09 نومبر, 2017

اسلام میں فقہی مذاہب اربعہ پر اکتفا کیوں


اسلام میں فقہی مذاہب اربعہ پر اکتفا کیوں ؟(حصہ دوم)
پہلی صدی ہجری میں چونکہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے ،اس لیے لوگ احادیث سنتے اور اس پر عمل کرتے تھے ۔ پھر تابعین کے دور میں کچھ تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔ حتیٰ کہ دوسری صدی ہجری کے اخیر تک بہت ساری تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں ۔ اب مختلف علاقوں میں مسائل شریعہ کی ضرورت پیش آتی منصب قضاء پر متمکن قاضی فیصلے کرتے ۔ لوگ اہل علم سے رجوع کرتے ان میں سے کچھ اہل علم کا مسکن حجاز ہے جن میں امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے شاگرد، سفیان الثوری اور ان کے رفقاء، امام احمد بن حنبل اور ان کے ساتھی اور امام داؤد وغیرہ ۔
اور اہل علم جن کا تعلق عراق سے ہے جن میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہیں، انہی میں امام محمد، امام ابویوسف قاضی، زفر بن ہذیل، حسن بن زیاد، ابن سماعہ، قاضی عافیہ، ابو مطیع البلخی اور بشر المریسی وغیرہ۔۔
اب جس علاقے میں جو اہل علم شخصیات موجود تھیں ان کے علم سے مستفید ہوتے ہوئے فتاویٰ جات دیئے جاتے یوں آہستہ آہستہ تیسری صدی ہجری میں باقاعدہ مذاہبِ اربعہ نے اپنا وجود قائم کرنا شروع کیا۔۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں میں مذہب نے قرار پکڑا تو وہ حنفی کہلائے۔ اہل حجاز (مکہ و مدینہ) والوں کے پیشوا امام مالک رحمہ اللہ بنے اور ان کے شاگردوں کے سبب یہ مالکی کہلائے اور پھر امام شافعی رحمہ اللہ کے ماننے والے شافعی ٹھہرے۔ اور پھر اسی طرح امام احمد بن حنبل کو ماننے والے حنبلی ٹھہرے (مقدمہ ابن خلدون: ۳۸۹)
اندلس میں مالکی فقہاء اور مشرق میں حنفی فقہاء کی اپنے اپنے قاضیوں کی مناصب پر تعیین کے سبب جس جس علاقے میں جس فقیہ کے مطابق فتویٰ دیا جاتا آہستہ آہستہ وہاں پر وہی فقہ جو ھے مشہور ہو گئی۔۔
اور چوتھی صدی ہجری میں مذاہبِ اربعہ پوری قوت سے اپنے وجود میں آچکے تھے ۔اس بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ حجۃ اللہ البالغۃ: ج 1 میں فرماتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ النَّاسَ قَبْلَ الْمِائَۃِ الرَّابِعَۃِکَانُوا غَیرَ مُجْمَعِینَ عَلَی التَّقْلِیدِ الْخَالِصِ لِمَذْہَبٍ وَاحِدٍ بِعَیْنِہِ۔
آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ مسلمان چوتھی صدی ہجری سے قبل کسی ایک مذہب کی تقلید خالص پر متفق نہ تھے۔
مذاہبِ اربعہ کے وجود میں آ جانے کے بعد پھر شدت پسندی ے جگہ پکڑی اس کی ایک مثال تحریر میں لاتا ہوں۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ حنبلی مسلک رکھتے تھے کسی مسئلہ پر تحقیقی وعلمی اندازسے سوچا تو امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے وقیع ومدلل نظر آئی چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق فتوی دے دیا۔ صبح جب اپنے کمرے سے باہر آنا چاہا تو حنبلی عوام نے راتوں رات ان کے دروازے پر دیوار چن دی۔ 
اسی طرح فقہی مسائل پر شوافع اور احناف کے درمیان باقاعدہ مناظرے ہوئے حتی کہ لڑائیاں ہوئیں ۔ یہ تو تھیں مذاہبِ اربعہ کے وجود میں آنے کی وجوہات اور پھر شدت پسندی ۔ پھر اہل علم اس بات پر متفق ہوئے کہ جب سب کا ماخذ قرآن و سنت ہے تو سب ایک ہی ہیں پھر ان مذاہب اربعہ کو اہلسنت و جماعت ہی تسلیم کیا گیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ اہلِ سنت کے چار مکاتبِ فقہ ہیں جن میں‌ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی شامل ہیں۔ کیا ایک شخص کے لیے ان چاروں فقہ پر عمل کرنا جائز ہے یا پھر کسی ایک فقہ پر عمل کیا جائے گا؟ اگر ایسا ہے تو ایک فقہ کی پابندی کیوں‌ کی جائے؟ 
اس کا پہلا جواب ۔
جائز و ناجائز اور اوامر و نواہی کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت لازمی ہے۔
قرآن و سنت میں دوطرح کے احکام ہیں: بعض احکام محکم اور واضح ہیں جن میں اِجمال، اشتباہ، اِبہام یا تعارض نہیں، انھیں پڑھنے والا ہر شخص بغیر کسی اُلجھن کے اُن کا مطلب آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت، زنا، شراب نوشی، چوری، فساد فی الارض اور قتل وغیرہ کی حرمت ہے۔
اس کے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام ایسے بھی ہیں جن میں بادی النظر میں اِبہام پایا جاتا ہے۔ جیسے عبادات اور معاملات وغیرہ کے فروعی مسائل۔ قرآن و سنت سے ان احکام کے مستنبط اور اخذ کرنے کی دو صورتیں ہیں:
1) ۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں اور اس پر عمل کریں۔
2) ۔دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے قرونِ اولیٰ کے جلیل القدر اسلاف کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں اور انہوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ يَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِيْ مَعْرَفَةِ الشَرِيْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِيْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِيْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِيْنَ، وَ هَکَذَا فِيْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ.
’’امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا۔‘‘
مذاہبِ اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید کا فائدہ یہ ہے کہ عام مسلمان تفرقہ و انتشار سے بچ جاتا ہے۔ اگر تقلیدِ مطلق کی عام اجازت ہو اور ہر شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس مسئلے میں جس فقیہ کی چاہے تقلید کر لے تو اس قسم کے اقوال کو جمع کر کے ایک ایسا مذہب تیار ہو سکتا ہے جس میں دین خواہشات کا کھلونا بن کر رہ جائے گا، جسے کسی بھی طور پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فقہاء کے نذدیک اب تقلیدِ شخصی کی پابندی ضروری ہے اور کسی ایک مجتہد (کے مکتبِ فکر) کو معین کر کے ہر مسئلے میں اسی کی پیروی کی جائے تاکہ نفسِ انسانی کو حلال و حرام کے مسائل میں شرارت کا موقع نہ مل سکے۔
اس سوال کی ایک دوسری شکل۔
جب چاروں امام حق پر ہیں، تو پھر ہم جس وقت جس کے مذہب پر چاہیں عمل کرلیں، کوئی نقصان نہ ہونا چاہیے ۔ مثلاً: کبھی رفع یدین کریں، کبھی نہ کریں، کبھی امام کے پیچھے سورة پڑھیں ، کبھی نہ پڑھیں ، وغیرہ وغیرہ۔ 
اس سوال سے چند سوالات پیدا ہوئے مثلا
1) ۔چاروں امام کے حق پر ہونے کا کیا مطلب ہے؟
2)۔۔اگر کوئی شخص کبھی کبھار چاروں اماموں کے مسلک پر عمل کرلے تو کیا حرج ہے؟
3)۔۔۔چاروں اماموں کی باتوں پر عمل، کیا قرآن و حدیث پر عمل نہ ہوگا؟
4)۔۔۔صرف ایک امام کی تقلید کو ضروری سمجھ کر دوسروں کے مسلک پر عمل نہ کرنے کے کیا دلائل ہیں؟
5)۔۔۔عقلی دلائل کے علاوہ چاروں مذہبوں پر عمل نہ کرنے کے شرعی دلائل کیا ہیں؟
اب آتے ہیں جواب کی طرف ۔
چاروں اماموں کے برحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔ چونکہ چاروں امام شرائطِ اجتہاد کے جامع تھے، اور انہوں نے انسانی طاقت کے مطابق مرادِ الٰہی کے پانے کی کوشش کی، اس لئے جس مجتہد کا اجتہاد جس نتیجہ تک پہنچا اس کے حق میں وہی حکمِ شرعی ہے، اور وہ من جانب اللہ اسی پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔ اب ایک مجتہد نے دلائلِ شرعیہ پر غور کرکے یہ سمجھا کہ امام کی اقتداء میں قراء ت ممنوع ہے:اللہ کا ارشاد “فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ” ولقولہ علیہ السلام: “واذا قرأ فانصتوا!” وقولہ علیہ السلام: “اذا امن القاری فامنوا!” تو یہ مجتہد ان دلائلِ شرعیہ کے پیش نظر مجبور ہوگا کہ اس سے سختی کے ساتھ منع کرے۔
دوسرے مجتہد کی نظر اس پر گئی کہ نماز میں سورہٴ فاتحہ کا پڑھنا ہر نمازی کے لئے ضروری ہے، خواہ امام ہو یا مقتدی، یا منفرد، تو یہ اپنے اجتہاد کے مطابق اس کے ضروری ہونے کا فتویٰ دے گا۔
الغرض ہر مجتہد اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرنے اورفتویٰ دینے کا مکلف ہے، یہی مطلب ہے ہر امام کے برحق ہونے کا۔
2)۔۔۔جو شخص شرائطِ اجتہاد کا جامع نہ ہو وہ اختلافی مسائل میں کسی ایک مجتہد کا دامن پکڑنے اور اس کے فتویٰ پر عمل کرنے کا مکلف ہے، اسی کا نام تقلید ہے، پھر تقلید کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کبھی کسی امام کے فتویٰ پر عمل کرلیا، کبھی دوسرے امام کے فتویٰ پر، یا ایک مسئلے میں ایک امام کے فتویٰ کو لے لیا، اور دوسرے مسئلے میں دوسرے امام کے فتویٰ کو، لیکن آدمی کا نفس بہانے تلاش کرنے والا ہے، اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو عام لوگوں کے بارے میں اس کا احتمال غالب ہے کہ اپنے نفس کو جس مجتہد کا فتویٰ اچھا لگے گا، یا جو فتویٰ نفس کی خواہش کے مطابق ہوا کرے گا اس کو لے لیا کرے گا، اس صورت میں شریعت کی پیروی نہیں ہوگی بلکہ ہوائے نفس کی پیروی ہوگی، اس لئے عوام کو خواہشِ نفس کی پیروی سے بچانے اور انہیں شریعتِ خداوندی کا پابند کرنے کے لئے یہ قرار دیا گیا کہ کسی ایک امام کے پابند ہوجائیں۔ 
البتہ بعض صورتوں میں اپنے امام مقتداء کے قول کو چھوڑ کر دوسرے امام کے قول کو لینا جائز اور بعض اوقات بہتر ہے، مثلاً: دوسرے امام کے قول میں احتیاط زیادہ ہے اور یہ شخص کمالِ احتیاط کی بنا پر دوسرے امام کے فتویٰ پر عمل کرتا ہے۔
ہم جیسے عام لوگوں کا اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا بھی مشکل ہے، لہٰذا ہمارے لئے دین و ایمان کی سلامتی اور خود رائی وکج روی سے حفاظت اسی میں ہے کہ ایک امام فتاویٰ پر عمل کریں۔ 
اور یہ کہنا کہ: “کبھی رفع یدین کرلیا، کبھی نہ کیا، کبھی امام کے پیچھے قراء ت کی، کبھی نہ کی” ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو کبھی یکسوئی نصیب نہ ہوگی، بلکہ ہمیشہ متحیر و متردد رہے گا کہ یہ صحیح ہے یا وہ؟ “پھر کبھی کیا، کبھی نہ کیا” کا کوئی معیار تو اس کے ذہن میں ہونا چاہئے کہ کبھی کرنے کی وجہ کیا تھی؟ اور کبھی نہ کرنے کا باعث کیا ہوا؟ کرید کر دیکھا جائے تو اس کا سبب بھی وہی دل کی چاہت نکلے گا ۔ جبکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ چاروں امام اپنے اجتہاد کے مطابق برحق ہیں تو کیوں نہ ان کے اجتہاد پر عمل کیا جائے؟
3)۔۔۔ اختلافی مسائل میں بیک وقت سب پر عمل کرنا تو بعض صورتوں میں ممکن ہی نہیں کہ ایک قول کو لے کر دوسرے کو بہرحال چھوڑنا پڑے گا، اور اگر چاروں کے اقوال پر عمل کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جس مسئلے میں جس کے قول پر چاہا عمل کرلیا یا جب جی چاہا ایک ہی مسئلے میں ایک کے قول پر عمل کرلیا اور جب جی چاہا دوسرے کے قول پر، تو اس کے بارے میں اوپر عرض کرچکا ہوں، بلاشبہ چاروں اماموں کا عمل قرآن و حدیث ہی پر ہے، گو نتیجہِ اجتہاد مختلف ہیں، لہٰذا کسی ایک کی باتوں کو عمل کے لئے اختیار کرلینا بھی قرآن و حدیث پر ہی عمل کرنا ہے۔
4)۔۔۔۔۔کسی ایک امام کی اقتداء کو لازم پکڑنا (خواہ وہ امام ابوحنیفہ ہوں یا امام مالک ، یا امام شافعی، یا امام احمد بن حنبل ) اس میں امام ابوحنیفہ کی تخصیص نہیں، مگر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جس امامِ مجتہد کی پیروی کی جائے اس کے اصول و فروع، راجح مرجوح، قوی و ضعیف کا علم ہونا ضروری ہے، پاک و ہند اور افغانستان سے لے کر مشرقِ بعید تک امام ابوحنیفہ کا مذہب عام طور سے رائج رہا، اور ان ممالک میں فقہ حنفی کی کتابوں کا ذخیرہ اور اس مذہب کے ماہرین بہ کثرت رہے، جن سے رجوع کرنا ہر شخص کے لئے آسان تھا، دوسرے ائمہ کے مذاہب کا رواج ان علاقوں میں نہیں تھا، اس لئے ان علاقوں میں امام ابوحنیفہ کی تقلید رائج ہوئی، جیسا کہ بلادِ مغرب میں مالکی مذہب کا عام چرچا رہا، اور دوسرے مذاہب کا رواج وہاں شاذ و نادر کے حکم میں رہا، اس لئے ان علاقوں میں امام مالک کی تقلید متعین ہوگئی۔ الغرض ہمارے علاقوں میں امام ابوحنیفہ کی تقلید اس بنا پر ضروری قرار پائی کہ یہاں فقہ حنفی کے ماہرین موجود رہے، اور بلادِ مغرب میں فقہ مالکی کی تقلید ضروری ٹھہری کہ وہاں اس کے ماہرین موجود تھے، جہاں دوسری فقہ کے ماہرین ہی موجود نہ ہوں وہاں دوسری فقہ پر عمل کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اور اس پر عمل کیسے ممکن ہے؟
5)۔۔ اوپر والے نکات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس سوال کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، اس لئے کہ مطلق تقلید یا تقلیدِ شخصی محض عقلی چیز نہیں، بلکہ شریعتِ مطہرہ کی تعمیل کی عملی شکل ہے، اور آیتِ شریفہ: “فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ” (النحل:۴۳) ۔
اس مضمون کو جتنا طویل کیا جائے ہو سکتا ہے کیونکہ اس پر بڑی بحث ہے۔
مگر اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہوں گا۔
جب تک اہل علم اس بات پر متفق رہے آئمہ اربعہ حق پر ہیں اور چاروں اہلسنت ہیں تو فرقے نے پیدا نہیں ہوئے جب جب مذاہبِ اربعہ سے کوئی باہر نکلا تو کسی نے فرقے کی بنیاد بنا ۔اگر آج کے دور میں دیکھا جائے فتنہ مرزائیت، غیرمقلدین (اہلحدیث) اور فتنہ جدیدہ غامدی ،اور ایک مرزا جہلمی، میرے نزدیک کئی اور زیر تعمیر ہیں نجانے کب نئے فرقے کا اعلان ہوجائے ۔ جتنے بھی فتنے یا فرقے پیدا ہوئے سب مذاہب ِاربعہ سے نکلنے کا نتیجہ ہے۔۔
میں بھی کسی نئے فرقے کو سچا مان لوں اگر کوئ ہاتھ کھڑے کرکے نماز پڑھنے کا طریقہ نکالے، یا لیٹ کر نمازپڑھنےکاطریقہ نکالے۔ اگر طریقہ پھر بھی وہی رہنا ھے۔ ہاتھ ناف کے نیچے، یا سینے پر، یا ہاتھ کھلے چھوڑ کے، تو پھر ان آئمہ میں سے کسی ایک کی تقلید میں ہی بقا ہے۔ دیکھتا ہوں اگر اس مضمون پر کوئی سوال آیا تو پھر اس کے مطابق جواب پر غور کروں گا۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں