26 ستمبر, 2017

حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق کہنا

اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا ۔ 
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠(۵۹)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہوجائے تواگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے۔
اس آیتِ کریمہ سے یہ سمجھ آئی حاکمِ وقت کی اطاعت ضروری ہے مگر اختلاف رائے کا حق بھی ہے۔
لیکن دو باتیں ذہن میں رہیں(1) ایک ھے حاکمِ وقت  کے خلاف  کلمہ حق کہنا  (2)اور دوسرا حاکمِ وقت کے خلاف خروج کرنا۔
(1)پہلی بات ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کا تو ہمیں حکم دیا گیا ھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( أَحُبُّ الْجِھَادِ إِلَی اللّٰہِ کَلِمَۃُ حَقٍّ تُقَالُ لِاِمَامٍ جَائِزٍ۔ )
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جہاد ظالم بادشاہ کو حق بات کہنا ہے۔ ‘‘
تشریح…: کلمۂ حق سے مراد ظالم بادشاہ کو کسی نیکی کا حکم یا کسی برائی سے روکنا ہے یہ کام خواہ الفاظ سے کرے یا لکھ کر .ہر وہ پیغام جو کسی بھی طریقہ سے حاکم تک پہنچے
اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کافر کے خلاف جہاد میں فتح بھی مقدر بن سکتی ہے اور ناکامی بھی۔مگرحکمرانوں کے خلاف بات کرنااپنے آپ کو یقینی مشکل میں ڈالنا ہے۔ لہٰذا جہاد کی اس قسم میں خوف کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس کو افضل قرار دیا گیا۔
حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے اور بہترین مشورہ  دینے کی چند مثالیں ۔۔۔۔۔
وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے،عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرتعبداللہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ 
ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین کے دروازے پر بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا سردی کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔
ایک شخص نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں عرض کیا میری شادی کو آج چھٹا مہینہ ہے، لیکن اسی مہینے میری عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا عورت کو سنگسار کردیا جائے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اس مجلس میں موجود تھے۔ کہا یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حملہ و فصالہ ثلثون شہرا: بچے کا حمل اور اس کے دودھ پینے کا زمانہ تیس مہینے ہوتا ہے، ممکن ہے دو سال دودھ پینے کا زمانہ ہو اور چھ مہینے حمل کا۔
امیر المومنین عمرؓ نے یہ سن کر اپنا حکم واپس لیا اور فرمایا ’’لولا علیؓ لہلک عمر یعنی اگر علیؓ یہاں موجود نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوچکا تھا‘‘
اسی طرح ایک عورت حاضر ہوئی، جس کے پیٹ میں ولد الزنا تھا۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے عورت کی سنگساری کا حکم دیا۔ حضرت علیؓ پھر روکا ، فرمایا اگر گناہ کیا ہے تو اس عورت نے کیا، مگر اس بچہ نے کیا قصور کیا ہے جو ابھی پیٹ ہی میں ہے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا بہت بہتر، سزا وضع حمل تک ملتوی رکھی جائے۔ اس موقعہ پر بھی حضرت عمرؓ نے فرمایا: لولا علیؓ لہلک عمر: اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا۔
(2)اور دوسری بات بہت تفصیل طلب ہے مضمون طویل ہو جائے گا اس کو علیحدہ کہیں بیان کروں گا ۔۔ لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے ۔۔
 ا گر کسی ظالم و غاصب حکمران کی معزولی اور اس کی جگہ کسی عادل حکمران کی تقرری بغیر کسی فتنے کے مثلاً پر امن خروج یا سیاسی انداز سے ممکن ہو تو یہ امت مسلمہ کا ایک اجتماعی فریضہ ہے۔۔
واللہ اعلم باالصواب 
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

1 تبصرے:

idaratulkhair نے لکھا ہے کہ

ماشاءاللہ بہت اچھا مضمون ہے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں