20 اکتوبر, 2018

اولاد کی تعلیم و تربیت

 اولاد کی تعلیم و تربیت
بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک بات یاد رکھیے کہ جانور اور انسان میں ایک بنیادی فرق ہے کہ جانور صرف بچوں کو پالتا ہے مگر انسان اولاد کو پالتا بھی ہے اور ان کی تربیت بھی کرتاہے....
پہلا سوال یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کی مناسب عمر کیا ہے تو یہ بات یاد رکھیے کہ علماء نے فرمایا ہے کہ.
سات سال تک بچے کو اپنے سینے سے لگا کر رکھو تاکہ ماں باپ کی محبت و شفقت کی خوشبو میں اس کی تربیت ہو، پھر 14ویں سال تک اس کو غلاموں کی طرح رکھو یعنی اس کی ہر طرح سے مکمل نگرانی کرو، پھر21 اکیسویں سال تک اس کو دوست بنا کر رکھو تاکہ باہر کے برے دوستوں سے بچنے کا موقع اس کو میسر رہے.. اب 21 سال کے بعد وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے والا ایک نوجوان بن چکا ہوگا......
آج کے ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں کہ بچہ پیدا ہونے کے فورا بعد سیکھنے کے عمل سے گزرنا شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ چھ مہینے کی عمر کو پہنچنے تک کئی سو الفاظ اپنے دماغ میں محفوظ کر لیتا ہے اور تین سال کی عمر کو پہنچنے تک تقریبا ضرورت کی تمام زبان سیکھ لیتا ہے... 
مگر فی زمانہ ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں آج کے اس دور میں دو تین سال کے بچے کی انگلی موبائل فون یا آئی پیڈ وغیرہ پر  چلنا شروع ہوتی ہے... 
بچہ خود سے کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر وہی جو ماں باپ اسے دکھانا چاہیں اس لئے ہمیشہ بچے کی تربیت کے لیے اسے ابتدائی سالوں میں اچھا دکھانے کی کوشش کریں... 
ٹھیک ہے آپ نے جوانی کے ایام شادی سے پہلے جیسے بھی گزارے ہوں جب آپ کی اولاد آپ کے سامنے سیکھنے کے مراحل میں آجائے تو اپنی عادتوں کو بدل لیجئے... 
کیونکہ اَلْوَلَدٌ سِرٌّ لِاَبِیْہِ اولاد والدین کا عکس ہوتی ہے.. 
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور دین فطرت دین اسلام ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں... 
اور یہ یاد رکھیے کی تربیت کوئی گولی یا ٹیبلٹ نہیں کہ آپ بچے کو کھلا دیں گے اور اس کی تربیت ہو جائے گی بلکہ یہ ایک مستقل عمل ہے.. جو آپ کریں گے بچہ اسی سے سیکھے گا... 
ایک عورت اپنے دو سال کے بچے کو لے کر ایک دانشور کے پاس گئی کہ مجھے یہ بتائیں کہ میں اپنے بچے کی تربیت کس طرح سے کروں دانشور نے کہا بی بی تجھے تین سال پہلے میرے پاس آنا چاہیے تھا اس نے کہا مگر بچہ تو ابھی دو سال کا ہے میں تین سال پہلے کیسے آ جاتی دانشور نے کہا پہلے  تجھے (یعنی ماں کو) تربیت کی ضرورت تھی پھر بچے کی تربیت ہوگی.... 
اور تربیت کرنے میں خوف اور ادب میں فرق سکھائیں.. 
ماں باپ کا ادب، نانی، نانا، دادی دادا، کا ادب، اساتذہ کا ادب، اپنے سے بڑوں کا ادب، اُن کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے ادب کرنا سکھائیں نہ کہ ان کا خوف دلوں میں بٹھائیں.. 
خوف اگر سکھانا ہو تو اللہ تبارک و تعالی کا، گناہ سے بچنے کا کسی کا حق کھانے کا، کسی کے ساتھ زیادتی کرنے کا خوف دلوں میں بٹھائیں... 
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
یا ایھالذین آمنو قو انفسکم واہلیکم نارا،،، اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ....... 
تربیت اولاد میں ماں کا کردار
معاشرہ اگر وجود میں آیا تو صرف حضرت آدم علیہ السلام  سے نہیں بلکہ اماں حوا سے معاشرہ بنا...
کیونکہ آدم علیہ سلام اگر اکیلے جنت میں ہزاروں سال بھی رہتے تو اکیلے ہی ہوتے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے معاشرہ( سوسائٹی) بنانا چاہی تو آدم و حوا کو رشتہ ازواج میں جوڑا، پھر اولاد کی نعمت عطا کی اور ان معاشرے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے آئین یعنی شریعت عطا کی، تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانا جا سکے...
