22 ستمبر, 2017

امیر المؤمنین خلیفہ راشد حضرت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ


امیر المؤمنین خلیفہ راشد حضرت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ امت کے عظیم انسان، عالی مقام اور بلند شان کے مالک تھے ۔اللہ عزوجل نے آپ کے ذریعے اپنے حبیب صادق و مصدوق کی دعوت حقہ کو غلبہ عطا فرمایا۔ آپ نے حق و باطل کے درمیان فرق کیا۔آپ کے طفیل دعوت اسلام کو سربلندی حاصل ہوئی، کلمۃ اللہ مضبوط ہو گیا۔ آپ کی عسکری قوت و شوکت کی بدولت دنیا میں اسلام کی حکومت راسخ ہو گئی۔ توحید کے لیئے مسلمانوں کی پست آواز بلند ہو گئی اور مسلمان مزید ثابت قدم اور مضبوط ہو گئے۔ آپ کے قبول اسلام کے بعد پہلی بار مسلمان اعلانیہ شعائر اسلام پر عمل پیرا ہونے لگے ۔
آپ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے درمیان باطل پرستوں سے بر سر پیکار رہنے کے لیئے آگے آگے تھے۔ آپ کی رائے انجانے میں حکم الٰہی کے موافق ہوتی تھی۔آپ حق کی طرف مائل اور حق کے لیئے بر سر پیکار رہتے تھے۔ دوسروں کا بوجھ اٹھانے والے تھے اور اللہ عزوجل کے حکم کی تعمیل میں کسی نفع کو خاطر میں نہ لانے والے تھے۔آپ دین کا علی الاعلان اظہار فرماتے تھے اور نیکی کے کاموں کو مخفی رکھتے تھے ۔
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب یوں ہے :۔
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی قرشی عدوی۔ نویں پشت میں کعب بن لوی پر جا کر آپ کا نسب تاجدار مدینہ حضرت محمد ﷺ کے سلسلہ نسب سے جا ملتا ہے۔
آپ کی کنیت ابو حفص ہے ۔ یہ کنیت آپ کو بارگاہ نبوی سے عطا کی گئی (مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ)۔
آپ کے کئی القابات ہیں جن میں سے بعض آپ کو بارگاہ الٰہی اور بعض بارگاہ رسالت سے عنایت ہوئے اور کئی ایسے ہیں جو آپ کی مخصوص صفات کی عکاسی کرتے ہیں۔ان میں سے چند ایک القابات درج ذیل ہیں :۔
فاروق، امیر المؤمنین، متمم الاربعین، اعدل الاصحاب، امام العادلین، غیظ المنافقین، سید المحدثین، مراد رسول، مفتاح الاسلام، شہید المحراب اور شیخ الاسلام۔
آپ قبیلہ عدی بن کعب سے تعلق رکھتے تھے جو قریش کا عدنانی قبیلہ کہلاتا ہے۔اس قبیلے کی شرافت و بزرگی نے اسے ہاشم، امیّہ، تیم اور مخزوم جیسے ممتاز قبائل میں شامل کر دیا تھا۔آپ کے قبیلے والے علم و حکمت اور دور اندیشی میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو سفارت کاری اور عدالت کے ضروری عہدے دیئے گئے۔
آپ کے قبول اسلام کی خود رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی ۔چنانچہ ابو یعلی نے بطریق ابی عامر العقدی عن خارجہ عن نافع بحوالہ ابن عمر روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
"اللہ !اسلام کو دو آدمیوں میں سے جو آپ کو زیادہ پسند ہے ، کے ذریعے غلبہ عطا فرما، عمر بن خطاب یا ابوجہل بن ہشام۔"
ترمذی کتاب المناقب، اسد اللغابہ
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے :۔
"اللہ! دین کو عمر سے مضبوط فرما، اللہ! دین کو عمر سے مضبوط فرما، اللہ! دین کو عمر سے مضبوط فرما۔"
مجمع الزوائد، مسند احمد، کنز العمال بحوالہ الاصابہ فی تمیز صحابہ
اللہ عزوجل نے اپنے حبیب ﷺ کی اس دعا کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حق میں شرف قبولیت عطا فرمایا ۔
چنانچہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :۔
"میں لوگوں میں حضور اکرم ﷺ سے عداوت مول لینے میں پیش پیش تھا۔ ایک مرتبہ میں دار ارقم میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے میری قمیص کو کھینچا اور فرمایا: اے ابن خطاب !اسلام لے آ۔ اے اللہ اس کو بخش دے۔ یہ سن کر میں نے کلمہ شہادت پڑھ لیا
اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ
میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
چنانچہ میرا کلمہ پڑھنا تھا کہ حاضرین نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ اس کی آواز مکہ کی گلیوں میں سنی گئی۔"
حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء جلداول
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم مریں یا جئیں کیا ہم ہر حال میں حق پر نہیں ہیں ؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے میری جان کے مالک کی تم مرو یا جیو ہر حال میں حق پر ہو۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ پھر چھپانا کس بات کا قسم ہے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کرنے والی ذات کی آپ ضرور نکلیں گے۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ہم کو دو گروہوں میں نکالا۔ایک میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرے میں میں تھا۔قریش نے مجھے اور حمزہ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے ساتھ دیکھا تو انہیں ایسی چوٹ پہنچی جو اس سے پہلے نہ پہنچی تھی ۔ اس دن رسول اکرم ﷺ نے مجھے فاروق کا لقب دیا۔ اور اللہ عزوجل نے حق اور باطل کے مابین فرق واضح فرما دیا۔
دلائل النبوہ لابی نعیم ، کنز العمال
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حق گوئی میں ممتاز تھے اور قطع رحمی اور فراق سے دور تھے۔ اور احکام خداوندی کی تبلیغ کرنے میں بھی پیش پیش تھے ۔ چنانچہ صحابہ کرام آپس میں کہا کرتے تھے یہ کوئی فرشتہ ہے جو عمر کی زبان سے بولتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس حق گوئی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ :۔اللہ عزوجل نے حق کو عمر کی زبان اور اس کے دل پر جاری کر دیا ہے۔
سنن الترمذی۔
آپ کے فضائل میں بے شمار احادیث مروی ہیں
آپ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں جنہیں زندگی میں ہی بارگاہ نبوی ﷺ سے جنت کی بشارت دے دی گئی تھی ۔
آپ کی رائے کو تائید الٰہی حاصل تھی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ تین مواقع پر اللہ عزوجل نے میری رائے کی موافقت فرمائی مقام ابراہیم پر، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں ۔
حلیۃ الاولیاء
آپ عیش و عشرت اور لذت و آرام سے کوسوں دور رہ کر باقی رہنے والی زندگی کے متلاشی تھے مشقتوں کے عادی اور شہوات و خواہشات سے نالاں تھے ۔ روایت میں آتا ہے کہ اپنے دور خلافت میں ایک دفعہ آپ خطبہ دینے ممبر پر کھڑے ہوئے اس وقت آپ نے جو چادر پہن رکھی تھی اس پر بارہ جگہوں پر پیوند لگے ہوئے تھے۔
خشیت الٰہی اس قدر کہ قرآن پڑھتے پڑھتے کسی آیت سے گزرتے تو ان کا گلہ رندھ جاتا اور اس قدر روتے کہ بے حال ہو کر گر جاتے پھر گھر میں پڑے رہتے اور لوگ بیمار سمجھ کر عیادت کو آنے لگ جاتے ۔
کم و بیش دس سال کی مدت خلافت میں آپ نے دین اسلام کی خوب خوب اشاعت فرمائی ۔ اس قلیل مدت میں اس قدر خدمات سرانجام دیں جن کو سرانجام دینے کو ایک عمر ناکافی ہے۔ کم و بیش چھبیس لاکھ مربع میل پر عادلانہ حکومت کی اور دنیا کی بڑی بڑی سپر پاورز کو اسلام پرچم کے سامنے سرنگوں کرنے پر مجبور کر دیا !
آپ کی شہادت عالم اسلام کے ان عظیم ترین سانحات میں سے ہے جن کی تلافی نہ ہوئی اور نہ کبھی ہو سکتی ہے۔جس دن آپ مسلمان ہوئے دین الٰہی کی شوکت و عزت بڑھتی چلی گئی اور جس دن دنیا سے رخصت ہوئے مسلمانوں کا اقبال بھی رخصت ہو گیا ۔
آپ کی شہادت کا مختصر احوال کچھ یوں ہے کہ آپ کا معمول تھا کہ صبح سویرے نماز فجر کے لیئے مسجد میں تشریف لے جاتے مسجد جاتے جاتے سونے والے لوگوں کو نماز کے لیئے جگاتے اور مسجد میں صفیں درست کرواتے اور اس کے بعد نماز فجر شروع کرتے ۔ آپ نماز فجر میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے تھے اس روز بھی آپ نے معمول کے مطابق ایسا ہی کیا ۔ چنانچہ نماز شروع ہی کی تھی صرف تکبیر تحریمہ ہی کہہ پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لولو فیروز جو کہ حضرت مغیری رضی اللہ عنہ کا غلام تھا اور زہر آلود خنجر لیئے محراب میں چھپا بیٹھا تھا ، آپ کے شکم مبارک میں تین زخم لگائے جس سے آپ اسی وقت بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ نماز حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر مکمل کرائی۔
جب آپ کو ہوش آیا تو آُ نے سب سے پہلے اپنی نماز ادا کی اور پھر سوال کیا کہ میرا قاتل کون ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ابولولو مجوسی کافر ! یہ سن کر آپ نے تکبیر ایسی بلند آواز سے کہی کہ باہر تک آواز اور فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ایک کافر کے ہاتھوں مجھے شہادت عطا فرمائی ۔
آپ 27 ذی الحجہ کو بروز چہار شنبہ زخمی ہوئے اور پانچویں دن یکم محرم الحرام کو بروز یک شنبہ وصال فرما گئے ۔
آپ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور خاص روضہ رسول ﷺ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ کی قبر انور بنائی گئی ۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں