31 اکتوبر, 2017

بوہری اور آغاخانیوں کی مختصر تاریخ


بوہری اور آغاخانی میں فرق جانے سے پہلے ان کی مختصر تاریخ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے درحقیقت دونوں کی اصل ایک ہے اور دونوں
 عقیدے کے لحاظ سے شش امامی ہیں پھر فرق کیا ہے اس بارے میں جانے کے لیے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
امام جعفر صادق(ع) کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔ امام صادق(ع) کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق(ع) کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق(ع) کی زندگی میں ہی ہو گئی، امام صادق(ع) بعض لوگوں کے اس عقیدے کو جانتے تھے کہ اسماعیل کو ہی وہ امام سمجھتے ہیں، چنانچہ امام(ع) نے اسماعیل کی وفات کے بعد ان کا جنازہ لوگوں کو دکھایا اور لوگوں کی معیت میں ہی ان کی تجہیز و تکفین کی تاکہ کوئی اسماعیل کی وفات سے انکار نہ کر سکے۔ جب امام صادق(ع) کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثر شیعوں نے امام کاظم(ع) کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، لہذا اس گروہ نے ان کے بیٹے کو امام مان لیا اسی وجہ سے یہ لوگ اسماعیلی کہلائے۔
کچھ لوگوں نے امام صادق(ع) کے ایک اور بیٹے عبداللہ افطح کو امام مانا، یہ لوگ فطحی کہلائے۔ جن لوگوں نے امام جعفر صادق(ع) کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے خلافت فاطمی کی بنیاد رکھی۔
یہ خلفاء بہت شان و شوکت سے وہاں حکمرانی کرتے رہے، قاہرہ شہر اور جامعۃ الازھر کی بنیاد انہی اسماعیلی خلفاء نے رکھی۔ اور اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔ ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے بوھرہ ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے آغا خانی ہیں۔
لیکن چونکہ خلافت مستعلی کو ملی تو نزاری فرار ہو کر ایران آئے اور وہاں قزوین نامی شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں کئی برس تک جاہ و حشم کے ساتھ انہوں نے حکمرانی کی۔ حسن بن صباح کے دور میں ان کو عروج حاصل ہوا اور ان کی فدائین کی تحریک بہت کامیاب ہوئی اور پوری سرزمین ایران میں اپنی دہشت بٹھا دی۔ بعد میں ان کا امام 147حسن علی ذکرہ السّلام148 آیا جس نے ظاہری شریعت ختم کردی اور صرف باطنی شریعت برقرار رکھی، کہا جاتا ہے کہ 19 یا 21 رمضان تھی جب اس امام نے ظاہری شریعت ہٹائی تھی، انہوں نے اپنے امام کے حکم پر اپنے روزے توڑے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے شراب سے افطار کیا۔
کیونکہ ان کے امام نے یہی حکم دیا تھا کہ ظاہر شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، اپنے باطن کی تربیت کرو یہی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغا خانیوں کو فرقۂ باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔ آغا خانی ایک طویل عرصے تک ایران میں مقیم رہے، ان کے امام کو 147آغا خان148 کا لقب بھی ایران کے قاجاری حکمران نے دیا تھا۔
شاہ ایران نے آغا خان کو کرمان کے قریب 147محلاّت148 نامی جگہ پر ایک وسیع جاگیر بھی عطا کر رکھی تھی جہاں آغاخان مکمّل داخلی خودمختاری کے ساتھ حکومت کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے اس امام کو 147آغا خان محلاّتی148 بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن انگریزوں کی تحریک پر آغا خان اوّل نے ایرانی قاجاری سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی لیکن جب اس کو شکست ہوئی تو بھاگ کر ہندوستان میں پہلے سندھ اور پھر بمبئی شفٹ ہوا۔ انگریزوں نے ان کو 147سر148 کا خطاب دیا اور بہت عزّت و تکریم کی۔ ان کی وفات ہندوستان میں ہی ہوئی اور ان کے بعد امامت ان کے بیٹے کو ملی جو تحریک پاکستان کے ابتدائی رہنماؤں میں سے رہی ہے۔
صدرالدّین آغا خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کی موجودگی میں ہی انہوں نے اپنے پوتے 147پرنس کریم148 کو جانشین بنایا جن کی والدہ یورپی تھیں اور مغربی بودو باش رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسماعیلیوں کی امامت کا مرکز 147محلاّت، کرمان148 سے نکل کر 147بمبئی ہندوستان148 آیا اور وہاں سے اب مغرب منتقل ہو گیا۔
دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں صلاح الدّین ایّوبی نے پے در پے حملوں کے بعد اس اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔
جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا البتہ یہ لوگ باعمل مسلمان ہیں اور پابندی سے نماز وغیرہ پڑھتے ہیں۔ ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے، البتہ ان کے ہاں داعیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ موجودہ برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال دنوں ہوا۔ آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے؛ 1) داؤدی بوہرہ اور 2) سلیمانی بوہرہ۔ ان کا اختلاف محض علاقائی ہے۔
داؤدی بوہروں کے داعی ہندوستانی ہوتے ہیں اور گجرات کے شہر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوہروں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں۔ البتہ پاکستان میں بھی سلیمانی بوہروں کی ایک قلیل تعداد ہے۔ داؤدی بوہرہ کے لوگ بہت آرام سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص لباس پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں، جبکہ سلیمانی بوہرہ پہچانے نہیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے۔
جہاں تک ان کے اسلام کا تعلّق ہے تو بوہریوں کے مسلمان ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب تک کہ یہ کسی امام کو گالی نہ دیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک یہ امام موسی کاظم(ع) کو گالیاں دیتے تھے جو بقول ان کے امامت کو غصب کر بیٹھے (نعوذباللہ)۔ لیکن یہ روش انہوں نے چھوڑ دی تبھی آیت اللہ ابوالحسن اصفہانی کے دور میں ان کو نجف و کربلا زیارت کی اجازت دی گئی۔
وہاں موجود ضریحوں اور حرم کی تعمیر اور چاندی سونے میں بوہریوں نے کافی مدد کی۔ بوہری اب بھی جوق در جوق کربلا اور نجف زیارت کے لئے جاتے ہیں اور مسلمان مراکز کے دروازے بوہریوں کے لئے کھلے ہیں۔ دوسری طرف آغاخانیوں کا اسلام اس لئے مشکوک ہے کیونکہ یہ ضروریات دین میں سے کئی چیزوں کے منکر ہیں۔ نماز کے بارے میں تو ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ نماز سے انکار نہیں کرتے لیکن نماز کا طریقہ الگ ہے۔ جو چیز ان کے اسلام کو مشکوک بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ 147حلول148 کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا نور علی(ع) میں حلول کر گیا اور علی(ع) کا نور ان کے ہر امام میں آتا رہا، ان کے حساب سے پرنس کریم آغا خان اس وقت کا علی(ع) ہے، اور جب یہ لوگ 147یاعلی مدد148 کہتے ہیں تو ان کی مراد امام علی(ع) نہیں ہوتے بلکہ پرنس کریم آغا خان ہوتے ہیں۔
لیکن ہمارے لوگ خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی سلام کے طور پر یاعلی مدد کہنا شروع کیا۔ آغاخانیوں میں ایک اور خرابی یہ ہے کہ وہ 147معاد جسمانی148 کے منکر ہیں یعنی ان کے نزدیک میدان حشر، پل صراط، جنّت و جہنّم کا کوئی ظاہری وجود نہیں بلکہ یہ کنایہ ہے۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم اس جسم کے ساتھ حشر کے دن نہیں اٹھائے جائیں گے۔ 147معاد جسمانی148 ہماری ضروریات دین میں سے ہے اور جو اس کا قائل نہیں تو اس کے اسلام پر حرف آتا ہے۔

30 اکتوبر, 2017

کیا سگ مدینہ کہنا جائز ہے

 سگِ(کتا)مدینہ کہنے پر ہونے والے اعتراضات کاتحقیقی جائزہ
تحریر ...........ابو طلحہ سنڌي
--------------------------------------------------------------
بعض اھل محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے شھر مدینہ منورہ سے محبت کی بناء پر اپنے کو سگ مدینہ یا اپنے بزرگوں سے محبت کی وجہ سے اپنے کو انکا سگ(کتا) کہتے ہیں تو اس پر کچھ کم فھم لوگوں کی طرف سے خاص طور پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے،مغلظات بکی جاتی ہیں حتیٰ کہ انکو مسلمان اور انسانیت سے بھی خارج کر دیا جاتا ہے اور مختلف قسم کے بے تکے اعتراضات کئے جاتے ہیں مثلاً
1=انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ اپنے کو اس سے خارج کر رہے ہیں
2=یہ اللہ کی نعمت اشرف المخلوقات کی ناشکری ہے
3=اگر ایسا کہنا درست ہوتا تو صحابہ کرام نے اپنے کو سگ کیوں نہیں کہا
4=کتا حرام اور نجس جانور ہے لھٰذا اپنے کو سگ یعنی کتا کہنا جہالت ہے
سب سے پہلے یہ ذھن نشین کر لیجئے کہ مختلف جانور مختلف خصلتوں میں مشھور ہیں
مثلاً شیر شجاعت یعنی بھادری میں،گیدڑ بزدلی میں ،لومبڑی چالاکی میں،کچھوہ سست رفتاری میں،چیتا اور گھوڑا تیز رفتاری میں،گرخوش زیادہ سونے میں،گینڈا سستی میں
اور انہیں خصلتوں کی وجہ سے جس بندے میں ان جانوروں کی مذکورہ خصلت پائی جاتی ہے تو عرف عام میں استعارۃً ان جانوروں کے نام سے انکو موسوم کیا جاتا ہے
مثلاً دلیر آدمی کو شیر ،بزدل کو گیدڑ ،چالاک کو لومڑ، تیز رفتار کو چیتا یا گھوڑا،زیادہ سونے والے کو خواب خرگوش کے مزے لینے والا اور ساتھ کھانے اور پھر دھوکا دینے والے کو آستین کا سانپ وغیرہ کہا جاتا ہے
پھر ان میں سے بعض بطور گالی اور بعض بطور تعریف بولے جاتے ہیں
مثلاً بھادر آدمی کو شیر بطور تعریف اور بزدل کو گیدڑ بطور گالی کہا جاتا ہے ان سب کا دارومدار عرف پر ہے
اسی طرح سگ یعنی کتے میں جہاں بری خصلتیں پائی جاتی ہیں وہیں ایک عمدہ خصلت وفاداری بھی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنے مالک کا وفادار ھوتا ھے اور اسکی وفاداری کی مثال تو قرآن پاک میں اصحاب کھف کے واقعے کے ضمن میں بھی بیان کی گئی ہے لھٰذا اگر کوئی شخص وفاداری کی خصلت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے آپکو سگ مدینہ کہتا ہے تو اس پر اعتراض کرنا بے جا ھے کیونکہ یہاں مقصود صرف وفاداری ہےنہ کہ ذات کتا یا اسکا حیوان ہونا
بلکہ وصف وفاداری میں مشابہت کی بناء پر استعارۃً ایسا کہا جاتا ہے اور کوئی بھی اھل علم ان استعارات کا انکار نہیں کرسکتا اس طرح کے اعتراضات علم دین،استعارات اور عرف عام کے محاوروں سےناواقفیت یا پھر مسلکی تعصب کی وجہ سے کئے جاتے ہیں آج تک اسکے عدم جواز پرکسی مستند مفتی کا فتوٰی نظر سے نہیں گذرا بلکہ تمام مسالک کے اکابرین نے اپنے لئے سگ(کتے) کا لفظ استعمال کیا ہے ان میں سے چند مثالیں حوالوں کے ساتھ ان شاء اللہ آگے بیان کرونگا لیکن پہلے مذکورہ بالا اعتراضات کے جوابات
پہلے اعتراض کا جواب= اپنے کو سگ کہنے سے کوئی اشرف المخلوقات سے خارج نہیں ہو جاتا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کافروں اور نافرمانوں کے متعلق فرمایا اولٰئك كالانعام بل هم اضل یعنی وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراھی میں بڑھکر
اس آیت میں ان نافرمانوں کو انکی نافرمانیوں کی وجہ سے جانور بلکہ ان سے بھی بدتر فرمایا گیا تو کیا وہ انسانیت اور اشرف المخلوقات ہونے سے خارج ہو گئے؟
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لقب اسد اللہ یعنی اللہ کا شیر مشھور ہے اور ساری دنیا کے مسلمان انکو اسداللہ کہتے ہیں حالانکہ شیر بھی حرام اور نجس جانور ہے تو کیا معاذاللہ وہ اشرف المخلوقات سے نکل گئے؟
ہرگز نہیں کیونکہ ہر انسان جانتا ہے کہ انکو اللہ کا شیر شیر کے ساتھ وصف حیوانیت کی وجہ سے نہیں بلکہ وصف بھادری میں مشابھت کی وجہ سے کہا جاتا ہے
اسی طرح سگ کا معاملہ بھی ہے کہ وھاں بھی وصف وفاداری کی بناء پر کہا جاتا ہے
یہاں پر ایک اعتراض یہ بھی کیاجاتا ہے کہ اگر ھم کسی کو شیر کہتے ہیں تو اسکو شیر کا بیٹا کہ کر بھی بلایا جاسکتا ہے کہ "اوئے شیر کے پتر"
اگر کتا کہنا درست ہے تو کیا ھم اسکو کتے کا پتر کہ سکتے ہیں؟
اگر دیکھا جائے تو یہ اعتراض بھی بلکل بے تکا اور عجیب سا ہے کیونکہ ان تمام تشبیھات کے استعمال کا سارا دارومدار عرف پر ھے جس لفظ کا جیسا عرف ہے اسکو اسی طرح استعمال کیا جائے گا اسکے برعکس کرینگے تو غلط ہوگا کسی کو شیر یا شیر کا بیٹا کہنے کا عرف ہےجبکہ کتے میں اس طرح کا عرف نہیں ہے بلکہ لفظ کتا وفاداری کے معنی میں اضافت کے ساتھ مثلاً مدینے کا کتا کہ کر ہی مستعمل ہے جبکہ بغیر اضافت کے کسی کو خالی کتا کہنا یا کتے کا پتر کہنا عرف عام میں گالی شمار کیا جاتا ھے
لھٰذا اسکو استعمال کرنے میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا جہاں اسکا عرف نہیں ھوگا وہاں اسکو استعمال نہیں کرسکتے جیسے کسی کو شیر کا باپ کہنے کا عرف نہیں ھے تو کسی بھادر آدمی کو شیر یا شیر کا بیٹا تو کہا جاتا ھے لیکن شیر کا باپ نہیں کہا جاتا
