29 ستمبر, 2017

شہید کی تعریف اور ا س کے احکام :

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ :اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو۔" اس سے پہلی آیت میں صبر کے ذکر کے بعد اب صبر کرنے والوں کی ایک عظیم قسم یعنی شہیدوں کا بیان کیا جارہا ہے۔ یہ آیت ِکریمہ شہداء کے حق میں نازل ہوئی۔ بعض لوگ شہداء کی شہادت پر افسوس کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ لوگ شہید ہو کر نعمتوں سے محروم ہو گئے۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱/۱۰۳)

            جس میں فرمایا گیا کہ انہوں نے فانی زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے دائمی زندگی حاصل کرلی ہے۔

شہداء کے فضائل:

            اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے،جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹) (ال عمران:۱۶۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔

            موت کے بعد اللہ تعالیٰ شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ارواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے ،انہیں راحتیں دی جاتی ہیں ، ان کے عمل جاری رہتے ہیں ، ان کا اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، ۷/۱۱۵، الحدیث: ۹۶۸۶)

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے ارشاد فرمایا: ’’ اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :اے ابن آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بہت اچھی منزل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔(سنن نسائی ، کتاب الجہاد، ما یتمنی اہل الجنۃ، ص۵۱۴، الحدیث: ۳۱۵۷)

شہید کی تعریف اور ا س کے احکام :

            شہید وہ مسلمان ،مُکَلَّف ،طاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن، اسے اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اور اسی حالت میں دفن کیا جائے۔(بہار شریعت، شہید کا بیان،۱/۸۶۰)

            بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لیے شہادت کا درجہ ہے جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلب ِعلم اورسفرِحج غرض راہ خدا میں مرنے والا یہ سب شہید ہیں۔ حدیثوں میں ایسے شہداء کی تعداد چالیس سے زائد ہے۔ مکمل تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ چہارم ملاحظہ فرمائیں۔

{وَ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ:لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔}یعنی یہ بات تو قطعی ہے کہ شہداء زندہ ہیں لیکن ان کی حیات کیسی ہے اس کا ہمیں شعور نہیں اسی لئے ان پر شرعی احکام عام میت کی طرح ہی جاری ہوتے ہیں جیسے قبر، دفن، تقسیمِ میراث، ان کی بیویوں کا عدت گزارنا، عدت کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکنا وغیرہ۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں