30 اگست, 2018

اسلام میں فریڈم آف اسپیچ 
جس کا مطلب ہے آزادی اظہار رائے ۔ 
عام طور پر اسلام یا مسلمان پر الزام لگایا جاتاہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے۔ مگر حقیقت میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ دیا، اس سے پہلے تو لوگ غلام تھے. مگر اسلام نے انسانوں کو انسانیت کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان کیا۔ اسلام ہی ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے، جو چاہے بول سکتا ہے۔ اللہ نے"لااکراہ فی الدین"(دین میں کوئی جبر نہیں)،
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیاسی اور معاشرتی نظام چلانے کے لیے "وشاورھم فی الامر"(کہ معاملات میں لوگوں سے مشورہ کرو)
جیسے سنہری اصولوں سے واضح کیا کہ اسلام اظہاررائے کی آزادی کاحامی ہے۔لیکن اسلام اعتدال پسند ہے، لیکن فساد کے خلاف ہے، چنانچہ اسلام نے انسان کو خبردار کیا تو بے لگام بھی نہیں ہے ارشاد فرمایا:"مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید" انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت لکھنے کے لیے تیار۔
پھر :فریڈم آف سپیچ :کی حدیں مقرر  فرمائیں سورہ حجرات میں فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں اڑا سکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول (جاسوسی نہیں کر) سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکارسکتا۔    سورہ حجرات 
 اظہار رائے کی آزادی میں اسلام نے ایک طرف یہ بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو ساتھ میں حدود بھی مقرر کیں...... 
دوسری طرف مغرب آزادی اظہار رائے کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے. پھر بھی بے شمار اخلاقی حدود اور پابندیاں مجبوری سمجھتا ہے مثلاً ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم کی توقیر  ، عدلیہ اور استاد کی عزت ، کسی کی ہتک عزت اور پھر اس پر دعویٰ کرنے کا حق. اور دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتاہے۔ کینیڈا کے قانون میں عیسائیت کی توہین وتنقیص جرم ہے۔ 
دوسری طرف مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیا جاتا ہے....
مگر کیا کریں اے اہل یورپ جس طرح تمہاری کچھ اخلاقی مجبوریاں ہیں اسی طرح  ہماری کچھ ایمانی مجبوریاں ہیں قرآن ہمیں یہ کہتا ہے قل.. ان کان اباؤکم وابناؤکم( سب سے بڑھ کر رسول اللہ کی محبت) 
ہماری قیمتی ترین اساس محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھے........................ 
جب ان کی حالت یہ ہے27 جنوری 2003 میں ٹیلی گراف اخبار نے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتا دکھایا گیا۔ اس پر اسرائیل اور ان کے ہمنواؤں نے خوب ہنگامہ آرائی کی جس پر بالآخر اخبار نے معذرت کی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے حضرت عیسیٰ ؑکے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا۔
 اب آتے ہیں اس طرف کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا معاملہ نیا نہیں یہ عمل پچھلی کچھ صدیوں سے کسی نہ کسی رنگ و صورت میں جاری ہے۔ اس انتہائی قبیح عمل کے پس پردہ مقاصد بلاشبہ مسلم امت کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ ان کی منزل کا رخ بدلنا ہے
(1) نمبر ایک امت مسلمہ کی اجتماعی قوت کو پامال کرنا ہے. (2) شدت پسندی کی جو چھاپ اسلام اور اہل اسلام پر غیر مسلموں نے چسپاں کر رکھی ہے اس کا عملی ثبوت اپنی عوام کو دکھانا.... 
(3)یورپی ممالک میں اسلام کی نشر و اشاعت کو  روکنا اور لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
(4) مسلمانوں کے اوقات کو احتجاج اور نفرت میں ضائع کرنا ہے..... 
اس لئے مسلمانوں کو اس کے مستقل سد باب کے لیے بڑی ہوش مندی سے کام لینا چاہیے.. 
میرے خیال میں کسی گیرٹ ویلڈر جیسے گھٹیا انسان یا چند لوگوں کی تصویریں شائع کرکے ہمیں نشر و اشاعت کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے.. 
ہولوکاسٹ پر تصویریں اپ لوڈ کرکے یا تبصرہ کرکے یہودیوں کے موقف کو مضبوط نہیں کرنا چاہیے.. 
اور بعض نادان دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہولوکاسٹ پر تبصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کا جواب ہے تو وہ انتہائی نادان ہیں کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با کمال اور کہاں یہودیت ... 
اگر کچھ کرنا ہے تو جو ہالینڈ یا کسی بھی ایسے یورپین ملک کی نیشنلٹی رکھتے ہیں جو ایسے قبیح کاموں میں ملوث ہیں تو ان ممالک کی اعلیٰ عدالتوں میں جائیں اور مستقل سدباب کے لیے اپنا کردار ادا کریں اچھے سے اچھا وکیل کرکے.. 
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لیے وکیلوں کی فیسیں کہاں سے آئیں گی تو جو لوگ لاکھوں روپیہ احتجاج کے لیے پاکستان میں بھیج سکتے ہیں وہ یہاں پر بھی بھرپور تعاون کے لیے تیار ہوں گے... 
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

بلاگ میں تلاش کریں