02 مارچ, 2019

صحبت ِ نیک و بد کے اثرات

صحبت ِ نیک و بد کے اثرات
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبۃ/۱۱۹)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور (یہ بات اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے) سچوں کے ساتھ رہو۔
مطلب یہ ہے کہ اے میرے بندو! تم خواہ گناہوں کی وجہ سے کتنے ہی گندے کیوں نہ ہو جاؤ، مگر جب تم میرے پیاروں کی صحبت میں رہوگے تو ان کی معیت و صحبت سے تم میں بھی سچائی، اچھائی اور پرہیزگاری پیدا ہو جائے گی اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔
اگر اثر چاہتے ہوتواولیا ءاللہ کی صحبت کا تو اخلاص شرط ہے ،لیکن اخلاص ہو، اگر اخلاص نہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آئےگا۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اَلْمَرْءُ عَلی دِینِ خَلِیْلِہٖ (مسند احمد) آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے ، اصل بات یہی ہے ۔ تو دیکھ لینا چاہیے کہ کس سے دوستی کر رہے ہو ، چیک کر لو کہ تمہاری دوستی کا رحجان کدھر، ہے، دل کس سے لگتا ہے ، کون ساتھی تمہارے زیادہ ساتھ ہے؟ اگر تمہارا ساتھی اچھا ہے تو تم اچھے ہو ، اگر وہ برا ہے تو تم بھی برے ۔
اور صحبت تو صحبت رہی نظر کا بھی اثر ہوتا ہے۔
حدیث ِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ نظر کا لگنا برحق ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ الْعَیْنُ حَقٌّ‘‘۔(مسلم )
صاحبو! اگر بری نظر لگ سکتی ہے تو اچھی نظر بھی اپنا اثر دکھاتی ہے، بری نظر سے اگر انسان بیمار ہو سکتا ہے تو اچھی نظر سے دل کا روحانی بیمار تندرست بھی ہو سکتا ہے،
اسی کو کسی کہنے والے نے کہا :۔
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 
جو ہو ذوقِ یقین پیدا، تو کٹ سکتی ہیں زنجیریں 
حدیث ِ قدسی سے ثابت ہوتا ہے کہ صالحین کے پاس بیٹھنے والا بھی سعید بن جاتا ہے، 
چنانچہ ارشاد ہے کہ ھُمُ الْجُلَسَائُ لاَ یَشْقیٰ جَلِیْسُھُمْ (بخاری) صالحین کی صحبت سے شقی(بد بخت،بد نصیب) بھی سعید بن جاتا ہے۔
جیسے حضراتِ صحابہؓ سب کے سب سعید تھے، تو وہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کی برکت تھی۔
حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا {کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ} (التوبۃ/۱۱۹) صالحین کی صحبت اختیار کرو تاکہ صحبت ِ صالحین کی برکت سے تمہیں بھی تقویٰ اور تعلق مع اللہ نصیب ہو جائے۔
اور حدیث پاک میں صحبت(بیٹھک،مجلس) کے بارے میں ارشاد نبویﷺ ہے۔
عَنْ أَبِیْ مُوْسٰیؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ : ’’ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَ السُّوْئِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَ نَافِخِ الْکِیْرِ، فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّا أَنْ یُحْذِیَکَ، وَ إِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ، وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا طَیِّبَۃً، وَ نَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّا أَنْ یُحْرِقَ ثِیَابَکَ، وَ إِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا خَبِیْثَۃً۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ/۴۲۶)
ترجمہ : حضرت ابوموسٰی اشعریؓ رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ’’اچھے اور برے ہم نشین (ساتھی) کی مثال ایسی ہے، جیسے مشک رکھنے والا اور بھٹی جلانے والا، مشک رکھنے والا (اگر تمہارا ساتھی ہوگا تو) یا تو تمہیں مشک دے گا، یا تم اس سے مشک خرید لوگے، یا کم از کم اس کی خوشبو سے تمہارا دل و دماغ معطر ہو جائے گا، (بہر صورت اس کی خوشبو سے تمہیں ضرور نفع حاصل ہوگا،بالکل اسی طرح نیک ساتھی کا حال بھی ہے کہ اس کی ہم نشینی اور صحبت سے تمہیں دینی اور اُخروی اعتبار سے بہر صورت نفع ہوگا،اس کے برخلاف) بھٹی جلانے والا (اگر تمہارا ساتھی ہوگا) تو وہ تمہارا کپڑا جلا دے گا، یا کم از کم اس کی دِل آزار بدبو سے تمہیں ضرور ہی واسطہ پڑے گا۔‘‘ 
یہی مثال برے ساتھی کی ہے کہ اس کی صحبت سےتمہیں دینی، دنیوی اور اُخروی اعتبار سے ضرور نقصان ہوگا، ورنہ کم از کم جتنی دیر اس کی صحبت میں رہوگے اتنا وقت ضائع ہوگا۔
نیکوں کی صحبت کی برکت اپنی جگہ،اعلیٰ ہستیوں سے منسوب جگہوں کی بھی برکت ہوتی ہے ، اور بے حساب ہوتی ہے۔
جیسے مسجد حرام ہے ، مسجد حرام میں جو نماز پڑھے ایک لاکھ کا ثواب ہے ، اسی طرح سے مسجد نبوی میں پچاس ہزار ، بیت المقدس میں ہزاروں نمازوں کا ثواب ہے۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ! اس حقیقت کو ایک حکایت کے ذریعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک چیونٹی کے دل میں بیت اللہ جانے کی نیک خواہش پیدا ہوئی، مگر وہ مسکین اتنا طویل فاصلہ کس طرح طے کرتی، بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس کی طلب ِ صادق کے نتیجے میں حرم شریف کے ایک کبوتر کو اس کے پاس مرشد بنا کر بھیج دیا، وہ اس کے قدموں سے چمٹ گئی، کبوتر اسے لے کر اُڑا اورسیدھا منزلِ سعادت پر جا پہنچا۔‘‘
مولا نا فرماتے ہیں : 
مورِ مسکین ہوسے داشت کہ در کعبہ رسد
دست بر پائے کبوتر زد و ناگاہ رسید
اور شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ 
گلے خوشبوے در حمام روزے رسید از دست محبوبے بدستم
دیکھئے گلاب کے پاس رہنے سے مٹی میں خوشبو پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اہل محبت کے پاس رہنے سے خدا کی محبت اور دین کے ساتھ مناسبت حاصل ہو جاتی ہے۔
صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ 
مثلاً ایک طرف100 لیٹر اسّی ڈگری گرم پانی (مثلِ مرشد)اوردوسری طرف20 لیٹر ٹھنڈاپانی(مثلِ مرید) جب ملیں گے تو80 اسّی ڈگری والاگرم پانی، ٹھنڈے پانی کو بھی گرم کر دے گا۔ اسی طرح ایمان کی چنگاری والا(مرُشدِ کامل)مُردہ ایمان والے کو بھی جِلا بخش دے گا۔
ایک کانٹا اللہ کی بارگاہ میں رو کر عرض کر رہا تھاکہ اے مخلوق کے عیب چھپانے والے! میرے عیب کو کو ن چھپائے گا؟ کیوں کہ آپ نے تو مجھے کانٹا پیدا کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی فریاد سن لی اور اس کے اوپر پھول پیدا کر دیے جس کے دامن میں اس کانٹے نے اپنا منہ چھپا لیا اور وہ خار گلزا رہو گیا۔ جو کانٹے پھولوں کے دامن میں ہیں مالی بھی ان کو گلستان سے نہیں نکالتا، مگرجو کانٹے پھولوں کے دامن میں نہیں چھپتے ، ان کو گلستان سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ پس اگر تم خار ہو تو اﷲ والوں کے دامن میں اپنا منہ چھپا لو،تم اﷲ کے قرب کے باغ سے نہیں نکالے جاؤ گے۔
اس کی ایک بہترین مثال اصحابِ کہف کا کُتا بھی ہے، اور نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی ہے ،کتے کو دھتکارا نہیں گیا ،اور پسرِ نوح کو اپنایا نہیں گیا بلکہ اہل بیت نبی سے نکال دیا گیا۔
اچھی اور بُری صحبت کا اثر بھی ضرور ہے ۔ دیکھیے! آپ نے زمین میں ایک بیج ڈال دیا، بیج پڑ گیا، یہ ضروری نہیں کہ فوراً درخت سامنے اُگ آئے، بیج پڑ گیا، اب آہستہ آہستہ کام ہوتا رہے گا ۔
الله والوں کی صحبت کا فائدہ بھی یہ ہوتا ہے کہ بیج بعض دفعہ پڑ جاتا ہے، او ر اگرمرشد کامل ہواور طلب سچی، تو بیج پڑ جائے گا اور کچھ دنوں یابرسوں کے بعد رنگ ضرور بدلے گا۔
چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ’’خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘،
اورآپ نے دیکھا ہوگا کہ لوہا جب آگ کی بھٹی میں رکھا جاتا ہے، تو چند منٹ میں وہ آگ کا اثر قبول کر کے آگ ہی کی مانندسرخ، گرم اور روشن ہو جاتا ہے۔
اسی طرح غور کیجیے کہ ایک بے جان و بے حس انڈے کو مرغی کی چند روزہ رفاقت، صحبت اور معیت میسر آتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک حساس و جاندار چوزہ کے روپ میں خالق کائنات کی بے مثال قدرت و صناعی (کاریگری) کا ایک شاہکار وجود میں آجاتا ہے۔
قرآنِ پاک کا حکم ہے :الرَّحْمٰنُ فَاسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا :۔فرقان/۵۹ :۔ رحمن کی رضا و رحمت کا راستہ کسی باخبر سے پوچھو!!!
اور یہ باخبر لوگ اللہ والے ہی ہیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا: 
والفخر والخیلاء فی اہل الخیل والابل
فخر اور تکبر ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جو گھوڑے اور اونٹ پالتے ہیں ان میں تکبر پایا جاتا ہے۔
والسکینۃ فی اہل الغنم (صحیح بخاری شریف: 3125) 
معلوم ہوا جانوروں کی صحبت کا اثر بھی ہوتا ہے۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ سے پوچھا: 
قَالَ: أُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: أُصَلِّي فِي مَبَارِكِ الْإِبِلِ؟ قَالَ: «لَا»
کیا میں بھیڑ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ۔ جی ہاں
انہوں نے اگلا سوال پوچھا۔
کیا میں اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں "
اس حدیث میں حضور ﷺ نے بھیڑ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہیں اور اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔
شایدوجہ اس کی یہ ہے کہ بکریاں عاجز ہوتی ہیں، اور اونٹ گھوڑے متکبر
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ پیروی کس کی کرے۔ تو جانئے
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ: مَنْ کَانَ مُسْتَنًا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْمَاتَ فَاِنَّ الْحَیَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَۃُ اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ مُحَمَّدِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانُوْا اَفْضَلَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اَبَرَّھَا قُلُوْبًا وَّاَعْمَقَھَا عِلْمًا وَّاَقَلَّھَا تَکَلُّفًا اخْتَارَھُمُ اﷲُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ وَلَا قَامَۃِ دِیْنِہٖ فَاعْرِفُوْالَھُمْ فَضْلُھُمْ وَاتَّبِعُوْ ھُمْ عَلَی اَثَارِھِمْ وَتَمَسَّکُوْا بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ اَخْلَاقِھِمْ وَسِیَرِھِمْ فَاِنَّھُمْ کَانُوْا عَلَی الْھُدٰی الْمُسْتَقِیْم۔ (رواہ رزین)
ترجمہ:اور حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو فوت ہو گے ہیں ( اور جن کی پیروی کرنی چاہئے) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہیں، جو اس امت کے بہترین لوگ تھے، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے منتخب کیا تھا لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو (اس لئے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔" (رزین)
اہل اللہ یا علمائے حق کا کردار کیا ہے، مثلاََ
پہلوانی سیکھنے والااگر تمام داؤ پیچ تو سیکھے،مگر بادام اور دودھ ،خوراک نہیں کھائےپیے گا، تومقابلے کے وقت دُشمن اس کو پٹخ دے گا ،کیونکہ اس کو طاقت کی بھی ضرورت ہےجو خوراک سے حاصل ہو گی۔ لہٰذ ا علم (داؤ پیچ )ہیں اور صحبتِ اہل اللہ(خوراک ) ہےیعنی علم و صحبت دونوں بہت ضروری ہے۔ ورنہ روح میں پوری طاقت نہیں آئے گی اور نفس و شیطان اس کو پٹخ دیں گے یعنی مغلوب ہوکر یہ گناہ کر بیٹھے گا۔
جیسے دنیاوی پہلوانی میں ،،پہلوان اُستاد،، اپنے شاگردوں سے کہتا ہے کہ دیکھو میرے اکھاڑے میں آکر مجھ سے (1)داؤ پیچ سیکھنا(2) اور گھر جاکر بادام اور دودھ پینا(3) لیکن اس کے ساتھ ذرا لنگوٹی مضبوط رکھنا، کوئی بدپرہیزی نہ کرنا۔
اسی طرح اللہ والے بھی یہی فرماتے ہیںاور سکھاتے ہیں، (1)علم (داؤ پیچ )سیکھنا (2)اور صحبتِ اہل اللہ(خوراک ) کھاتے کھاتے پیتے رہنا(3)مگر گناہ زہر ہے زہر، لہٰذا لنگوٹی پاک رکھنایعنی گناہ کو اختیار نہ کرنا۔
ایک ڈاکٹر کو ہی دیکھ لیجئے!
ڈاکٹر کوہی دیکھ لیجئے 6 سال پڑھا، ڈگری نہیں ملی ، پڑھنے کے اگلے ہی دن اپریشن کرنے کی اجازت نہیں ملی ،اس وقت تک اجازت نہیں جب تک پریکٹیکل نہ کر لے، اور کچھ نہیں توایک سال اس کو ڈاکٹروں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر کی صحبت میں رہو تب جاکر ڈگری ملے گی ،پہلے مریض دیکھو، ڈاکٹر کی سرپرستی میں تمہاری نگرانی کی جائے گی ۔
مگر دین کے معاملے میں ہم دو لفظ پڑھ لیں تو کسی کو بات نہیں کرنے دیتے ،استاد اور پریکٹیکل کی ضرورت نہیں سمجھتے،بھائی اگر چار لفظ پڑھ لئے ہیں تو ان کو کسی پریکٹیکل سینئر سے سمجھ بھی لے تاکہ گمراہ نہ ہو جائے، 
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتے ہیں: صراط الذین انعمت علیھم :۔ رستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا:۔ 
علم کے ساتھ ساتھ اہل اللہ کی صحبت اختیار کر، اور فضل الٰہی سے امید رکھ کرم رکھ
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتے ہیں: وَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَازَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا
ترجمہ:۔ اگر اللہ کی رحمت اور فضل تم پر نہ ہو تو تم کبھی پاک نہیں ہوسکتے۔
علامہ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ علم دین اس سے سیکھو جو دین دار ہو، اس لیے کہ یہ علم دین ہے ، بے دین سے نہ سیکھو
”فانظروا عمن تأخذون دینکم“ سوچ لو دین کس سے لے رہے ہو ؟
کیوں کہ جب اس کی صحبت میں جاؤ گے تو اس کے اثرات پڑیں گے ،وہ دین کی باتیں تو کرتا ہے، لیکن خو داس کے خلاف ہے ۔ یہ قیامت کی علامت میں سے ہے ۔
”اذا وسد الأمر الیٰ غیر أھلہ فانتظر الساعة“ جب نااہلوں کو کام سپرد کردیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر و۔
نا اہل کی کیا علامات ہیں؟
حضرت امام باقررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی ہے کہ پانچ آدمیوں کے ساتھ نہ رہنا، ان سے بات بھی نہ کرنا، حتیٰ کہ راستہ چلتے ہوئے ان کے ساتھ راستہ بھی نہ چلنا۔ 
۱۔ فاسق شخص کہ وہ تجھے ایک لقمہ بلکہ ایک لقمہ سے کم میں بھی فروخت کر دے گا۔ 
۲۔ بخیل کے پاس نہ جانا کہ وہ تجھ سے ایسے وقت میں تعلق توڑ دے گا جب تو اس کا سخت محتاج ہو۔
۳۔ جھوٹے کے پاس نہ بیٹھناکہ وہ دھوکہ سے قریب کو دُور اور دُور کو قریب ظاہر کرے گااور منزل سے دور کردے گا۔
۴۔ احمق کے پاس سے بھی نہ گزرنا کہ وہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر نقصان پہنچا دے گا۔
۵۔ قطع رحمی کرنے والے کے پاس سے بھی نہ گزرنا کہ اللہ نے اس پر قرآنِ پاک میں تین جگہ لعنت پائی ہے۔ (روض الریاحین)
آخری بات :۔ ! اگر شادی بھی کر رہے ہو تویہ یاد رکھو !!! کہ جسم سے نسب چلتا ہے روح سے نسبت
جسم سے نسب حاصل ہوتا ہے، روح سے نسبت حاصل ہوتی ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ نسب بھی صحیح ہونا چاہیے اور نسبت بھی ۔ 
تحریر:۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں