02 مارچ, 2019

جادو، معجزہ اور کرامت

جادو، معجزہ اور کرامت
اولیاء اللہ کی نسبت سے ربیع الثانی میں کرامات پر ایک تحریر۔
جادو ،معجزہ اور کرامت کو سمجھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشین رکھیئے۔
کرامت اللہ کے ولی کی پہچان کی ختمی شکل نہیں
اگر اللہ کے ولی کی پہچان کا معیار کرامت کو ہی بنا لیا جائے، کرامت کو ہی معیار ولایت سمجھنے والے، یا کرامت کے دھوکے میں شعبدہ بازی دکھانے والے کو ولی اللہ سمجھنے لگیں۔
اگر ایسے لوگ سامری جادوگر کے زمانے میں ہوتے تو اس کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کردیتے یا سامری کو بڑا پہنچا ہوا سمجھنا شروع کردیتے۔
فرعون کے جادوگروں کو تو بڑا ولی اللہ سمجھ بیٹھتے کہ رسیوں کے سانپ بنا دیئے ۔
ذرا غور کیجیے! 
کل ان لوگوں کا کیا حال ہوگا ۔
کہ جب دجال آئے گا اور اپنے دائیں اور بائیں جنت و دوزخ لیے ہوئے ہو گا، جس کو چاہے گا نفع پہنچائے گا جس کو چاہے گا نقصان پہنچائے گا، مردے زندہ کردے گا۔
تو نعوذ باللہ کیا ہم اس کو اللہ کا ولی سمجھ لیں گے؟ 
تو دوستو اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم معیار ولایت سمجھیں۔
لیکن یہ مت سمجھئے کہ آج کرامت نہیں ہو سکتی اللہ کے ولی قیامت تک آتے رہیں گے اور کرامت کا ظہور بھی ہوتا رہے گا کیونکہ اللہ کے ولیوں کی کرامت کا تذکرہ قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔
آصف بن برخیا: یعنی تخت بلقیس کو لے کر آنے والے کی کرامت۔
حضرت مریم علیہ السلام کی کرامتیں، اصحاب کہف، وغیرہ 
لیکن اللہ کے ولی کی پہچان صرف کرامت سے نہیں بلکہ
اللہ کے ولی کی پہچان تین بنیادی چیزوں پر ہے. 
نمبر 1
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے
ان اولیآؤہ الّاالمتّقون
بے شک متقی (ولی اللہ) وہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں. 
نمبر 2
اللہ کی طرف بلانے والا ہو، اورخود ایسا ہو کہ اسے دیکھ کر خدا یاد آ جائے. 
نمبر 3
رزق حلال ہی اس کا ذریعہ ہو بلکہ شبہ والی چیزوں سے بھی اپنے آپ کو بچا کر رکھنے والا ہوں۔
اللہ کے ولی کا اللہ تعالی سے ڈر اور خوف دنیا والوں کی طرح نہیں ہے کہ جس سے وحشت پیدا ہوتی ہے، 
بلکہ اللہ کا ولی اللہ کی معرفت حاصل کرلیتا ہے اللہ کو پا لیتا ہے تو اس کا ڈر محبوب والا ڈر بن جاتا ہے
محبوب والاڈر کیا ہوتا ہے؟ 
کہ محبوب کی رضا ، چاہت اور قرب کے لئے کام کرتا ہے نہ کے محبوب کے خوف کی وجہ سے ۔
اب آتے ہیں کہ ان تینوں چیزوں کی تھوڑی سی پہچان ہو جائے
بظاہر ایک جیسے نظر آنے والے یہ تین کام جادو، معجزہ اور کرامت ۔
1) جادو، اللہ کی طرف سے حرام کر دیا گیا۔
2) معجزہ، اب ہو نہیں سکتا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
3) کرامت، اولیاء اللہ کی کرامتوں کا ظہور ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔
جادو، معجزہ اور کرامت کی تعریف۔
جادو
جادو، دین میں ہلاکت لانے والے کئی امور کا مجموعہ ہے۔مثلا جنّوں اور شیاطین سے مدد طلب کرنا، غیر اللہ کا دل میں خوف، شیطان جادو گر کو بھڑکاتا ہے کہ جادوگر اللہ کے بندوں کو اذیت و تکلیف پہنچائے، اس کی ایک دو مثال قرآن کریم سے عرض کردیتا ہوں
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے :
فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ
وہ ان سے وہ ( جادو ) سیکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ میاں بیوی کے مابین تفریق و علیحدگی پیدا کر دیتے ہیں۔
اور دوسری جگہ پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ
وہ ایسی چیز ( جادو ) سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان ہی پہنچاتا ہے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
معجزہ 
معجزہ مِن جانبِ اللہ ہوتا ہے، معجزہ کا صدُور اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول کے ذرِیعہ ہوتا ہے، معجزہ قوانینِ فطرت کے خلاف نظر آتا ہے، اور عالمِ اَسباب کے برعکس ہوتا ہے، معجزہ نبی اور رسول کا ذاتی نہیں بلکہ عطائی فعل ہوتا ہے، معجزے کے سامنےعقلِ اِنسانی ماند پڑ جاتی ہے ۔
اب کسی سے معجزہ کا ظہور نہیں ہوگا اس لیے کہ اللہ تعالی نے نبوت کا دروازہ خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بند کر دیا ہے۔
اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے آج کل ہمارے بعض جہلاء میں معجزہ کے نام پر کچھ کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں جو کہ سراسر تعلیمات اسلامی کے خلاف ہیں۔
کرامت
کرامات دو قسم کی ہیں۔ (۱) حسی۔ (۲) معنوی۔
عام مسلمان تو صرف حسی کرامت کو ہی کرامت سمجھتے ہیں، مثلاً کسی کے دل کی بات بتا دینا، پانی پر چلنا، فوراً دعا کا قبول ہو جانا وغیرہ۔ جس طرح حضرت خضر علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں موجود ہے۔
اور کچھ اس میں جعلی کرامتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں، 
مثلاً ! بنانا کا چھلکا اتارے بغیر اندر سے کٹا ہوا ہونا، حالانکہ وہ کپڑے سینے والی سوئی اس کیلے کے درمیان میں داخل کرکے گھماتے ہیں اور اس کو کاٹ دیتے ہیں،
انڈے میں سے سوئیاں نکالنا، حالانکہ انڈے کو سرکے میں بھگو دیتے ہیں اور اس کا چھلکا نرم ہوجاتا ہے اور اس میں سوئیاں داخل کر دیتے ہیں۔
اس طرح کے بے شمار شعبدوں کو لوگ کرامت تصور کرلیتے ہیں ۔
مگر میری گفتگو کا لبِ لباب یہ ہے کہ 
کرامت معنوی جو خواص اہل اللہ کے یہاں معتبر ہے وہ یہ ہے۔
کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو شریعت مطہرہ کی پابندی نصیب کرے،
نیک اخلاق کا مالک ہو،
فرائض، واجبات اور سنتوں پر عمل کرے، 
برے اخلاق مثلاً دھوکہ دہی، حسد، کینہ اور ہر بری خصلت سے دل پاک و صاف رکھے۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
خرق عادت(خلاف عادت کسی بات کا ظاہر ہونا) نہ تو ولایت کے لئے شرط ہے، نہ رکن۔
تاہم اولیاء اللہ سے کرامات کا ظاہر ہونا مشہور و معروف ہے، لیکن کثرت کرامت کا ظاہر ہونا کسی کے افضل ہونے کی دلیل نہیں، افضلیت کا مدار اللہ تعالیٰ کے حضور قرب درجات پر ہے۔

تحریر:۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں