02 مارچ, 2019

کمی ہے یا احساس کمتری

کمی ہے یا احساس کمتری
جب کسی بھی معاشرے میں رہنے والا احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم میں یقیناََ کوئی کمی ہے ،کبھی کہتاہےہم میں یہ بھی کمی ہے ،وہ بھی کمی ہے۔
کبھی ایک پھول کو معیار محبت سمجھنے لگ جاتا ہے۔
سارا سال اولڈ ہاوس میں چھوڑ کر ایک دن ماں باپ کو یاد کرکے معاشرے کو مکمل سمجھتا ہے۔
اے مسلمان ! تیرے مذہب ومعاشرے میں کمی کوئی نہیں ہے صرف اپنانے کی ضرورت ہے ۔
اور الحمد للہ ! پھر اسلامی معاشرہ ، کامل ، اکمل ، احسن !
گھر بسانے کے انداز ِمحبت اسلام کے ہے ہی نرالے ۔
قرآن میں میرا رب کہتا ہے۔
اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً
ۭ اس نے تمہاری جنس ہی سے تمہاری بیویاں پیداکیں تاکہ تم ان کی طرف مائل ہو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کو پیداکیا:۔
باقی تو اللہ کے بنائے رشتوں کی قدر ہے،مگر یہ رشتہ اللہ کی اجازت سے تم نے بنایا ہے،اس لئےمحبت کا معیار صرف بیویاں ہیں جن کے ساتھ تم نے مودۃ ومحبت رکھنی ہے، ہر عورت پر نظر نہیں :۔
ایک پھول کو جسم و روح کی قیمت سمجھنے والے۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم بھی دیکھ لے۔
میاں بیوی کا بیٹھ کر محبت وپیار کی باتیں کرنا، ہنسی و دل لگی کرنا، نفلی نمازوں سے بھی بہتر ہے۔ 
کسی ایک بار کےاظہار محبت کو سب کچھ سمجھنے والے
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: “تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے حق میں سب سے اچھا ہو، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے حق میں سب سے اچھا ہوں۔” (مشکوٰة ص:۲۸۱)
اور ہر وقت عورت کو سیدھا کرنے کے چکر میں رہنے والے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں فرماتے ہیں:۔ کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ ٹیڑھی پسلی کی مانند ہے۔( بخاری شریف) 
دیکھو تمہاری ٹیڑھی پسلی کام دے رہی ہے یا نہیں؟
اگر سیدھی کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر ٹیڑھی رہنے دو تو تمہارے لیے مفید ہے، پس ان کے ٹیڑھے پن سے کام چلاؤ۔
اسلام گھر بسانے کے انداز تو سکھاتا ہی ہے، اگر کبھی نوبت یہاں تک پہنچ جائے۔۔
اگر بیوی کو چھوڑنا ہی پڑ جائے، تو پھر بھی حسن سلوک کے ساتھ چھوڑو۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ مہذب معاشرہ ہوسکتا ہے؟
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌ بِاِحْسَانٍ :۔ترجمہ۔ طلاق دو بار ہے، پھر یا تو بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
قرآن کریم تو دولت کے لالچ سے اس حال میں بھی بچا رہا ہے
کیونکہ قرآن میں ہے آیت:۔ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا:۔ 4 ۔ النسآء :20) 
یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو۔
میرا دین کامل ہے بس اپنانے کی ضرورت ہے۔
حضرت انس رضی اﷲتعالیٰ عنہ ہیں کہ جو اپنے بڑے بوڑھوں کی عزت کرے گا اﷲتعالیٰ اس کے چھوٹوں سے اس کو عزت دلائیں گے
جس مذہب اور معاشرے میں ماں باپ کو ہر بار(بار بار) محبت کی نگاہ سے دیکھنا ایک حج و عمرہ کا ثواب ہو۔
اور بیت اللہ کا حج ایک ہی بار فرض ہو، اس سے مہذب معاشرہ کیا ہو گا؟
ماں کے قدم چومنا اور باپ کے ہاتھوں کو بوسہ دینا جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دینا ہو۔
ماں کے قدموں تلے جنت۔
باب جنت کا دروازہ ہو۔
اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا صدقہ ہو۔
سلام میں پہل کرنا نوے نیکیاں،اورسلام کا جواب دینا تیس نیکیاں ہوں۔
صفائی نصف ایمان ہو۔
اور نکاح بھی آدھا ایمان ہو۔
جس مذہب و معاشرے میں ازدواجی حقوق ادا کرنا بھی رات بھر کے نوافل سے افضل ہو۔
جب کہ مجھے یہ سکھایا گیا ! اپنے بھائی کے ساتھ تعاون کرو اگرچہ اس کے ڈول میں پانی ڈال دینا ہی ہو۔
جب ہنڈیا چولہے پر چڑھاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ ڈال لو تاکہ تمہارا ہمسایہ بھی اس سے نفع حاصل کرے۔
اللہ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت گھر لے کر آؤ تو اگر ہمسائے کو نہیں دے سکتے تو چھپا کر لاؤ۔
جب راستہ سے ایک کانٹا ہٹا دینا بھی صدقہ ہو۔
جب یہ سکھایا جائےیتیم کے سامنے اپنے بچے سے پیار مت جتاؤ۔
اسی لئے کہتا ہوں مجھے کمی کیا ہے،کیوں احساس کمتری کا شکار ہوں
مدعا کیا ہے؟
یورپ کہتا ہے۔
اگر پابندیاں ماں باپ لگائیں تو اولڈ مائنڈڈ، حقوق پہ ڈاکا ہے۔
اور اگر وہی پابندیاں بوائے فرینڈ /شوہر لگائے تو وہ بڑا حسّاس ، ذمہ دار ،حیا والا ہے۔
لیکن میرا خالق و مالک جس نے کائنات کو تخلیق کیا سب سے بڑھ کربہت حیا والا ہے، 
اورمیرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیا ایسی تھی کہ جیسے ایک کنواری حیادار لڑکی ہو۔
جب ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یہ جراءت کی کہ مجھے زنا کی اجازت دیجئے صحابہ قتل کو دوڑے، رسول اللہ ﷺنے قیامت تک کے لئے ایک حکمت بھرا ارشاد فرمایا :۔ 
فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کوئی تیری ماں ،بہن، بیٹی کے ساتھ زنا کرے؟ اس نے کہا ہرگز نہیں
فرمایا اس طرح کوئی بھی اپنی ماں ،بہن،بیٹی کے لئے اس رستے کو پسند نہیں کرتا۔
پھول کے جھوٹ سے کسی کی زندگی برباد مت کرنا کیونکہ ان پھولوں کا تعلق خوشی و غمی سےبھی ہے ، ایک دن جنازے اور قبر پر بھی ایسے ہی پھول ساتھ جائیں گے۔
تحریر :۔ محمدیعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں