30 ستمبر, 2017

کیا یزید بے قصور اور جنتی ہے؟


کیا یزید بے قصور اور جنتی ہے؟
موجودہ دور نفسا نفسی اور فتنوں کا دور ہے۔ روز بروز ایک نیا فتنہ اسلام کا نام لے کر کھڑا ہوتا نظر آرہا ہے۔ موجودہ دور میں ماڈرن لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ماڈرن لوگوں میں یہ بیماری ہے کہ وہ ماڈرن مذہبی اسکالرز کی بات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا پر خشخشی داڑھی والے غامدی‘ کوٹ پینٹ ٹائی والے ذاکر نائیک اور ہاتھوں میں بینڈ باجے لئے بابر چوہدری اور نجم شیراز جیسے لوگ جو نہ سند یافتہ عالم ہیں اور نہ ہی شکل اور حلیے سے مذہبی معلوم ہوتے ہیں۔ بھولے بھالے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ روزانہ میڈیا پر ایک نیا شوشہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو کوئی فسادی اور فرقہ پرست نہیں کہتا۔

آج کل انہی جیسے لوگوں نے یہ بات مشہور کردی ہے کہ یزید بے قصور آدمی تھا۔ یزید کے لئے تو جنت کی بشارت دی گئی ہے وہ قتل حسین پر راضی نہ تھا۔ ان کے اس میٹھے زہر کا مقابلہ ہم آج اس مضمون میں کریں گے اور احادیث‘ جید تابعین اور علمائے امت کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے جس یزید کو ناصبی اپنی آنکھ کا تارا تصور کرتے ہیں وہ دین اسلام کی اصل شکل کو مسخ کرنے کے ارادے سے حکمرانی کررہا تھا۔

یزید کا مختصر تعارف

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یزید بیٹا معاویہ بن ابی سفیان صخربن حرب بن امیہ بن عبد شمس ہے ‘کنیت اس کی ابو خالد ہے۔ یزید حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوا (تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی جلد 11 ص  360)

یزید احادیث کی روشنی میں

حدیث شریف: حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا (مسند ابو یعلیٰ حدیث نمبر 872ص 199‘ مجمع الزوائد جلد 5ص 241‘ تاریخ الخلفاء ص 159‘ الصواعق المحرقہ ص 221)

حدیث شریف: محدث امام رئویانی نے اپنی مسند میں حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺکو فرماتے سنا کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ پہلا وہ شخص جو میرے طریقے کو بدلے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا۔

(جامع الصغیر جلد اول ص 115‘ تاریخ الخلفاء ص 160‘ ماثبت من السنہ ص 12)

حدیث شریف: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ‘ سن ساٹھ کے آغاز سے تم لوگ اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگنا اس وقت دنیا (حکومت) احمق اور بدعادت کے لئے ہوگی۔ (بحوالہ: خصائص کبریٰ جلد دوم ص 139)

فائدہ: علامہ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چھوکروں اور احمقوں کی حکومت سے مراد یزید کی حکومت کی طرف اشارہ ہے (تفسیر مظہری جلد اول ص 139)

یزید جید تابعین کی نظر میں

1۔ حضرت عبداﷲ بن حنظلہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں کیونکہ یہ شخص (یزید) مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیتا اور شراب پیتا اور نمازیں چھوڑ دیتا تھا (تاریخ الخلفاء ص 207‘ الصواعق المحرقہ ص 134‘ طبقات ابن سعد جلد 5ص 66)

2۔ حضرت منذر بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے علی الاعلان لوگوں کے سامنے کہا ’’بے شک یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم انعام دیا مگر اس کا یہ سلوک مجھے اس امر سے باز نہیں رکھ سکتا کہ میں تمہیں اس کا حال نہ سنائوں۔ خدا کی قسم وہ شراب پیتا ہے اور اسے اس قدر نشہ ہوجاتا ہے کہ وہ نماز ترک کردیتا ہے (ابن اثیر جلد چہارم ص 42‘ وفاء الوفاء جلد اول ص 189)

3۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم! بلاشبہ انہوں نے ایسے شخص کو قتل کیا جو قائم اللیل اور صائم النہار تھے جو ان سے ان امور کے زیادہ حقدار تھے اور اپنے دین و فضیلت و بزرگی میں ان سے بہتر تھے۔ خدا کی قسم! وہ قرآن مجید کے بدلے گمراہی پھیلانے والے نہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے ان کی مجلسوں میں ذکر الٰہی کے بجائے شکاری کتوں کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ باتیں انہوں نے یزید کے متعلق کہی تھیں۔ پس عنقریب یہ لوگ جہنم کی وادی غیّ میں جائیں گے (ابن اثیر جلد چہارم ص 40)

4۔ نوفل بن ابو انضرت نے فرمایا میں پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ کے پاس تھا۔ پس ایک شخص نے آکر یزید کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کو یوں کہا۔ امیرالمومنین یزید بن معاویہ‘‘ یہ سننا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ غضبناک ہوئے۔ آپ نے فرمایا تو یزید کو امیرالمومنین کہتا ہے۔ پھر آپ کے حکم پر اس کو بیس کوڑے مارے گئے (الکامل جلد سوم ص 277‘ تہذیب التہذیب جلد 11‘ ص 361‘ تاریخ الخلفاء ص 160‘ ماثبت من السنہ ص 13)

یزید علمائے اسلام اور محدثین کی نظر میں

1۔ حضرت امام احمد بن حنبل رضی اﷲ عنہ متوفی 241ھ نے اپنے فرزند کو فرمایا: کیوں لعنت نہ کی جائے اس یزید پر جس پر اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لعنت کی ہے۔ آپ کے بیٹے نے عرض کیا اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہاں یزید پر لعنت کی ہے؟ آپ نے فرمایا سورہ محمد کی ان آیات میں:

ترجمہ: تو کیا تمہارے لچھن (کردار) نظرآتے ہیں اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلائو اور ایسے رشتے دار کاٹ دو۔ یہ ہیں وہ لوگ جن پر اﷲ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں (سورہ محمد آیت 23-22)

2۔ اس آیت کی تفسیر میں مشہور مفسر امام سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270ھ فرماتے ہیں۔ یعنی سورہ محمد کی ان آیات سے استدلال کیا گیا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے اور میں یزید جیسے فاسق‘ فاجر پر لعنت شخص کی طرف جاتا ہوں کیونکہ یزید کی توبہ کا احتمال اس کے ایمان کے احتمال سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور یزید کے ساتھ ابن زیاد‘ ابن سعد اور یزید کی ساری جماعت شریک ہے۔ پس اﷲ کی لعنت ہو‘ ان سب پر اور ان کے مددگاروں پر اور ان کے حامیوں پر اور ان کے حامیوں پر اور ان کے گروہ پر اور قیامت تک جو بھی ان کی طرف مائل ہو‘ ان سب پر اﷲ کی لعنت ہو (تفسیر روح المعانی جلد 26ص 72)

3۔ علامہ حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی 774ھ نے لکھا ہے۔ یعنی یزید نے ابن زیاد کو حکم دیا تھا کہ جب تو کوفہ پہنچ جائے تو مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کو تلاش کرکے قتل کردینا۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8ص 152)

ابن زیاد نے (یزید کے حکم کے مطابق) حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کو قتل کرایا‘ ابن زیاد نے حضرت ہانی کو سوق الغنم میں شہید کرایا (البدایہ والنہایہ جلد 8ص 157)

یزید نے ان بزرگوں کو قتل کردینے پر ابن زیاد کا شکریہ ادا کیا (شہید کربلا از مفتی شفیع دیوبندی)

4۔ گیارہویں صدی کے مجدد محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ متوفی 1052ھ فرماتے ہیں۔

ایک طبقہ کی رائے یہ ہے کہ قتل حسین دراصل گناہ کبیرہ ہے کیونکہ ناحق مومن کا قتل کرنا گناہ کبیرہ میں آتا ہے‘ کفر میں نہیں آتا مگر لعنت تو کافروں کے لئے مخصوص ہے ایسی رائے کا اظہار کرنے والوں پر افسوس ہے۔ وہ نبیﷺ کے کلام سے بھی بے خبر ہیں کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور اس کی اولاد سے بغض و عداوت اور انہیں تکلیف دینا توہین کرناباعث ایذا و عداوت نبی ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ حضرات‘ یزید کے متعلق کیا فیصلہ کریں گے؟ کیا اہانت رسول اور عداوت رسول کفر اور لعنت کا سبب نہیں ہے؟ اور یہ بات جہنم کی آگ میں پہنچانے کے لئے کافی نہیں؟ (بحوالہ: تکمیل الایمان ص 178)

5۔ امام جلال الدین سیوطی متوفی 911ھ فرماتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل ابن زیاد اور یزید پر امام حسین رضی اﷲ عنہ کربلا میںشہید ہوئے اور آپ کی شہادت کا قصہ طویل ہے۔ دل اس ذکر کا متحمل نہیں ہوسکتا (تاریخ الخلفاء ص 80)

6۔ امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ متوفی 1043ھ فرماتے ہیں: یزید بے دولت از اصحاب نیست در بد بختی اوکر اسخن کارے کہ آں بدبخت کردہ ہیچ کا فرفرنگ نہ کند… یعنی یزید بے دولت صحابہ کرام میں سے نہیں۔ اس کی بدبختی میں کس کو کلام ہے جو کام اس نے کئے ہیں کوئی کافر فرنگی بھی نہ کرے گا (مکتوبات امام ربانی جلد اول ص 54)

7۔ امام المحدثین حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ متوفی 1239ھ فرماتے ہیں۔

پس انکار کیا امام حسین رضی اﷲ عنہ نے یزید کی بیعت سے کیونکہ وہ فاسق‘ شرابی اور ظالم تھا اور امام حسین رضی اﷲ عنہ مکہ شریف تشریف لے گئے (بحوالہ : سر الشہادتیں ص 12)

8۔ امام طاہر بن احمد بن عبدالرشید بخاری متوفی 542ھ فرماتے ہیں۔

یزید پر لعنت کرنے کے بارے میں امام علامہ قوام الدین الصنعاری علیہ الرحمہ اپنے والد سے حکایت بیان کرتے ہیں کہ یزید پر لعنت کرناجائز ہے اور فرماتے ہیں یزید پلید پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (بحوالہ : خلاصتہ الفتاویٰ جلد چہارم  390)

9۔ امام حضرت عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ متوفی 898ھ فرماتے ہیں۔ یعنی یزید پر سو لعنتیں ہوں اور بھی (بحوالہ: تذکرہ مولانا عبدالرحمن جامی ص66)

10۔ چودھویں صدی کے مجدد امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ یزید کو اگر کوئی کافر کہے تو ہم منع نہیں کریں گے اور خود نہ کہیں گے (بحوالہ : الملفوظ حصہ اول ص114)

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: یزید پلید کے بارے میں ائمہ اہلسنت کے تین اقوال ہیں۔ امام احمد ابن حنبل علیہ الرحمہ وغیرہ اکابر اسے کافر جانتے ہیں تو ہرگز بخشش نہ ہوگی اور امام غزالی علیہ الرحمہ وغیرہ مسلمان کہتے ہیں تو اس پر کتنا ہی عذاب ہو‘ بالاخر بخشش ضرور ہوگی اور ہمارے امام‘ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ سکوت (خاموشی) فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر (رحمتہ اﷲ علیہ) بھی نہ کہیں لہذا یہاں بھی سکوت کریں گے (بحوالہ: احکام شریعت ص88)

حضرات محترم! ہم نے آپ کے سامنے احادیث‘ اقوال صحابہ کرام اور علمائے اسلام کے اقوال کی روشنی میں یزید پلید کی شدید مذمت بیان کی۔ اب فیصلہ ہر کلمہ پڑھنے والا مسلمان خود کرے‘ ہم اکابر محدثین کی بات مانیں یا موجودہ دور کے نام نہاد مذہبی اسکالر اور وہ بھی کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس فیشن ایبل آدمی کی؟ ہرگز نہیں… ہرگز نہیں… ہم تو اکابرین اورمحدثین کی بات مانیں گے۔

یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ 2008ء کے اوائل میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’کربلا کی جنگ سیاسی جنگ تھی‘‘ اس کے بعد یزید کو رحمتہ اﷲ علیہ کہا (اس کی ویڈیو سی ڈی مکتبہ فیضان اشرف شہید مسجد کھارادر کراچی پر موجود ہے)

ذاکر نائیک کے ان الفاظ پر پوری دنیا کے علماء کرام اورمفتیان کرام نے ذاکر نائیک کو گمراہ اور بے دین قرار دیا۔

پہلے تو ذاکر نائیک نے اس فتوے کو کوئی اہمیت نہ دی مگر جب پوری دنیا سے اس کے جواب کی مذمت کی گئی تو فورا اس نے یہ کہا کہ جو فتویٰ مجھ پر لگاتے ہو‘ وہی فتویٰ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ پر بھی لگائو۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذاکر نائیک نے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ یزید کے متعلق صحیح پڑھا اور سمجھا ہی نہیں ہے لہذا امام غزالی علیہ الرحمہ کا یزید کے متعلق فتویٰ ملاحظہ ہو۔

حجتہ الاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ

اگر کوئی پوچھے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو‘ کہنا جائز ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ آپ رضی اﷲ عنہ کا قاتل اگر توبہ کرکے مرا ہے تو اس پر خدا کی لعنت نہ ہو کیونکہ یہ ایک احتمال ہے کہ شاید اس نے توبہ کرلی ہو (بحوالہ: احیاء العلوم جلد 3 ص 122 مطبوعہ مصر)

امام غزالی علیہ الرحمہ کے فتوے سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔

1۔ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا قتل ناحق تھا (لہذا ثابت ہوا کہ ناحق قتل کرنے والے یزید اور یزیدی ظالم اور قاتل تھے ورنہ قاتل پر خدا کی لعنت جائز نہ ہوتی۔

2۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ توبہ کی قید لگانا امام غزالی علیہ الرحمہ کے کمال تقویٰ کی دلیل ہے۔

3۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح معرکہ کربلا کو سیاسی جنگ قرار نہیں دیا۔

4۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح یزید کو ’’رحمتہ اﷲ علیہ‘‘ نہیں کہا۔

5۔ پانچویں بات یہ ہے کہ یزید اور قاتلانِ حسین رضی اﷲ عنہ کی توبہ کہیں سے بھی ثابت نہیں لہذا امام غزالی کے فتوے کے مطابق امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

یزید کو نادم اور بے قصور کہنے والوں سے ہمارے سوالات

سوال: یزید اگر ظالم نہ تھا تو اس نے صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ کو معزول کرکے ابن زیاد کو کوفے کا گورنر کیوں بنایا؟

سوال: اگر اس کے کہنے پر سب کچھ نہیں ہوا تو اس نے معرکہ کربلا کے بعد ابن زیاد‘ ابن سعد اور شمر کو سزائے موت کیوں نہیں دی؟

سوال: معرکہ کربلا کے بعد اہلبیت کی خواتین کو قیدیوں کی طرح کیوں رکھا گیا؟

سوال: حضرت سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا کے سامنے اپنی فتح کا خطبہ کیوں پڑھا؟

سوال: جب اس کے دربار میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سر انور لایا گیا تو اس پر اس نے چھڑی کیوں ماری؟

سوال: اگر یزید بے قصور تھا تو اس نے گھرانہ اہلبیت سے معافی کیوں نہیں مانگی؟

سوال: معرکہ کربلا کے بعد مسجد نبوی کی بے حرمتی کیوں کی گئی؟ اور امام جلال الدین سیوطی  علیہ الرحمہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا کہ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے۔

سوال: بیت اﷲ پر یزید نے سنگ باری کیوں کروائی؟ امام سیوطی علیہ الرحمہ کے مطابق بیت اﷲ میں آگ لگی اور غلاف کعبہ جل گیا۔

کیا یزید کے لئے جنت کی بشارت دی گئی تھی؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فاتح قسطنطنیہ کو جنت کی بشارت دی تھی اور یزید بھی اس لشکر میں شامل تھا لہذا وہ جنتی ہوا۔

حدیث قسطنطنیہ ملاحظہ ہو:

حدیث شریف: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا۔ میری امت کا وہ لشکر بخش دیا جائے گا جو قیصر کے شہر پر سب سے پہلے حملہ کرے گا (صحیح بخاری‘ جلد اول‘ کتاب الجہاد‘ باب ماقیل فی قاتل الروم ص 410)

قیصر کے شہر سے مراد کون سا شہرہے؟

قیصر کے شہر سے مراد وہ شہر ہے جو حضرت نبی کریمﷺ کے ارشاد کے وقت قیصر کا دارالمملکت تھا اور وہ حمص تھا (بحوالہ: فتح الباری جلد ششم ص 128)

قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں کیا یزید شامل تھا؟

البدایہ والنہایہ جلد 8 ص 31پرہے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 43ھ میں حضرت بسر بن ارطاہ رضی اﷲ عنہ کی قیادت میں ہوا تھا (البدایہ والنہایہ جلد 8ص 31)

قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ 46ھ میں کیا گیا تھا۔ علامہ ابن اثیر متوفی 630ھ لکھتے ہیں یعنی 49ھ اور کہا گیا 50ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک بڑا بلاد روم کی جانب جنگ کے لئے بھیجا۔ اس کا سپہ سالار سفیان بن عوف رضی اﷲ عنہ کو بنایا۔ اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائے تو وہ بیمار بن گیا اور عذر کردیا۔ اس پر اس کے باپ رہ گئے۔ لوگوں کو بھوک اور سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے۔ مقام فرقدونہ میں لشکر پر کیا بلا نازل ہوئی‘ بخار آیا کہ سرسام میں مبتلا ہوئے۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں جبکہ میں اونچی قالین پر دیر سران میں بیٹھا ہوں اور ام کلثوم میرے بغل میں ہے۔

ام کلثوم یزید کی بیوی تھی۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے یہ اشعار سنے تو یزید کو قسم دی کہ ارض روم جاکر سفیان کے ساتھ ہوجاتاکہ تو بھی ان مصائب سے دوچار ہو‘ جن سے غازیان اسلام ہوئے۔ اب مجبور ہوکر یزید گیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت کردی (بحوالہ: الکامل فی التاریخ جلد سوم ص 131)

نتیجہ: اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یزید پہلے جیش میں نہیں بلکہ اس کے بعد والے جیش میں بطور ایک معمولی سپاہی اور بادل نخواستہ شریک ہوا۔

اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ یزید اول جیش میں بھی شریک تھا تو اس حدیث کی وجہ سے کیا وہ جنتی ہے؟

اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ’’مامن عام الاخص منہ البعض‘‘ یعنی عموم ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد مخصوص نہ ہوں۔ معلوم ہوا کہ ہر عموم سے بعض افراد مخصوص ضرور ہوتے ہیں۔ اس اصول کی بناء پر حفاظ حدیث قسطنطنیہ والی حدیث کے ماتحت فرماتے ہیں۔

یزید کا اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس عموم سے خارج نہیں ہوسکتا کیونکہ اہل علم میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا کہ حضورﷺ کا قول مغفور لہم مشروط ہے مطلق نہیں۔ وہ یہ کہ مغفور لہم وہ ہے جو بخشش کے اہل ہوں ۔ اگر    فرد لشکر کا مرتد (بے ایمان) ہوجائے وہ اس بشارت مغفرت میں داخل نہیں ہوگا۔ اس بات پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے۔ پس یہ اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ لشکر قسطنطنیہ کا وہ شخص مغفرت یافتہ ہے جس میں مغفرت کی شرائط مرتے وقت تک پائی جائیں (فتح الباری جلد 11ص 92 مطبوعہ نولکشور ہندوستان)

محدثین اور حفاظ کے فیصلے کی مزید توفیق

حضورﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ انسان زبان سے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہہ دے وہ جنتی ہے۔ مرزا قادیانی کے ماننے والے بھی کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں وہ کافر کیوں؟

حضورﷺ کا یہ فرمانا کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے۔ یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تمام فرقے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہنے والے ہوں گے لیکن پھر بہتر (72) جہنمی کیوں؟

بات دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ طیبہ پڑھے اور مرتے دم تک مرتد (بے ایمان) نہ ہو‘ وہ جنتی ہے۔

ہم نے آپ کے سامنے تابعین اور علمائے امت کے یزید کے متعلق تاثرات پیش کردیئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔۔

29 ستمبر, 2017

شہید کی تعریف اور ا س کے احکام :

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ :اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو۔" اس سے پہلی آیت میں صبر کے ذکر کے بعد اب صبر کرنے والوں کی ایک عظیم قسم یعنی شہیدوں کا بیان کیا جارہا ہے۔ یہ آیت ِکریمہ شہداء کے حق میں نازل ہوئی۔ بعض لوگ شہداء کی شہادت پر افسوس کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ لوگ شہید ہو کر نعمتوں سے محروم ہو گئے۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱/۱۰۳)

            جس میں فرمایا گیا کہ انہوں نے فانی زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے دائمی زندگی حاصل کرلی ہے۔

شہداء کے فضائل:

            اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے،جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹) (ال عمران:۱۶۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔

            موت کے بعد اللہ تعالیٰ شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ارواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے ،انہیں راحتیں دی جاتی ہیں ، ان کے عمل جاری رہتے ہیں ، ان کا اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، ۷/۱۱۵، الحدیث: ۹۶۸۶)

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے ارشاد فرمایا: ’’ اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :اے ابن آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بہت اچھی منزل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔(سنن نسائی ، کتاب الجہاد، ما یتمنی اہل الجنۃ، ص۵۱۴، الحدیث: ۳۱۵۷)

شہید کی تعریف اور ا س کے احکام :

            شہید وہ مسلمان ،مُکَلَّف ،طاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن، اسے اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اور اسی حالت میں دفن کیا جائے۔(بہار شریعت، شہید کا بیان،۱/۸۶۰)

            بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لیے شہادت کا درجہ ہے جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلب ِعلم اورسفرِحج غرض راہ خدا میں مرنے والا یہ سب شہید ہیں۔ حدیثوں میں ایسے شہداء کی تعداد چالیس سے زائد ہے۔ مکمل تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ چہارم ملاحظہ فرمائیں۔

{وَ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ:لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔}یعنی یہ بات تو قطعی ہے کہ شہداء زندہ ہیں لیکن ان کی حیات کیسی ہے اس کا ہمیں شعور نہیں اسی لئے ان پر شرعی احکام عام میت کی طرح ہی جاری ہوتے ہیں جیسے قبر، دفن، تقسیمِ میراث، ان کی بیویوں کا عدت گزارنا، عدت کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکنا وغیرہ۔

27 ستمبر, 2017

کیا ہم کعبہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں

کعبہ ہمارا قبلہ ہے، یعنی وہ سمت جس کی طرف منہ کر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ مسلمان نمازوں میں کعبہ کی طرف رُخ کرتے ہیں لیکن وہ کعبہ کو پوجتے ہیں نہ اس کی عبادت کرتے ہیں بلکہ مسلمان صرف اللہ کے آگے جھکتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔
اس کا ذکر سورۃ البقرہ میں ہے
قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا ۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭوَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ
ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں ۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے  اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں ۔سورۃ البقرہ:۱۴۴
قبلہ اتحاد و اتفاق کا ذریعہ ہے
اسلام وحدت کا دین ہے، چنانچہ مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کے لیے اسلام نے ان کا ایک قبلہ متعین کیا ہے اور ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، نماز کے وقت کعبے کی طرف رُخ کریں۔ جو مسلمان کعبے کے مغرب کی طرف رہتے ہیں، وہ اپنا رُخ مشرق کی طرف کریں گے اور جو مشرق کی طرف رہتے ہیں وہ اپنا رُخ مغرب کی طرف کریں گے۔
کعبہ نقشہ عالم کے وسط میں ہے
یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے دنیا کا نقشہ بنایا۔ ان کے نقشوں میں جنوب اوپر کی طرف تھا اور شمال نیچے کی طرف اور کعبہ درمیان میں تھا۔ بعد میں مغربی نقشہ نگاروں نے جو نقشے بنائے، ان میں شمال اوپر اور جنوب نیچے کی طرف دکھایا گیا جیسا کہ آج کل دنیا کے نقشے بنائے جاتے ہیں۔ بہرحال الحمد اللہ کعبہ دنیا کے نقشے کے تقریباً وسط میں ہے۔
طوافِ کعبہ
جب مسلمان مکہ کی مسجد حرام میں جاتے ہیں، وہ کعبے کے گرد چکر لگا کر طواف کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل واحد سچے معبود  پر ایمان اور اس کی عبادت کی علامت ہے۔ جیسے ہر دائرے کا ایک ہی مرکز ہوتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ایک ہے جو عبادت کے لائق ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں عقیدہ توحید
جہاں تک سیاہ پتھر، یعنی حجرِ  اسود کی حرمت کا تعلق ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سے واضح ہے۔
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ وَالْمُقَدَّمِيُّ وَأَبُو کَامِلٍ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ کُلُّهُمْ عَنْ حَمَّادٍ قَالَ خَلَفٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ رَأَيْتُ الْأَصْلَعَ يَعْنِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُقَبِّلُکَ وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ وَأَنَّکَ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَکَ مَا قَبَّلْتُکَ وَفِي رِوَايَةِ الْمُقَدَّمِيِّ وَأَبِي کَامِلٍ رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 575 حدیث مرفوع , صحيح. متفق علیہ 9
خلف بن ہشام، مقدمی، ابوکامل، قتیبہ بن سعید، حماد، حماد بن زید، حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں اللہ کی قسم! اے حجر اسود میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نقصان دے سکتا ہے اور نہ ہی تو نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔
مزید دیکھئے؛ صحیح البخاری، الحج، باب ماذکر فی الحجر الاسود، حدیث:۱۵۹۷
کعبے کی چھت پر اذان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگ کعبہ کی چھت کے اُوپر کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے۔ [ تجلیات نبوت، ص۲۲۶]۔
اب جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں تو بھلا کون سا بتوں کو پوجنے والا اس بُت کے اُوپر کھڑا ہوتا ہے جس کی وہ پوجا کرتا ہے؟
عرض ہے کہ اسلام میں پوجنے اور عبادت کرنے کا تصور صرف ذات باری تعالیٰ کے لیے ہے۔ حجر، شجر، شخصیات یا استھان کی پوجا کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام نے تو ایسی جگہ پر بھی عبادت سے روک دیا ہے جہاں اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا شبہ پیدا ہو سکتا ہے، مثلاً قبرستان میں نماز ادا کرنا، یا ایسی جگہ عبادت کرنا جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہو، ممنوع ہے۔ اسلام میں اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا تصور ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس لائق تھے کہ آپ کی قبر کو قبلہ بنایا جاتا اور اس کی عبادت کی جاتی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع کر دیا،پھر یہ بات بھی بتوں کے پجاری تو بت خانے میں جا کر عبادت کرتے ہیں یا ان بتوں کے ماڈل بنا کر سامنے رکھتے ہیں جب کہ مسلمان قبولیت عبادت کے لیے خانہ کعبہ جانے کو شرط قرار دیتے ہیں نہ اس کا ماڈل اپنے سامنے رکھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ تہ جہتِ کعبہ کو سامنے رکھ کر کعبہ کے بجائے رب کعبہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے بھی معبود ہیں وہ سب باطل ہیں اور ہر طرح کی عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

بلاگ میں تلاش کریں