23 اکتوبر, 2017

تعوذ و تسمیہ پڑھنے کا حکم


تعوذ و تسمیہ پڑھنے کا حکم
تعوذ ،، کا معنیٰ ہے ،پناہ حاصل کرنا ،، ثناء پڑھنے کے بعد منفرد یعنی جو بغیر جماعت کے اکیلا نماز پڑھے اس کے لئے اعوذ بااللہ ، اور بسم اللہ پڑھنا سنت ہے امام کے پیچھے ہو تو ثناء کے بعد خاموش رہے۔۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔ فاذا قرات القران فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم۔ترجمہ- جب تم قرآن مجید پڑھنے لگو تو شیطان مردود کے حملوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کر لیا کرو (سوره النحل)
تسمیہ ،،
یعنی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا ۔۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔
صلي بنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فلم يسمعنا قراءة بسم الله الرحمن الرحيم و صلى بنا ابو بكر و عمر و فلم نسمعها منهما..ترجمة، ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو ہمیں ،،بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
کی آواز نہیں سنائی دی۔ اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھائی۔ان سے بھی ہم نے بسم اللہ کی آواز نہیں سنی۔ ( النسائي شريف ، شرح معاني الاثار)
یعنی یہ سب شخصیات اور حضرات بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔
حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں، كان عمروعلي لايهجران ببسم الله الرحمن الرحيم ولا بالتعوذ ولا بالتامين..
امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور امیر المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم ،،اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم،،اور بسم اللہ الرحمن الرحیم،، اور آمین بلند اواز سے نہیں کہتے تھے۔( شرح معاني الاثار)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.
ان رسول الله صلى الله عليه و سلم و ابا بكر وعمر وعثمان كانوا يفتتحون الصلوة بالحمد لله رب العالمين. (بخاري شريف . مسلم شريف. شرح سنه.)
فرماتے ہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر سیدنا فاروق اعظم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہما الحمد للہ رب العالمین سے نماز کا آغاز فرماتے تھے۔ یعنی تعوذ وتسمیہ آہستہ پڑھتے تھے۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں