26 ستمبر, 2017

محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ

محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃوَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے یعنی محرم سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دئے ہیں۔ اس ماہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ تعالیٰ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے ۔ (ترمذی ج۱ ص ۱۵۷)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے ماہ محرم الحرام کے روزے ہیں ۔ (صحیح مسلم)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو اس لئے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے ۔اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی ج۱ ص ۱۵۷) جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ قوم بنی اسرائیل ہے جیساکہ اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔
عاشورہ کا روزہ:
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ اس دن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پہلے تو یہ روزہ واجب تھا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کو اختیار دے دیاگیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے سال گذشتہ کے چھوٹے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔پہلے یہ روزہ ایک دن رکھا جاتا تھا لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لئے آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو انشاء اللہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا لیکن اس خواہش پر عمل کرنے سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔
عاشورہ کے روزہ سے متعلق احادیث:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کے دن بیت اللہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔جب رمضان فرض ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ص ۲۱۷)
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا بھی حکم دیا ۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے ۔ (صحیح بخاری ص ۲۵۴، ص ۲۶۸)
حضرت رُبیع بنت مُعوِذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھاپی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے )اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے ۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لئے اون کا کھلونا بناتی تھیں ۔جب کو ئی بچہ کھانے لئے روتا تویہ کھلونا اس کو دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ (صحیح بخاری ج۱ ص ۲۶۳، صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۶۰)
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو بھیجا جو لوگوں میں یہ اعلان کررہا تھا کہ جس نے کھالیاوہ پورا کرے یا فرمایا بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے ( یعنی روزہ رکھے )۔ (بخاری ج ۱ ص ۲۵۷)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطافرمائی، ہم اس دن کی تعظیم کے لئے روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص۲۶۸)
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم کررہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں، اس کو عید بنارہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہم اس روزہ کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص ۲۶۸، ۵۶۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو کسی دن کے روزہ کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔ (بخاری ج۱ص ۲۶۸) یعنی ان روزوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے منبر پر عاشورہ کے دن (کھڑے ہوکر) فرمایا: اے اہل مدینہ کہاں ہیں تمہارے علماء، میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا ہے، میں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے جوچاہے روزہ نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ج ۱ ص ۲۶۲)
عاشورہ کے روزہ کا ثواب:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائیگا۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ سال گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترمذی ج ۱ ص ۱۵۱) ان احادیث میں گناہ سے صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لئے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
عاشورہ کے روزہ رکھنے کا طریقہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا تو ان شاء اللہ نویں کو (بھی) روزہ رکھوں گا لیکن آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا وصال ہوگیا۔ (مسلم ج۱ص ۳۵۹)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد ج ۱ ص ۲۴۱) یہ حدیث بعض نسخوں میں او کی جگہ پر و اوکے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت مان لی جائے تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی ۴ شکلیں بنتی ہیں : ۹ ،۱۰ اور ۱۱ تینوں دن روزے رکھ لیں۔۹ اور ۱۰ دو دن روزہ رکھ لیں۔ ۱۰اور ۱۱ دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے ۲ روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔
خلاصۂ کلام:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے ، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ۱۰ محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے اِس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ ۹ یا ۱۱ محرم الحرام کو رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں‘ صحابۂ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ۹ یا ۱۱ محرم الحرام کا ایک روزہ ملاکر رکھنے کا اہتمام فرمایا، اور اسی کو مستحب قرار دیا اور صرف عاشورہ کاروزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا ۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ۲ روزے رکھنے کی تھی اس لئے اس خواہش کے تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ اور ملاکر دو روزے رکھے جائیں۔
وضاحت:
بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً ۵۰ سال بعد ۶۱ ہجری میں نواسۂرسول صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس دن کی اہمیت ہوئی ہے حالانکہ اس دن کی فضیلت واہمیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وعمل کی روشنی میں پہلے ہی سے ثابت ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وعمل کی روشنی میں ذکر کیا گیا، ہاں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کے لئے اللہ تبارک نے اس بابرکت دن کا نتخاب کیا جس سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کی مزید اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
محمد نجیب قاسمی ،ریاض

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں