09 نومبر, 2017

اسلام میں فقہی مذاہب اربعہ پر اکتفا کیوں؟ حصہ اول

اسلام میں فقہی مذاہب اربعہ پر اکتفا کیوں؟(حصہ اول)
عنوان کی سمجھ دوسرے حصہ میں آئے گی ۔۔ میری بات کو سمجھنے کے لئے آپ کو حصہ اول و دوم کا مطالعہ کرنا ہو گا ۔۔چند دلائل اجتہاد یعنی فقہہ پر 
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔۔
یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین و انما انا قاسم واللہ یعطی
اللہ تعالیٰ جب کسی کے ساتھ خیر چاہتا ہے تو اُسے دین میں سوجھ بوجھ عطا کرتا ہے ۔ میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے ۔(حدیث مبارکہ ) 
یعنی دین کی سمجھ (فقہہ)اللہ کی طرف سے خیر ہے ۔۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں وہ صحابۂ کرام جنہوں نے مختلف موضوعات پر فتوے دیے ان کی تعداد ایک سو تیس چالیس (130/ 140) تک ہے تقریبا ، ان میں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ باوجود اسکے کے سیکھا سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مگر فتویٰ سب نے نہیں دیا۔۔۔ آج کل ایک مخصوص طبقہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ تم سب ہی مفتی ہو تمہیں کسی فقہ کی ضرورت نہیں۔
اسلام نے معاشرتی مسائل کے ذیل میں جگہ جگہ ’معروف‘ یعنی( جو جہاں کی ضرورت ہو) کے مطابق عمل کی ہدایت کی ہے، چنانچہ ایک جگہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ عورت کے ساتھ معروف کے مطابق سلوک کرنا چاہیے (النساء:۱۹)۔
اس میں نان نفقہ بھی شامل ہے، لیکن اللہ نے اس کی حدبندی نہیں کی۔ یہ کبھی اشخاص کے اختلاف سے ، معاشروں کے اختلاف سے ملکوں اور زمانہ کے اختلاف سے بھی بدل سکتا ہے ۔ ان بدلتی ہوئی صورتوں کے لحاظ سے اس کا تعین کرنا ایک ’اجتہادی عمل‘ ہے جسے فقہی مسائل کہا جاتا ہے ۔۔
حضرت عمرو بن العاصؓ کی ایک روایت میں اجتہاد کی بڑی حوصلہ افزائی موجود ہے ۔ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا ہے :
اذا حکم الحاکم فاجتھد ثم اصاب فلہ اجران و اذا حکم فاجتھد ثم اخطا فلہ اجر
جب حاکم فیصلہ کرے، اس کے لیے کوشش کرے او ر درست فیصلہ کرے تو اسکے لئے دو اجر ہیں ۔ اور جب حاکم فیصلہ کرے، اس کے لیے کوشش کرے، لیکن اس کے باوجود غلطی کر جائے تو اس کا ایک اجر ہے ۔
یہاں حاکم سے مراد وہ حاکم ہے جو دین کا علم رکھتا ہو اور جس کے اندر متعلقہ مسئلہ میں اجتہاد کی صلاحیت پائی جائے ۔۔
مگر جب اسلامی حکومت نہ ہو پھر یہ اختیار حکمرانوں نہیں دیا جا سکتا ۔۔ پھر یہ ذمہ داری فقہائے کرام کی ہے کہ وہ دین کو سمجھ کر عوام تک پہنچائیں ۔
اجتہاد کی تربیت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ۔
ایک خاتون نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی، لیکن اپنی نذر پوری کرنے سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا، کیا میں اُس کی طرف سے حج کروں ؟ آپؐ نے اس سے پوچھا: بتاؤ اگر تمھاری ماں پر کسی کا قرض ہوتا تو کیا تم اُسے ادا نہ کرتیں ؟ اس نے عرض کیا: ہاں ضرور کرتی۔ آپؐ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اس قرض کو بھی ادا کرو۔ یہ تو دوسرے قرضوں سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ وہ ادا ہو۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجتہاد۔۔۔۔۔
جنگِ ’احزاب‘ کے موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کرام سے کہا کہ وہ فوراً ’بنی قریظہ‘ پہنچ جائیں او ر وہیں عصر کی نماز پڑھیں، لیکن یہ لوگ راستے ہی میں تھے کہ عصر کا وقت ہو گیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ حضورؐ ﷺکا مطلب یہ تھا کہ ہم ’بنو قریظہ‘ پہنچنے میں جلدی کریں ۔ آپؐ ﷺ کا منشا یہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے نمازِ عصر میں تاخیر کر دی جائے ۔ چنانچہ ان لوگوں نے وقت پر نماز پڑھ لی، لیکن بعض دوسرے صحابہ نے اس سے اختلاف کیا، چوں کہ آپ نے عصر کی نماز ’بنو قریظہ‘میں پڑھنے کی ہدایت کی تھی، اس لیے وہیں پہنچ کر رات میں انھوں نے نماز پڑھی، پہلے گروہ نے آپؐ کے منشا کو سمجھنے کی کوشش کی اور دوسرے گروہ نے آپؐ کے الفاظ کو سامنے رکھا، جب آپؐ کو اس کی اطلاع ملی، تو آپؐ نے کسی بھی گروہ کو ملامت نہیں کی۔
ایک اور روایت ۔ 
دو صحابی رسولﷺسفر میں تھے، نماز کا وقت آیا تو وضو کے لیے پانی نہیں تھا، چنانچہ انھوں نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، لیکن وقت کے ختم ہونے سے پہلے ہی پانی مل گیا، تو ایک صاحب نے نماز دہرائی اور دوسرے نے نہیں دُہرائی، آپؐ نے دونوں کو درست قرار دیا۔
انتہائی اہم معاملہ نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد مسئلہ خلافت پیش آیا، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے مستحق خلافت ہونے کی ایک دلیل حضرت عمرؓ نے یہ دی کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اپنی زندگی میں نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھایا تھا۔ یہ ان کے نزدیک اس بات کا ثبوت تھا کہ خلافت کے لیے بھی حضرت ابوبکرؓ ہی سب سے زیادہ آپ کی نظر میں مستحق تھے ۔ اس طرح انھوں نے ’امامتِ نماز " سے اجتہاد کیا اور مسلمانوں کی امامت کا مستحق جانا۔۔۔
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے منکرین زکوٰۃ سے جہاد کیا وہ بھی اجتہاد کے ذریعے سے ۔۔۔۔
اور صحابہ کرام کے وظائف مقرر کرنے کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق کا اجتہاد برابری کی بنیاد پر تھا ۔۔اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالئ عنہ کا اجتہاد ان کی دینی خدمات کی بنیاد پر تھا۔
فقہاء کے درجات۔
فقہ حنفی میں مجتہدین اور ان کی اتباع کرنے والے علماء و فقہاء کے سات طبقات بیان کئے گئے ہیں :
(1)پہلا طبقہ ’مجتہدین فی الشرع‘ کا ہے، جنھوں نے شریعت کے احکام سے براہِ راست اجتہاد کیا۔ جیسے ائمہ اربعہ۔۔
(2) دوسرا طبقہ ’مجتہدین فی المذہب‘ کا ہے ۔ فقہ حنفی میں امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ وغیرہ یہ لوگ فروع اور جزئیات میں بسا اوقات امام صاحب سے اختلاف بھی کرتے ہیں، لیکن اصول میں وہ ان سے متفق ہیں ۔
(3)تیسرا طبقہ ’مجتہدین فی المسائل‘ کا ہے ۔ یہ لوگ فقہ حنفی کے اصول و فروع کسی بھی چیز سے اختلاف نہیں کرتے صرف اگر کسی مسئلہ میں اختصار ہو تو اسکی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
(4)چوتھا طبقہ ’اصحابِ تخریج‘ کا ہے، جو اجتہاد کی صلاحیت تو نہیں رکھتے، البتہ جس کے ایک سے زیادہ پہلو ہو سکتے ہیں، تعیین اور وضاحت کر سکتے ہیں۔
(5)پانچواں طبقہ ’اصحابِ ترجیح‘ کا ہے ۔ یہ لوگ اپنے مذہب کی مختلف روایات میں کسی ایک کو ترجیح دے سکتے ہیں ۔
(6)چھٹا طبقہ ، ان علماء کا ہے جو اپنے مذہب کی مختلف روایات میں یہ فرق کر سکتے ہیں کہ ان میں کونسی قوی ہے او ر کونسی ضعیف؟
(7)ساتواں طبقہ۔۔ ان مقلدین (عوام )کا ہے جو اپنے مذہب کی کمزور اور مضبوط یا غلط اور صحیح روایات میں کوئی فرق نہیں کر سکتے، عوام کیلئے پہلے چھ طبقات کی روایات پر اعتماد اور عمل کرنا ہو گا۔
اب میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو دیکھے کہ ان سات طبقات میں کون سے طبقے میں ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں اپنےآپ کو ساتویں طبقہ میں پاتا ہوں اور فقہائے کرام کے اقوال پر عمل کرتا ہوں۔
بقیہ مضمون دوسرے حصے میں۔۔۔۔۔ 
جاری ہے۔۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں