وقت) لکڑی کے پیالے میں پیشاب کیا کرتے تھے، پھر اُسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ عمل فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوبارہ تشریف لائے اور اس برتن کو دیکھا (تاکہ گرا دیں) تو اس میں کوئی چیز نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ برکہ سے، جو کہ حبشہ سے ان کے ساتھ آئیں تھیں، اس بارے میں استفسار فرمایا کہ اس برتن کا پیشاب کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے اسے پی لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو نے خود کو جہنم کی آگ سے بچا لیا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

آپ نے وہ واقعات یقینن سنے ہوں گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
1)  حضرت امام حسین کو اپنی زبان چوسنے کے لیے دی
2)  کنوے میں لعاب دہن ڈالا
3)  ایک صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو تھوک سے جوڑا
4)   حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آنکھوں میں تھوک مبارک لگایا۔
5)۔صحابہ وضو کا پانی نیچے نہ گرنے دیتے تھے۔
6) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک زمیں پرنہ گرنے دیتے۔۔۔
آپ کے جسم مبارک سے نکلنے والی ہر چیز پاکیزہ ہے۔
واللہ اعلم بصواب
تحریر محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

16 نومبر, 2017

مذاق اور مزاح میں فرق

مذاق اور مزاح میں فرق
یا ایھاالزین آمنو لا یسخر قوم من قوم۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ایمان والوں کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔
دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا۔
والے قال موسی لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحو بقرہ قالوا اتتخذنا ھزوا قال اعوذ بااللہ ان اکون من الجاھلین
اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا بے شک اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے انہوں نے کہا کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام  نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔
قرآن کے مطابق مذاق کرنا جاہلوں کا کام ھے۔ البتہ مزاح اور چیز ھے۔
مزاح کا مطلب کوئی نقطہ افروز بات کرنا ۔ کہ سننے والے کو سوچنے کے بعد اس کی سمجھ آئے۔۔یا بات کرنے والے کے سمجھانے پر اس کو سمجھ آئے ۔
1) ۔۔مذاق کی مثال تو قرآنِ کریم نے بیان فرما دی۔ اعوذ بااللہ ان اکون من الجاھلین۔ اللہ کی پناہ کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں
2)۔۔اور مزاح کی بہت سی مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کی احادیث سے ملتی ہیں۔
جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔۔ جب وہ بوڑھی عورت پریشان ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سب جوان ہو کر جائیں گے۔
یعنی کہ جنت میں بوڑھے بھی جوان ہوں گے۔
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ کے لیے اونٹنی کا بچہ لے کر آؤ ۔ اب فرماتی ہیں میں ہرگز اونٹنی کے بچے پر نہیں بیٹھوں گی، آپ صلی اللہ وسلم مسکرائے اور  فرمایا جو اونٹ ہے کیا وہ اونٹنی کا بچہ نہیں۔
اسی طرح ۔۔۔ ایک عورت سے فرمایا کہ تیرے شوہر کی آنکھ میں سفیدی ہے۔ وہ گھبرائی اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ میں نے تو آج تک نہیں دیکھی۔ اس عورت کی گھبراہٹ کو دیکھتے ہوئے آپ مسکرائے اور فرمایا ہر شخص کی آنکھ میں سفیدی ہے۔
اسی طرح ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں کھاکر گٹھلیاں حضرت علی کے آگے رکھتے رہے اور گھٹلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا علی آپ نے بڑی کھجور کھا لی ہیں۔ حضرت علی نے جواب دیا آپ نے گٹھلیاں بھی ساتھ ہی کھاتے گئے۔
خلاصہ کلام یہ
1)۔۔مذاق اس کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ شامل ہو اور کسی کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہو۔
2)۔۔اور مزاح اسے کہتے ہیں جس میں نکتہ افروز بات کی جائے اور سمجھنے والا جب اس کو سمجھے تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکے اور اس میں جھوٹ شامل نہ ہو۔
تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

بلاگ میں تلاش کریں