میں دین کا ایک ادنی سا طالب علم ہوں، دینی کتابوں اور علماء کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے تعلق کی بنا پر دین کا جو فہم مجھے ملا اسکی روشنی میں مختلف موضوعات پر لکھتا رہتا ہوں، دینی موضوعات پر کتابوں میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ میرے جیسے طالب علم کی بہت سے معاملات میں لکھنے کی ضرورت نہیں رہتی
02 مارچ, 2019
ایک فرق سمجھیے
کمی ہے یا احساس کمتری
سبسڈی سے زیادہ ہے ضروری، حکمت عملی
دفاعِ ختم نبوت اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
20 اکتوبر, 2018
اولاد کی تعلیم و تربیت
30 اگست, 2018
12 جنوری, 2018
ہمارا معاشرہ کس کا کیا کردار ہے
19 دسمبر, 2017
مستحباتِ نماز کی تفصیل
مستحباتِ نماز کی تفصیل
مستحب عمل کو ادا کرنے سے نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے اور اجر و ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔۔۔
مستحب عمل کو ادا کرنے پر ثواب ملتا ہے اگر کسی سے کوئی مستحب رہ جائے تو اس کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوتا۔۔
نماز میں درج ذیل اُمور کا بجا لانا مستحب ہے:
1) قیام میں سجدہ کی جگہ نگاہ رکھنا۔
2) رکوع میں قدموں پر نظر رکھنا۔
3) سجدہ میں ناک کی نوک پر نظر رکھنا۔
4) قعدہ میں گود میں نظر رکھنا۔
5) سلام پھیرتے وقت دائیں اور بائیں جانب کے کندھے پر نظر رکھنا۔
6) جمائی کو آنے سے روکنا، نہ رکے تو حالتِ قیام میں دائیں ہاتھ سے منہ ڈھانک لیں ، اور نماز کی دوسری حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پیٹھ سے ، نماز کے علاوہ بھی یہی طریقہ اپنائیں۔۔
7) مرد تکبیر تحریمہ کے لیے کپڑے سے ہاتھ باہر نکالیں اور عورتیں کپڑے کے اندر رکھیں
(8) کھانسی روکنے کی کوشش کرنا۔
9) حَيَ عَلَی الْفَلَاحِ پر امام و مقتدی کا کھڑے ہونا، بعض فقہاء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔
10) حالتِ قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار
انگل اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کا فاصلہ رکھیں۔
27 نومبر, 2017
آپ کے جسم مبارک سے نکلنے والی ہر چیز پاکیزہ ہے
خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی
ہماری پرابلم یہ ہے کہ ہم کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے ۔ علماء کی مجالس میں نہیں بیٹھتے ۔ سکول کالج کے لٹریچر میں ان مضامین کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ان میں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے ۔ جو ایک طویل عرصے سے روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں ،اسلام سے اور زیادہ دوری ہوتی ہے ،اس کی وجہ مساجد کی کمی ، لائبریری کا نہ ہونا ، اور سب سے بڑی وجہ کام کاج کے اوقات کی وجہ سے ہفتوں دینی ماحول سے دوری۔۔۔
ان وجوہات کی بنا پر بہت سی احادیث ہماری نظروں سے اوجھل ہو تی ہیں۔۔ اور جب کبھی ہمارے کانوں میں ایسی کوئی حدیث یا روایت پڑ جائے جو ہمارے لئے نئی ہو تو ہماری نظر میں بیان کرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔۔اور قابل نفرت ہوتا ہے۔
حالانکہ اس عالم دین نے وہ بات کسی خاص تناظر میں کہی ہوتی ہے۔تناظر سے یاد آیا
تناظر بھی دو طرح کے ہیں ایک ہے کسی چیز کو اس کے تناظر میں دیکھنا اور دوسرا
تہتر کے آئین کے تناظر میں مولانا فضل الرحمن والا۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا یار پہلے سیاق وسباق دیکھ لیا کرو وہ کہنے لگا قاری جی سیاق وسباق کہنوں کہندے نے ۔۔۔۔۔۔ ہن دسو
قرآن کے رموز و اوقاف میں لکھا ہے
اُٹھو ، مت بیٹھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُٹھو مت ، بیٹھو
ہن مینوں کوئی دسے میں اٹھاں یا بیٹھاں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اصل کہانی
پھر کوئی نعوذباللہ کہہ کر آگے شئیر کرتا ہے ۔۔ کوئی گالی دیتا ہے۔۔۔۔
دراصل ایسا کوئی بھی موضوع عوام کے ذہنوں سے تھوڑا اوپر ہوتا ہے۔۔۔۔ تو علماء ایسے عنوان بڑے بڑے علماء کی مجالس میں بیان کرتے ہیں۔۔
مگر برا ہو ایڈیٹنگ فتنہ پروروں کا اس کا ایک پیس اٹھا کر چاہل عوام میں چھوڑ دیتے ہیں۔
تو پھر۔ ۔۔۔ مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے ترنی،
میرے آج کے مضمون کا عنوان میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے شعر میں ہے۔
جب سے ہم پر مفتیانِ فیس بوک یا یوں کہہ لیجیے مفتیان گرام 2 گرام مسلط ہوئے ہیں۔ ہر عالم دین پر گالیوں کی بوچھاڑ ہے۔۔
اس دھرنے کے دوران دو وڈیوز وائرل ہوئیں ۔۔۔
نمبر 1) ۔
مولانا جمال الدین بغدادی صاحب نے علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے بارے ایک خواب ویڈیو میں بیان کیا
اور دوسرا
پیر افضل قادری صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز(یعنی پیشاب پاخانہ) کا پاک ہونا بیان کیا۔۔۔
اس سلسلہ میں یہ جواب عرض ہے
1: )۔۔۔۔ مولانا جلال الدین بغدادی صاحب نے ایک تو جو فرمایا وہ ان کی ذاتی رائے ہے ،
اور "خواب" ہے جسے انہوں " اللہ کی قسم" اٹھا کر بیان فرمایا،
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ جس نے مصطفی کریم علیہ السلام پر جھوٹ باندھا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنایا،
2: )۔۔۔اگر احادیث کی روشنی میں دیکھیں تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں۔۔۔۔۔
1: عن جابر بن عبد اللہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
من زار عالما، فکانما زارنی، ومن صافح العلماء فکانما صافحنی
نبی کریم علیہ السلام فرمایا جس نے کسی عالم کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری زیارت کی۔
اور جس نے کسی عالم سے مصافحہ کیا گویا کہ اس نے میرے سے مصافحہ کیا
حوالہ: الفردوس، امام دیلمی
اسی طرح دوسری حدیث
من زار العلماء فقد زارنی
جس نے علماء کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی
اسی طرح مزید احادیث
حضور ﷺ نے فرمایا:العلماء ورثۃ الانبیاء۔’’علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔‘‘( ابو داؤد و الترمذی)حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :یستغفرللعالم مافی السمٰوٰات والارض۔’’زمین و آسمان کی تمام مخلوق ایک عالم دین کے لئے بخشش کی دعا مانگتی ہے ۔‘‘ (ابو داؤد)
حضور اکرم ،نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:فضل العالم علی عابد کفضلی علی ادنی رجل من اصحابی۔’’ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی میری فضیلت میرے اصحاب میں سے کسی ادنیٰ صحابی پر ۔‘‘(ترمذی شریف)جب قرآن و حدیث میں عالم کے اتنے فضائل ہیں ۔تو دیکھنا ہو گا کہ عالم کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ۔
مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر بغیر ترجمہ کے چند احادیث۔۔۔۔
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: مَنْ زَارَ عَالِما فَكَأَنَمَّا زَارَنِي، وَمَنْ صَافَحَ عَالِما فَكَأَنَّما صَافَحَنِي، وَمَنْ جَالَسَ عَالِما فَكَأَنَّما جَالَسَنِي في الدُّنْيَا، وَمَنْ جَالَسَنِي في الدُّنْيَا أَجْلَسْتُهُ مَعِي يَوْمَ القِيَامَةِ)
وعن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ زَارَ عَالِما فَقَدْ زَارَنِي، وَمَنْ زَارَنِي وَجَبَتْ له شَفَاعَتي، وكانَ لَهُ بِكُلِّ خَطْوَةٍ أَجْرُ شَهِيدٍ»
وعن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «مَنْ زَارَ عَالِما ضَمِنْتُ لَهُ عَلى الله الجَنَّةَ»
وعن علي بن أبي طالب أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ زَارَ عَالِما أيْ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ قَرَأَ عِنْدَهُ آيةً مِنْ كِتَابِ الله أعْطَاهُ الله تَعَالَى بِعَدَدِ خطَوَاتِهِ قُصُورا فِي الجَنَّةِ وَكَانَ لَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ قَرَأَهُ عَلَى قَبْرِهِ قَصْرٌ في الجَنَّةِ مِنْ ذَهَبٍ»،
عَنْ سَفِيْنَةَ رضی الله عنه قَالَ: احْتَجَمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ لِي: خُذْ هٰذَا الدَّمَ فَادْفِنْهُ مِنَ الطَّيْرِ وَالدَّوَابِ وَالنَّاسِ، فَتَغَيَّبْتُ فَشَرِبْتُه، ثُمَّ سَأَلَنِي أَوْ أُخْبِرَ أَنِّي شَرِبْتُه فَضَحِکَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا موضوع
پیر افضل قادری صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز(یعنی پیشاب پاخانہ) کا پاک ہونا بیان کیا۔۔۔
اس سلسلہ میں یہ جواب عرض ہے
وروی ان رجلًا قال رایت النبی ﷺ أبعد فی المذھب فلما خرج نظرت فلم أر شیئاً ورایت فی ذلک الموضع ثلاثۃ الاحجار اللا تی استنجی بھن فأخذ تھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسک فکنت اذا جئت یوم الجمعۃ المسجد اخذ تھن فی کمی فتغلب رائحتھن
روائح من تطیب وتعطر۔
(صحابہ کرام میں سے) ایک مرد سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضور ﷺ ضرورت رفع فرمانے کے لئے بہت دُور تشریف لے گئے جب واپس تشریف لائے تو میں نے اس جگہ نظر کی کچھ نہ پایا البتہ تین ڈھیلے پڑے تھے جن سے حضور ﷺ نے استنجا فرمایا تھا میں نے انہیں اُٹھا لیا، ان ڈھیلوں سے مشک کی خوشبوئیں مہک رہی تھیں، جمعہ کے دن جب مسجد میں آتا تو وہ ڈھیلے آستین میں ڈال کر لاتا ان کی خوشبو ایسی مہکتی کہ وہ تمام عطر اور خوشبو لگانے والوں کی خوشبو پرغالب آجاتی۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ زُبَيْرٍ رضی الله عنه، أَنَّه أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم وَهُوَ يَحْتَجِمُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: يَا عَبْدَ اﷲِ، اِذْْهَبْ بِهٰذَا الدَّمِ فَأَهْرِقْه حَيْثُ لَا يَرَاکَ أَحَدٌ، فَلَمَّا بَرَزْتُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَمَدْتُ إِلَی الدَّمِ فَحَسَوْتُه، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: مَا صَنَعْتَ يَا عَبْدَ اﷲِ؟ قَالَ: جَعَلْتُه فِي مَکَانٍ ظَنَنْتُ أَنَّه خَافَ عَلَی النَّاسِ، قَالَ: فَلَعَلَّکَ شَرِبْتَه؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ أَمَرَکَ أَنْ تَشْرَبَ الدَّمَ؟ وَيْلٌ لَکَ مِنَ النَّاسِ وَوَيْلٌ لِلنَّاسِ مِنْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
2: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 /638، الرقم: 6343، .
’’حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پچھنے لگوا رہے تھے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: اے عبد اللہ! اس خون کو لے جاؤ اور اسے کسی ایسی جگہ بہا دو جہاں تمہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔ پس جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی (ظاہری) نگاہوں سے پوشیدہ ہوا تو خون مبارک پینے کا ارادہ کیا اور اُسے پی لیا (اور جب واپس پلٹے) تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے عبد اللہ! تم نے اس خون کا کیا کیا؟ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے اسے ایسی خفیہ جگہ پر رکھا ہے کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ (ہمیشہ) لوگوں سے مخفی رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم نے شاید اُسے پی لیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس نے خون پینے کو کہا تھا؟ (آج کے بعد) تو لوگوں (کو تکلیف دینے) سے محفوظ ہوگیا اور لوگ تجھ سے (تکلیف پانے سے) محفوظ ہو گئے۔‘‘
اِس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
. عَنْ حَکِيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ عَنْ أُمِّهَا رضي اﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَبُوْلُ فِي قَدَحِ عِيْدَانٍ، ثُمَّ يُوْضَعُ تَحْتَ سَرِيْرِه، فَبَالَ فِيْهِ ثُمَّ جَاءَ فَأَرَادَه فَإِذَا الْقَدَحُ لَيْسَ فِيْهِ شَيئٌ فَقَالَ لِامْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: بَرَکَةُ کَانَتْ تَخْدِمُ أُمَّ حَبِيْبَةَ رضي اﷲ عنها جَائَتْ بِهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ: أَيْنَ الْبَوْلُ الَّذِي کَانَ فِي الْقَدَحِ؟ قَالَتْ: شَرِبْتُه فَقَالَ: لَقَدِ احْتَظَرْتِ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 /189، الرقم:
’’حضرت حکیمہ بنت اُمیمہ رضی اﷲ عنہا اپنی والدہ سے بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (بیماری کے عالم میں رات کے وقت) لکڑی کے پیالے میں پیشاب کیا کرتے تھے، پھر اُسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ عمل فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوبارہ تشریف لائے اور اس برتن کو دیکھا (تاکہ گرا دیں) تو اس میں کوئی چیز نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ برکہ سے، جو کہ حبشہ سے ان کے ساتھ آئیں تھیں، اس بارے میں استفسار فرمایا کہ اس برتن کا پیشاب کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے اسے پی لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو نے خود کو جہنم کی آگ سے بچا لیا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
آپ نے وہ واقعات یقینن سنے ہوں گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
1) حضرت امام حسین کو اپنی زبان چوسنے کے لیے دی
2) کنوے میں لعاب دہن ڈالا
3) ایک صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو تھوک سے جوڑا
4) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آنکھوں میں تھوک مبارک لگایا۔
5)۔صحابہ وضو کا پانی نیچے نہ گرنے دیتے تھے۔
6) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک زمیں پرنہ گرنے دیتے۔۔۔
آپ کے جسم مبارک سے نکلنے والی ہر چیز پاکیزہ ہے۔
واللہ اعلم بصواب
تحریر محمد یعقوب نقشبندی اٹلی
16 نومبر, 2017
مذاق اور مزاح میں فرق
مذاق اور مزاح میں فرق
یا ایھاالزین آمنو لا یسخر قوم من قوم۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ایمان والوں کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔
دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا۔
والے قال موسی لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحو بقرہ قالوا اتتخذنا ھزوا قال اعوذ بااللہ ان اکون من الجاھلین
اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا بے شک اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے انہوں نے کہا کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔
قرآن کے مطابق مذاق کرنا جاہلوں کا کام ھے۔ البتہ مزاح اور چیز ھے۔
مزاح کا مطلب کوئی نقطہ افروز بات کرنا ۔ کہ سننے والے کو سوچنے کے بعد اس کی سمجھ آئے۔۔یا بات کرنے والے کے سمجھانے پر اس کو سمجھ آئے ۔
1) ۔۔مذاق کی مثال تو قرآنِ کریم نے بیان فرما دی۔ اعوذ بااللہ ان اکون من الجاھلین۔ اللہ کی پناہ کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں
2)۔۔اور مزاح کی بہت سی مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کی احادیث سے ملتی ہیں۔
جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔۔ جب وہ بوڑھی عورت پریشان ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سب جوان ہو کر جائیں گے۔
یعنی کہ جنت میں بوڑھے بھی جوان ہوں گے۔
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ کے لیے اونٹنی کا بچہ لے کر آؤ ۔ اب فرماتی ہیں میں ہرگز اونٹنی کے بچے پر نہیں بیٹھوں گی، آپ صلی اللہ وسلم مسکرائے اور فرمایا جو اونٹ ہے کیا وہ اونٹنی کا بچہ نہیں۔
اسی طرح ۔۔۔ ایک عورت سے فرمایا کہ تیرے شوہر کی آنکھ میں سفیدی ہے۔ وہ گھبرائی اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ میں نے تو آج تک نہیں دیکھی۔ اس عورت کی گھبراہٹ کو دیکھتے ہوئے آپ مسکرائے اور فرمایا ہر شخص کی آنکھ میں سفیدی ہے۔
اسی طرح ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں کھاکر گٹھلیاں حضرت علی کے آگے رکھتے رہے اور گھٹلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا علی آپ نے بڑی کھجور کھا لی ہیں۔ حضرت علی نے جواب دیا آپ نے گٹھلیاں بھی ساتھ ہی کھاتے گئے۔
خلاصہ کلام یہ
1)۔۔مذاق اس کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ شامل ہو اور کسی کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہو۔
2)۔۔اور مزاح اسے کہتے ہیں جس میں نکتہ افروز بات کی جائے اور سمجھنے والا جب اس کو سمجھے تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکے اور اس میں جھوٹ شامل نہ ہو۔
تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی اٹلی