دوسرے اعتراض کا جواب= یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری بھی نہیں ھے اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام علیھم الرضوان جو ھم سب سے زیادہ اشرف المخلوقات اور عظمت انسانی کے مفھوم کو سمجھنے والے ہیں وہ اپنے لئے درخت ،پتھر اور پرندہ وغیرہ ہونے کی تمنا نہ کرتے
جی ہاں! بہت سارے صحابہ کرام علیھم الرضوان سے اس طرح کی آرزوئیں کرنا ثابت ہیں اختصار کے پیش نظر صرف چند مثالیں پیش کرتا ہوں
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خوف خدا کے غلبہ کے سبب ایک بار ایک پرندے کو دیکھ کر فرمایا اے پرندے!تو خوش بخت ہے وللہ کاش! میں بھی تیری طرح پرندہ ہوتا درخت پر بیٹھتا پھل کھاتا پھر اڑ جاتا(اور مجھ سے تیری طرح حساب وکتاب نہ ھوتا) پھر فرمایا کاش! میں انسان نہ ہوتا
(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 8 ص 144)
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے ایک بار فرمایا یٰلیتنی کنت شجرۃ تعضد یعنی ھائے کاش! میں درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا (مشکاۃ المصابیح حدیث# 5347)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عاجزی اور خوف خدا کے غلبہ کی وجہ سے ایک بار فرمایا! کاش میں دنبہ ہوتا کاش! میں انسان نہ ہوتا (حلیۃ الاولیاء جلد 1 ص88 حدیث#136)
اب اعتراض کرنے والے ان جلیل القدر صحابہ کے بارے میں کیا کہینگے؟
کیا معاذاللہ انہوں نے بھی اللہ تعالی کی نعمت اشرف المخلوقات کی ناشکری کی؟
تیسرے اعتراض کا جواب= ایسے تو بہت سارے ایسے القابات ہیں جو ھم اپنے علماء کیلئے بطور تعظیم استعمال کرتے ہیں مثلاً علامہ مولانا، شیخ الحدیث ،شیخ التفسیر، فقیہ العصر، قاطع بدعت، وغیرہ وغیرہ حالانکہ صحابہ میں سے کسی نے یہ الفاظ استعمال نہیں کئے تو کیا ھم کہ سکتے ہیں کہ اگر یہ القابات اچھے ہوتے تو صحابہ کرام نے استعمال کیوں نہیں کئے؟
اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کا اس دور میں عرف نہیں تھا بلکل اسی طرح سگ کہنے کا بھی عرف نہیں تھا بلکہ آج بھی عرب میں اپنے کو سگ کہنے کا عرف نہیں ھے اسکا عرف فارسی اور اردو زبان بولنے والوں میں ھے
اور کسی استعارے یا محاورے کا عربی زبان میں مستعمل نہ ھونا اسکے عدم جواز کی ھرگز دلیل نہیں بن سکتا
مثلاً عربی زبان میں ماں باپ کو اف کہنا وہاں کے عرف کے مطابق تکلیف کا سبب بنتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ماں باپ کو اف کہنے سے منع فرمادیا
چناچہ فرمایا
ولا تقل لھما اف یعنی والدین کو اف تک نہ کہو
لیکن فقھاء کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ھے کہ اگر کسی زبان میں اف کہنا تکلیف کا سبب نہ بنتا ھو بلکہ یہ لفظ تعظیمًا بولا جاتا ہو تو وہاں ماں باپ کو اف کہناحرام نہیں ھوگا
اس سے بھی معلوم ہوا کہ کسی لفظ کا ایک زبان میں کسی معنی کیلئے مستعمل نہ ہونا اسکے عدم جواز کی دلیل نہیں ھے
چوتھے اعتراض کا جواب ضمناً پیچھے گذر چکا
لفظ سگ( کتا) تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کے اکابرین نے وفاداری کے معنی میں اپنے لئے استعمال کیا ھے لھٰذا معترضین کو اعتراض کرنے سے پہلے سوچنا چاھئے کہ انکے اپنے اکابرین بھی ان کے اعتراض اور تنقید کی ضد میں آرھے ہیں
اختصار کے طور پر صرف چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں
سنی بریلوی مکتب فکر کے علماءِ کرام تو اسکا استعمال کرتے ہی ہیں دیگر مکاتب فکر کے اکابرین کے مثالیں پیش خدمت ہیں
چناچہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں
امیدیں لاکھ ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ،
کہ ھو سگانِ مدینہ(مدینے کے کتوں میں )میں میرا نام شمار،
جیئوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں،
مروں تو کھائیں مدینے کے مجھ کو مور و غار. (قصائد قاسمی ص8)
اس قصیدہ میں مولانا قاسم نانوتوی مدینے کے کتوں میں اپنے کو شمار اور انکے ساتھ جینے کی تمنا کر رھے ہیں
اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ایک جگہ لکھتے ہیں
میں حلف اٹھا سکتا ہوں کہ میں کتوں اور سوروں سے کم تر ہوں
(اشرف السوانح حصہ سوئم اور چہارم)
اھل حدیث کے مشھور عالم پروفیسر ساجد میر کے دادا اور سابق امیر جمیعت اھل حدیث مولانا محمد ابراھیم میر سیالکوٹی اپنی کتاب سراجاً منیرًا ص# 102پر مولانا جامی کا تذکرہ کرتے ہوئے انکا ایک شعر لکھا جس میں انہوں نے اپنے لئے لفظ سگ استعمال کیا اس شعر کےلکھنے کے بعد اپنے بارے میں کھتے ہیں "میں اس نسبت سے بھی کمتر نسبت والا ہوں" یعنی کتے کی نسبت سے بھی کمتر ولا ہوں
اسی طرح اسی مسلک ایک عالم مولوی عبدالسلام مبارکپوری اپنی کتاب "سیرت البخاری" کے صفحہ 25 پر اپنے لئے لفظ سگ کا استعمال کیا ھے
یاد رھے سگ فارسی زبان کا لفظ ھے اسکا معنیٰ ھے کتا۔
لھٰذا کسی پر اعتراض کرنے سے پہلے سوچنا چاھئیے کہ میرا اعتراض کرنا درست بھی ھے یا نہیں!
پہلے اسکی پوری تحقیق ھونی چاھئیے صرف سنی سنائی باتوں پر کسی جائز کام کو غلط کہنا اور اسکے کرنے پر گالی گلوچ کرنا قطعًا درست نہیں ھے بلکہ یہ بہت بڑی جہالت ہے اور اسلام اسکی ھرگز اجازت نہیں دیتا.
( ابو طلحہ سندھی)

29 اکتوبر, 2017

شخصیت پرستی اور اس کے نقصانات

شخصیت پرستی اور اس کے نقصانات  (قسط نمبر3 ) اس وقت امت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شخصیات کو دین کے اصول و قوانین پر پرکھا نہیں جاتا بلکہ شخصیات دین سے زیاده اہمیت اختیار کرتی جارہی ہیں ۔
اور اس خطرناک روش کے سبب نئے نئے نظریات جنم لے رہے ہیں۔ چلو آگے بڑھتے ہیں ۔
پچھلے مضمون میں میں نے عرض کیا تھا کہ ،
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں میں چار گروہ بنے جن میں ایک اہل تشیع، جس کا نام اس وقت تک شیعان علی تھا۔ جو ایک سیاسی گروہ تھا۔
پھر آگے چل کر شخصیات کی اندھی پیروی نے لوگوں  پر کیاکیا اثرات مرتب کئے ان پر ایک نظر۔
لیکن اس ساری گفتگو میں کسی مسلک ، نظریہ ، یا سوچ کی نفی کرنا یا جھوٹا کہنا مقصد نہیں ، مقصد صرف شخصیت پرستی کے سبب سے جو امت مسلمہ ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اس حقیقت کو واضح کرنا ہے۔
آج تذکرہ اہل تشیع کا جو خود کو امام جعفر صادق کی نسبت سے (مقلد فقہ جعفریہ )کہتے ہیں ۔
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔امام جعفر صادق کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام جعفر صادق کی زندگی میں ہی ہو گئی۔
جب امام جعفر صادق کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثرلوگوں نے امام کاظم کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، یہ لوگ "اسماعیلی" کہلائے۔ اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری(بارہ اماموں کے ماننے والے ) نہ تھے۔
جن لوگوں نے امام جعفر صادق کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا ۔ جب اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے "خلافت فاطمی" کی بنیاد رکھی۔
آگے چل کے ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے" بوھرہ" ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے "آغا خانی" ہیں۔
بوہری اور آغا خانی  اور اثنا ء عشری رافضیوں کی  اصل ایک ہے۔ان ہی کی روایات کے مطابق؛
دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی۔
لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں سلطان صلاح الدّین ایّوبی نے پے در پے حملوں کے بعد اس شیعہ اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔ جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان اور یمن کو اپنا مرکز بنالیا۔ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے، البتہ ان کے ہاں اب "داعیوں" کا سلسلہ شروع ہوا۔ برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال ماضی قریب میں ہوا۔
آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے؛
  (1) داؤدی بوہرہ اور   (2)سلیمانی بوہرہ۔
اہل تشیع میں فرقے۔
بارہ امامی یا شیعہ اثنا عشریہ (یعنی بارہ اماموں والے)، اہل تشیع (یعنی شیعہ) کا سب سے بڑا گروہ ہے۔ قریباً 80 /70 فیصد شیعہ اثنا عشریہ اہل تشیع ہیں۔ ایران، آذربائیجان، لبنان، عراق اور بحرین میں ان کی اکثریت ہے۔
اسماعیلی اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت جعفر صادق (پیدائش 702ء) کی امامت تک اثنا عشریہ سے اتفاق پایا جاتا ہے۔
زیدیہ فرقہ امام زین العابدین کے بعد امام محمد باقر کی بجائے ان کے بھائی امام زید بن زین العابدین کی امامت کے قائل ہیں۔
کیسانیہ“ ایک ایسے فرقہ کا نام ہے جو پہلی صدی ہجری کے پچاس سال بعد شیعوں کے درمیان پیدا ہوا اور تقریباًایک صدی تک چلتا رہا پھر بالکل ختم ہو گیا۔
فرقہ علویہ"یہ بھی اپنے عقائد نظریات میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔
علامہ ابن جوزی جو تفصیل لکھی ہے
١۔ علویہ، ٢۔امریہ، ٣۔شیعیہ، ٤۔ اسحاقیہ، ٥۔ نادوسیہ، ٦۔ امامیہ، ٧۔زیدیہ، ٨۔عباسیہ، ٩۔متناسخہ، ١٠۔رجعیہ، ١١۔لاغیہ، ١٢۔متربصہ۔۔۔
از (تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ
اہل تشیع میں دو فقہی مذاہب ہیں ۔
1۔فقہ جعفریہ
2 ۔فقہ زیدیہ
جو کچھ میں نے تحریر کیا ان میں سے آپ بہت نہیں جانتے ہونگے مگر کسی صاحب علم اہل تشیع سے آپ کو بہت کچھ جاننے کو مل سکتا ہے ۔
اگلا عنوان ممکن ہے کہ " خارجیت "کے متعلق ہو۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

23 اکتوبر, 2017

اسلام میں فرقوں کا آغاز کب ہوا


اسلام میں فرقوں کا آغاز کب ہوا
میرے نقطہ نظر سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اختلاف رائے کا حق سب کو ہے دلیل سے
لیکن جو میں نے سمجھا جب دین و مذہب سے زیادہ اہمیت جب شخصیت کو دی جائے تو پھر فرقے جنم لیتے ہیں۔۔

اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی پیغام لے کر اٹھا۔ )
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ( (سورۃ النساء: ۱)ترجمہ:"اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا" ،کے ذریعے اسلامی مساوات ِ باہمی بھاری چارہ کو عام کیا تو )
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة( (سورۃ الحجرات: ۱۰)ترجمہ:"بےشک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں"کہہ کر تمیزِ بندہ و آقا کے سارے بت توڑ دیے۔۔۔۔
دین و مذہب سے زیادہ اہمیت کا حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، کیونکہ زبان رسول صل اللہ علیہ وسلم سے جو نکلا وہی دین ہے ۔آپ شارع ہیں ۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب عمل کرنے والے ہیں۔
اب آتے ہیں فرقوں کی کچھ بنیاد کے متعلق۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں شخصیات کے ساتھ لگاؤ اور محبت کی وجہ سے فرقے وجود میں آئے۔
لیکن یہ یاد رہے کہ ان تمام گروہوں کی بنیاد سیاسی تھی مذہبی نہیں تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سیاسی حکمت عملی کے تحت کوفہ کو اپنا مرکز بنا چکے تھے۔
(1) پہلا سیاسی گروہ شیعان علی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ۔ یہ وہ لوگ تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ہر صورت میں حمایت کرتے تھے۔ بعد میں یہی لوگ،، اہل تشیع ،، شیعہ اور فقہ جعفریہ والے کہلائے ۔۔آگے چل کر ان کی کئی شاخیں ہیں۔۔۔ وہ اگلی قسط میں بیان کروں گا۔۔۔۔۔
(2) دوسرا سیاسی گروہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ ہو تعالئ عنہ کا حمایتی تھا۔ وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بطور گورنر ہم نے دیکھا ہے بڑے اچھے حکمران ہیں ۔اس لئے مسلمانوں کا امیر بھی انہی کو ہونا چاہیے۔ اور دوسری بات یہ کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے قتل کا بدلہ لینے کی آواز بھی یہاں سے بلند ہو رہی تھی۔۔۔۔۔غالبًا اس کے اثرات آج بھی ایک جماعت میں یزید کی حمایت کی صورت پائے جاتے ہیں۔ 
(3)تیسرا گروہ ۔ یہ اسلام میں پہلا مذہبی فرقہ تھا جس نے شعائر سے ہٹ کر اپنا الگ گروہ بنایا۔ یہ گروہ جس کی اکثریت بدوی عراقیوں کی تھی۔ جنگ صفین کے موقع پر سب سے پہلے نمودار ہوا۔ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے اس بنا پر علیحدہ ہوگئے۔ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی تجویز منظور کر لی تھی۔ خارجیوں کا نعرہ تھا کہ ’’حاکمیت اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ انھوں نے شعث بن راسبی کی سرکردگی میں مقام حرورا میں پڑاؤ ڈالا اور کوفہ، بصرہ، مدائن وغیرہ میں اپنے عقائد کی تبلیغ شروع کر دی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ دینی معاملات میں انسان کو حاکم بنانا کفر ہے اور جو لوگ ایسے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ واجب القتل ہیں۔
خارجیوں کے اعتقاد کے مطابق علی المرتضی خلیفہ برحق تھے۔ ان کی بیعت ہر مسلمان پر لازم تھی۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا وہ اللہ اور رسول اللہ کے دشمن تھے۔ اس لیے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے خلاف جنگ ضروری اور قتل جائز ہے۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی صلح کرنا ازروئے قرآن کفر ہے۔ 
اور پھر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر بھی کفر کا فتوی لگا دیا۔ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے چونکہ ان کے ساتھ مصالحت کرنے اور حکم قرآنی میں ثالث بنانے کا جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی خلافت بھی ناجائز ہوگئ۔۔۔۔ اس کا نام ہر دور میں مختلف رہا لیکن ان کا کام مسلمانوں کے بارے میں کفر و شرک کے فتوے لگا کر قتل کو جائز قرار دینا رہا۔۔۔۔
(4)چوتھا گروہ۔ اس گروہ میں اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کی اولادیں۔ مکہ ومدینہ کے رہنے والے۔ اور تمام اسلامی علاقوں میں رہنے والے متوازن لوگ۔ ان کا خیال تھا کہ خلافت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا حق ہے۔ لیکن اگر مسلمانوں کے اتفاق اور اتحاد کے لئے ضروری ہو تو ہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی خلیفہ قبول کرلیں گے۔
حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد اس گروہ کی ترجمانی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کی، مسلمانوں کے اتفاق اور اتحاد کے لئے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سپرد کردی۔۔۔ ابتدا میں اس گروہ کا نام جمہور امت ، اہل سنت ،جماعت صحابہ۔۔۔۔۔
ان میں سے تین گروہوں کا تعلق خالصتاً سیاسی تھا مذہبی نہیں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک فقہی مذہب کی شکل اختیار کرتے گے۔
لیکن خارجیوں نے اس وقت ہی علیحدہ مذہب کی بنیاد رکھ دی تھی جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔خارجیوں کے نام بدلتے رہتے ہیں لیکن فتوے آج بھی ان کے وہی ہیں۔ فرقوں کی کچھ تفصیلات اگلی قسط میں۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام اور شخصیات کے منفی و مثبت نتائج

اسلام اور شخصیات کے منفی و مثبت نتائج (قسط اول)
آئیے ! ۔: یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہماری زندگی اور مذہب پر شخصیات سے کیا مثبت و منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
شخصیات کی اندھی تقلید و پیروی بنیادی طور پر ایک ایسا رویہ ہے جس میں حق و اِنصاف اور عقل و فکر کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر کسی مذہبی و سیاسی رہنما سے اس قدر محبت و عقیدت پیدا کی جائے کہ اس کے قول و عمل کو رفقاء اور پیروکاروں میں نفسیاتی سطح پر عقیدہ کا درجہ مل جائے۔۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے رہنما کی علمی برتری کو ہی معیار بنایا جاتا ہے ۔۔۔۔
مگر قرآن اس بارے میں رہنمائی فرماتا ہے
وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ( (الشورٰی: )ترجمہ:"اور انہوں نے تفرقہ پیدا نہیں کیا مگراس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا تھا،آپس کی ضد کی وجہ سے۔
مفسر امام ابو العالیہؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں "بغیا علیٰ الدنیا و ملکھا و زخرفھا و زینتھا و سلطانھا۔۔۔
ترجمہ: حبِ دنیا، اقتدار کی چاہ، اس کی زیب و زینت اور سلطنت کی محبت پیدا ہوئی تو تفرقہ ظاہر ہوا۔اور ایسے رہنماؤں نے علمی برتری کے سبب سے خود کو ایک فرقے میں جا ڈھالا۔
اوراگر مذہبی رہنما ہو تو کہنے کو تو بات سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی ہو رہی ہوتی ہے۔ مگر ہر حال میں لوگ اسی کی پیروی کرنا چاہتے ہیں صحیح ہو یا غلط۔۔۔۔۔
جو علمائے حق ہیں وہ اپنے پیروکاروں کی تربیت کرتے رہتے ہیں ۔اور اپنی بڑائی سے منع کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔
اور علمائے سوء اپنی بڑائی پر اپنی عزت پر اپنی علمی قابلیت پر فخر کرتے رہتے ہیں اور مریدوں کی تربیت بھی ایسی ہی کرتے ہیں۔۔۔
ہمارے ہاں اگر کوئی مذہبی و سیاسی رہنما سے علمی یا انتظامی نوعیت کا بھی اختلاف کرنے کی کوشش کرے تو اسے دین و مذہب اور جماعت و تحریک سے غیر مْخلص اور منافق سمجھاجاتا ہے۔۔۔
ہمارے ہاں اس کمزوری نے ایک المیہ کی صورت اختیار کرلی ھے۔۔ ہم حکمرانوں ۔علماء ، دانشوروں کو آئیڈیل بناتے ہیں ۔اور پھر بھول جاتے ہیں کہ کامل صرف اللہ کی ذات ہے انسان چاہے جتنا ہی بہترین و کامل کیوں نہ ہو غلطی کر سکتا ہے ۔
کیسی بدنصیبی ہے کہ ہم سیاسی و مسلکی اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ان کی غلطیوں کو جواز دینے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر دلائل گھڑتے ہیں ۔ گناہگاروں کو نیکوکار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلطی کو حکمت عملی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔
پس ایسے رہنماؤں کے پیچھے لگ جانا جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطیعِ فرمان نہ ہوں اور اپنے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی قائدین کے اَعمال کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر ان کی اطاعت کرتے رہنا، شخصیت پرستی ہی ہے۔۔۔
شخصیت پرستی کا توڑ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے میسر آتا ہے، حضرت خالد بن ولید نے اسلام قبول کیا ، سیف اللہ کا لقب پایا ،مشرق و مغرب میں اسلام کی دعوت کو لے کر پہنچے اور سرخرو ہوئے، اور شام اور ایران کی فتوحات کا سہرا ان ہی کے سر سجا ، لوگوں کے پسندیدہ تھے میدانِ جہاد کے بہترین شاہ سوار تھے، صرف ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے خلاف ،کوئی واقعہ خلاف عدل سرزد ہوا ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آپ کو عہدے سے ہٹادیا ، ان کی ساری خدمات کو نہیں دیکھا گیا بلکہ ان کے موجودہ عمل کی وجہ سے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ تاکہ بعد والوں کے لیے ایک مثال قائم ہو۔۔۔۔۔۔
اس کی ایک مثال ہمیں حضرت مجدد الف ثانی رحمت اللہ علیہ کی اُس نصیحت میں ملتی ہے ، کہ آپ سے کسی سائل نے عرض کیا: حضرت! کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا:
بیٹے! دو نصیحتیں ہیں۔ زندگی میں نہ کبھی خدا بننے کی کوشش کرنا اور نہ کبھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننے کی‘‘۔
وہ بڑی حیرانی سے عرض کرنے لگا: ’حضرت! اللہ معاف فرمائے، کوئی مسلمان بھلا ایسا بھی کرسکتا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا:۔
اس کا معنی یہ ہے کہ یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ جو چاہے کر ے۔۔۔۔لہٰذا کبھی یہ گمان اپنے بارے میں نہ کرنا کہ میں جو چاہوں گا وہ اسی طرح کروں گا۔ کبھی کوئی کام تیرے چاہنے کے موافق ہوگا اور کبھی خلاف۔ اگر کام تیری مرضی کے موافق نہ ہو غصےاور جلال میں نہ آجانا ۔ ۔ کیونکہ یہ اللہ کی شان ہے کہ اس کی منشاء کے مطابق ہر چیز وقوع پذیر ہوتی ہے۔ تو بندہ ہے اور بندے کا یہ منصب نہیں کہ وہ جو چاہے وہی ہو جائے۔ اگر تیری مرضی کے مطابق ہو تو شکر کر،اور اگر مرضی کے مخالف ہو کر صبر کر۔۔۔۔
یہی شان بندگی ہے۔
رسول بننا یہ ہے کہ چونکہ اللہ کا رسول جو کچھ کہے اس کونہ ماننے والا کافر ہو جاتا ہے۔۔۔
اس لیے اگر تو بھی یہ چاہے کہ تیری ہر بات مانی جائے اور نہ ماننے والا تیرے نزدیک تیرا بدترین دشمن بن جائے ، یہ سمجھ کہ تو اپنے آپ کو منصب رسالت پر بٹھا رہا ہے۔ یہ حق تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہوتا ہے کہ جس نے ان کی بات مان لی وہ مومن ہو گیا اور جس نے رد کردی وہ کافر۔۔۔۔
یہی رویہ شخصیت پرستی کی وہ شکل ہے جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔۔۔
ذرا ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ منظر دیکھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا خطبہ فرما رہے ہیں ۔کہ لوگوں اگر میں صحیح چلوں تو میری پیروی کرو اگر میں قرآن و سنت سے ہٹ کر راہ اپناؤں تو مجھے روک دو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مسجد نبوی میں کھڑے ہیں ، حق مہر کی رقم کا تعین کیا جا رہا ہے ، ایک عورت کھڑی ہوتی ہے اور آپ سے مخاطب ہوتی ہے اے عمر تم کون ہوتے ہو تعین کرنے والے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے تعین نہیں کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں ، لوگو اس معاملے میں میں غلط تھا اور یہ عورت ٹھیک تھی اور اپنا حکم واپس لے لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا ان سارے واقعات کو پڑھیئے ۔ اور آج کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے ماننے والوں کو دیکھئے ہر ایک کی نظر میں دوسرے رہنماء کا ماننے والا بد ترین گمراہ ہے کیونکہ وہ میرے رہنماء کو نہیں مانتا۔۔۔۔۔
عقیدت ہونی چاہئے مگر اس کے لیے قرآنی معیار پیشِ نظر رہے۔۔۔۔
عقیدت و اِحترام کا قرآنی معیار؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق دینی اور سیاسی رہنما خواہ عقیدت و احترام کے کتنے ہی اونچے منصب پرفائز ہو جائے ۔۔۔
اختلاف و تنقید سے ماورا نہیں ہوتا ۔
غیر مشروط اِطاعت و فرماں برداری صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کیلئے ہے۔ باقی سب سے عقیدت و محبت مشروط ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
يٰـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اﷲَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکمُ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَیﷲِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ' ذٰلِکَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۔
(النساء، 4 : 59)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع(جھگڑا ) ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا۔۔۔۔۔
یہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ جو حکم دیا ہے ۔۔ اس آیتِ کریمہ سے یہ سمجھ آتی ہے کہ قرآن و سنت سے فیصلہ ہوگا ۔ یا اہل علم جن کو اولی الامر کہا گیا وہ فیصلہ کریں گے۔۔۔
مگر آج یہ فیصلے ہر پیر کے مرید،ہر عالم ماننے والے،ہر استاد کے شاگرد، اور ہر سیاستدان کے ورکرز کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
اگلا مضمون انتہائی اہم ہوگا ۔۔۔اسلام ہیں فرقے کس طرح وجود میں آئے ۔۔۔ ضرور مطالعہ کیجئے گا ۔
علمائے کرام کی مشاورت کے بعد اوپری عنوان میں تبدیلی کی ہے ۔۔

نماز میں قیام فرض ہے


(1)نماز میں قیام فرض ہے، قیام میں منہ اور سینہ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے
(2) ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا سنت ہے۔
(3) ثناء تعوذ تسمیہ اورآمین سنت ہیں۔۔۔
اور اُس کے بعد سورہ فاتحہ واجب ہے ،بلکہ اس کی ہر ہر آیت واجب ہے، اور سورہ فاتحہ کا دوسری سورت سے پہلے پڑھنا واجب ہے، اگر کسی سے انجانے میں اس کی ترتیب الٹ ہو گئی ،کہ سورت پہلے تلاوت کر دی، اور سورہ فاتحہ بعد میں پڑھی تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوجائے گا۔
اور جب سورہ فاتحہ پڑھ لے تو پھر آمین کہے۔ اگر امام کے پیچھے ہو تو بھی آمین کہے مگر آہستہ۔۔۔
اب بات کرتے ہیں نماز کے تیسرے فرض قراءت کی۔
مطلقا قرات نماز کے فرائض میں سے ایک فرض ہے ۔
فرض قراءت ،، ایک بڑی آیت جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو۔ یا چھوٹی سورت جیسے سورۃ الکوثر ۔۔۔
نوٹ:-(جب آپ امام کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں تو سبحانک اللھم ،، کے بعد آپ نے کچھ بھی نہیں پڑھنا۔۔)
جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو امام رکوع میں جا چکا تھا ۔۔اگر آپ امام کے رکوع سے اٹھنے سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہو گئے تو آپ کو رکعت مل گئی۔۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے ۔ کہ آپ دونوں تکبیریں کہیں۔ تکبیرتحریمہ بھی اور رکوع میں جانے کی تکبیر بھی۔۔۔۔
باقی مضمون اگلے سبق میں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

تعوذ و تسمیہ پڑھنے کا حکم


تعوذ و تسمیہ پڑھنے کا حکم
تعوذ ،، کا معنیٰ ہے ،پناہ حاصل کرنا ،، ثناء پڑھنے کے بعد منفرد یعنی جو بغیر جماعت کے اکیلا نماز پڑھے اس کے لئے اعوذ بااللہ ، اور بسم اللہ پڑھنا سنت ہے امام کے پیچھے ہو تو ثناء کے بعد خاموش رہے۔۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔ فاذا قرات القران فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم۔ترجمہ- جب تم قرآن مجید پڑھنے لگو تو شیطان مردود کے حملوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کر لیا کرو (سوره النحل)
تسمیہ ،،
یعنی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا ۔۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔
صلي بنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فلم يسمعنا قراءة بسم الله الرحمن الرحيم و صلى بنا ابو بكر و عمر و فلم نسمعها منهما..ترجمة، ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو ہمیں ،،بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
کی آواز نہیں سنائی دی۔ اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھائی۔ان سے بھی ہم نے بسم اللہ کی آواز نہیں سنی۔ ( النسائي شريف ، شرح معاني الاثار)
یعنی یہ سب شخصیات اور حضرات بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔
حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں، كان عمروعلي لايهجران ببسم الله الرحمن الرحيم ولا بالتعوذ ولا بالتامين..
امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور امیر المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم ،،اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم،،اور بسم اللہ الرحمن الرحیم،، اور آمین بلند اواز سے نہیں کہتے تھے۔( شرح معاني الاثار)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.
ان رسول الله صلى الله عليه و سلم و ابا بكر وعمر وعثمان كانوا يفتتحون الصلوة بالحمد لله رب العالمين. (بخاري شريف . مسلم شريف. شرح سنه.)
فرماتے ہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر سیدنا فاروق اعظم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہما الحمد للہ رب العالمین سے نماز کا آغاز فرماتے تھے۔ یعنی تعوذ وتسمیہ آہستہ پڑھتے تھے۔

18 اکتوبر, 2017

ثناء پڑھنے کی تعلیم


ثناء پڑھنے کی تعلیم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قراءت کے درمیان کسی قدر خاموش رہتے تھے میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔تکبیر تحریمہ اور تلاوت کے درمیان آپ خاموش رہتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں یہ دعا پڑھتا ہوں۔

اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من الخطاياي كما ينقى الثوب الابيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء و الثلج و البرد ....
الٰہی میرے اور میری خطاؤں کے درمیان ایسی دوری کردے جیسی تو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری کی ہے ۔ الٰہی مجھے خطاؤں سے ایسے پاک کردے جیسے سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے ۔الہی میری خطائیں پانی اور برف اور اولوں سے دھو دے( یعنی مجھے اپنی مغفرت اور رحمت کے ٹھنڈے پانی سے غسل دے جس سے طہارت حاصل ہو).
اور دوسری روایت ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں۔
كان رسول الله صلى الله عليه و سلم اذاافتتح الصلاة.۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو یہ دعا پڑھتے
سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا اله غيرك.
اے اللہ تو پاک ہے، اور ساتھ کی تعریف کے ،تیرا نام برکت والا ہے ،تیری شان اونچی ہے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔۔۔
ان دونوں دعاؤں میں سے کوئی ایک دعا بھی ثناء کے لیے پڑھی جاسکتی ہے۔۔۔
(بخاری شریف، مسند احمد، السنن الکبریٰ ،مشکوۃ شریف، ترمذی شریف)

تکبیر تحریمہ کی سنتیں


تکبیر تحریمہ کی سنتیں
نمبر1 ) تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھانا ۔ 
نمبر 2 ) ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر چھوڑ نا یعنی نہ بالکل ملائے نہ بہ تکلف کشادہ رکھے۔ بلکہ اپنے حال پر چھوڑ دے۔ 
نمبر3 )ہتھیلیوں اور انگلیوں کے پیٹ کا قبلہ رو ہونا ۔۔۔نمبر4 ) بوقت تکبیر سر نہ جھکانا۔ 
نمبر 5) تکبیر سے پہلے ہاتھ اٹھانا ۔
نمبر 6) تکبیر قنوت اور تکبیرات عیدین میں کانوں تک ہاتھ لے جانے کے بعد تکبیر کہے اور ان کے علاوہ کسی جگہ نماز میں ہاتھ اٹھانا سنت نہیں۔ 
نمبر 7 )عورت کے لیے سنت یہ ہے کہ مونڈھوں (یعنی کندھوں )تک ہاتھ اٹھائے۔۔۔
نمبر 8) امام کا بلند آواز سے اللہ اکبر ،اور ۔ سمع اللہ لمن حمدہ ، اور سلام کہنا۔اور جس قدر بلند آواز کی حاجت ہو اتنا ہی آواز کو بلند کرنا ۔ بلا حاجت بہت زیادہ بلند آواز کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ ۔ 
امام کو تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقال (یعنی ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانا ) سب میں جہر مسنون ہے۔اگر امام کی آواز تمام مقتدیوں تک نہ پہنچتی ہو تو بہتر ہے کوئی مقتدی مکبر کے فرائض سرانجام دے (یعنی پیچھے بلند آواز سے تکبیر کہے)۔
(نوٹ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تمام مسائل فقہہ حنفی کے مطابق ہیں ۔

تکبیر تحریمہ کے بارے چند احادیث


تکبیر تحریمہ کے بارے چند احادیث ۔
تکبیرکے معنی ہے اللہ اکبر کہنا ۔ اور تحریمہ کےمعنی کسی چیز کو حرام کرنے کے ہیں۔ تکبیر تحریمہ وہ تکبیر ہے جو نماز کو شروع کرنے کے لیے کہی جاتی ہے۔ جس کے ادا کرنے کے بعد کھانا، پینا ،بولنا، یہاں تک کہ ہر انسانی کام اور کلام حرام ہوجاتا ہے۔۔
نماز میں کلام کے بارے میں۔
حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔
ان هذه الصلاه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس انما هي التسبيح والتكبير وقراءه القران۔۔ نماز میں لوگوں سے کلام کی کوئی چیز درست نہیں۔ سوائے اس کے کہ تسبیح کہے، اللہ اکبر کہے، قرآن مجید پڑھے۔۔۔۔
(مسند احمد )
تکبیرِاولیٰ کی فضیلت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں، رسول کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من صلى لله اربعين يوما في جماعه يدرك التكبيره الاولى كتب له براءتان براءه من النار وبراءه من النفاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس نے چالیس دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے باجماعت نماز پڑھی اور تکبیر اولیٰ حاصل کرتا رہا اس کے لیے دو آزادیاں ہیں۔ دوزخ کی آگ سے آزادی۔اور منافقت سے آزادی۔،،( ترمذی شریف)۔۔۔۔۔
اگرہم امام کے ساتھ ہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے فرماتے ہیں نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔
انما جعل الامام ليؤتم به فاذا كبر فكبروا۔۔۔۔
امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔۔۔
( مسندِ احمد)۔۔۔۔
نماز کا آغاز کس طرح کرنا ہے
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں۔۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا قام الى الصلاه استقبل القبله ورفع يديہ و قال الله اكبر ۔۔۔۔
حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے اٹھتے تھے۔ قبلہ شریف کی طرف رُخ انور فرماتے۔اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اور،، اللہ اکبر ،،فرماتے ۔۔۔۔
(ابن ماجہ)
اسی کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔۔۔
اور دوسری روایت ۔۔
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ۔فرماتی ہیں۔
كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يستفتح الصلاه بالتكبير والقراءه بالحمد لله رب العالمين ويختم الصلاه با التسليم ۔۔۔۔۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر( تحریمہ) سے شروع فرماتے۔ اور قراءت کا آغاز الحمد للّٰہ رب العالمین سے کرتے ۔۔ اور،، اسلام علیکم ورحمتہ اللہ ،،پر نماز کو ختم فرماتے۔۔۔۔۔۔
(مشکوہ شریف)۔۔۔
نماز کی تکبیر
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔۔
مفتاح الصلاه الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم۔۔۔۔۔
طہارت نماز کی کنجی ہے۔ تحریم اس کی تکبیر ہے۔ اور سلام پھیرنا اس کی تحلیل ہے۔۔۔۔۔(ترمذی شریف )۔۔
تکبیر کہنے سے پہلے ہاتھ اٹھانا۔۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم کو دیکھا۔
اذا قام الى الصلاه رفع يديه حتى تكونا حذ ومنکبیہ ثم یکبر۔۔۔۔۔۔ 
جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ مونڈھوں کے برابر آ جاتے ۔ پھر تکبیر تحریمہ فرماتے۔۔۔
(نسائی شریف )۔۔۔۔
پہلے ہاتھ اُٹھانا پھر تکبیر کہنا
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔
انه ابصر النبي صلى الله عليه و سلم حين قام الى الصلاه رفع يديه حتى كانتا بحيال منکبيه وحاذی ابھامیہ اذنیہ ثم كبره۔۔۔۔۔
میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے ۔تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۔ یہاں تک کہ دونوں ہاتھ کندھوں کے مقابل آ گئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھوں کو کانوں کے مقابل کردیا ۔پھر تکبیر کہی،،۔
( ابوداود، نسائی ،مسلم شریف )۔۔۔۔۔
تکبیر تحریمہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کس طرح رکھتے تھے 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں۔۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا كبر للصلاه نشر اصابعه۔۔۔۔۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جب نماز شروع فرماتے )تکبیر کہتے تو اپنی انگلیاں مبارک کھلی رکھتے (یعنی آپس میں ملا کر نہ رکھتے تھے بلکہ کشادہ رکھتے)۔۔۔۔۔۔(ترمذی شریف )۔۔
تکبیرِ تحریمہ کے لئے ہاتھ کس طرح اٹھائے
حضرت سعید بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بنی زریق میں آئے ۔اور انھوں نے بتایا۔۔
كان يرفع يديه في الصلاه مدا۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر اٹھایا کرتے تھے۔۔۔۔
(نسائی شریف )۔۔۔
تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھائے
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔
صليت خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما افتح الصلاه کبر و رفع يديه حتى حاذتا اذنیہ ۔۔۔۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نمازشروع فرمائی،اور تکبیر (تحریمہ) کہی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھائے،،۔
(نسائی شریف )۔۔۔۔
دوسری روایت 
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
اذا كبر رفع يديه حتی یحاذی بہما اذنيه۔۔۔۔
آپ صل اللہ علیہ وسلم جب تکبیر فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھاتے،،۔
( صحیح مسلم ۔مشکوۃشریف ۔ بخاری شریف۔ ابن ماجہ۔ مسند احمد)۔۔۔۔
تکبیر تحریمہ کے وقت انگوٹھے کہاں تک لے جائے 
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔۔
انه راى النبي صلى الله عليه و سلم اذا افتتح الصلاه رفع يديه حتى تکاد ابهاماه تحاذي شمحمت اذنيه۔۔۔۔
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز شروع فرمائی۔ تو آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ کے انگوٹھے کانوں کی لو تک پہنچ گئے۔۔۔(نسائی شریف )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ ) یہاں پر بیان کیے جانے والے تمام مسائل فقہ حنفی کے مطابق ہیں۔۔۔۔۔۔۔

16 اکتوبر, 2017

تکبیر تحریمہ کے مسائل و احکام اور احادیث

تکبیر تحریمہ کی سنتیں
نمبر1 ) تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھانا ۔
نمبر 2 ) ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر چھوڑ نا یعنی نہ بالکل ملائے نہ بہ تکلف  کشادہ رکھے۔ بلکہ اپنے حال پر چھوڑ دے۔
نمبر3 )ہتھیلیوں اور انگلیوں کے پیٹ کا قبلہ رو ہونا ۔۔۔نمبر4 ) بوقت تکبیر سر نہ جھکانا۔
نمبر 5) تکبیر سے پہلے ہاتھ اٹھانا ۔
نمبر 6) تکبیر قنوت اور تکبیرات عیدین میں کانوں تک ہاتھ لے جانے کے بعد تکبیر کہے اور ان کے علاوہ کسی جگہ نماز میں ہاتھ اٹھانا سنت نہیں۔
نمبر 7 )عورت کے لیے سنت یہ ہے کہ مونڈھوں (یعنی کندھوں )تک ہاتھ اٹھائے۔۔۔
نمبر 8) امام کا بلند آواز سے اللہ اکبر ،اور ۔ سمع اللہ لمن حمدہ ، اور سلام کہنا۔اور جس قدر بلند آواز کی حاجت ہو اتنا ہی آواز کو بلند کرنا ۔ بلا حاجت بہت زیادہ بلند آواز کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ ۔
امام کو تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقال (یعنی ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانا ) سب میں جہر مسنون ہے۔اگر امام کی آواز تمام مقتدیوں تک نہ پہنچتی ہو تو بہتر ہے کوئی مقتدی مکبر کے فرائض سرانجام دے (یعنی پیچھے بلند آواز سے تکبیر کہے)۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔
تکبیر تحریمہ کے بارے چند احادیث ۔
تکبیرکے معنی ہے اللہ اکبر کہنا ۔ اور تحریمہ کےمعنی کسی چیز کو حرام کرنے کے ہیں۔ تکبیر تحریمہ وہ تکبیر ہے جو نماز کو شروع کرنے کے لیے کہی جاتی ہے۔ جس کے ادا کرنے کے بعد کھانا، پینا ،بولنا، یہاں تک کہ ہر انسانی کام اور کلام حرام ہوجاتا ہے۔۔
نماز میں کلام کے بارے میں۔
حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔
ان هذه الصلاه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس انما هي التسبيح والتكبير وقراءه القران۔۔ نماز میں لوگوں سے کلام کی کوئی چیز درست نہیں۔ سوائے اس کے کہ تسبیح کہے، اللہ اکبر کہے، قرآن مجید پڑھے۔۔۔۔
(مسند احمد )
تکبیرِاولیٰ کی فضیلت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں، رسول کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من صلى لله اربعين يوما في جماعه يدرك التكبيره الاولى كتب له براءتان براءه من النار وبراءه من النفاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس نے چالیس دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے باجماعت نماز پڑھی اور تکبیر اولیٰ حاصل کرتا رہا اس کے لیے دو آزادیاں ہیں۔ دوزخ کی آگ سے آزادی۔اور منافقت سے آزادی۔،،( ترمذی شریف)۔۔۔۔۔
اگرہم امام کے ساتھ ہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے فرماتے ہیں نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔
انما جعل الامام ليؤتم به فاذا كبر فكبروا۔۔۔۔
امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔۔۔
( مسندِ احمد)۔۔۔۔
نماز کا آغاز کس طرح کرنا ہے
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں۔۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا قام الى الصلاه استقبل القبله ورفع يديہ و قال الله اكبر ۔۔۔۔
حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے اٹھتے تھے۔ قبلہ شریف کی طرف رُخ  انور فرماتے۔اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اور،، اللہ اکبر ،،فرماتے ۔۔۔۔
(ابن ماجہ)
اسی کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔۔۔
اور دوسری روایت ۔۔
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ۔فرماتی ہیں۔
كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يستفتح الصلاه  بالتكبير والقراءه بالحمد لله رب العالمين ويختم الصلاه با التسليم ۔۔۔۔۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر( تحریمہ) سے شروع فرماتے۔ اور قراءت کا آغاز الحمد للّٰہ رب العالمین سے کرتے ۔۔ اور،، اسلام علیکم ورحمتہ اللہ ،،پر نماز کو ختم فرماتے۔۔۔۔۔۔
(مشکوہ شریف)۔۔۔
نماز کی تکبیر
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔۔
مفتاح الصلاه الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم۔۔۔۔۔
طہارت نماز کی کنجی ہے۔ تحریم اس کی تکبیر ہے۔ اور سلام پھیرنا اس کی تحلیل ہے۔۔۔۔۔(ترمذی شریف )۔۔
تکبیر کہنے سے پہلے ہاتھ اٹھانا۔۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم کو دیکھا۔
اذا قام الى الصلاه رفع يديه حتى تكونا حذ ومنکبیہ ثم یکبر۔۔۔۔۔۔
جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ مونڈھوں کے برابر آ جاتے ۔ پھر تکبیر تحریمہ فرماتے۔۔۔
(نسائی شریف )۔۔۔۔
پہلے ہاتھ اُٹھانا پھر تکبیر کہنا
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔
انه ابصر النبي صلى الله عليه و سلم حين قام الى الصلاه رفع يديه حتى كانتا بحيال منکبيه وحاذی ابھامیہ اذنیہ  ثم كبره۔۔۔۔۔
میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے ۔تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۔ یہاں تک کہ دونوں ہاتھ کندھوں کے مقابل آ گئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھوں کو کانوں کے مقابل کردیا ۔پھر تکبیر کہی،،۔
( ابوداود، نسائی ،مسلم شریف )۔۔۔۔۔
تکبیر تحریمہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کس طرح رکھتے تھے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں۔۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا كبر للصلاه نشر اصابعه۔۔۔۔۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جب نماز شروع فرماتے )تکبیر کہتے تو اپنی انگلیاں مبارک کھلی رکھتے (یعنی آپس میں ملا کر نہ رکھتے تھے بلکہ کشادہ رکھتے)۔۔۔۔۔۔(ترمذی شریف )۔۔
تکبیرِ تحریمہ کے لئے ہاتھ کس طرح اٹھائے
حضرت سعید بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بنی زریق میں آئے ۔اور انھوں نے بتایا۔۔
كان يرفع يديه في الصلاه مدا۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر اٹھایا کرتے تھے۔۔۔۔
(نسائی شریف )۔۔۔
تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھائے
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔
صليت خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما افتح  الصلاه کبر و رفع يديه حتى حاذتا اذنیہ ۔۔۔۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نمازشروع فرمائی،اور تکبیر (تحریمہ) کہی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھائے،،۔
(نسائی شریف )۔۔۔۔
دوسری روایت
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
اذا كبر رفع  يديه حتی یحاذی بہما اذنيه۔۔۔۔
آپ صل اللہ علیہ وسلم جب تکبیر فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھاتے،،۔
( صحیح مسلم ۔مشکوۃشریف ۔ بخاری شریف۔ ابن ماجہ۔ مسند احمد)۔۔۔۔
تکبیر تحریمہ کے وقت انگوٹھے کہاں تک لے جائے
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں۔۔
انه راى النبي صلى الله عليه و سلم اذا افتتح الصلاه رفع يديه حتى تکاد ابهاماه تحاذي شمحمت اذنيه۔۔۔۔
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز شروع فرمائی۔ تو آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ کے انگوٹھے کانوں کی لو تک پہنچ گئے۔۔۔(نسائی شریف )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ ) یہاں پر بیان کیے جانے والے تمام مسائل فقہ حنفی کے مطابق ہیں۔۔۔۔۔۔۔

بلاگ میں تلاش کریں