                                   پہلی درس گاہ
معاشرے میں سب سے پہلے ماں اپنا کردار نبھائے گی اس نظام عدل و انصاف، معاشرتی تقاضے ماں باپ نے اپنی اولاد کو منتقل کرنے ہیں، یہ درست ہے کہ بیٹا ماں باپ کا سہارا ہے مگر بیٹی کے بغیر یہ معاشرہ مکمل ہی کب ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا!
وجودزن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ
اور تصویر کائنات میں یہ جو رنگ ہے، 
یہ کہیں بے راہ روی اور جنسی آوارگی کا رنگ بھی ہو سکتا ہے
کہیں گناہ کا رنگ بھی ہو سکتا ہے، 
لیکن اللہ قرآن میں فرماتا ہے... 
صبغۃ ﷲ ومن احسن من ﷲ صبغۃ 
ترجمہ) سارے رنگوں میں اللہ کا رنگ ہی بہترین اور خوب ہے..........
وہ عورت جس سے تصویر کائنات میں رنگ ہے اگر اس کے ذریعے رنگ چڑھانا ہے تو سب سے بہترین رنگ اللہ کا رنگ ہے اگر ماں کی تربیت ہوئی تو اولاد کی تربیت ممکن ہے... 
اس لیے اپنی اولادوں کے رشتے طے کرتے ہوئے کردار میں اعلیٰ خاندان، نسل، اخلاق اور تعلیم کا معیار ضرور مد نظر رکھو... 
حسن ظاہری سے اخلاق کا حسن کہیں اعلی ہے ظاہری حسن آج نہیں تو کل اپنی کشش کھو دے گا لیکن اخلاق کا حسن بڑھتی عمر کے ساتھ اور بڑھتا جائے گا جو اولاد کی بہتر تربیت کا سبب بنے گا...... 
کسی صاحب عقل نے کہا! 
ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے اور ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے... 
اور یہ بھی کسی نے کہا ہے .! 
تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا.....
ایک بچے کی سب سے پہلی درس گاہ اس کی ماں ہوتی ہے، اور باپ اس درسگاہ کا پرنسپل ہوتا ہے. ماں تربیت کرتی ہے باپ منتظم ہوتا ہے...... 
ماؤں کے اثرات دیکھنے ہیں توحضرت مریم سلام اللہ علیھا کو دیکھیے، ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت دیکھئے فاطمہ کی صورت میں.. 
سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت دیکھئے امام حسن و حسین کی صورت میں.. 
ام الخیر حضرت فاطمہ والدہ غوث اعظم رضی اللہ تعالئ عنہ کی تربیت غوث اعظم کی صورت میں دیکھیے.. 
حضور غوث اعظم رضٰی اللہ عنہ پانچ برس کی عمر میں جب پہلی مرتبہ بسم اللہ پڑھنے کی رسم کیلئے کسی بزرگ کے پاس بیٹھے تو اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور الم سے لے کر اٹھارہ پارے پڑھ کر سنادئیے ۔اس بزرگ نے فرمایا بیٹے اور پڑھیے۔فرمایا بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیونکہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا۔جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں میں نے سن کر یاد کرلیا ۔
ماں کی تربیت کو دیکھنا ہے تو خواجہ بہاوالدین زکریا کی والدہ کو دیکھیے... 
حضرت خواجہ بہاؤالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ نے بھی زمانہ حمل میں جو چودہ پارے حفظ کئے تھے وہ پڑھتی تھیں ۔ چنانچہ خواجہ بہاوالدین زکریا نے بھی اپنی رسم بسم اللہ میں چودہ پارے سنا دیے اور فرمایا میں نے یہ اپنی ماں کے پیٹ میں اتنے ہی سنے تھے ۔
آج کی مائیں جس انداز میں پرورش کر رہی ہیں ذرا اس کی چند جھلکیاں ملا حظہ کیجئے۔
دوران حمل ماں کا زیادہ تروقت ٹی وی کے آگے گزرتا ہے ۔اگر لائٹ نہیں ہے تو جنسی رومانی ناول پڑھ کر وقت گزارے گی اور اگر زیادہ طبیعت مچلی تو کہیں آؤٹنگ پر نکل جاتی ہے…باہر کی ہوا لگوانے …جی ہاں نماز پڑھتے ہوئے اسے تکلیف ہوتی ہے اس کا بی پی ہائی ہو جاتا ہے ۔لیکن ٹی وی دیکھتے ہوئے اور ناول پڑھتے ہوئے یا باہر کی ہوا لگواتے ہوئے ،گھومتے پھرتے اس کا بی پی ہائی نہیں ہوتا…
خلاصہ کلام یہ..... 
جو بوؤ گے وہی کاٹو گے 
ہمیشہ گالی کے بدلے میں گالی آتی ہے،، سلام کے بدلے میں سلام اچھے والدین کی اولاد عموما اچھی نکلتی ہے... 
کیونکہ فصل بیج سے ہوتی ہے.............
تحریر :-  محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

30 اگست, 2018

اسلام میں فریڈم آف اسپیچ 
جس کا مطلب ہے آزادی اظہار رائے ۔ 
عام طور پر اسلام یا مسلمان پر الزام لگایا جاتاہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے۔ مگر حقیقت میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ دیا، اس سے پہلے تو لوگ غلام تھے. مگر اسلام نے انسانوں کو انسانیت کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان کیا۔ اسلام ہی ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے، جو چاہے بول سکتا ہے۔ اللہ نے"لااکراہ فی الدین"(دین میں کوئی جبر نہیں)،
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیاسی اور معاشرتی نظام چلانے کے لیے "وشاورھم فی الامر"(کہ معاملات میں لوگوں سے مشورہ کرو)
جیسے سنہری اصولوں سے واضح کیا کہ اسلام اظہاررائے کی آزادی کاحامی ہے۔لیکن اسلام اعتدال پسند ہے، لیکن فساد کے خلاف ہے، چنانچہ اسلام نے انسان کو خبردار کیا تو بے لگام بھی نہیں ہے ارشاد فرمایا:"مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید" انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت لکھنے کے لیے تیار۔
پھر :فریڈم آف سپیچ :کی حدیں مقرر  فرمائیں سورہ حجرات میں فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں اڑا سکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول (جاسوسی نہیں کر) سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکارسکتا۔    سورہ حجرات 
 اظہار رائے کی آزادی میں اسلام نے ایک طرف یہ بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو ساتھ میں حدود بھی مقرر کیں...... 
دوسری طرف مغرب آزادی اظہار رائے کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے. پھر بھی بے شمار اخلاقی حدود اور پابندیاں مجبوری سمجھتا ہے مثلاً ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم کی توقیر  ، عدلیہ اور استاد کی عزت ، کسی کی ہتک عزت اور پھر اس پر دعویٰ کرنے کا حق. اور دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتاہے۔ کینیڈا کے قانون میں عیسائیت کی توہین وتنقیص جرم ہے۔ 
دوسری طرف مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیا جاتا ہے....
مگر کیا کریں اے اہل یورپ جس طرح تمہاری کچھ اخلاقی مجبوریاں ہیں اسی طرح  ہماری کچھ ایمانی مجبوریاں ہیں قرآن ہمیں یہ کہتا ہے قل.. ان کان اباؤکم وابناؤکم( سب سے بڑھ کر رسول اللہ کی محبت) 
ہماری قیمتی ترین اساس محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھے........................ 
جب ان کی حالت یہ ہے27 جنوری 2003 میں ٹیلی گراف اخبار نے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتا دکھایا گیا۔ اس پر اسرائیل اور ان کے ہمنواؤں نے خوب ہنگامہ آرائی کی جس پر بالآخر اخبار نے معذرت کی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے حضرت عیسیٰ ؑکے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا۔
 اب آتے ہیں اس طرف کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا معاملہ نیا نہیں یہ عمل پچھلی کچھ صدیوں سے کسی نہ کسی رنگ و صورت میں جاری ہے۔ اس انتہائی قبیح عمل کے پس پردہ مقاصد بلاشبہ مسلم امت کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ ان کی منزل کا رخ بدلنا ہے
(1) نمبر ایک امت مسلمہ کی اجتماعی قوت کو پامال کرنا ہے. (2) شدت پسندی کی جو چھاپ اسلام اور اہل اسلام پر غیر مسلموں نے چسپاں کر رکھی ہے اس کا عملی ثبوت اپنی عوام کو دکھانا.... 
(3)یورپی ممالک میں اسلام کی نشر و اشاعت کو  روکنا اور لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
(4) مسلمانوں کے اوقات کو احتجاج اور نفرت میں ضائع کرنا ہے..... 
اس لئے مسلمانوں کو اس کے مستقل سد باب کے لیے بڑی ہوش مندی سے کام لینا چاہیے.. 
میرے خیال میں کسی گیرٹ ویلڈر جیسے گھٹیا انسان یا چند لوگوں کی تصویریں شائع کرکے ہمیں نشر و اشاعت کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے.. 
ہولوکاسٹ پر تصویریں اپ لوڈ کرکے یا تبصرہ کرکے یہودیوں کے موقف کو مضبوط نہیں کرنا چاہیے.. 
اور بعض نادان دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہولوکاسٹ پر تبصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کا جواب ہے تو وہ انتہائی نادان ہیں کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با کمال اور کہاں یہودیت ... 
اگر کچھ کرنا ہے تو جو ہالینڈ یا کسی بھی ایسے یورپین ملک کی نیشنلٹی رکھتے ہیں جو ایسے قبیح کاموں میں ملوث ہیں تو ان ممالک کی اعلیٰ عدالتوں میں جائیں اور مستقل سدباب کے لیے اپنا کردار ادا کریں اچھے سے اچھا وکیل کرکے.. 
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لیے وکیلوں کی فیسیں کہاں سے آئیں گی تو جو لوگ لاکھوں روپیہ احتجاج کے لیے پاکستان میں بھیج سکتے ہیں وہ یہاں پر بھی بھرپور تعاون کے لیے تیار ہوں گے... 
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

12 جنوری, 2018

ہمارا معاشرہ کس کا کیا کردار ہے

 خطبہ جمعہ کا مختصر خلاصہ

ہمارا معاشرہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے ایسا نہیں تھا برائیاں تو ہر زمانے میں موجود رہتی ہیں ۔ مگر بیٹیوں کی عزتوں پر اس کثرت سے ڈاکے نہیں ڈالے جاتے تھے۔۔ 
معصوم بچوں بچیوں کو اس قدر بے رحمی بے دردی اور بے حیائی اور بے غیرتی سے نہیں روندا جاتا تھا ۔ 
اس میں کس کس کا کردار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) ملکی اور مغربی میڈیا کا کردار
2) مرد و زن کا بے حجابانہ اختلاط
3) مغربی تہذیب کو اپنانے کی کوشش
4) تفریح کے لیے بے حیائی فحاشی سیکس وڈیو کا فروغ
5) خیالی دنیا یعنی sex فلم سے حاصل کردہ لذت کو حقیقی معنوں میں حاصل کرنے کی کوشش۔
6) دو تہذیبوں میں بٹ جانا ( آدھا تیتر آدھا بٹیر)
7) نکاح میں تاخیر ( جہیز کا مطالبہ اور دیگر وجوہات)
(8) زنا کو اس کا پرسنل فعل کہنا اور دوسرے نکاح کو معیوب سمجھنا
9) زنا سستا اور نکاح مہنگا اور مشکل
10) مذہبی رہنماؤں کا غلط رویہ ( جس طرح عیسائی اپنی رسومات پر اڑے رہے اور آج نہ ان کی رسومات رہی نہ ہی مذہب)
11) تربیتی نظام کا ختم ہو جانا ( جو کہ کسی زمانے میں دادی دادا یا گھر کا سربراہ یا والدہ کہانیوں کے ذریعہ سے تربیت کرتے تھے ۔) مثلا۔۔ بیٹا نمک زمین پر گر جائے تو فورا اٹھاؤ ورنہ قیامت کے دن آنکھوں کی پتلیوں سے اٹھانا پڑے گا اگرچہ بہت سی کہانیاں فرضی ہوتی تھی لیکن نصیحت سے بھرپور
12) اسلامی تہذیب سے کنارہ کشی اور بغاوت
13) صحت مند تفریح کا فقدان( آج کرکٹ ہاکی فٹبال کی جگہ موبائل گیمز اور Sex وڈیوز )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ میری امت کے لئے معافی ہے لیکن جب علانیہ گناہ کرے گی اس کی معافی نہیں ہوگی ۔۔۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

بلاگ میں تلاش کریں