03 جون, 2017

اسلام میں خواتین کا تحریری و تدریسی کام



اسلام خواتین کو تدریسی یا تحریری کام سے منع نہیں کرتا۔۔۔ 
ارشاد ربانی ہے:
’’فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ‘‘(آل عمران، 3: 195)
(پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقینا میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو
صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے 
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ
’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اگر باندیوں تک کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کو کار ثواب قرار دیتا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کیونکر گوارا کرسکتا ہے۔ آپ کے نزدیک حصول علم میں ہر طرح کا امتیاز اور تنگ نظری کو مٹانے کی خاطر مرد و عورت دونوں پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔
علامہ ابن القیم  نے "اعلام الموقعین" میں لکھا ہے: "اگر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتوے جمع کئے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے ،  ان کا شمار محدثین کے تیسرے طبقہ میں ہے۔ ان کے تلامذہ حدیث میں بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔
ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اشاعت میں حصہ لیا اور ان سے بھی بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں، جیسے حضرت میمونہ ہیں۔ ان سے (76)، حضرت ام حبیبہ سے (65)،   حضرت حفصہ سے (60)،  حضرت زینب بنت جحش سے (11)  حضرت جویریہ سے (7)حضرت سودہ سے (5)، حضرت خدیجہ سے (1)، مزید براں آپ کی دونوں لونڈیوں میمونہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہن سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔
امہات المومنین کے علاوہ صحابیات میں کوئی صحابیہ ایسی ہوں گی جن سے کوئی نہ کوئی روایت موجود نہ ہو، چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے (18)، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ سے (11) حدیثیں مروی ہیں ۔عام صحابیات میں سے حضرت ام خطل سے (30) حدیثیں مروی ہیں، حضرت ام سلیم اور ام رومان سے چند حدیثیں مروی ہیں، ام سلیم سے بڑے بڑے صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے، ایک بار کسی مسئلہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت زید بن ثابت میں اختلاف ہوا تو دونوں نے ان ہی کو  اپنے فیصلے کے حکم مانا ۔۔۔۔ حضرت ام عطیہ سے متعدد صحابہ وتابعین نے روایت کیا اور صحابہ وتابعین ان سے مردہ کو نہلانے کا طریقہ سیکھتے تھے۔
۔۔۔۔تبلیغ دین مرد و عورت کا کام۔۔۔
’تبلیغ دین بحیثیتِ مجموعی امت کا ایسا فریضہ ہے جسے ہر فردِ امت مرد اور عورت سبھی نے ادا کرنا ہے۔ تبلیغ دین کے بارے میں جتنے بھی احکام آئے اور امر و نہی کے جتنے صیغے وارد ہوئے۔ وہ عربی زبان و بلاغت کے قواعد کے حوالے سے مرد اور عورت دونوں کے لئے ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔ عورت معلمہ ھے عورت کےلئے۔۔۔۔
خواتین کا دعوت و تبلیغ کے لئے تیار ہونا ایک اور پہلو سے بھی ضروری ہے کہ اس وقت خواتین کی اصلاح و تربیت کا کام بھی بالعموم مردوں ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ اس میں دشواریاں اور نزاکتیں بھی ہیں۔ اسکا فطری طریقہ یہ ہے کہ مردوں کے درمیان مرد اور عورتوں کے درمیان عورتیں کام کریں۔ عورتوں کی نفسیات، مسائل، الجھنوں، خوبیوں اور خامیوں سے مردوں کے مقابلہ میں عورتیں زیادہ واقف ہیں اور اسے حل بھی کرسکتی ہیں۔ اس لئے عورتوں کے درمیان کام کے لئے عورتیں ہی موزوں ہو سکتی ہیں۔ اگر خواتین اس محاذ کو سنبھال لیں تو دعوت و تبلیغ کا مسئلہ حل ہو جائے۔ وہ بڑا مبارک وقت ہوگا جبکہ اس اُمت کے مرد اور خواتین دونوں ہی اللہ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ اس وقت قرآن مجید کا یہ منشا پورا ہوگا۔
۔۔۔۔ خواتین اسلام کی تبلیغ ۔۔۔۔۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ]التوبۃ، 9: 71[
’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔‘‘
خواتین کی دعوتی سرگرمیوں سے بہت سے نفوس حلقہِ بگوش اسلام ہوئے۔ بہت سے جید صحابہ کرام بھی خواتین کی دعوت دین سے متاثر ہو کر اسلام کی دعوت پر لبیک کہنے پر مجبور ہوئے۔
مثلا: ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنی ہمشیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ خطاب رضی اللہ عنہ کے زیر اثر اسلام لائے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سعدی بنت کریز کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی اُم سلیم کے ذریعے، حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ اپنی بیوی اُم حکیم کی تبلیغی مساعی کے ذریعے راہ حق کے مسافر بنے۔
۔۔۔۔ عالمہ ۔،فقیہہ،مفسرہ صحابیات۔۔۔
صحابہ کرام کی طرح صحابیات بھی اپنے ذہن ودماغ کے لحاظ سے ایک درجہ اور مرتبہ کی نہین تھیں اور نہ سب کو یکساں طور سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت نصیب ہوئی تھی، اس لئے ان کی خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی، کیونکہ حدیث کی خدمات کے لئے سب سے زیادہ ضرورت حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر لحاظ سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی، اس لئے اس سلسلہ میں ان کی خدمات سب سے زیادہ ہیں، یوں تو صحابیات کی مجموعی تعداد حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے مطابق(1545) ہے، لیکن جنہوں نے روایت حدیث کے ذریعہ حفاظت حدیث کا بیڑا اٹھایا ان کی تعداد سات سو سے زائد بتائی گئی ہے اور ان سے بڑے بڑے صحابہ کرام اور جلیل القدر ائمہ نے علم حاصل کیا ہے ،
علامہ ابن حزم اپنی کتاب
"اسماء الصحابۃ الرواۃ وما لکل واحد من العدد"
کے اندر کم وبیش (125) صحابیات کا تذکرہ کیا ہے جن سے روایات مروی ہیں اور ان کے اعداد وشمار کے مطابق صحابیات سے مروی احادیث کی کل تعداد (2560) ہے جن میں سب سے زیادہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، حضرت عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنھا کثرت روایات والے صحابہ میں سے ہیں، ان کی مرویات کی تعداد (2210) ہے ، جن میں (286) حدیثیں بخاری ومسلم میں موجود ہیں، مرویات کی کثرت کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ان کا چھٹا نمبر ہے ، مرویات کی کثرت کے ساتھ احادیث سے استدلال اور استنباط مسائل، اور تلاش وتحقیق میں بھی ان کو خاص امتیاز حاصل تھا اور ان کی صفت میں بہت کم صحابہ ان کے شریک تھے، کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔
امام زہری جو کبار تابعین میں سے تھے وہ فرماتے ہیں: "
کانت عائشۃ اعلم الناس یسالہا الاکابر من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" (12)، یعنی حضرت عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں، بڑے بڑے صحابہ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔
دوسری جگہ اس طرح رقمطراز ہیں:
 "اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائےتو حضرت عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا"
حضرت عائشہ فتوی اور درس دیا کرتی تھیں، یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کی لغزشوں کی بھی نشاندہی فرمائی،
علامہ جلال الدین سیوطی
 اور زرکشی رحمہما اللہ
 نے اس موضوع پر "الاصابۃ فیما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ" کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے، حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے صحابہ وتابعین کی تعداد سو سے متجاوز ہے ۔
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا علم حدیث میں ممتاز نظر آتی ہیں، علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے متعلق محمد بن لبید فرماتے ہیں: "کان ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحفظن من حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم کثیرا مثلا عائشۃ وام سلمۃ"  ،، یعنی عام طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کی حدیثوں کو بہت زیادہ محفوظ رکھتی تھیں، مگر حضرت عائشہ اور ام سلمہ اس سلسلہ میں سب سے ممتاز تھیں۔ حضرت ام سلمہ سے (378) حدیثیں مروی ہیں ۔ ان کے فتوے بکثرت پائے جاتے ہیں، ۔
۔۔۔۔تابعیات وتبع تابعیات ۔۔۔۔۔
صحابیات کی طرح تابعیات نے بھی فن حدیث کی حفاظت واشاعت اور اس کی روایت اور درس وتدریس میں کافی حصہ لیا اور بعض نے تو اس فن میں اتنی مہارت حاصل کی کہ بہت سے کبار تابعین نے ان سے اکتساب فیض کیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب
"تقریب التہذیب"
 کی ورق گردانی کرنے سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ صحابیات کی طرح تابعیات کی ایک بڑی تعداد نے روایت وتحمل حدیث میں انتھک کوشش کی، چنانچہ ان کے اعداد وشمار کے مطابق (121) تابعیات اور (26) تبع تابعیات ہیں۔ البتہ "تقریب التہذیب" کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان تابعیات میں کچھ پائے ثقاہت کو پہنچی ہیں،
ان میں سے- حضرت حفصہ بنت سیرین:
انہوں نے متعدد صحابہ وتابعین سے روایت کی ہے، جس میں انس بن مالک اور ام عطیہ وغیرہ ہیں اور ان سے روایت کرنے والوں میں ابن عون، خالد الحذاء،  وغیرہ
- عمرہ بنت عبد الرحمن:یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاص تربیت یافتہ اور ان کی احادیث کی امین تھیں،
 ابن المدینی فرماتے ہیں"
حضرت عائشہ کی حدیثوں میں سب سے زیادہ زیادہ قابل اعتماد احادیث عمرہ بنت عبد الرحمن، قاسم اور عروہ کی ہیں"۔ محمد بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبد العزیز نے فرمایا: "ما بقی احد اعلم بحدیث عائشۃ" اس وقت حضرت عائشہ کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی جاننے والا موجود نہیں ہے۔ ابن سعد نے ان کو "عالمہ" لکھا ہے
۔ اور امام ذہبی نے ان کو تابعین کے تیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے (28)۔ اور ابن المدینی نے "احد ثقات العلماء" (29) کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ حضرت عائشہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے بھی انہوں نے روایتیں کی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں تیرہ سے زیادہ کبار تابعین ہیں۔ 103ھ یا 116 ھ میں وفات پائی ۔۔۔۔
علم حدیث میں خواتین کی تفصیلی خدمات:
مسلم خواتین نے صرف درس وتدریس اور روایت ہی سے اشاعت حدیث کا کام نہیں لیا، بلکہ محدثین کی طرح تصنیف وتالیف ، کتب احادیث کے نقل اور اپنی مرویات کی کتابی شکل میں مدون کرکے محفوظ کیا، نیز فن اسماء ورجال وفن حدیث میں بھی کتابیں تصنیف کیں بطور مثال چند
۔۔۔۔۔ مسلم خواتین کی تصنیفات۔۔۔۔
1-  ام محمد فاطمہ بنت محمد اصفہانی کو تصنیف وتالیف میں بڑا اچھا سلیقہ حاصل تھا، انہوں نے بہت ہی عمدہ عمدہ کتابیں تصنیف کی تھیں، جن میں "الرموز من الکنوز" پانچ جلدوں میں آج بھی موجود ہے
2-  طالبہ علم: انہوں نے ابن حبان کی مشہور کتاب "المجروحین" میں مذکور احادیث کی فہرست تیار کی ہے۔
3-  عجیبہ بنت حافظ بغدادیہ: انہوں نے اپنے اساتذہ وشیوخ کے حالات اور ان کے مسموعات پر دس جلدوں میں ،" المشیخہ"نامی کتاب لکھی
آخر میم فی الحال اتنا عرض ہے کہ خواتین کے لیے ترجمہ و تفسیر ممنوع نہیں ہے.
صرف علمِ تفسیر کی مشکلات کے سبب خواتین عالمات نے اس میدان میں عموما قدم نہیں رکھا. البتہ ایسا بھی نہیں کہ کسی خاتون عالمہ نے ترجمہ و تفسیرِ قرآن کیا ہی نہ ہو. جیسا کہ
 "محترم عالم خان صاحب "
مدلل انداز میں حوالہ جات پیش کر چکے ہیں۔۔۔
  عبد الحی راے بریلوی نے"
" نزہۃ الخواطر" میں ایک عالمہ کا ذکر کیا ہے جنھوں نے قرآن کی تفسیر لکھی.
چند نام اور بھی ہیں.
.معاصر دنیا میں کئی عورتیں ہیں جنھوں نے ترجمہ و تفسیر پر ورک کیا ہے ۔۔۔ اس میں کچھ حوالہ کاپی پیسٹ لیکن پھر بھی ان کو لکھنے کا ذمہ دار ہوں۔۔۔ مضمون اگرچہ طویل ھو گیا ہے پھر نفع خالی نہیں ھو گا
والسلام. ۔۔
"محمد یعقوب نقشبندی ناپولی اٹلی"

بلاگ میں تلاش کریں