02 مارچ, 2019

کس کا کہا مانیں؟

کس کا کہا مانیں؟ 
چار تعلق ایسے ہیں جن کا حکم ماننے کا پابند اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، ممکن ہے کوئی اور بھی ہو لیکن اس وقت میرے ذہن میں یہ چار ہیں۔
پہلا : اللہ تعالی
اللہ تعالی کا ہر حال میں حکم ماننا ہر صاحب ایمان پر ضروری ہے ۔
دوسرا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے جو دیں وہ لے لیں، جس سے روکیں اس سے رک جائیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآ ؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃُ ُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَآ أَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِی سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (التوبۃ:) 
’’آپ کہہ دیجئیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے ا ور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو،اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیزہیں ،تو اللہ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو۔اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا۔‘‘
تیسرا: والدین
سورہ لقمان میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴿۱۴﴾وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا.. 
میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔میری ہی طرف لوٹنا ہے۔
اور اگر وہ دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دے-
چوتھا: استاد 
استاد کو اسلام نے روحانی باپ کا درجہ دیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن ماجہ۔229)
یہ اعزاز کیا کم ہے کہ پہلا معلم خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے جس نے آدم علیہ سلام کو تمام اسمائے گرامی سکھا دئیے،
جس نے رسول اللہ سے فرمایا۔
پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا"۔(العلق ۔6) 
حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔
یہ چار تعلق تھے جو دین اسلام نے ہمیں سکھائے اور انکے حکم ماننے کا بھی پابند فرمایا۔
ایک پانچواں تعلق ہمارے بزرگان دین نے ہمیں سکھایا جس کو آج کی زبان میں ہم پیرومرشد کہتے ہیں۔
میرا ماننا یہ ہے کہ اگر ہم چار ہستیوں کی فرمابرداری کر لیں تو شاید پانچویں کی ضرورت پیش نہ آئے۔
لیکن اگر ماننا ہی ہے تو پھر اس کی بھی حدود اور شرائط ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے. 
آخری بات کو سمجھنے سے پہلے ایک بار کھلے لفظوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پیر کا بیٹا پیر نہیں ہوتا جب تک وہ شریعت مطہرہ کے تمام تقاضے پورے نہ کر رہا ہو۔
اب پانچواں تعلق پڑھیے
پانچواں : پیر و مرشد 
بیعت کے معنی : بیعت کے معنی بیچنے کے ہیں ۔درحقیقت مرید اپنی مرضی کو مرشد کامل کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اسی وجہ سے اس عمل کو بیعت کہتے ہیں ۔
اب ظاہر ہے کہ بیچنے کی کچھ شرائط ہیں، 
بیعت کرنے والا (بکنے والا) خریدار (پیر) سے چار شرائط پر سودا طے کرتا ھے وہ شرائط اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے بیان فرمائی ہیں ۔
(1) سُنی صحیح العقیدہ ہو۔
(2) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔
(3) فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو
(4) اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ )
بیعت کرنی بھی چاہیے اس لئے کہ حدیبیہ کے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت لی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اپنے ہی ہاتھ کو بیعت کے لئے عثمان کا ہاتھ قرار دیا ۔
اللہ نے اس کا تذکرہ اپنی رضا کے اعلان کے ساتھ قرآن میں فرمایا۔
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ اور بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے، 
کہ جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے۔
اس بات کو اس حدیث مبارکہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دل ایک ایسے پر کی مثل ہے جسے ہوا الٹتی پلٹتی رہتی ہے ۔(مشکوٰۃ) 
تو ہم سمجھتے ہیں کہ پیر و مرشد اس ہوا کو روکنے والی دیوار ہے کہ جو بندے کے دل کو الٹ پلٹ کرتی ہے ۔
تو دوستو : اپنا ہاتھ اس مرشد کامل کے ہاتھ میں دیجئے جو آپ کے لئے دیوار کا کام کر سکے۔
آخری جملہ 
آج کل بہت مسندوں پر گدی نشین نہیں بلکہ
: گندی مشین: ہیں ۔
ولایت کا تعلق صاحبزادہ ہونے سے نہیں صاحب کردار ہونے سے ہے، اور صاحب کردار وہ ہے جس نے تقوی کو اختیار کیا۔
اگر کوئی سیاستدان اپنے بڑوں کے کردار کے قصیدے پڑھے تو سمجھیے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
اور اگر کسی جگہ پر کوئی گدی نشین اپنے بڑوں کی کرامتیں بیان کرے تو سمجھیے اپنے عمل سے اس نے بھی کچھ نہیں کیا ۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں