22 ستمبر, 2017

انسان روح و مادہ سے مرکب ہے


انسان روح و مادہ سے مرکب ہے ۔ مادہ یعنی جسم عالم عناصر سے مرکب ہے اور عالم بالا سے ۔ روح کی پیاس اور تقاضے مادہ و جسم کے تقاضوں سے مختلف ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جسم کو بھوک پیاس ' رنج و الم ' شادی بیاہ کی ضرورت رہتی ہے جبکہ روح ان خواہشات سے بالاتر ہے ۔
تمام مذاہب قدیم و جدید میں جسمانیت سے زیادہ روحانیت پر توجہ مرکوز کی گئی ۔ لیکن ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ روح جب تک جسم میں موجود ہے جسمانی علائق سے کلیتا آزادی ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ پہاڑ پر بسیرا کرنے والے جوگی و سنیاسی اور دنیاوی تعلقات کو منقطع کرنے والے درویش و راھب کسی معقول انسان کے نزدیک ہرگز پسند نہیں کئے جاتے ۔ دین برحق کی عظیم نشانیوں میں سے ہم ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ آدم سے خاتم علیھم السلام تک جملہ انبیاء علیہم السلام انسانوں کی بستی میں رہ کر جسمانی و روحانی تعلقات استوار کرتے رہے ۔ سیدنا یسوع المسیح اور یحیی (یوحنا) کے سوا کل جماعت انبیاء نے نکاح کی رسم کو ادا کیا ۔ اسی روح مع الجسد کے ساتھ جماعت انبیاء دعوت و منادی کا فریضہ ادا کرتی رہی ۔ یہاں تک کے مقدس پولوس کی منادی کا دور شروع ہوجاتا ہے ۔
میرے سامنے اس وقت عہد جدید میں سے 1کرنتھیوں کا ب7 ہے میں مسلسل اس باب کی آیات مقدسہ میں غوروفکر کررہا ہوں ۔
جو باتیں تم نے لکھی ہیں انکی بابت یہ ہے مرد کے لئے اچھا ہے کہ عورت کو نہ چھوئے لیکن حرام کاری کے اندیشہ سے ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے ۔ مزید فرماتے ہیں : لیکن میں یہ اجازت کے طور پر کہتا ہوں حکم کے طور پر نہیں اور میں تو یہ چاہتا ہوں کہ جیسا میں ہوں ویسے ہی سب آدمی ہوں لیکن ہر ایک کو خدا کی طرف سے خاص خاص توفیق ملی ہے ۔ کسی کو کسی طرح کی کسی کو کسی طرح کی ۔ پس میں بے بیاہ ہوں اور بیواوں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ انکے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے جیسا میں ہوں لیکن اگر ضبط نہ کرسکیں تو بیاہ کرلیں ۔ کیونکہ بیاہ کرنا مست ہونے سے بہتر ہے ۔
اقول : مقدس پولوس اپنے متبعین کو یہ دعوت دے رہے ہیں کہ تجرد (غیر شادی شدہ یا شادی کے باوجود عورت سے پرہیز ) میں کمال روحانیت ہے کیونکہ شادی شدہ انسان شادی کے بعد دنیاوی الجھنوں میں گرفتار رہتا ہے جو آسمانی بادشاہت کی منادی کے سراسر خلاف ہے۔ اگر چہ شادی کرنا بھی درست ہے لیکن تجرد پسندی افضل اور مستحسن عمل ہے جس سے انسان روحانیت کی سیڑھیوں پر تیزی سے ترقی کرتا ہے ۔
دوستو ! ھندومت میں تجرد پسندی کو فروغ دینے کے لئے برہمچاریہ نظریہ پیش کیاجاتا ہے ۔ ایک برہمچاری شخص کے لئے لازم ہے کہ جسم کی جائز خواہشات سے بھی خود دور رکھے خاص طور پر جنسی تعلقات سے پرہیز کیاجائے ۔ برہمچاریہ نظریہ کے مطابق شادی شدہ بھی اپنی بیوی سے باز رہے تاکہ بیوی کی قربت اسے خدا کے تعلق سے دور نہ کردے ۔ مہاتما گاندھی اپنی روحانی تجربات میں اسی نظریہ کے پرچارک کرتے نظر آتے ہیں ۔ طویل عرصہ تک اپنی بیوی سے دوری کو فضیلت سمجھتے تھے ۔ مہاتما بدھ کے نظریات میں بھی عورت سے جسمانی تعلقات کے بارے میں وہی فلسفہ ہے جسے مقدس پولوس رسول بیان کرتے ہیں ۔ ہماری گفتگو کا مدعی یہی ہے کہ عورت سے تجرد پسندی کو مقدس پولوس اور ان سے قبل مشرک اقوام میں قربت خداوندی کا ذریعہ سمجھاجاتا رہا ۔ جبکہ جماعت انبیاء ایسی کسی بھی دعوت اور منادی سے یکسر نابلد ہے جسکا واضح مطلب ہے کہ تجرد پسندی محمود و پسندیدہ عمل نہیں ۔ لیکن پولوس رسول اپنے متبعین و مخاطبین کو دعوت دے رہے ہیں کہ چونکہ میں بن بیاہا ہوں لہذا آپ بھی روحانی ترقی کے لئے تجرد پسندی کو اختیار کرو ۔مزید ارشاد فرماتے ہیں : کنواریوں کے حق میں میرے پاس خداوند کا کوئی حکم نہیں دیانت دار ہونے کے لئے جیسا خداوند کی طرف سے مجھ پر رحم ہوا اسکے موافق اپنی رائے دیتا ہوں پس موجودہ مصیبت کے خیال سے میری رائے میں آدمی کے لئے یہی بہتر ہے کہ جیسا ہے ویسا ہی رہے ۔ اگر تیرے پاس بیوی ہے تو اس سے جدا ہونے کی کوشش نہ کر اور اگر تیرے بیوی نہیں تو بیوی کی تلاش نہ کر۔ لیکن تو بیاہ کرے بھی تو گناہ نہیں اور اگر کنواری بیاہی جائے تو گناہ نہیں مگر ایسے لوگ جسمانی تکلیف پائیں گے اور میں تمہیں بچانا چاہتا ہوں ۔ مگر اے بھائیو میں یہ کہتا ہوں کہ وقت تنگ ہے ۔ پس آگے کو چاہیے کہ بیوی والے ایسے ہوں کہ گویا انکی بیویاں نہیں ( 1کرنتھیوں 7۔26تا30)
کتاب مقدس میں پہلی وہ ہستی جسے نبی کہاگیا ابراہیم ہیں اور جلیل القدر شریعت کے حامل نبی مقدس موسی ہیں دونوں ہستیوں سمیت جملہ جماعت انبیاء جس شریعت کی تعلیم دیتے رہے مسیحیت اسے جسمانی تکالیف اور سایہ قرار دیتی ہے جبکہ عہدجدید اور بالخصوص پولوس رسول کے خطوط ہمیں اس جسمانی شریعت کے بجائے روحانی ترقی کی طرف بلارہے ہیں اور اس روحانی ترقی کی غایت و انتہا تک پہنچنے کے لئے پولوس رسول یہ رائے منفردہ پیش فرماتے ہیں کہ بیاہ کروگے تو جسمانی تکلیف اٹھاو گے اور وقت کم ہے لہذا جو شادی شدہ ہیں وہ یوں زندگی بسر کریں گویا وہ رھبانیت اور گوشہ نشین ہیں ۔
ملت مسیحیت سے گزارش ہے جسمانیت و روحانیت کے اس سلسلہ میں فلسفیانہ موشگافیوں سے بچتے ہوئے ہماری رہنمائی کی جائے کہ کیا یہ منادی اور طریقہ سلسلہ انبیاء کے موافق ہے یا مخالف ؟؟؟ کیا کتاب مقدس تورات بالخصوص اور مکمل عہد عتیق بالعموم تجرد پسندی کو فروغ دیتی ہے ؟؟؟ نیز پولوس مقدس کی یہ دعوت تجرد کیا موجودہ دنیا کے لئے مفید ہے ؟؟؟
الداعی الی الحق ابوالحقائق احمد
کراچی پاکستان

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں