27 نومبر, 2017

آپ کے جسم مبارک سے نکلنے والی ہر چیز پاکیزہ ہے

خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی
ہماری پرابلم یہ ہے کہ ہم کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے ۔ علماء کی مجالس میں نہیں بیٹھتے ۔ سکول کالج کے لٹریچر میں ان مضامین کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ان میں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے ۔ جو ایک طویل عرصے سے روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں ،اسلام سے اور زیادہ دوری ہوتی ہے ،اس کی وجہ مساجد کی کمی ، لائبریری کا نہ ہونا ، اور سب سے بڑی وجہ کام کاج کے اوقات کی وجہ سے ہفتوں  دینی ماحول سے دوری۔۔۔
ان وجوہات کی بنا پر بہت سی احادیث ہماری نظروں سے اوجھل ہو تی ہیں۔۔ اور جب کبھی ہمارے کانوں میں ایسی کوئی حدیث یا روایت پڑ جائے جو ہمارے لئے نئی ہو تو ہماری نظر میں بیان کرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔۔اور قابل نفرت ہوتا ہے۔
حالانکہ اس عالم دین نے وہ بات کسی خاص تناظر میں کہی ہوتی ہے۔تناظر سے یاد آیا
تناظر بھی دو طرح کے ہیں ایک ہے کسی چیز کو اس کے تناظر میں دیکھنا اور دوسرا
تہتر کے آئین کے تناظر میں مولانا فضل الرحمن والا۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا یار پہلے سیاق وسباق دیکھ لیا کرو وہ کہنے لگا قاری جی سیاق وسباق کہنوں کہندے نے ۔۔۔۔۔۔ ہن دسو
قرآن کے رموز و اوقاف میں لکھا ہے
اُٹھو ، مت بیٹھو  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُٹھو مت ، بیٹھو
ہن مینوں کوئی دسے میں اٹھاں یا بیٹھاں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اصل کہانی
پھر کوئی نعوذباللہ کہہ کر آگے شئیر کرتا ہے ۔۔ کوئی گالی دیتا ہے۔۔۔۔
دراصل ایسا کوئی بھی موضوع عوام کے ذہنوں سے تھوڑا اوپر ہوتا ہے۔۔۔۔ تو علماء ایسے عنوان بڑے بڑے علماء کی مجالس میں بیان کرتے ہیں۔۔
مگر برا ہو ایڈیٹنگ فتنہ پروروں کا اس کا ایک پیس اٹھا کر چاہل عوام میں چھوڑ دیتے ہیں۔
تو پھر۔ ۔۔۔  مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے ترنی،
میرے آج کے مضمون کا عنوان میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے شعر میں ہے۔
جب سے ہم پر مفتیانِ فیس بوک یا یوں کہہ لیجیے مفتیان گرام 2 گرام مسلط ہوئے ہیں۔ ہر عالم دین پر گالیوں کی بوچھاڑ ہے۔۔
اس دھرنے کے دوران دو وڈیوز وائرل ہوئیں ۔۔۔
نمبر 1) ۔
مولانا جمال الدین بغدادی صاحب نے علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے بارے ایک خواب ویڈیو میں بیان کیا
اور دوسرا
پیر افضل قادری صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز(یعنی پیشاب پاخانہ) کا پاک ہونا بیان کیا۔۔۔
اس سلسلہ میں یہ جواب عرض ہے

1: )۔۔۔۔ مولانا جلال الدین بغدادی صاحب نے ایک تو جو فرمایا وہ ان کی ذاتی رائے ہے ،
اور "خواب" ہے جسے انہوں " اللہ کی قسم" اٹھا کر بیان فرمایا،
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ جس نے مصطفی کریم علیہ السلام پر جھوٹ باندھا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنایا،

2: )۔۔۔اگر احادیث کی روشنی میں دیکھیں تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں۔۔۔۔۔
1: عن جابر بن عبد اللہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
من زار عالما، فکانما زارنی، ومن صافح العلماء فکانما صافحنی
نبی کریم علیہ السلام فرمایا جس نے کسی عالم کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری زیارت کی۔
اور جس نے کسی عالم سے مصافحہ کیا گویا کہ اس نے میرے سے مصافحہ کیا
حوالہ: الفردوس، امام دیلمی

اسی طرح دوسری حدیث
من زار العلماء فقد زارنی
جس نے علماء کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی

اسی طرح مزید احادیث
حضور ﷺ نے فرمایا:العلماء ورثۃ الانبیاء۔’’علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔‘‘( ابو داؤد و الترمذی)حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :یستغفرللعالم مافی السمٰوٰات والارض۔’’زمین و آسمان کی تمام مخلوق ایک عالم دین کے لئے بخشش کی دعا مانگتی ہے ۔‘‘ (ابو داؤد)

حضور اکرم ،نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:فضل العالم علی عابد کفضلی علی ادنی رجل من اصحابی۔’’ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی میری فضیلت میرے اصحاب میں سے کسی ادنیٰ صحابی پر ۔‘‘(ترمذی شریف)جب قرآن و حدیث میں عالم کے اتنے فضائل ہیں ۔تو دیکھنا ہو گا کہ عالم کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ۔

مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر بغیر ترجمہ کے چند احادیث۔۔۔۔
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: مَنْ زَارَ عَالِما فَكَأَنَمَّا زَارَنِي، وَمَنْ صَافَحَ عَالِما فَكَأَنَّما صَافَحَنِي، وَمَنْ جَالَسَ عَالِما فَكَأَنَّما جَالَسَنِي في الدُّنْيَا، وَمَنْ جَالَسَنِي في الدُّنْيَا أَجْلَسْتُهُ مَعِي يَوْمَ القِيَامَةِ)

وعن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ زَارَ عَالِما فَقَدْ زَارَنِي، وَمَنْ زَارَنِي وَجَبَتْ له شَفَاعَتي، وكانَ لَهُ بِكُلِّ خَطْوَةٍ أَجْرُ شَهِيدٍ»

وعن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «مَنْ زَارَ عَالِما ضَمِنْتُ لَهُ عَلى الله الجَنَّةَ»

وعن علي بن أبي طالب أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ زَارَ عَالِما أيْ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ قَرَأَ عِنْدَهُ آيةً مِنْ كِتَابِ الله أعْطَاهُ الله تَعَالَى بِعَدَدِ خطَوَاتِهِ قُصُورا فِي الجَنَّةِ وَكَانَ لَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ قَرَأَهُ عَلَى قَبْرِهِ قَصْرٌ في الجَنَّةِ مِنْ ذَهَبٍ»،

عَنْ سَفِيْنَةَ رضی الله عنه قَالَ: احْتَجَمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ لِي: خُذْ هٰذَا الدَّمَ فَادْفِنْهُ مِنَ الطَّيْرِ وَالدَّوَابِ وَالنَّاسِ، فَتَغَيَّبْتُ فَشَرِبْتُه، ثُمَّ سَأَلَنِي أَوْ أُخْبِرَ أَنِّي شَرِبْتُه فَضَحِکَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا موضوع
پیر افضل قادری صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بول و براز(یعنی پیشاب پاخانہ) کا پاک ہونا بیان کیا۔۔۔
اس سلسلہ میں یہ جواب عرض ہے

وروی ان رجلًا قال رایت النبی ﷺ أبعد فی المذھب فلما خرج نظرت فلم أر شیئاً ورایت فی ذلک الموضع ثلاثۃ الاحجار اللا تی استنجی بھن فأخذ تھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسک فکنت اذا جئت یوم الجمعۃ المسجد اخذ تھن فی کمی فتغلب رائحتھن
روائح من تطیب وتعطر۔
(صحابہ کرام میں سے) ایک مرد سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضور ﷺ ضرورت رفع فرمانے کے لئے بہت دُور تشریف لے گئے جب واپس تشریف لائے تو میں نے اس جگہ نظر کی کچھ نہ پایا البتہ تین ڈھیلے پڑے تھے جن سے حضور ﷺ نے استنجا فرمایا تھا میں نے انہیں اُٹھا لیا، ان ڈھیلوں سے مشک کی خوشبوئیں مہک رہی تھیں، جمعہ کے دن جب مسجد میں آتا تو وہ ڈھیلے آستین میں ڈال کر لاتا ان کی خوشبو ایسی مہکتی کہ وہ تمام عطر اور خوشبو لگانے والوں کی خوشبو پرغالب آجاتی۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ زُبَيْرٍ رضی الله عنه، أَنَّه أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم وَهُوَ يَحْتَجِمُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: يَا عَبْدَ اﷲِ، اِذْْهَبْ بِهٰذَا الدَّمِ فَأَهْرِقْه حَيْثُ لَا يَرَاکَ أَحَدٌ، فَلَمَّا بَرَزْتُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَمَدْتُ إِلَی الدَّمِ فَحَسَوْتُه، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: مَا صَنَعْتَ يَا عَبْدَ اﷲِ؟ قَالَ: جَعَلْتُه فِي مَکَانٍ ظَنَنْتُ أَنَّه خَافَ عَلَی النَّاسِ، قَالَ: فَلَعَلَّکَ شَرِبْتَه؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ أَمَرَکَ أَنْ تَشْرَبَ الدَّمَ؟ وَيْلٌ لَکَ مِنَ النَّاسِ وَوَيْلٌ لِلنَّاسِ مِنْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.

2: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 /638، الرقم: 6343، .

’’حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پچھنے لگوا رہے تھے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: اے عبد اللہ! اس خون کو لے جاؤ اور اسے کسی ایسی جگہ بہا دو جہاں تمہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔ پس جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی (ظاہری) نگاہوں سے پوشیدہ ہوا تو خون مبارک پینے کا ارادہ کیا اور اُسے پی لیا (اور جب واپس پلٹے) تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے عبد اللہ! تم نے اس خون کا کیا کیا؟ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے اسے ایسی خفیہ جگہ پر رکھا ہے کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ (ہمیشہ) لوگوں سے مخفی رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم نے شاید اُسے پی لیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس نے خون پینے کو کہا تھا؟ (آج کے بعد) تو لوگوں (کو تکلیف دینے) سے محفوظ ہوگیا اور لوگ تجھ سے (تکلیف پانے سے) محفوظ ہو گئے۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

. عَنْ حَکِيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ عَنْ أُمِّهَا رضي اﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَبُوْلُ فِي قَدَحِ عِيْدَانٍ، ثُمَّ يُوْضَعُ تَحْتَ سَرِيْرِه، فَبَالَ فِيْهِ ثُمَّ جَاءَ فَأَرَادَه فَإِذَا الْقَدَحُ لَيْسَ فِيْهِ شَيئٌ فَقَالَ لِامْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: بَرَکَةُ کَانَتْ تَخْدِمُ أُمَّ حَبِيْبَةَ رضي اﷲ عنها جَائَتْ بِهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ: أَيْنَ الْبَوْلُ الَّذِي کَانَ فِي الْقَدَحِ؟ قَالَتْ: شَرِبْتُه فَقَالَ: لَقَدِ احْتَظَرْتِ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 /189، الرقم:

’’حضرت حکیمہ بنت اُمیمہ رضی اﷲ عنہا اپنی والدہ سے بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (بیماری کے عالم میں رات کے وقت) لکڑی کے پیالے میں پیشاب کیا کرتے تھے، پھر اُسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ عمل فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوبارہ تشریف لائے اور اس برتن کو دیکھا (تاکہ گرا دیں) تو اس میں کوئی چیز نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ برکہ سے، جو کہ حبشہ سے ان کے ساتھ آئیں تھیں، اس بارے میں استفسار فرمایا کہ اس برتن کا پیشاب کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) میں نے اسے پی لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو نے خود کو جہنم کی آگ سے بچا لیا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

آپ نے وہ واقعات یقینن سنے ہوں گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
1)  حضرت امام حسین کو اپنی زبان چوسنے کے لیے دی
2)  کنوے میں لعاب دہن ڈالا
3)  ایک صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو تھوک سے جوڑا
4)   حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آنکھوں میں تھوک مبارک لگایا۔
5)۔صحابہ وضو کا پانی نیچے نہ گرنے دیتے تھے۔
6) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک زمیں پرنہ گرنے دیتے۔۔۔
آپ کے جسم مبارک سے نکلنے والی ہر چیز پاکیزہ ہے۔
واللہ اعلم بصواب
تحریر محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

16 نومبر, 2017

مذاق اور مزاح میں فرق

مذاق اور مزاح میں فرق
یا ایھاالزین آمنو لا یسخر قوم من قوم۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ایمان والوں کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔
دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا۔
والے قال موسی لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحو بقرہ قالوا اتتخذنا ھزوا قال اعوذ بااللہ ان اکون من الجاھلین
اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا بے شک اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے انہوں نے کہا کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام  نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔
قرآن کے مطابق مذاق کرنا جاہلوں کا کام ھے۔ البتہ مزاح اور چیز ھے۔
مزاح کا مطلب کوئی نقطہ افروز بات کرنا ۔ کہ سننے والے کو سوچنے کے بعد اس کی سمجھ آئے۔۔یا بات کرنے والے کے سمجھانے پر اس کو سمجھ آئے ۔
1) ۔۔مذاق کی مثال تو قرآنِ کریم نے بیان فرما دی۔ اعوذ بااللہ ان اکون من الجاھلین۔ اللہ کی پناہ کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں
2)۔۔اور مزاح کی بہت سی مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کی احادیث سے ملتی ہیں۔
جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔۔ جب وہ بوڑھی عورت پریشان ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سب جوان ہو کر جائیں گے۔
یعنی کہ جنت میں بوڑھے بھی جوان ہوں گے۔
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ کے لیے اونٹنی کا بچہ لے کر آؤ ۔ اب فرماتی ہیں میں ہرگز اونٹنی کے بچے پر نہیں بیٹھوں گی، آپ صلی اللہ وسلم مسکرائے اور  فرمایا جو اونٹ ہے کیا وہ اونٹنی کا بچہ نہیں۔
اسی طرح ۔۔۔ ایک عورت سے فرمایا کہ تیرے شوہر کی آنکھ میں سفیدی ہے۔ وہ گھبرائی اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ میں نے تو آج تک نہیں دیکھی۔ اس عورت کی گھبراہٹ کو دیکھتے ہوئے آپ مسکرائے اور فرمایا ہر شخص کی آنکھ میں سفیدی ہے۔
اسی طرح ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں کھاکر گٹھلیاں حضرت علی کے آگے رکھتے رہے اور گھٹلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا علی آپ نے بڑی کھجور کھا لی ہیں۔ حضرت علی نے جواب دیا آپ نے گٹھلیاں بھی ساتھ ہی کھاتے گئے۔
خلاصہ کلام یہ
1)۔۔مذاق اس کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ شامل ہو اور کسی کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہو۔
2)۔۔اور مزاح اسے کہتے ہیں جس میں نکتہ افروز بات کی جائے اور سمجھنے والا جب اس کو سمجھے تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکے اور اس میں جھوٹ شامل نہ ہو۔
تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

کیا اہل سنت و جماعت (بریلوی )بھی متشدد ہیں؟

کیا اہل سنت وجماعت بریلوی بھی متشدد ہو گئے ہیں ؟
میرا یہ نقطہ نظر خالصتاََ میرا ہے۔ اس کو کسی جماعت کا موقف نہ سمجھا جائے۔
کیونکہ میں اتنا ہی بریلوی ہوں، جتنا میں نقشبندی ،چشتی ، سہروردی ، قادری ، ہوں اسی طرح بریلوی ہوں۔ بلکہ میں ڈیڑھ سو سالہ (سنی) نہیں ہوں۔۔ میں عراق میں بھی سنی ہو ں ۔ میں شام میں بھی سنی ہو ں ۔ میں افریقہ میں بھی سنی ہوں۔  عرب میں بھی سنی ہو ں۔۔ ہمیں آپ مزاروں والے یا صوفیا کرام کو ماننے والے کہہ سکتے ہیں ۔کیوں 14سو سال سے چین میں بھی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مزار کی حفاظت کرنے والے ہم سنی ہیں۔ اور دنیا ہر کونے ہم ہی ثقافت ِاسلامی کے محافظ ہیں۔
اب آتا ہوں اصل بات کی طرف
سنی جن کو برصغیر میں بریلوی بھی کہتے ہیں یہ ہمیشہ سے ہی شدت پسند تھے اور ہیں ۔مگر صرف ایک بات پر اور وہ ہے تحفظ ناموس  رسالتﷺ جس کے لئے غازی علم الدین شھید  نے ناموس رسالت کے لئےاپنی جان دے کر شدت پسندی کی ، قائداعظم نے علم الدین کا  کیس لڑ کے شدت پسندی کا مظاہرہ کیا ، علامہ اقبال نے پہلی صف میں جنازہ پڑھ کر شدت پسندی کا مظاہرہ کیا، علم الدین تو ان پڑھ تھا  مگر قائد اعظم اور علامہ اقبال جن کو خطاب بھی انگریز کا عطا کیا ہوا تھا، وہ تو یورپ کے ڈگری ہولڈر تھے وہ تو شدت پسندی نہ کرتے،
مگر نہیں جب معاملہ رسول اللہﷺ کی ناموس کا آجائے ، تو ہر ایمان والا شدت پسند ہے۔۔ حب رسول کا شعلہ ہردور میں ہر مسلمان کے سینے میں فروزاں رہا ہے ۔ حضرت معاذ اور معوذؓ سے لے کرحضرت زیاد بن سکن تک .... حضرت خبیبؓ سے حضرت حبیب بن زید انصاری تک .... حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے صلاح الدین ایوبی تک .... اور غازی علم الدین شہیدؓ سے غازی عامر عبدالرحمان چیمہ تک اور غازی ممتاز حسین قادری تک.... فدائیان ناموس رسالت کی یہ تابندہ کہکشاں ہمیں یاد کرواتی ہے۔ ناموس رسالت پر یہ قربانیاں جاری رہیں گی۔ اس کے علاوہ  ہم ہر معاملے میں امن پسند ہیں، ہمارے مزارات کو بمبوں سے اڑایا گیا ہم پرامن رہے، سینکڑوں لوگوں کو مشرک کالقب دےکرشہید کر دیا گیاہم پرامن رہے، مساجد میں خود کش حملے ہوئے ہم پرامن رہے،چوراہا ،سٹیڈیم ،جلوس میلاد میں خود کش حملے ہوئے ،ہم پرامن رہے، کیا کیا نہیں کیا گیا ہماری ذات کے ساتھ خارجی لٹریچر اربوں روپے کا ہمارے گلی کوچوں میں پہنچایا گیا ،ہم پرامن رہے۔کبھی طالبان ، کبھی داعش ، اور اس کے حمائتی شرک و بدعت کا لیبل لگا کر قتل کرتے رہے ہم پرامن رہے۔۔ پاکستان کے دل اسلام آباد میں آج بھی اسی شدت پسند ذہنیت کے لوگ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ، جن کی زبانوں سے ایک لفظ بھی کبھی دہشت گردوں کے خلاف نہ نکلا مگر ہم پھر بھی پرامن رہے۔۔۔۔
جس دن ختم نبوت کے قانون میں ہونے والی ترامیم پر ہماری تسلی ہوئی ۔ اور جو اس قانون میں تبدیلی کے مجرم ہیں نشاندہی کردی گئی، اور ان کی سزا کا تعین کر دیاگیا
،تو ہم پھر پر امن ہونگے ۔ہماری تاریخ گواہ ہے ہم پرامن لوگ ہیں۔ اسلام سے اور بانی اسلام رسول اللہ سے، پاکستان سے، اور آئین پاکستان سے،  اور پاکستانی فوج سے ، ہمیشہ سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔
ایک وہ درود شریف، اور محبت رسول ﷺ ہی تو ہے جس کے لئے ہر صاحب ایمان ہر وقت تڑپتا ہے ،اور اس کے لئے میرا تن من دھن اور میری اولاد سب نبی آخر الزمان ﷺ پہ قربان ہے، رہی بات مولوی خادم کی گالیوں کی جب وہ اس مشن سے فارغ ہونگے ۔ پھر گالیوں کا جواب طلب کریں گے ، مگر ابھی ھم الجھنا نہیں چاہتے ۔۔ بعد میں دیکھیں گے کس گالی دی اور کیوں گالی دی ، نجانے ۔۔ بابے علامہ خادم حسین رضوی سے ہمارے کتنے اختلاف ہوں ۔ مگر ابھی صرف ناموس رسالتﷺ پیش نظر ہے۔
ہم تو ایسے پر امن ہیں جب متشدد جماعتیں یہ کہ رہی تھیں ہم اپنے مدارس میں کسی کو داخل نہیں ہونے دیں گے، تواس وقت بھی مدارس اہلسنت وجماعت کے زیر انتظام سیمینار میں یہ ‘‘مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا۔ وہ سیمینار جس میں ملک بھرسے 250سے زائدمدارس اہل  سنت کے ناظمین ،شیوخ الحدیث،مدرسین سمیت علماء ومشائخ اہل سنت کی کثیر تعداد نے شرکت کی ،مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ مدارس کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں کہ ان کو چیک نہ کیا جا سکے۔ مگر سرچ آپریشن کے دوران مسجد کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے ۔
ہم ایسے بھی ہیں۔ ویسے بھی ہیں.
اس دھرنے سے قادیانی اور قادیانی نواز خوش نہیں ہیں ۔۔ اب ڈائریکٹ اس دھرنے کو ختم نہیں کر پارہے تو اسکی اہمیت کو کم کرنے پر زور شور سے کام جاری ہے
تاکہ اسے متنازعہ بنادیا جائے اور پھر سے سب مسئلہ ختم نبوت پر اکٹھے نہ ہوسکیں۔
1) ۔۔ایک کہے گا مولوی خادم حسین گالیاں دیتا ہے۔
2)۔۔دوسرا کہے گا روڈ بلاک کردئیے نظام زندگی متاثر ہوگیا ۔
3)۔۔تیسرا کہے گا یہ اپنی سیاسی دوکانداری چمکا رہے ہیں۔
4)۔چوتھا کہے گا یہ اپنی دال روٹی اور مسلک کا پرچار کرنے کے لیے ختم نبوت کا سہارا لے رہے ہیں ۔۔۔
5)۔پانچواں کہے گا قومی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے توڑ پھوڑ کرکے بدامنی اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔
یوں عوام کی ایک بڑی تعداد کو دھرنے کے خلاف کرنے کی کوشش جاری ہے ۔
کیونکہ کسی کو خادم حسین رضوی صاحب سے اختلاف ہے کسی کو انکے مسلک سے کسی کو انکی پارٹی سے کسی کو انکے نعرے سے کسی کو سیاسی اختلاف ہے بس انکو مخالفت کھل کر کرنے کے لیے ایندھن کی ضرورت تھی جو چند ایک آئی ڈیز سے اسلام دشمنوں نے  دھرنے میں مختلف کیڑے نکال کر فراہم کردیا۔۔۔۔۔
اس سارے پروپیگنڈے کے دوران ختم نبوت کا معاملہ بھول ہی گیا  سوشل میڈیا پر دھرنے کے خلاف پوسٹ پہ پوسٹ ہونے لگی اور اب آگیا یہودی میڈیا اس نے پوری پاکستانی قوم پر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پوری قوم دھرنے سے پریشان ہے سوشل میڈیا الیکڑانک میڈیا پر اسکے خلاف لوگ غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔
اور ایک خاتون ہے جو 4 سال تک کسی کے ٹیکسٹ میسج برداشت کرتی رہی ۔ مگر چند دن کا دھرنا برداشت نہیں ہو رہا۔۔۔۔۔دوستو
یوں ایک عظیم مقصد تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو متنازعہ بنایا جا رہا ھے۔۔
اور قوم ہمیشہ جس مسئلے پر ہمیشہ ایک ہوجاتی ھے ۔۔اب کی بار اس کے آگے بندھ باندھے جا رہے ہیں۔ مگر میرا ایمان ہے ایسا نہیں ہوگا۔ ہم متحد ہوں گے۔
یہ وہ پروپیگنڈہ جو اسلام دشمن کررہے ہیں اور میڈیا کو بھی استعمال کر رہے ہیں ۔
امید کرتا ہوں کہ ذی شعور اہلِ ایمان اس کو ناکام بنا دیں گے۔۔۔۔
تحریر :-محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

ایمان والے ایک جسم کی مانند ہیں


نابینا اور آنکھ والا
ایک نابینا شخص سیدھا چلتا چلتا گڑھے کی طرف جا رہا تھا۔ دو شخص قریب یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، ان میں سے ایک شخص یہ کہنے لگا کہ اس نابینا کو گڑھے میں گرنے سے بچانا چاہیے۔ دوسرا شخص کہنے لگا اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دو اس کو خود ہی سوچ سمجھ کر چلنا چاہیے۔ مگر جو انسانیت کا درد رکھتا تھا ، عین ٹائم پر اس نے آواز دی اور نابینا شخص کو گڑھے میں گرنے سے بچا لیا ۔
دوسری کہانی
ایک نوجوان، تندرست ،توانا، خوبصورت، جوانی کے عالم میں ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ماں باپ کے لاڈ پیار میں پلا ہوا ۔ خطرناک طریقے سے ون ویلنگ کر رہا تھا دو شخص قریب یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ایک شخص کہنے لگا اس کو روکنا چاہیے ، کہیں اس کی جان ہی نہ چلی جائے ۔۔ دوسرا شخص کہنے لگا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو عقلمند بھی ہے ، نوجوان بھی ہے، پڑھا لکھا بھی ، اس کو خود اپنا فکر کرنا چاہئے۔ لیکن جو انسانیت کا درد رکھتا تھا اُس نے کہا نہیں، اس کو آواز دینا چاہیے کہیں جذبات میں اپنی جان ہی نہ کھو بیٹھے، اس شخص نے آواز دی ۔ اور اس نوجوان کو سمجھایا ،اور ون ویلنگ سے منع کردیا۔۔
تیسری کہانی
ایک نوجوان اپنے ماں باپ کا گستاخ و نافرمان تھا،  دو شخص اس کی حقیقت سے واقف تھے ، ایک کہنے لگا اس کو سمجھانا چاہئے دوسرا کہنے لگا چھوڑو خود سمجھ دار ہے اسے اس کے حال پہ چھوڑ دو ، لیکن جو انسانیت کا درد رکھنے والا تھا،  اس نے نوجوان کو سمجھایا، نوجوان ماں باپ کا فرمانبردار ہوا اور جنت کا حقدار بنا۔
بےدرد شخص کو ان کو بچانے کا خیال اس لیے نہ آیا کہ اس نے ان کو غیر سمجھا اگر ان تینوں آدمیوں کی جگہ اس کا اپنا بیٹا ہوتا تو کیا ؟
وہ پھر بھی ایسا خیال رکھتا  چلو ان  کو مرنے دو یہ اسلام کا درس نہیں اسلام نے جو رشتہ قائم کیا ہے قرآن کریم میں ہے ۔ان المؤمنون اخوہ۔ کہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔۔۔۔۔
اسلام تو کہتا هے مسلمان جسم واحد کی طرح ہیں
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے، صحابہ کرام نے عرض کی اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو؟آپ نے ارشادفرمایا : وہ اپنے ہاتھ سے کسب کرے اور اپنی جان کو فائدہ پہنچا دے اورصدقہ کرے ، عرض کی گئی، اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے یا اگروہ ایسا نہ کرے ،تو حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشادفرمایا: مفلوک الحال ضرورت مند کی مدد کردے، انہوں نے استفسارکیا :اگر وہ ایسا بھی نہ کرے تو ، آپ نے ارشادفرمایا : پس وہ نیکی کاحکم دے ، پھر استفسار کیاگیا، اگروہ ایسا بھی نہ کرپائے تو؟حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: وہ شر سے رک جائے اس کا شر سے رک جانا ہی اس کے لیے صدقہ ہے۔
(بخاری ، مسلم ، نسائی ، مصنف ابن ابی شیبہ)
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشادفرمایا :اے ابوذر! نیکی میں سے کسی چیزکو بھی حقیر نہ سمجھنا ، اگر چہ تو اپنے بھائی کو کشادہ چہرے اور خندہ پیشانی سے ملے۔
(مسلم، ترمذی، مشکوٰۃ ، احمد ، الجامع الصغیر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: انسانوں کے ہر جوڑ پر صدقہ لازم ہے ، ہر وہ دن جس میں آفتاب (افق مشرق سے )طلوع ہوتا ہے ، تم دو افراد کے درمیان عدل کرو تو تمہارا یہ عدل کرنا صدقہ ہے تم ایک مسافر انسان کو اس کی سواری میں مدد دو اور اسے اس پر سوار کرادو یا اسے سامان اٹھا کردے دو، تمہارا یہ عمل صدقہ ہے ،کلمہ طیبہ (کاذکر )صدقہ ہے اورہر وہ قدم جس سے تم نماز کی طرف چلتے ہو، تمہارا ہر قدم اٹھانا ، صدقہ ہے ، اوراگر تم اذیت دینے والی کسی چیز کو راستے سے ہٹا دوتو یہ بھی صدقہ ہے۔
(بخاری، مسلم، شعب الایمان:بیہقی ، کنزالعمال) 
کوئی مسلمان ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ورنہ وہ خود بھی تباہ ہوجائے گا اس کشتی کی مثال سے سبق حاصل کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روایت ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے ۱؎ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ کی حدود میں سستی کرنے والوں۲؎ اور ان میں گرنے والوں کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے
--- کشتی ---
میں قرعہ ڈالا پس کچھ لوگ اس کے نچلے حصے میں رہے اور کچھ اوپر والے میں نیچے والے پانی لے کر اوپر والوں کے پاس سے گزرے انہیں اسپر تکلیف دی جاتی تو انہوں نے کلہاڑی لی اور
--- کشتی ---
کا نچلہ حصہ توڑنا شروع کردیا فریق ثانی نے آکر کہا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہا کہ میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے اور مجھے پانی کی ضرورت ہے اگر وہ اس کا ہاتھ پکڑ لیں تو اسے بچالیں گے اور اپنی جانوں کو بھی اوراگر چھوڑ دیں تو اسے ہلاک کردیں گے اور اپنی جانوں کو بھی ہلاک کرلیں گے۳؎ (بخاری)
شرح
۱؎ ابوعبداللہ حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ انصاری ہیں،آپ ہجرت کے بعد انصار میں سب سے پہلے پیدا ہونے والے ہیں،رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے وقت آپ کی عمر آٹھ سال نو مہینے تھی،آپ کے والدین بھی صحابی تھے،حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں آپ کوفہ کے والی تھے، ۷۴ھ؁ میں آپ کو اہل حمص نے شہید کیا،آپ سے ایک جماعت نے احادیث روایت کیں جن میں آپ کے صاحبزادے محمد اور حضرت امام شعبی(رضی اللہ عنہم)بھی شامل ہیں۔۲؎ المدھن اسم فاعل مداھنت سے بنا ہے جس کا معنی فریب کرنا دھوکہ دینا ہے یہاں سستی کرنا مراد ہے۔حدود حد کی جمع وہ شرعی سزائیں جو مقرر ہیں۔ استھمو جمع مذکر فعل ماضی باب استفعال قرعہ اندازی کی۔صاریصیر ہوجانا،باب ضرب یضرب،اجوف یائی۔تاذوا انہوں نے اذیت پائی،باب تفعل سے فعل ماضی جمع مذکر کا صیغہ ہے اور مہموز الفا ناقص یائی ہے۔ینقر باب نصر ینصر سے مضارع واحد مذکر کا صیغہ ہے سوراخ کرنا توڑنا۔اخذواعلی یدیہ کسی کا ہاتھ روکنا۔انجوا باب افعال سے انہوں نے بچایا اور نجوا ثلاثی مزید باب تفعیل ہے جو کہ متعدی اھلك باب افعال کسی کو ہلاک کرنا یا اس کو ہلاکت کا سبب بتانا اور ھلك نصر فتح سمع تینوں طرح آتا ہے اور اس کا معنی ہلاک ہوا دونوں ماضی کے صیغے ہیں۔۳؎ اس حدیث شریف میں ایک مثال کے ذریعہ برائی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے کی اہمیت کو واضح کیا گیا اور بتایا گیا کہ اگر یہ سمجھ کر امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ترک کردیا جائے کہ برائی کرنے والا خود نقصان اٹھائے گا ہمارا کیا نقصان ہے تو یہ سوچ غلط ہے اس لیے کہ اس کے گناہ کے اثرات تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور جس طرح
--- کشتی ---
توڑنے والا اکیلا ہی نہیں ڈوبتا بلکہ وہ سب لوگ ڈوبتے ہیں جوکشتی میں سوار ہیں اسی طرح برائی کرنے والے چند افراد کا یہ جرم تمام معاشرے میں ناسور بن کر پھیلتا ہے۔
آج کل کچھ لوگ یہ کہتے ہیں جو کچھ بھی کر رہا ہے اس کو کرنے دو اس کے حال پر چھوڑ دو۔۔۔۔۔
ٹھیک ھے نابینا کی مدد نہ کرو،  اسے اس کے حال پہ چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔  لیکن یہ انسانیت کا تقاضا نہیں۔
ون ویلنگ کرنے والے کو مت روکو اس کی اپنی زندگی ہے۔۔۔۔
نہیں مگر انسانیت کا تقاضا ہے اس کی زندگی کا سوال ہے۔۔
دینے دو گالیاں ماں باپ کو کرنے دو نافرمانی۔۔۔۔۔۔
نہیں مگر اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے، اسے سمجھانا چاہئے۔
                 دوستوں حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی کسی کو جہنم سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے ، تو پھر کہتے ہیں نہیں یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے ۔۔
کسی کو جہنم سے بچانا جنت کی ترغیب دینا ایمان بھی ہے اور انسانیت بھی ہے۔۔
کسی کی دنیاوی اعتبار سے مدد کرنا ، یا دینی لحاظ سے مدد کرنا صدقہ ہے، اور یہ صدقہ دیتے رہنا چاہیے۔۔۔۔
تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

بلاگ میں تلاش کریں