09 اگست, 2017

پیر کی پہچان



پیرکسے اور کیوں کہتے ہیں 
پیر یوں تو سوموار، یوم الاثنین کو بھی کہا جاتا ہے لیکن زیرِ بحث ،پیر، فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بزرگ، معمر یا عمر رسیدہ شخص کے ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں یہ لفظ اصطلاحی طور پردینی بزرگ، مرشد یا رہبر کے لئے استعمال ہوتا ہے، مثلاََ پیرطریقت  ،رہبر شریعت ،،بہ الفاظِ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں جسے دین کا دوسروں سے زیادہ علم ہو،اور جس کے بارے حسن ظن ہو کہ وہ اللہ کے قریب ہے۔ مگر افسوس کہ آج یہ لفظ نوسربازوں اور شعبدہ بازوں نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے اور گلی گلی میں اتنے جعلی پیر نظر آتے ہیں ۔کہ خدا کی پناہ
اب آتےہیں،عربی، میں اس کے ہم پلہ لفظ "شیخ" کو استعمال کیا جاتا ہے، یوں تو آج کل لفظ "شیخ" کا استعمال بھی بے دریغ ہونے لگا ہے اور ذرا  ماڈرن اور پڑھے لکھے شعبدہ باز اپنے نام کے ساتھ شیخ یا شیخ الاسلام تک کا لاحقہ لگانے سے نہیں شرماتے۔
لیکن پھر بھی اس لفظ کا تقدس کچھ نہ کچھ حد تک برقرار ہے کہ ان کی وضع قطع قابلِ قبول حد تک معقول ہوتی ہے ،جبکہ پیر کا لفظ ذہن میں آتے ہی سب سے پہلا خیال جو وارد ہوتا ہے وہ ایک عجیب شکل پراسرار قسم کی شخصیت کا ہوتا ہے دوسراخیال جو آتا ہے، کہ وہ جعلی پیر یا اصلی پیر کا ہوتا ہے۔ 
پاکستان میں جعلی پیر کی اصطلاح ایسے اشخاص کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو غیبی طاقتوں یا کرشمہ سازی کے دعوی دار ہوتے ہیں، جس کا تعلق وہ کسی طرح دین اسلام سے جوڑتے ہیں۔ توہم پرست اور جاہل لوگوں کی کثیر تعداد ان کو اسلام کا ولی سمجھتے ہوئے ان کی مرید ہو جاتی ہے۔
جعلی پیر کے کچھ کرائے کے مرید اور کارندے کرشمہ سازی اور شعبدی بازی میں مدد دے کر لوگوں کو مرغوب کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا تعلق پرانے صوفیوں سے جوڑتے ہیں اور عوام ان کو،، پہنچا،، ہوا سمجھتی ہے۔ جعلی پیر تعویز گنڈے کا کاروبار کرتے ہیں، لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ان پر جنات کا سایہ ہے اور وہ جنات کو بھگانے کا علم جانتے ہوئے ان کا جنات سے چھٹکارا دلوا سکتے ہیں۔
ان سب کاموں کے یہ لوگوں سے پیسے وصول کرتے ہیں۔ بعض پیر جنات کو اپنے قبضہ میں بتاتے ہیں اور سائلوں کا ان کی مدد سے کوئی بھی کام کروا لینے کا دعوی بھی کرتے ہیں۔جاہل عوام کے ذہن میں قرآنی واقعات مثلاََ حضرت سلیمان علیہ السلام اور جنات کے تذکرے سنا کر لوگوں پر اپنی دھاک بٹھاتے ہیں۔
بعض جھوٹے ،،پیر،، مذہبی رہنما کا روپ دھارتے ہیں۔ یہ تعویز گنڈے (یا جنات کو بھگانے) کا کام نہیں کرتے مگر قدرے پڑھے لکھے عوام کو مذہب کے نام پر بیوقوف بنا کر اپنا مرید بنا لیتے ہیں جس سے ان کی سیاسی اور کاروباری حیثیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ پیر بھی اکثر شعبدہ بازی کا استعمال کرتے ہیں۔
میں اس کی تعریف یوں کروں گا کہ جعلی پیر وہ شخص ہوتا ہے جو دینی لبادہ اوڑھ کر خود لوگوں کو دھوکا دے کر اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے۔ اور بعض اوقات اس کے معتقدین اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے اس کے متعلق محیرالعقول واقعات سنا کر بھولے بھالے افراد کا ایمان لوٹتے ہیں۔ اورمقصد ان کا بھی اپنی جیبیں بھرنا ہی ہوتا ہے۔
چونکہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور سلگتا ہوا موضوع ہے تو سوچا کہ ۔اصلی اور نقلی پیروں کی خوبیاں و خامیاں اپنے الفاظ میں یکجا کر سکوں۔ اورعوام الناس کا بھی بھلا ہو جائے تاکہ وہ جعلی پیروں کے ہتھکنڈوں میں نہ آئیں اور دیکھتے ہی پہچان لیں کہ آیا یہ پیر اصلی ہے یا جعلی۔ 
جاہل پیر کا مرید ہونا
موجودہ دور میں ہر جانب جاہل پیروں اور جعلی صوفیوں کا ڈیرہ ہے‘ نادان لوگ ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنا مال ان پر لٹاتے ہیں پھر جب ہوش آتا ہے تو چیخ اٹھتے ہیں کہ پیر صاحب نے ہمیں لوٹ لیا۔ ہمارا مال کھالیا۔ ہماری عزت پامال کردی۔ اسی لئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے جاہل فقیر و پیر سے بیعت کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ ہمیشہ سنی صحیح العقیدہ عالم اور پابند شریعت پیر سے بیعت کی جائے چنانچہ :امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے (ملفوظات شریف ص 297‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
بیعت کے چار شرائط ہیں
بیعت اس شخص سے کرنا چاہئے جس میں چار باتیں ہوں ورنہ بیعت جائز نہ ہوگی۔
1۔ سنی صحیح العقیدہ ہو
2۔ کم از کم اتنا علم ضروری ہے کہ بلا کسی کی امداد کے اپنی ضرورت کے مسائل کتاب سے خود نکال سکے
3۔ اس کا سلسلہ حضورﷺ  تک متصل (یعنی ملا ہوا) ہو‘ منقطع (یعنی ٹوٹا ہوا) نہ ہو
4۔ فاسق معلن نہ ہو
طریقت کی اصل تعریف
جاہل لوگوں نے مسلک اہلسنت کو بدنام کرنے کے لئے جہالت کا نام طریقت رکھ دیا‘ چرس‘ بھنگ‘ ناچ گانے‘ سٹے کے نمبر بتانے والوں اور جعلی عاملوں کا نام طریقت رکھ دیا اور معاذ اﷲ یہ بہتان اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ پر لگایا جاتا ہے کہ یہ انہوں نے سکھایا ہے۔ امام اہلسنت کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت سامنے آجاتی ہے چنانچہ:
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ طریقت نام ہے ’’وصول الی اﷲ کا‘‘ محض جنون و جہالت ہے دو حرف پڑھا ہوا جانتا ہے طریق طریقہ طریقت راہ کو کہتے ہیں نہ کہ پہنچ جانے کو۔ تو یقیناًطریقت بھی راہ ہی کا نام ہے۔ اب اگر وہ شریعت سے جدا ہو تو بشارت قرآن عظیم خدا تعالیٰ تک نہ پہنچائے گی بلکہ شیطان تک لے جائے گی‘ جنت میں نہ لے جائے گی بلکہ جہنم میں کہ شریعت کے سوا سب راہوں کو قرآن عظیم باطل و مردود فرماچکا (مقال العفاء باعزاز شرع و علماء مطبوعہ کراچی ص7)
پیر،بزرگان دین، اولیاءکرام، اہل اللہ
بزرگان دین، اولیاءکرام، اہل اللہ، اور سلف صالحین کے الفاظ بظاہر تو مختلف ہیں لیکن معنی کے اعتبار سے متحد المعنی ہیں۔ یہی وہ حضرات ہیں جنہیں سرمایہ ملت، محافظین اسلام اور پابند شریعت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان حضرات کا ذکر محافل میں ہو یا مجالس میں، انفرادی ہو یا اجتماعی، عوام الناس میں ہو یا خواص الناس میں، اشعار میں ہو یا نثر میں، تقریر میں ہو یا تحریر میں باعث عز و شرف و صدافتخار ہے۔ بزرگان دین سے ملنا، ان کی مجالس میں بیٹھنا اور ان کے وعظ و ارشاد کا سننا سبب حلاوت ایمان ہے۔ یہی وہ حضرات ہیں جو فانقواللہ ماسنتطعتم کی عملی تفسیر ہیں اور یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہیں عارف باللہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ 
محبوب سبحانی قطب ربانی حضرت شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
جب انسان علم کی منزل طے کرتا ہے تو پھر عمل کی باری آجاتی ہے۔ جب عمل کی منزل طے کرتا ہے تو پھر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینا پڑتا ہے۔ اس فریضہ کی سر انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحب وفا، صاحب حیاء، صاحب تقوی، صاحب زہد، صاحب صدق، صاحب اخلاق اور صاحب کردار ہو۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مضبوط نہ ہو اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جبکہ اس کا تعلق خلفاء الربعہ یعنی حضرت( ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، علی المرتضی) رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ہو اور ان سے تعلق اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بزرگان دین سے مضبوط ایمانی رشتہ قائم نہ ہو۔
حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ ہی کا ارشاد پاک 
حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ ہی کا ارشاد پاک ہے کہ جب انسان عارف باللہ ہو جاتا ہے تو اس کی زبان سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے الفاظ وہ اثر رکھتے ہیں جو رب کریم کے "کن" میں ہیں۔ تو پھر ایسے حضرات کا ذکر کیوں نہ کیا جائے، انہیں اپنی تحریروں میں کیوں نہ لایا جائے۔ !اے لوگو سمجھ لو ولی اللہ ہی حقیقی بزرگ، اہل حق، عباد مخلصین، صاحب حال، عارف باللہ، منبع رشد و ہدایت، انعام یافتہ اور شاہد ہیں۔ 
اے درماندہ اور پریشان حال لوگو • اگر تمہاری درماندگی و پریشانی کا کہیں مداوا ہے تو انہیں بزرگ و محترم ہستیوں کی معیت و قرب میں 
ہے۔ • اگر صراط مستقیم کی روشنی کی طلب و تلاش ہے تو وہ انہیں اللہ کے ولیوں کے دامن سے وابستگی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ • اگر مصائب و آلام میں گرفتار ہو تو ان کا حل بھی انہیں برگزیدہ لوگوں کے نقش پا میں ہے۔ • اگر دولت، اطمینان قلب اور سکینہ و طمانیت کے لئےسرگرداں ہو تو وہ بھی ان بزرگوں کے در سے عطا ہو گی۔ !اے لوگو غور کرو بقول مرشدنا حضرت فضل شاہ قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ فضیلت رخ کو ہے۔ جس طرف رخ ہو گا آثار و احوال و انجام اسی کے مطابق مرتب ہونگے۔ جو اس وقت حال ہے مستقبل بھی اسی کی کھوکھ سے جنم لے گا۔ وقت باآواز بلند پکار رہا ہے کہ زندگی کے ان لمحات کو غنیمت جانو اور اپنا رخ غیر سے خیر کی طرف، ناحق سے حق کی طرف اور شیطان سے رحمن کی طرف کر لو۔ !
کسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔۔

نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی
نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی۔
قرآن مجید میں باری تعالیٰ اپنے ولیوں کی شان اور مقام اس طرح بیان فرمارہاہے:
اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَoاَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo
ترجمہ: بلاشبہ اﷲ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہے اور وہ غمگین ہوں گے اور (اﷲ کے ولی وہ ہیں) جوایمان لائے اور پرہیز گاری اختیار کی‘‘۔(سورۂ یونس:آیت62-63)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اس طرح بیان فرمائی کہ اﷲ کا ولی (اصلی دوست)وہ ہو تا ہے جو صاحب ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ متقی و پرہیز گار بھی ہو۔ قرآن وسنت کے احکامات وتعلیمات کا پابند ہو۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ  کا اطاعت گزار  و فرمانبردار ہو، اور اﷲ کے ولی وہ ہوتے ہیں جو ساری ساری رات اﷲ کی عبادت وبندگی اورتوبہ واستغفارمیں گزار دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی اولیائے کاملین اور مشائخ کرام گزرے ہیں اورجوحیات ہیں ان کے مزارات، آستانوں ،خانقاہوں اوررہائش گاہوں کے ساتھ مساجدضرور ہیں جو اس حقیقت اسلام کو واضح اورآشکارکررہی ہیں اوراس بات کا ثبوت اوردلیل ہیں کہ اﷲ کے ولی اوردوست ہر حال میں صوم وصلوٰۃ کی نہ صرف پابندی کرتے ہیں بلکہ ان کے شب وروزمسجداور مدرسہ میں بسرہوتے ہیں۔
اولیاء اﷲ کی علامت ،عبادت وریاضت
قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اورمقام کے بارے میں مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًاo وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًاoترجمہ: ’’اور رحمن کے (مقرب)بندے وہ ہیں کہ جو زمین پر(عاجزی سے) آہستہ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل اُن سے ( کوئی ناگوار بات) کرتے ہیں تو کہتے ہیں (تمھیں) سلام اور وہ جو اپنے رب کیلئے سجدے اور قیام میں راتیں گزار دیتے ہیں‘‘۔ (سورۃالفرقان:آیت ۶۴۔۶۳)
اولیاء اﷲ کامقام اورشان یہ ہے کہ وہ نہ صرف عاجزی اورانکسارکے پیکرہوتے ہیں بلکہ جب ان سے کوئی جاہل نارواگفتگوکرتا ہے یا ناشائستہ طرزعمل اختیار کرتا ہے توبھی رحمٰن کے بندے ان سے حسن اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اوروہ راتوں کواﷲ تعالیٰ کی خوب عبادت وبندگی کرتے ہیں۔
ایک حدیث شریف میں حضور اکرم ﷺ  نے اولیاء اﷲ کی پہچان اورشان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
﴿اذا رء وا ذکر اﷲ۔ ﴾
ترجمہ: ’’ (اﷲ والوں کی پہچان یہ ہے کہ) ’’جب کوئی اُنھیں دیکھ لیتاہے توانھیں خدا یادآجاتا ہے‘‘۔(الحدیث)
اگر تم کو بھی حرم کا کوئی کبوتر مل جا ئے، جس کا جسم یہا ں رہتا ہو اور دل کعبہ میں رہتا ہو یعنی جو سراپا سنت و شریعت کا پابند ہو، اگر کوئی ایسا اللہ والا مل جائے تو اس سے چمٹ جاؤ، مگر اللہ والوں کو خود سے نہ پہچانو، وقت کے علماء اوروقت کے بزرگانِ دین سے پو چھو کہ ہم کس بزرگ کے پاس جایا کریں
حضرت بِشرحافی رحمۃ اللہ علیہ کے جذب کا قصہ
اﷲ تعالیٰ نے حضرت بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کو شراب کی حالت میں جذب کیا تھا۔ بِشر حافی شراب کے نشہ میں مد ہوش تھے، پیر لڑکھڑا رہے تھے، اچانک دیکھا کہ زمین پر کاغذکا ایک ٹکڑا پڑا ہے جس پر بسم اﷲ شریف لکھی ہے، فوراً کہا کہ آہ! میرے اﷲ کا نام زمین پر پڑا ہوا ہے، فوراً اُسے اٹھایا، صاف کیا، عطر لگایا اور اسی بے ہوشی کی حالت میں، شراب کے نشہ کی حالت میں اوپر ایک طاق میں رکھ دیا۔ رات کو خواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے بِشر تو شراب کے نشہ سے بے ہوش تھا مگر میرے نام سے باہوش تھا، میرے نام کو تو نے اس وقت بھی فراموش نہیں کیا جس وقت شراب کے نشہ میں ساری دنیا کو فراموش کیے ہو ئے تھا۔بس اللہ نے انہیں جذب کرلیا اور فرمایا کہ آج سے تمہارا نام اولیاء اللہ کے رجسٹر میں درج ہے۔صبح جب سو کر اٹھے تو شراب کے مٹکے توڑ دیے، ساری بوتلیں توڑ دیں اور تہجد وذکر وفکر میں لگ گئے، پھر ا للہ نے انہیں وہ مقام عطا کیا کہ امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جب حدیث پڑھا تے تھے اگر اس وقت بِشر حا فی رحمۃ اللہ علیہ زیارت کے لیے تشریف لے آتے تو امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ حدیث پڑھا تے پڑھاتے کھڑے ہوجاتے تھے، طلبہ کہتے تھے کہ آپ ایک غیر عالم کے لیے کیو ں کھڑے ہوتے ہیں؟ فرمایا کہ میں کتابُ اﷲ کا عالم ہوں اور یہ اللہ کا عالم ہے یعنی یہ اللہ کو جانتا ہے،بِشر حا فی اللہ کا جذب کیا ہو ا مقبول بندہ ہے اس لیے میں اس کا اکرام کرتا ہوں۔ 
ایک دن بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ یہ آیت تلاوت کر رہے تھےوَ الۡاَرۡضَ فَرَشۡنٰہَا فَنِعۡمَ الۡمٰہِدُوۡن  اور ہم نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا ہے۔ بس جوتا اتا ر کر پھینک دیا اور کہا کہ میں اللہ کے فرش پر جوتا پہن کر نہیں چلوں گا۔ لیکن میں عرض کردوں کہ یہ دین کا مسئلہ نہیں ہے کہ آپ لوگ بھی جوتا نہ پہنیں، بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ پر تو ایک حال طاری ہوگیا تھا اور وہ ننگے پیر چلنے لگے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ کرامت بخشی کہ زمین پر جہاں نجاست ہوتی تھی اور یہ وہاں سے گزرتے تھے تو زمین پھٹ جاتی تھی، اللہ تعالیٰ زمین کو حکم دیتا تھا کہ اے زمین! تو پھٹ کر نجاست نگل جا،میر ا عاشق بِشر حافی آرہاہے جس نے میرے لیے جوتے اتار پھینکےتھے۔ جو اﷲتعالیٰ کو چاہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کو چاہتے ہیں، اگر پیاسے پانی کو تلاش کرتے ہیں تو پانی بھی اپنے پیاسوں کوتلاش کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی جستجو کرتے ہیں اللہ بھی ان کو تلاش کر لیتا ہے ۔
 ایک شرابی کے جذب کا قصہ
حضرت ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے ایک شرابی کے جذب کا قصہ
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے زمین پر بے ہوش پڑے ایک شرابی کا منہ دھویا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پو چھا کہ آپ کون ہیں؟ فرمایا کہ میں سلطان ابراہیم ابن ادہم ہوں۔ عرض کیا کہ کیسے آئے؟ فرمایا کہ ظالم، تو نے اتنی زیادہ پی لی تھی کہ زمین پر پڑا قے کررہا تھا اور تیرے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں، میں نے اللہ کا بندہ سمجھ کر تیرا منہ دھو دیا، کہا کہ اچھا ہاتھ لائیے، میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں، اسی وقت نشہ اتر تے ہی فو راً جذب عطا ہوگیا حالاں کہ حضرت ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی وعظ نہیں کہا تھا، انہوں نے اس سے یہ نہیں فرمایا کہ تم توبہ کرلو، اس نے جو یہ کہا کہ مجھے بیعت کرلیجیے، توبہ کرادیجیے، اب کبھی شراب نہیں پیوں گا، تو اسے یہ کس نے سکھایا؟اللہ کے جذب نے۔ اللہ کا جذب دنیا کی ہدایت کے تمام اسباب سے بے نیاز ہے، بس اﷲ نے اسی وقت جذب کرلیا، توبہ کرنے کے بعد وہ اسی وقت ولی اللہ ہوگیا۔ رات کو سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ شرابی ولی اﷲ ہوگیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ آپنے اتنی جلدی اس شرابی کو ولی اللہ کیو ں بنا لیا؟ اس میں کیا راز ہے؟ بغیر 
اشراق و تہجد، اوّابین اور بڑی محنتوں کے اس کو یہ مقام کیسے حاصل ہوگیا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے سلطان ابراہیم ابن ادہم!اَنْتَ غَسَلْتَ وَجْھَہٗ لِاَجْلِیْ تو نے اس کے چہر ے کو میری خاطر دھویا، میرا بندہ سمجھ کر اس کا چہرہ دھویا،فَغَسَلْتُ قَلْبَہٗ لِاَجْلِکَ میں نے تیری خاطر اس کا دل دھو دیا۔ جس کا دل اللہ دھو دے اس کے دل میں گناہ کا کوئی اثر رہ سکتا ہے؟ اے اﷲ! اپنا دست ِکرم بڑھا دیجیے اور ہما رے دلوں کو بھی اسی طرح پاک کر دیجیے ۔
‌اصلی پیر،، جعلی پیرکا موازنہ
اس مضمون میں‌اصلی پیر میں‌پائی جانے والی خوبیوں کا موازنہ جعلی پیروں کی خامیوں سے کرنا ہے۔
(۱)اصلی پیر اللہ کو وحدہ ٗ لا شریک مانتاہے،اور رسول اللہ ﷺ  کواللہ کاآخری نبی اور رسول مانتا ہے۔
(۱) جبکہ جعلی پیر اللہ کی وحدانیت کی حقیقت کو بھی نہیں جانتا،بلکہ کبھی کبھار وہ خود الٹے سیدھے دعوے شروع کردیتا ہے۔
(۲)اصلی پیر قرآن و سنت کا متبع ہوتا ہے، خود عبادت میںمشغول رہتا ہے اور مریدین کو عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔
(۲) جعلی پیر اپنے جیسے ہی کسی دوسرے فراڈیےکانام استعمال کرتا ہے۔بعض اوقات نیک بندوں کانام بھی استعمال کرتا ہے۔
(۳) اصلی پیر تعصب سے مستثنیٰ ہو کر لوگوں کو اللہ اور رسول اللہ ﷺ  کی طرف دعوت دیتاہے اور لوگوں کی اصلاح کی غرض سے اللہ کے حضور دعا گو رہتا ہے۔نیز اپنے پاس آنے والے لوگوں کودین کے صحیح رستے کی تمیز سے بہرہ ور بھی کرتاہے۔
(۳)اور جعلی پیر لوگوں کو صرف اپنی طرف دعوت دیتا ہے۔
(۴)اصلی پیر کی ایک خاص نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی زندگی تصنع اور تکلف سے پاک ہوتی ہے۔
(۴)اور جعلی پیر کی زندگی عموماََ تصنع و بناوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔
(۵)اصلی پیر یہ تعلیم دیتا کہ اللہ کی بارگاہ میں کی ہوئی دعاتقدیر کو بدل دیتی ہے۔
(۵)اور جعلی پیرکہتا ہےصرف ایک تعویذ آپ کی کا یا پلٹ سکتا ہے ۔
(۶)اصلی پیریہ کہتا ہےتمام پریشانیوں کا حل اللہ کے ذکر میںہے، الا بذکر اللہ تطمئن القلوب دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے۔
(۶)اور جعلی پیرصرف ایک رات کے عمل سے آپ کی پریشانی کا گارنٹی سے خاتمہ۔
 (۷)اصلی پیریہ کہتا ہے میاں بیوی کی ناراضگی کا حل دونوں کے دین پر عمل کرنے میں ہے۔بغیر نکاح کے عورتوں سے تعلق قائم نہ کرو،حتیٰ نظر کے زنا سے بھی محفوظ رہو۔ زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ       ترجمہ: آنکھوں کا زنا ہے نظر بازی۔ 
(۷)اور جعلی پیرکہتا ہےمیاں بیوی کی ناراضگی کا حل ، سنگدل سے سنگدل محبوب آپ کے قدموں میں صرف ایک تعویذ سے۔
  بہت سے بیہودہ اورغیر شرعی دعوے
(۸)ہمارا تعویذدنیا کے ہرکونے اور سات سمندر پار تک اثر کرتا ہے
 (۹)سفلی و علم جعفر کے بے تاج بادشاہ عامل پروفیسر عالمی شہرت یافتہ گولڈ میڈلسٹ روحانی ڈاکٹر الحاج شاہ جی ۔
 (۱۰)چٹ منگنی پٹ بیاہ ، والدین کے گھر مرجھائی ہوئی کلیاں کیوں ؟
 (۱۱)پیر صاحب کی کامیاب چلہ کشی کا کرشمہ ، الحاج پیر مٹھوشاہ یزدانی۔
 (۱۲)کامل پیرپرویز قادری ، بنگال ،انڈونیشیا ،سری لنکا اور سعودی عرب کے کامیاب دورے کے بعد اب آپ کے شہر میں ۔
 (۱۳)کاروباری بندش ، گھریلو ناچاقی ، جادوٹونہ ، جن بھوت کا سایہ ۔
(۱۴)بیرون ملک سفر امتحان میں کامیابی ،، پسند کی شادی ، صرف چند دنوں میں محبوب آپ کے قدموں میں۔
  (۱۵)اولاد کی بندش ، ناممکن کو ممکن بنائیں ، جو چاہیں سو پائیں ۔
 (۱۶)آج ہی ملیے کامل بابا بنگال کا چیختا چنگھاڑتا ماسٹر آف دی بلیک میجک۔
 (۱۷) ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ،پاکستان کے تمام بڑے مستند کوالیفائیڈ عاملوں پروفیسروں کو کھلا چیلنج !
(۱۸) جو میرے تعویذ کی کاٹ کرسکے ایک لاکھ انعام پائے ۔
(۱۹)مایوس اور ٹھکرائے ہوئے حضرات کے لیے خوشخبری ،ناامیدی کفر ہے ۔
(۲۰) اسم اعظم کا کرشمہ ، ہر کام گارنٹی اور مکمل رازداری کے ساتھ ۔
(۲۱)ساس بہو کا جھگڑا ،شوہر قدموں میں ۔
(۲۲)گھر بیٹھے بٹھائے روحانی علاج اور تعویذ کے لیے اپنے مکمل کوائف مع جوابی لفافہ کے ساتھ لکھیں ۔
یہ ہیں چند مثالیں جن سے ہمارے صف اول کے اخبارات ، رسائل ،سنڈے ایڈیشن ، شاہرات اور ٹی وی اشتہارات بھرے پڑے ہیں ۔ان اشتہارات میں یہ کرشمہ ساز مجبور اور لاچار لوگوں میں تمنائیں اور سہانے خواب فروخت کرتے ہیں، اور دعوے ایسے کرتے ہیں جیسے سب کچھ کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مجبور اورحالات کے ستائے لوگ ایک بار اپنی قسمت ضرور آزماتے ہیں ، کوئی اپنی بیٹی کے بالوں میں چاندی اترتی دیکھ کر مجبور ہے تو کوئی برسوں سے بیروزگار بیٹھا ہے ، کوئی راتوں رات امیر بننا چاہتا ہے ،اور پریشانیوں کا مارایہ سمجھتا ہے کہ ان کےجعلی آستانوں اورجعلی پیر خانوں پر ہر پریشانی اور بیماری کا حل موجود ہے ، صرف پیر صاحب اور شاہ جی کی ایک پھونک اور تعویذ سے میری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی ۔
قابل رحم ہیں وہ لوگ جو علم و عمل کے راستے کو چھوڑ کر،، کرامتوں اور تعویذ گنڈوں کے لیے دھکے کھا رہے ہیں ،ان کی بے بسی قابل توجہ ہے جو ایک اللہ کے در کو چھوڑ کر دردر کی خاک چھانتے ہیں ، ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو کون ہے جو ہمارے مسائل حل کردے ، اگرسپیشلسٹ ڈاکٹر کسی کو شفا دینے والے ہوتے تو خود اسی بیماری سے کبھی نہ مرتے ،اگر طوطے ہی انسان کی قسمت اور پریشانیوں مشکلات سے آزاد کروانے پر قادر ہوتے تو خود کو پہلے پنجرے سے آزاد کرواتے ۔قسمت بتانے والے یوں فٹ پاتھوں پہ نہ رُلتے ، دوکان و مکان کی خیر و برکت کے تعویذ اور آیتیں دس دس روپے میں بیچنے والے پہلے اپنے کاروبار میں برکت لاتے ،جو خود جھوٹ بول کر حرام رزق کما رہے وہ دوسروں کے رزق کی بندش ختم کرنے کے دعوے کیسے کر رہے ؟
جبکہ اس کے برعکس قرآن مجید میں اللہ کریم ارشاد فرماتے ہیں کہ "وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۷﴾ترجمہ ،، اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
ایک اور طبقہ پتھر سے قسمت بدلنے والے
اس طبقے نے زیاد ہ مذہبی لبادہ تو نہیں اوڑھا مگر ایمان کی تباہی کے لئے اتنا ہی خطرناک ہے،کیونکہ بہت سے پتھر کے استعمال کرنے والوں کا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے، مثلاََ یہ پتھر مجھے راس آگیا،اوریہ طبقہ ہے جو پتھروں سے قسمت بدلنے کا دعوے دار ہے۔ نیلم ،زمرد، فیروزہ ، یاقوت ، ٹائیگروغیرہ کو ،پہنوں توفلاں ہو جا ئے، قسمت بدل جائے، رزق میں اضافہ ہو جا ئےوغیر ہ وغیرہ ۔مثلاََ
اوپل (Opal) 
اس پتھر کے استعمال کرنے والے بڑے بردبار، فرض شناس، عملی زندگی میں بڑے محتاط طرز عمل کو اختیار کرنے والے، ناکامیوں سے نہ گھبرانے والے، انہیں چیلنج سمجھنے والے، خاموشی سے اپنے مقصد کے لئے کوشاں، خوش مزاج، اچھی یادداشت کے مالک، اچھی غذا اور اچھے لباس پسند کرنے والے، اپنے سینوں میں بہت زیادہ راز دفن رکھنے والے، ازدواجی زندگی بڑی کامیاب اور پرمسرت، بطور تعویز استعمال میں آنے والا۔ سیاہ اوپل اکثر منحوس ہوتا ہے۔ سرخ اور گلابی پتھر زندہ دلی، صحت، قوت اور جرأت پیدا کرتا ہے۔
آنکھوں کی جملہ بیماریوں کے لئے اکسیر، معدہ کی سوزش اور ورم کو ٹھیک کرتا ہے۔ اعصاب کی اصلاح اور عضلات کے لئے مفید۔ معدے کے نظام ہضم کو درست کرتا ہے۔
سنگ سلیمانی (Onex) 
محفل میں عزت، دربار میں وقار اور شہرت، کاروبار میں شعور دیتا ہے۔ حاکم مہربان، کاروباری معاملات میں صاف گوئی، خیالات میں بلندی، کاروبار میں ترقی عطا کرتا ہے۔ حاملہ عورت بوقت درد زہ اس کو بالوں میں لگائے تو درد زہ سے فوری نجات دیتا ہے اور زچگی کو آسان بناتا ہے۔ دافع یرقان، جادو اور موتیا ختم، لقوہ کو ختم، سوزاک، قوت باہ، ہیضہ اور ورم خصیہ کے لئے مفید، جلق اور درد مثانہ کے لئے مفید، اس کا سفوف زخموں پر چھڑکنے سے زخم ٹھیک کرتا ہے۔ درد گردہ، خرابی خون اور نیند نہ آنے کی شکایت کو دور کرتا ہے۔

 یاقوت ،یا روبیRuby
فارسی میں یاقوت کہنے والے اس پتھر کو عربی میں ‘‘ لعل ‘‘ اردو میں ‘‘ لال ‘‘ ہندی میں ‘‘ مانک ‘‘ سنسکرت میں ‘‘ پرم راگ ‘‘ اور انگریزی میں روبی ruby کہا جاتا ہے ۔ اس پتھر کا شمار نورتن یا جواہر تسعہ ‘‘اول درجہ کے نو 9 جواہرات ‘‘ میں ہوتا ہے ۔ یہ خوبصورت پتھر چمک دمک ، اپنی رنگت ، خوش وضعی اور ندرت کے اعتبار سے سب جواہرات سے افضل شمار ہوتا ہے ۔یاقوت دیکھنے میں بھی بڑادلکش ،دلفریب جاذب نظر اور خوبصورت ہوتا ہے ۔ شعراء اپنے محبوب کے ہونٹوں کولعل سے تشبیہ دیتے ہیں اور والدین اپنی اولاد کو میرا لال یا لعل بھی اسی مناسبت سے کہتے ہیں ۔۔
نیلم (Saphire) 
اعلیٰ درجے کا پتھر، موافق آنے کی صورت میں لمحوں میں فقیر سے شہنشاہ بنانے والا، جادو ٹونہ بے اثر کرنے والا، محبت بڑھانے والا، دلی تمنائیں پوری کرنے والا، دشمن کو مغلوب کرنے والا، ہر مقصد میں کامیابی دلانے والا، عزت، شہرت اور وقار میں اضافہ کرنے والا آئیڈیل محبوب کے حصول میں ممد و معاون، اولاد پر بھی اثر ڈالنے والا، قدر و منزلت بڑھانے والا، تحمل، سکون، بردباری، ثابت قدمی اور بلند حوصلگی بخشنے والا، شخصیت کو پرکشش بنانے والا۔
لہسینا (Cat's Eye) 
نظر بد، آفت اور مصیبت سے بچاتا ہے۔ میدان جنگ میں کامیابی کا ضامن، بدروحوں سے بچانے والا، فتح و کامرانی کی نوید بخشنے والا، بحث و مباحثہ میں کامیابی دلانے والا، دشمن کو زیر کرنے والا، خواب بد سے محفوظ رکھنے والا۔
سنگِ بشپ (Jasper) 
نہ ہی خود غرض، نہ ہی عیاش، فضول خرچ، بدکلامی، بدکاری اور تکبر سے بچانے والا، دولت کے حصول میں معاون، جادو ٹونے اور دشمنوں سے بچانے والا، نفس پرستی اور ایذا رسانی سے دور کرنے والا، بلند حوصلہ اور فیصلہ کی قوت بخشنے والا۔
پکھراج (Topaz) 
جادو ٹونے کے اثرات سے بچاتا ہے۔ محبوب کے دل میں محبت اور کشش پیدا کرتا ہے۔ قوت ارادی کو پختہ کرتا ہے۔ سمندری سفر کے لئے مفید ہے۔
موتی (Pearl) 
نیکی اور پارسائی کا حامل، ذہنی پریشانیوں کا خاتمہ کرنے والا، رومان پرور، برے اور ڈراؤنے خوابوں سے بچانے والا، حسن کی افزائش کرنے والا، جمالیاتی ذوق کو تسکین پہنچانے والا، ازدواجی زندگی کی خوش حالی اور کامیابی کا ضامن۔
حجر القمر (Moon Star) 
روزگار کے ذرائع اور ترقی میں معاون، عزت و توقیر بڑھانے کا باعث، نحوست کا خاتمہ کرنے والا، قوت اور دہشت کو ختم کرنے والا، درخت پر باندھنے سے زیادہ پھل دینے والا۔
زمرد (Emerald) 
زمانہ قدیم سے زیر استعمال پتھر، اپنی آب و تاب اور چمک دمک میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اپنے حجم سے ہلکا اور تیزاب کے اثر سے پاک، مزاج سرد اور خشک، ڈراؤنے خوابوں سے نجات بخشتا ہے۔ 
عقیق
درویش پتھر، خوشحالی زندگی، آلام و آفات سے چھٹکارا دینے والا، پرخطر سفر کی نگہبانی اور حفاظت کرنے والا، شیطان کو بھگانے والا، کینہ اور بغض سے مبرا کرنے والا، سحر اور جادو کا توڑ، پاک صاف زندگی کا ضامن۔
ایک شیطانی سوچ !
آجکل شیطان صفت لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے۔جو ،،پیر،،پکڑا جائے وہ نقلی ہے، اور جو نہ پکڑا جائے وہ اصلی ہے۔تھوڑاعرصہ قبل ایک اعلی تعلیم یافتہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ پیر کے ہاتھوں 20 مریدین کے قتل کا افسوسناک واقعہ ہوا ، یہ اندوہناک سانحہ کیا پیش آیا ہر طرف سے خود ساختہ دانشوروں کی فوج ظفر موج نکل آئی۔ اور لگی مزارات ، آستانوں ، خانقاہوں ، پیروں ، گدی نشینوں اورعاملوں کو نشانہ بنانے،، ایسے ایسے تبصرے اور کالم پڑھنے کو  مل رہےتھے، کہ لگتا تھا کہ جیسے برائی کے سارے سرچشمے یہیں سے پھوٹ رہے ہیں ، کہیں اچھے اور برے ،،پیر،، کی اصطلاحات سننے کو مل رہی ہیں تو کہیں آستانوں کے ساتھ عزتوں اور عصمتوں کا بیوپار منسوب کیا جارہا ہے ، کہیں تعویذ دھاگے اور ،،دم درود،، والے عاملوں کو بھی جادو گروں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا کیا جارہا ہے تو کہیں تصوف پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ کہیں گدی نشینوں کے پاس موجود جائیدادوں کے تذکرے ہیں تو کہیں جاہل پیر اور جاہل مرید کا ذکر ہے۔ کہیں کسی مزار کے احاطے میں چرس اور منشیات کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں مجرموں کے یہاں پناہ لینے کے انکشافات ہیں ،، یوں لگتا ہے کہ شاید  دنیا کی ہر برائی صرف ان مزارات ، خانقاہوں اور آستانوں سے ہی شروع ہوتی ہے اور یہیں ختم ہو جاتی ہے ، 
نام نہاددانشوربھول جاتے ہیں
ایسا لکھتے ہوئے ہمارے نام نہاد دانشور یہ بھول جاتے ہیں کہ آستانے ، مزارات اور خانقاہیں ہی ہیں جہاں سے بھوکوں کے پیٹ بھی بھرتے ہیں اور بے گھروں کو سر چھپانے کو ٹھکانے بھی ملتے ہیں۔ دکھی انسانیت کو دل کا سکون بھی ملتا ہے تو لوگوں کی مرادوں سے جھولیاں بھی بھرتی ہیں لوگوں کو امن و محبت کا درس بھی ملتا ہے تو لوگوں کو تزکیہ نفس اور قلب و ذہن کی صفائی بھی نصیب ہوتی ہے ۔ دین اسلام میںامن و محبت ، پیار و اخوت اور اللہ پر یقین کے نظارے بھی یہیں دکھائی دیتے ہیں ،اور دہشت گردوں کے خاتمے کا چشمہ بھی یہیں سے پھوٹتا دکھائی دیتا ہے ۔
اوریوں لگتا ہے وطن عزیز میں شاید کہیں اور کوئی برائی موجود ہی نہیں ،نہ تو دہشت گردی وطن عزیز کا مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی اور جگہ کوئی جرائم ہو رہے ہیں ۔ہم کہتے ہیں جس مزار پر قتلوں کا چرچا ہے اور جسے لے کر مزارات آستانوں اور خانقاہوں کی طرف توپوں کے رخ کر دیے گئے ہیں وہاں پر قتل بھی ہوئے اور مزار کے متعلق کہانیاں بھی منظر عام پر آئیں ہیں جو یقینا َسچ ہیں اور ان کا دفاع یا توجیہہ پیش کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جس بندے نے یہ قتل کیے وہ تو خود اعلی تعلیم یافتہ ریٹائرڈ سرکاری افسر تھا ۔
مگرجو نہ تو خود شریعت کا پابند تھا اور نہ ہی اسے طریقت کی الف ب کا پتہ تھا ۔
کیونکہ تصوف اور شریعت کوئی الگ الگ چیزیں نہیں۔ جس طریقت میں شریعت نہیں وہ فراڈ ہے اور جو پیر نماز روزے اور نفلی عبادات کا پابند اور صاحب تقوی نہیں وہ پیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اگرچہ گنتی کے چند نام نہاد پیر ایسے بھی موجود ہیں جو غلط حرکات کو رواج دے رہے ہیں، جن میں ایک بہروپیے کی ویڈیوز خواتین کے ساتھ ناچنے کی، اور ایک کی لوگوں سے سجدے کروانے کی اور گالیاں دے کر ڈانس کروانے کی وڈیو انٹرنیٹ پر بھی گردش کرتی دکھائی دیتی ہیں، ' ایسے لوگوں کا تصوف سے کوئی تعلق بھی نہیں اور عوام بھی جہالت کی وجہ سے ہی ان لوگوں سے متاثر ہو جاتے ہیں ۔
لیکن ایسے لوگ فیصد بھی نہیں ہیں، لیکن یہ 1فیصد سے بھی کم لوگ اس وقت میڈیا کی نظر میں تصوف کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں ، اوران قلیل ترین لوگوں کو ہی تصوف کا نمائندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
حالانکہ جو ذرا سی بھی شریعت کی خلاف ورزی کرے اس کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں اور اس پر سب علماء اور صوفیاء متفق ہیں ، مگران لوگوں اور چند درباروں کے سجادہ نشینوں کو لے کر تصوف کے خلاف محاذ کھڑا کرنے اور قانون سازی کی باتیں حیران کن بھی ہیں کیونکہ جعلی تعویذات دینے والے عاملین کے خلاف سخت آپریشن کے مطالبات کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور چند ایم پی ایز اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں قراردادیں بھی جمع کروا چکے ہیں۔
اب سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ آیا کہ جادو ، تعویذات اور دم کرنےو الے جنہیں برائیوں اور فساد کی جڑ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ان کے بارے میں یہ بات کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ یہ اسلام کا حصہ ہیں یا نہیں ، کیاجادو برحق نہیں ہے؟ کیا اس کے توڑ کے لیےقرآنی آیات نازل نہیںکی گئی تھیں؟ دم کرنے پر تو آج تک کسی بھی عقیدے کو اعتراض نہیں ہوا ، تو پھر ان عاملوں کے بارے میں اس طرح کے سخت بیانات کیوں جاری ہو رہے ہیں ۔
اگر ایک عامل اپنے حجرے میں بیٹھ کر تعویذ لکھ رہا ہے تو وہ تو ناجائز لیکن اگر ایک مولانا صاحب یہی کام مسجد کے ساتھ اپنے حجرے میں بیٹھ کر کریں تو وہ جائز ؟ یہ دو رخی پالیسی کیسی ہے ، محکمہ مذہبی امور سے اس حوالے سے قانون سازی کے مطالبات بھی ہو رہے ہیں، اب محکمہ مذہبی امور اس پر کیسے قانون سازی کر سکتا ہے کیونکہ تعویذ اور پیری مریدی سے منسلک سب سے بڑی اکثریت مسلک حق اہلسنت  وجماعت بریلوی مسلک کی ہے لیکن انہیں ہمیشہ اعتراض رہا ہے کہ وزارت مذہبی امور پر ایک دوسرے مسلک کا مکمل قبضہ ہے۔
اب ایک مخالف مسلک کے لوگ کیسے قانون سازی کریں گے اور ان کے پاس ایسا کونسا پیمانہ ہو گا جس سے وہ اصلی اور جعلی  پیر اور عامل کی پرکھ کر سکیں گے ، کیا یہ قانون سازی صرف گلی محلوں میں بیٹھے عاملوں کے خلاف ہو گی یا مساجدمیں بیٹھے علماء بھی اس کی زد میں آئیں گے اور مزارات کی رجسٹریشن تو شاید ممکن ہو جائے ۔
لیکن کونسا مزار اصلی ہے یا کونسا جعلی اس کا فیصلہ کیسے ہو سکے گا یہی عالم ،،پیروں،، کا ہو گا کہ اگر صرف بااثر پیر ہی پیر قرار پائیں گے اور غریب پیر اس کی رو سے جیل میں بند ہوں گے تو اس قانون کو کیسے مانا جا سکے گا ، اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں کوئی بھی دینی جماعت یا مسلک اس حوالے سے ان عیبوں سے مکمل طور پر مبراء ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔ اگر کسی آستانے یا بہروپیئے پیر کے ہاتھوں کسی کی عزت لٹتی ہے تو کیا اس طرح کے کیس مولانا صاحبان کے حوالے سے  سامنے نہیں آتے ؟ 
کیا اعلی تعلیمی ادارے اس الزام سے بری الذمہ ہیں ؟ بات نکلے گی تو دور تک جائے گی اس لیے آستانوں اور درگاہوںکو بھی اسی طرح لینا ہو گا جس طرح معاشرے کے باقی سب حصے ہیں اگر کہیں پر کوئی برائی نظر آتی ہے تو اسے روکنا سب کا فرض ہے اور مزارات یا عاملوں کی آڑ میں ہونے والے اس طرح کے اکا دکا واقعات کی ہمیشہ ہی علمائےحق اہلسنت وجماعت نے مذمت کی ہے، اور عوام کو تصوف کا حقیقی پیغام دینے اور صوفیاء کی پہچان کروانے میں مدد دی ہے ۔
اس حوالے سے علمائے حق اہل سنت وجماعت سے وابستہ 50مفتیان کرام نےشرعی اعلامیہ اور تجاویز بھی جاری کر چکے ہیں جن پر عمل کر کے معاشرے کو ایسے نام نہاد اور جعلی پیروں اور عاملوں سے چھٹکارہ دلایا جاسکتا ہے ، اس میں کالے جادو کے اشتہارات دینے والے اور کالا جادو کرنے والے عاملوں کے خلاف سخت کاروائی اس طرح کے اشتہارات پر پابندی ، شریعت سے دور عاملوں کے اڈوں کی بندش اور ایسے افراد کی نشاندہی کے لیے ہر علاقے میں علماء اہلسنت پر مشتمل کمیٹیوں کا قیام بھی شامل ہے لیکن سو باتوں کی ایک بات جہاں پر جو بھی پیر یا نوری علم کا عامل ہو تو اسے اس کے اپنے مسلک کے مدرسے میں کم از کم ایک سال کے لیے داخل کروایا جائے۔
اور اس کی تعلیم و تربیت کے لیے علماء کرام خصوصی نصاب بھی تیار کریں تا کہ اس کو دین کا ضروری علم دیا جاسکے ایسے ہر شخص کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی کشف المحجوب اور تصوف کی دیگر بنیادی کتب ضرور یاد کروائی جائیں ،کیونکہ علمائے اہلسنت کے نزدیک بھی پیر وہ ہی ہے جو خود بھی دین کا علم رکھتا ہو اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی ضروی مسائل سمجھا سکے ، لیکن صرف چند زبانی کلامی باتوں پر کسی پر پابندی لگادینے کے قوانین کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔
کیونکہ محکمہ اوقاف کے اپنے ٹھیکیدار مزارت پر ایسی غلط بدعات کو خود فروغ دلواتے ہیں اور ہم ایسے کئی واقعات کا عینی شاہد بھی ہیں اس لیے پہلے تو محکمہ اوقاف کا قبلہ درست کرنا ہو گا پھر آگے کی اصلاح ممکن ہو سکے گی ۔
بدعات کو رواج دینے والے یا مٹانے والے
مجدد دین ملت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ان کی وجہ سے برصغیر پاک وہند میں بدعات کو فروغ حاصل ہوا اور دین میں ایسی نئی نئی باتیں پیدا ہوئیں جن سے شارع علیہ السلام کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔۔۔ لیکن جب ہم امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی تحریروں اور خاص طور پر ان کے فتاویٰ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بدعات کو فروغ دینے کا الزام نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ سراسر ان سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔
کھلے ذہن و دماغ کے ساتھ امام اہلسنت علیہ الرحمہ کی تحریروں اور فتاویٰ کے مطالعہ سے امام اہلسنت کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ ایک ایسے داعی اور دینی رہنماکی ہے جس نے اپنے زمانے میں شدت کے ساتھ اور باضابطہ طور پر بدعات و منکرات کے خلاف تحریک چلا رکھی تھی اور اپنے مخصوص مزاج کے مطابق ان کے خلاف بڑے ہی سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔
لہذا !  ہم ان مضامین میں ان تمام غیر شرعی رسومات اور وہ خرافات جن کی نسبت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی طرف جاتی ہے‘ آپ ہی کی کتب سے اس کی رد پیش کریں گے۔ تاکہ عام مسلمانوں پر یہ واضح ہوجائے کہ ان تمام خرافات اور بدعات کا امام احمد رضا علیہ الرحمہ اور ان کے سچے مسلک اہل سنت وجماعت سے کوئی تعلق نہیں۔
ان مضامین کو پڑھنے کے بعدوہ لوگ اپنی غلط گمانی کا محاسبہ کریں نیز اندازہ لگائیں کہ انہوں نے بدعتوں کا سدباب کیا یا ان کو فروغ دیا۔ آج بھی ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کی کوشش کی جائے تو معاشرے میں نکھار آسکتا ہے۔ بدعات و منکرات کی بیخ کنی کے لئے تصنیفات امام احمد رضا علیہ الرحمہ سے ہمیں بہت کچھ مل سکتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے یہی پیغام دیا اور ہر موڑ پر اسلامی احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کے شوقِ محبت کو آگے بڑھانے کیلئے تعلیم وتربیت فرمائی۔
بدگمانی حرام ہے
القرآن : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ
ترجمہ :ایمان والو! بہت سے گمانوں سے پرہیز کرو (بچو) کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کرو اور کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھا ئے؟ اس سے تمہیں کراہت آتی ہے اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو بےشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔(سورۂ حجرات آیت 12 پارہ 26)
حدیث شریف: (برے) گمان سے دور رہو کہ (برے) گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔(صحیح بخاری‘ کتاب الادب)
حدیث شریف:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔اور کسی کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کی ٹوہ میں لگے رہو۔۔(بخاری ، جلد سوم)
بعض گمان گناہ ہیں
ایک مرتبہ امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ سے کعبہ معظمہ کو تشریف لے جارہے تھے اور ہاتھ میں صرف ایک تاملوٹ (یعنی ڈونگا) تھا۔ شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے دیکھا (تو) دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار (یعنی بوجھ) ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ وسوسہ شیطانی آنا تھا کہ امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! شفیق۔۔۔ بچو گمانوں سے (کہ) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ نام بتانے اور وسوسہ دلی پر آگاہی سے نہایت عقیدت ہوگئی اور امام کے ساتھ ہولئے۔ راستے میں ایک ٹیلے پر پہنچ کر امام صاحب نے اس سے تھوڑی ریت لے کر  تا ملوٹ (یعنی ڈونگے) میں گھول کر پی، اور شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پینے کو فرمایا۔ انہیں انکار کا چارہ نہ ہوا جب پیا تو ایسے نفیس لذیذ اور خوشبودار ستو تھے کہ عمر بھر نہ دیکھے نہ سنے (عیون الحکایات‘ حکایت نمبر 131ص 150/149)
شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ محدث بریلی علیہ الرحمہ کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی۔ نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ’’ مومنین صالحین کے رستے ‘‘ سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا، تو کیا بریلویت سنیت نہیںہے؟
مزارات اولیاء پر ہونے والے خرافات
اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اﷲ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنے مولیٰﷺ  کے مزار پر حاضر ہوکر آپﷺ  سے فیض حاصل کیا کرتے تھے۔۔۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور انشاء اﷲ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر اﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاسکے۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے (معاذ اﷲ)
اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔
کیایہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں
اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم لوگ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں۔
مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہیں آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہیں فرمایا وہ منع نہیں ہوسکتی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا اﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہیں فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے
(فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف (حضورﷺ  کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 ص 765‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریمﷺ  کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزارات پر چادر چڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں (احکام شریعت حصہ اول ص 42)
عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے؟
آپ سے جواباً ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کرام کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ (ملفوظات شریف ص 383‘ مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی)
عرس میں آتش بازی اور نیاز کا لٹانا حرام 
سوال: بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے‘ کھانے کا ایسے لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہےضیاع مال ہے اورضیاع مال حرام، روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24ص 112‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے
سوال: تقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم لکھی ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ کیونکہ خیال بدونیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے؟
جواب: رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں اور گمراہوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29ص 92‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وجد کا شرعی حکم
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں؟
آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں۔
اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کے لئے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریمﷺ  فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)(ملفوظات شریف ‘231‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی)
حرمت مزامیر
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہثت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے (فتاویٰ رضویہ جلد دہم ص 54)
نشہ و بھنگ و چرس
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلا اثر نہ ہو حرج نہیں۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہئے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کردیتی ہے۔ (احکام شریعت جلد دوم)
تصاویر کی حرمت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جاندار کی تصویریں بنانا ہاتھ سے ہو خواہ عکسی حرام ہے اور ان معبود ان کفار کی تصویریں بنانا اور سخت تر حرام و اشد کبیرہ ہے‘ ان سب لوگوں کو امام بنانا گناہ ہے اور ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی قریب الحرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص 190)

غیر اﷲ کو سجدہ تعظیمی حرام اور سجدہ عبادت کفر ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عز جلالہ (رب تعالیٰ) کے سوا کسی کے لئے نہیں غیر اﷲ کو سجدہ عبادت تو یقیناًاجماعاً شرک مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت (تعظیمی) حرام و گناہ کبیرہ بالیقین۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ‘ ص 5 مطبوعہ بریلی ہندوستان)
چراغ جلانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبروں پر چراغ جلانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو شیخ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ کی تصنیف حدیقہ ندیہ کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے (اگرچہ قبر کے قریب تلاوت قرآن کے لئے موم بتی جلانے میں حرج نہیں مگر قبر سے ہٹ کر ہو)
  (البریق المنار بشموع المزار ص 9 مطبوعہ لاہور)
اس کے بعد محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ سب اس صورت میں ہے کہ بالکل فائدے سے خالی ہو اور اگر شمع روشن کرنے میں فائدہ ہو کہ موقع قبور میں مسجد ہے یا قبور سر راہ ہیں‘ وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے تو یہ امر جائز ہے۔
 (البریق المنار بشموع المزار ص 9 مطبوعہ لاہور)
ایک اور جگہ اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں اصل یہ کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور جو کام دینی فائدے اور دنیوی نفع جائز دونوں سے خالی ہو عبث ہے اور عبث خود مکروہ ہے اور اس میں مال صرف کرنا اسراف ہے اور اسراف حرام ہے۔
قال ﷲ تعالیٰ : ولا تسرفوا ان اﷲ لا یحب المسرفین اور فضول خرچی نہ کرو،بے شک فضول خرچ اللہ کو پسند نہیں۔ 
اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا بلاشبہ محبوب شارع ہے۔
حضورﷺ  فرماتے ہیں کہ تم میں جس سے ہوسکے کہ اپنے بھائی کو نفع پہنچائے تو پہنچائے (احکام شریعت حصہ اول )
اگربتی اور لوبان جلانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبر پر لوبان وغیرہ جلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا گیا عود‘ لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز کرنا چاہئے (بچنا چاہئے) اگرچہ کسی برتن میں ہو اور قبر کے قریب سلگانا ،بلکہ یوں کہ صرف قبر کے لئے جلا کر چلا آئے تو ظاہر منع ہے اسراف (حرام) اور اضاعیت مال (مال کو ضائع کرنا ہے) میت صالح کو اس سےغرض نہیں ، اسکی قبر میں جنت سےدروازہ کھولا جاتا ہے اور بہشتی نسیمیں (جنتی ہوائیں) بہشتی پھولوں کی خوشبوئیں لاتی ہیں۔ دنیا کے اگربتی اور لوبان سے غنی ہے (السنیۃ الانیقہ ص 70 مطبوعہ بریلی ہندوستان)
فرضی مزار بنانا اور اس پر چادر چڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں سوال کیاگیا:
مسئلہ: کسی ولی کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب و لحاظ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی مرشد اپنے مریدوں کے واسطے بنانے اپنے فرضی مزار کے خواب میں اجازت دے تو وہ قول مقبول ہوگا یا نہیں؟
الجواب: فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی باتیں خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہوسکتی (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 425‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
عورتوں کا مزارات پر جانا ناجائز ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا (ملفوظات شریف ص 240‘ )
مزارات اولیاء پر خرافات
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کرام کے مزارات پر ہر سال مسلمانوں کا جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور مجالس کرنا اور اس کا ثواب ارواح طیبہ کو پہنچانا جائز ہے کہ منکرات شرعیہ مثل رقص و مزامیر وغیرھا سے خالی ہو‘ عورتوں کو قبور پر ویسے جانا چاہئے نہ کہ مجمع میں بے حجانہ اور تماشے کا میلاد کرنا اور فوٹو وغیرہ کھنچوانا یہ سب گناہ و ناجائز ہیں جو شخص ایسی باتوں کا مرتکب ہو‘ اسے امام نہ بنایا جائے (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 216‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
مزارات پر حاضری کا طریقہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب فتاویٰ رضویہ سے ملاحظہ ہو:
مسئلہ: حضرت کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بزرگوں کے مزار پر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا کریں اور فاتحہ میں کون کون سی چیز پڑھا کریں؟
الجواب: مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی قدموں کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز باادب سلام عرض کرے السلام علیک یا سیدی و رحمتہ اﷲ و برکاتہ‘ پھر درود غوثیہ‘ تین بار‘ الحمد شریف ایک‘ آیتہ الکرسی ایک بار‘ سورہ اخلاص سات بار‘ پھر درود غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورہ یٰس اور سورہ ملک بھی پڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے دعا کرے کہ الٰہی! اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے‘ نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اسے میری طرف سے اس بندہ مقبول کی نذر پہنچا۔۔۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو‘ اس کے لئے دعا کرے اور صاحب مزار کی روح کو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے‘ پھر اسی طرح سلام کرکے واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے (ادب اسی میں ہے) اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام۔ واﷲ تعالی اعلم(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 522‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب)
مردے سنتے ہیں
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
حدیث شریف: غزوہ بدر شریف میں مسلمانوں نے کفار کی نعشیں جمع کرکے ایک کنویں میں پاٹ دیں حضورﷺ  کی عادت کریمہ تھی جب کسی مقام کو فتح فرماتے تو وہاں تین دن قیام فرماتے تھے‘ یہاں سے تشریف لے جاتے وقت اس کنویں پر تشریف لے گئے جس میں کافروں کی لاشیں پڑی تھیں اور انہیں نام بنام آواز دے کر فرمایا ’’ہم نے تو پالیا جو ہم سے ہمارے رب تعالیٰ نے سچا وعدہ (یعنی نصرت کا) فرمایا تھا کیوں تم نے بھی پایا جو سچا وعدہ (یعنی نار کا) تم سے تمہارے رب تعالیٰ نے کیا تھا؟ امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے عرض کی یارسول اﷲﷺ  ! بے جان سے کلام فرماتے ہیں؟ فرمایا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں‘ اسے تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے مگر انہیں طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں (صحیح بخاری ‘ کتاب المغازی‘ حدیث 3976جلد 3‘ ص 11)
تو جب کافر تک سنتے ہیں‘ (تو پھر) مومن تو مومن ہے اور پھر اولیاء کی شان تو ارفع اعلیٰ ہے (یعنی اولیاء اﷲ کتنا سنتے ہوں گے)
(پھر فرمایا) روح ایک پرند ہے اور جسم پنجرہ۔۔۔ پرند جس وقت تک پنجرے میں ہے اور اس کی پرواز اسی قدر ہے‘ جب پنجرے سے نکل جائے اس وقت اس کی قوت پرواز دیکھئے (ملفوظات شریف ص 270‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
ایک اہم فتویٰ
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے یہ نیت کی کہ اگر میری نوکری ہوجائے تو پہلی تنخواہ زیارت پیران کلیر شریف کی نذر کروں گا‘ وہ شخص تیرہ تاریخ سے نوکر ہوا اور تنخواہ اس کی ایک مہینہ سترہ دن بعد ملی۔ اب یہ ایک ماہ کی تنخواہ صرف کرے یا سترہ دن کی؟ اور اس تنخواہ کا صرف کس طرح پر کرے یعنی زیارت شریف کی سفیدی و تعمیر وغیرہ میں لگائے یا حضرت صابر پیا صاحب علیہ الرحمہ کی روح پاک کو فاتحہ ثواب بخشے یا دونوں طرف صرف کرسکتا ہے؟
الجواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں صرف نیت سے تو کچھ لازم نہیں ہوتا جب تک زبان سے الفاظ نذر ایجاب کہے اور اگر زبان سے الفاظ مذکور کہے اور ان سے معنی صحیح مراد لئے یعنی پہلی تنخواہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر صدقہ کروں گا اور اس کا ثواب حضرت مخدوم صاحب علیہ الرحمہ کی نذر کروں گا یا پہلی تنخواہ اﷲ تعالیٰ کے لئے مخدوم صاحب علیہ الرحمہ کے آستانہ پاک کے فقیروں کو دوں گا‘ یہ نذر صحیح شرعی ہے اور استحساناً وجوب ہوگیا۔ پہلی تنخواہ اسے فقیروں پر صدقہ کرنی لازم ہوگئی مگر یہ اختیار ہے کہ آستانہ پاک کے فقیروں کو دے اور جہاں کے فقیروں محتاجوں کو چاہے اور اگر یہ معنی صحیح مراد نہ تھے بلکہ بعض بے عقل جاہلوں کی طرح بے ارادہ صدقہ وغیرہ قربات شرعیہ صرف یہی مقصود تھا کہ پہلی تنخواہ خود حضرت مخدوم صاحب کو دوں گا تو یہ نذر باطل محض و گناہ عظیم ہوگی۔
مگر مسلمان پر ایسے معنی مراد لینے کی بدگمانی جائز نہیں جب تک وہ اپنی نیت سے صراحتاً اطلاع نہ دے۔ اسی طرح اگر نذرزیارت کرنے سے اس کی یہ مراد تھی کہ اﷲ تعالیٰ کے واسطے عمارت زیارت شریف کی سفیدی کرادوں گا یا احاطہ مزار پرانوار میں روشنی کروں گا۔ جب بھی یہ نذر غیر لازم و نامعتبر ہے کہ ان افعال کی جنس سے کوئی واجب شرعی نہیں۔ رہا یہ کہ جس حالت میں نذر صحیح ہوجائے۔
پہلی تنخواہ سے کیا مراد ہوگی یہ ظاہر ہے کہ عرف میں مطلق تنخواہ خصوصا پہلی تنخواہ ایک مہینہ کی اجرت کو کہتے ہیں۔ اگرچہ اس کا ایک جز بھی تنخواہ ہے اور عمر بھر کا واجب بھی تنخواہ ہے تو پہلی تنخواہ کہنے سے اول تنخواہ ایک ماہ ہی عرفا لازم آئے گی۔
کیونکہ کسے عقد والے‘ قسم والے‘ نذر والے اور وقف کرنے والے کے کلام کو متعارف معنی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ اس پر نص کی گئی ہے (رد المحتار‘ باب التعلیق‘ داراحیاء التراث العربی بیروت جلد 2ص 533,499)(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 13 ص591‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
وفات کے موقع پر بے ہودہ رسومات
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ باقی جو بے ہودہ باتیں لوگوں نے نکالی ہیں مثلا اس میں شادی کے سے تکلف کرنا‘ عمدہ عمدہ فرش بچھانا‘ یہ باتیں بے جا ہیں اور اگر یہ سمجھتا ہے کہ ثواب تیسرے دن پہنچتا ہے‘ یا اس دن زیادہ پہنچے گا اور روز کم‘ تو یہ عقیدہ بھی اس کا غلط ہے۔ اسی طرح چنوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ چنے بانٹنے کے سبب کوئی برائی پیدا ہو (الحجتہ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ‘ ص 14 مطبوعہ لاہور)
میت کے گھر مہمان داری
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے گھر انتقال کے دن یا بعد عورتوں اور مردوں کا جمع ہوکر کھانا پینا اور میت کے گھر والوں کو زیر بار کرنا سخت منع ہے (جلی الصوت لنہی الدعوت امام الموت‘ مطبوعہ بریلی شریف ہندوستان)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے اپنی موت اپنی حیات میں کردی ہے تو اس صورت میں ہندہ کو کب تک دوسرے کے یہاں کی میت کا کھانا نہیں چاہئے اور اگر ہندہ کے گھر میں کوئی مرجائے تو اس کا بھی کھانا جائز ہے اور کب تک یعنی برس تک یا چالیس دن تک۔ اور اگر ہندہ نے شروع سے جمعرات کی فاتحہ نہ دلائی ہو تو چالیس دن کے بعد سات جمعرات کی فاتحہ دلانا چاہے‘ ہوسکتی ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے‘ اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت ہے‘ اور بغیر دعوت کے جمعراتوں‘ چالیسویں‘ چھ ماہی ‘ برسی میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے‘ وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے مگر اس کا کھانا منع ہے۔ بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائے اور فقیر کو تو کچھ مضائقہ نہیں کہ وہی اس کے مستحق ہیں اور ان سب احکام میں وہ جس نے اپنی موت اپنی حیات میں کردی اور جس نے نہ کی سب کے سب برابر ہیں اور اپنی یہاں موت ہوجائے تو اپنا کھانا کھانے کی کسی کو ممانعت نہیں اور چالیس دن کے بعد بھی جمعراتیں ہوسکتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے فقیروں کو جب اور جو کچھ دے ثواب ہے (واﷲ تعالیٰ اعلم)
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 673‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب)
ایصال ثواب سنت ہے اور موت میں ضیافت ممنوع
فتح القدیر وغیرہ میں ہے اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بدعت شنیعہ ہے۔ امام احمد اور ابن ماجہ بسند صحیح حضرت جرید بن عبداﷲ بجلی رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں ہم گروہ صحابہ اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے (فتح القدیر‘ فصل فی الدفن مکتبہ نوریہ رضویہ‘ سکھر 103/2)(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 604‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب)
سوئم کے چنے کون تناول کرسکتا ہے؟
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے سوئم کے چنوں اور طعام میت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ چیزیں غنی نہ لے‘ فقیر لے اور وہ جو‘ان کامنتظر رہتا ہے‘ ان کے نہ ملنے سے نا خوش ہوتا ہے اس کا قلب سیاہ ہوتا ہے‘ مشرک یا چمار کو اس کا دینا گناہ گناہ گناہ ہے جبکہ فقیر لے کر خود کھائے اور غنی لے ہی نہیں اور لے لئے ہوں تو مسلمان فقیر کو دے دے۔ یہ حکم عام فاتحہ کا ہے نیاز اولیاء کرام طعام موت نہیں وہ تبرک ہے فقیر وغنی سب لیں جبکہ مانی ہوئی نذر بطور نذر شرعی نہ ہو۔ شرعی نذر پھر غیر فقیر کو جائز نہیں (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم)
ایک اور جگہ یوں فرمایا میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت ہے اور بغیر دعوت کے جمعراتوں‘ چالیسویں ‘ چھ ماہی‘ برسی میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے مگر اس کا کھانا منع نہیں بہتر ہے کہ غنی نہ کھائے (فتاویٰ رضویہ)
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی وصیت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے یہ وصیت فرمائی کہ ہماری فاتحہ کا کھانا صرف فقراء کو کھلایا جائے (وصایا شریف)

میت پرپھولوں کی چادر ڈالنا کیسا؟
سوال: ہمارے یہاں میت ہوگئی تھی تو اس کے کفنانے کے بعد پھولوں کی چادر ڈالی گئی اس کو ایک پیش امام افغانی نے اتار ڈالا اور کہا یہ بدعت ہے‘ ہم نہ ڈالنے دیں گے؟
الجواب: پھولوں کی چادر بالائے کفن ڈالنے میں شرعاً اصلاً حرج نہیں بلکہ نیت حسن سے حسن ہے جیسے قبورپر پھول ڈالنا کہ وہ جب تک تر رہیں گے تسبیح کرتے ہیں اس سے میت کا دل بہلتا ہے اور رحمت اترتی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے قبروں پر گلاب اور پھولوں کا رکھنا اچھا ہے (فتاویٰ ہندیہ‘ الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور‘ جلد 5ص 351‘ مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور)
فتاویٰ امام قاضی خان و امداد الفتاح شرح المصنف لمراقی الفلاح و رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: پھول جب تک تر رہے تسبیح کرتا رہتا ہے جس سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذکر سے رحمت نازل ہوتی ہے (رد المحتار‘ مطلب فی وضع الجدید و نحو الآس علی القبور‘ جلد اول ص 606 مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر)(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9 ص 105‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ لاہور)
جنازہ پر چادر ڈالنا کیسا؟
سوال: جنازہ کے اوپر جو چادر نئی ڈالی جاتی ہے اگر پرانی ڈالی جائے تو جائز ہے یا نہیں؟ اگر کل برادری کے مردوں کے اوپر ایک ہی چادر بنا کر ڈالتے رہا کریں تو جائز ہے یا نہیں؟ اس کی قیمت مردہ کے گھر سے یعنی قلیل قیمت لے کر مقبرہ قبرستان یا مدرسہ میں لگانی جائز ہے یا نہیں؟ اور چادر مذکور اونی یا سوتی بیش قیمت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چادر نئی ہو یاپرانی‘یکساں ہے ہاں مسکین پر تصدق (صدقے) کی نیت ہو تو نئی اولیٰ‘ اور اگر ایک ہی چادر معین رکھیں کہ ہر جنازے پر وہی ڈالی جائے پھر رکھ چھوڑی جائے اس میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اس کے لئے کپڑا وقف کرسکتے ہیں۔ در مختار میں ہے۔ہنڈیا‘ جنازہ اور اس کے کپڑے کا وقف صحیح ہے (درمختار‘ کتاب الوقف‘ جلد اول ص 380‘ مطبوعہ دہلی)
طحطاوی و ردالمحتار میں ہے: جنازہ کسرہ کے ساتھ چارپائی اور اس کے کپڑے جن سے میت کو ڈھانپا جائے (ردالمحتار کتاب الوقف‘ جلد 3 ص 375 مطبوعہ بیروت)
اور بیش قیمت بنظر زینت مکروہ ہے کہ میت محل تزئین نہیں اور خالص بہ نیت تصدق (صدقہ) میں حرج نہیں جیسا کہ ہدی (قربانی) کے جانور کے جھل (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 16ص 123‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
گیارہویں شریف کا انعقاد
سوال: گیارہویں شریف کے لئے آپ کیا فرماتے ہیں۔ گیارہویں شریف کے روز فاتحہ دلانے سے ثواب زیادہ ہوتا ہے یا آڑے دن فاتحہ دلانے سے‘ بزرگوں کے دن کی یادگاری کیلئے دن مقرر کرنا کیسا ہے؟
جواب: محبوبان خدا کی یادگاری کے لئے دن مقرر کرنا بے شک جائز ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضور کریمﷺ ہر سال کے اختتام پر شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لاتے تھے (جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ 24/13‘ داراحیاء التراث العربی بیروت 170/13)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایسی حدیث کو اعراس اولیائے کرام کے لئے مستند مانا اور شاہ ولی اﷲ صاحب علیہ الرحمہ نے کہا: مشائخ کے عرس منانا اس حدیث سے ثابت ہے (ہمعات ‘ ہمعہ 11 مطبوعہ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی‘ حیدرآباد سندھ ص58)
وقت دفن اذان کہنا کیسا؟
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ وقت دفن اذان کیوں کہی جاتی ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان کو دور کرنے کے لئے کیونکہ حدیث شریف میں ہے اذان جب ہوتی ہے تو شیطان36 میل دور بھاگ جاتا ہے۔ الفاظ حدیث میں یہ ہیں کہ ’’روحا‘‘ تک بھاگتا ہے اور روحا مدینہ منورہ سے 36 میل دور ہے (صحیح مسلم شریف‘ کتاب الصلوٰۃ حدیث 388-389‘ ص 204)(ملفوظات شریف ص 526‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
سوال: قبر پر اذان کہنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں قبر پر اذان کہنے میں میت کا دل بہلتا اور اس پر رحمت الٰہی کا اترنا اور سوال جواب کے وقت شیطان کا دور ہونا‘ اور ان کے سوا اور بہت فائدے ہیں جن کی تفصیل ہمارے رسالے ’’ایذان لاجرفی اذان القبر‘‘ میں ہے)(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 23‘ ص 374‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ایصال ثواب
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ فاتحہ‘ ایصال ثواب کا نام ہے اور مومن عمل نیک کا ایک ثواب اس کی نیت کرتے ہی حاصل اور کئے پر دس ہوجاتا ہے (الحجۃ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ ص 14‘ مطبوعہ لاہور)
رہا کھانا دینے کا ثواب وہ اگرچہ اس وقت موجود نہیں تو کیا ثواب پہنچانا شاید ڈاک یا پارسل میں کسی چیز کا بھیجنا سمجھا ہوگا کہ جب تک وہ شے موجود نہ ہو‘ کیا بھیجی جائے؟
حالانکہ اس کا طریقہ صرف جناب باری میں دعا کرنا ہے کہ وہ ثواب میت کو پہنچائے۔ اگر کسی کا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک کھانا سامنے نہ کیا جائے گا ثواب نہ پہنچے گا تو یہ گمان اس کا محض غلط ہے (الحجۃ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ ص 14‘ مطبوعہ لاہور)
ایک سوال کے جواب میں کہ زید اپنی زندگی میں خود اپنے لئے ایصال ثواب کرسکتا ہے یا نہیں؟
ارشاد فرماتے ہیں ہاں کرسکتا ہے‘ محتاجوں کو چھپا کر دے یہ جو عام رواج ہے کہ کھانا پکایا جاتا ہے اور تمام اغنیاء و برادری کی دعوت ہوتی ہے‘ ایسا نہ کرنا چاہئے (ملفوظات شریف ص 48‘ حصہ سوم ‘ مطبوعہ مسلم یونیورسٹی پریس علی گڑھ ہندوستان)

قرآن خوانی کی اجرت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے قرآن خوانی کے لئے اجرت لینے اور دینے کو ناجائز قرار دیا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم میں 318 مطبوعہ مبارکپور ہندوستان)
شب برأت اور شادی میں آتش بازی
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے‘ بے شک حرام اور پورا حرام ہے۔ اسی طرح یہ گانے باجے کہ ان بلاد میں معمول و رائج ہیں بلاشبہ ممنوع و ناجائز ہیں۔ جس شادی میں اس طرح کی حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس میں ہرگز شریک نہ ہوں۔ اگر نادانستہ شریک ہوگئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں یا ان لوگوں کا ارادہ معلوم ہو‘ سب مسلمان مرد‘ عورتوں پر لازم ہے فورا اسی وقت (محفل سے) اٹھ جائیں (ہادی الناس ص 3)
نسب پر فخر کرنا جائز نہیں ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
1۔ نسب پر فخرکرنا جائز نہیں ہے
2۔ نسب کے سبب اپنے آپ کو بڑا جاننا تکبر کرنا جائز نہیں
3۔ دوسروں کے نسب پر طعن جائز نہیں
4۔ انہیں کم نسبی کے سبب حقیر جاننا جائز نہیں
5۔ نسب کو کسی کے حق عار یا گالی سمجھنا جائز نہیں
6۔ اس کے سبب کسی مسلمان کادل دکھانا جائز نہیں
7۔ احادیث جو اس بارے میں آئیں‘ انہیں معافی کی طرف ناظر ہیں کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت شرعی ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو‘ اسے ایذا پہنچے‘ شرعاً ناجائز و حرام ہے اگرچہ بات فی نفسہ سچی ہو (ارادۃ الادب لفاضل النسب ص 3)
پیرومرشد اور مریدہ کے درمیان پردہ
بعض خانقاہوں میں پیر صاحب اپنے مرید اور مریدنیوں کو بے پردہ اپنے سامنے بٹھاتے ہیں۔ بے تکلفی کے ساتھ گفتگو‘ ہنسی مذاق کرتے ہیں اور بعض تو معاذ اﷲ اپنی مریدنیوں سے ہاتھ بھی ملاتے ہیں اور مریدنیوں کی پیٹھ پر ہاتھ بھی مارتے ہیں مگر اس ناجائز فعل کے متعلق سنیوں کے امام‘ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک ہر غیر محرم سے پردہ فرض ہے جس کا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے بے شک پیر مریدہ کا محرم نہیں ہوجاتا۔ حضورﷺ سے بڑھ کر اُمتّ کا پیر کون ہوگا؟ وہ یقیناًابو الروح ہوتا ہے اگر پیر ہونے سے آدمی محرم ہوجایا کرتا تو چاہئے تھا کہ نبی سے اس کی اُمتّ سے کسی عورت کا نکاح نہ ہوسکتا (مسائل سماع‘ مطبوعہ لاہور ص 32)
جعلی عاملوں کا فال کھولنا
جگہ جگہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر جعلی عاملوں کا ایک گروہ سرگرم عمل ہے‘ جوالٹے سیدھے فال نامے نکال کر عوام کے عقائد کو متزلزل کرتے ہیں‘ سادہ لوح مسلمانوں کی جیبیں خالی کروائی جاتی ہیں پھر یہ سب اہلسنت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے مگر اہلسنت کے امام اپنی کتاب میں مسلمانوں کی اصلاح اس طرح فرماتے ہیں۔
سوال: فال کیا ہے؟ جائز ہے یا نہیں؟سعدی و حافظ وغیرہ کے فالنامے صحیح ہیں یا نہیں؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں فال ایک قسم کا استخارہ ہے‘ استخارہ کی اصل کتب احادیث میں بکثرت موجود ہے‘ مگر یہ فالنامے جو عوام میں مشہور اور اکابر کی طرف منسوب ہیں بے اصل و باطل ہیں اور قرآن عظیم سے فال کھولنا منع ہے اور دیوان حافظ وغیرہ سے بطور تفاؤل جائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 23ص 327‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اﷲ تعالیٰ کا علمِ غیب ذاتی اور حضورﷺ  کا علمِ غیب عطائی ہے
پہلا فتویٰ:کیا اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوبﷺ  کا علم برابر ہے؟ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ہم اہلسنت کا مسئلہ علم غیب میں یہ عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضورﷺ کو علم غیب عنایت فرمایا خود رب جل جلالہ فرماتا ہے:
القرآن: وَمَاْ ہُوَ عَلَیْ اْلغَیْبِ بِضَنِیْنَترجمہ: یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں (سورہ تکویر آیت 24 پارہ 30)
تفسیر معالم التنزیل اور تفسیر خازن میں ہے یعنی حضورﷺ  کو علم غیب آتا ہے وہ تمہیں بھی تعلیم فرماتے ہیں (تفسیر خازن‘ سورہ تکویر تحت الایۃ 24‘ جلد 4ص 357)
اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ  کا علم برابر تو درکنار‘ میں نے اپنی کتابوں میں تصریح کردی ہے کہ اگر تمام اولین و آخرین کا علم جمع کیا جائے تو اس علم کو علم الٰہی جل جلالہ سے وہ نسبت ہرگز نہیں ہوسکتی جو ایک قطرے کے کروڑہویں حصے کو کروڑ سمندر سے ہے کہ یہ نسبت متناہی کی متناہی (یعنی محدود) کے ساتھ ہے اور وہ غیر متناہی (یعنی لامحدود) متناہی کو غیر متناہی سے کیا نسبت ہے۔(ملفوظات شریف‘ ص 93‘ تخریج شدہ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ‘ کراچی)        دوسرا فتویٰ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علم غیب ذاتی کہ اپنی ذات سے ہیبے کسی کے دیئے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ ان آیتوں میں یہی معنی مراد ہیں کہ بے خدا کے دیئے کوئی نہیں جان سکتا اور اﷲ تعالیٰ کے بتائے سے انبیاء کرام کو معلوم ہونا ضروریات دین سے ہے۔ قرآن مجید کی بہت آیتیں اس کے ثبوت میں ہیں (فتاویٰ رضویہ)۔
تیسرا فتویٰ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ غیب کا علم اﷲ تعالیٰ کو ہے‘ پھر اس کی عطا سے اس کے حبیبﷺ کو ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 27 میں 233‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
جاہل پیر کا مرید ہونا
موجودہ دور میں ہر جانب جاہل پیروں اور جعلی صوفیوں کا ڈیرہ ہے‘ نادان لوگ ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنا مال ان پر لٹاتے ہیں پھر جب ہوش آتا ہے تو چیخ اٹھتے ہیں کہ پیر صاحب نے ہمیں لوٹ لیا۔ ہمارا مال کھالیا۔ ہماری عزت پامال کردی۔ اسی لئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے جاہل فقیر و پیر سے بیعت کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ ہمیشہ سنی صحیح العقیدہ عالم اور پابند شریعت پیر سے بیعت کی جائے چنانچہ :امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے (ملفوظات شریف ص 297‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
بیعت کے چار شرائط ہیں
بیعت اس شخص سے کرنا چاہئے جس میں چار باتیں ہوں ورنہ بیعت جائز نہ ہوگی۔
1۔ سنی صحیح العقیدہ ہو
2۔ کم از کم اتنا علم ضروری ہے کہ بلا کسی کی امداد کے اپنی ضرورت کے مسائل کتاب سے خود نکال سکے
3۔ اس کا سلسلہ حضورﷺ تک متصل (یعنی ملا ہوا) ہو‘ منقطع (یعنی ٹوٹا ہوا) نہ ہو
4۔ فاسق معلن نہ ہو
تانبے اور پیتل کے تعویذ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ تانبے‘ پیتل کے تعویذوں کا کیا حکم ہے؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ تانبے اور پیتل کے تعویذ مرد و عورت دونوں کو مکروہ اور سونے چاندی تعویذ کے مرد کو حرام‘ عورت کو جائز ہیں (ملفوظات شریف ص 328‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
امام ضامن کا پیسہ
آج کل ایک رواج چل پڑا ہے کہ جب بھی کوئی شخص سفر میں جاتاہے یا کسی کی جان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے‘ تو عورتیں اس کے بازو پر ایک سکہ کپڑے میں لپیٹ کر باندھ دیتی ہیں اور اس کا نام ’’امام ضامن‘‘ رکھا گیا ہے جوکہ بالکل خود ساختہ کام ہے نہ اس کی کوئی اصل ہے نہ کہیں اس کا حکم دیا گیاہے۔ بعض بدلگام لوگ اس کو بھی اہلسنت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بریلویوں کے امام کا کام ہے حالانکہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کا اس کام سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ کیا امام ضامن کا جو پیسہ باندھا جاتا ہے‘ اس کی کوئی اصل ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ کچھ نہیں (ملفوظات شریف ص 328‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
غیر اﷲ سے استغاثہ اور مدد کے متعلق عقیدہ
غیر اﷲ سے استغاثہ اور مدد کے متعلق مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضورﷺ اور اولیاء کرام رحمہم اﷲ کو معبود مان کر ان سے مدد مانگتے ہیں جوکہ کھلا بہتان ہے۔ مسلمانان اہلسنت بزرگان دین کو اﷲ تعالیٰ کی صفات کا مظہر جان کر ان سے مدد مانگتے ہیں۔ اس معاملے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کو خوب بدنام کیا جاتا ہے اور معاذ اﷲ مشرک اور بدعتی تک کہا اور مشہور کیا جاتا ہے۔ اے کاش! ایسے لوگ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تو ایسی بدگمانی نہ پھیلاتے۔ اب اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں۔
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں:
حضورﷺ  اور اولیاء کرام سے استغاثہ اور استعانت مشروط طور پر جائز ہے جبکہ انہیں اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور اس کی بارگاہ میں وسیلہ جانے اور انہیں ’’باذن الٰہی والمدبرات امراء‘‘ سے مانے اور اعتماد کرلے کہ بے حکم خدا تعالیٰ ذرہ نہیں ہل سکتا اور اﷲ تعالیٰ کے دیئے بغیر کوئی ایک حصہ نہیں دے سکتا۔ ایک حرف نہیں سن سکتا۔ پلک نہیں ہلا سکتا اور بے شک سب مسلمانوں کا یہی اعتقاد ہے (احکام شریعت حصہ اول ص 4 ‘ مطبوعہ آگرہ ہندوستان)
فرائض کو چھوڑ کر نفل بجالانا
وقت کے امام پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس اُمتّ کو مستحبات اور نوافل میں لگادیا۔ فرائض کی اہمیت کو فراموش کیا گیا حالانکہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے فتاوے اور ان کی کتابوں کا اگر کوئی تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کرے تو وہ بے ساختہ بول اٹھے گا کہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ اسلامی عقائد کے ترجمان تھے چنانچہ:
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ابو محمد عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ نے اپنی کتاب مستطاب فتوح الغیب میں کیا کیاجگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لئے ارشاد فرمائی ہیں جو فرض چھوڑ کر نفل بجالائے۔ اس کتاب میں فرمایا کہ اگر فرائض کی ادائیگی سے قبل سنن و نوافل میں مشغول ہو تو سنن و نوافل قبول نہیں ہوتیں بلکہ موجب اہانت ہوتی ہیں (اعزا لا کتناہ فی صدقۃ مانع الزکوٰۃ مطبوعہ بریلی ص 11-10)
طریقت کی اصل تعریف
جاہل لوگوں نے مسلک اہلسنت کو بدنام کرنے کے لئے جہالت کا نام طریقت رکھ دیا‘ چرس‘ بھنگ‘ ناچ گانے‘ سٹے کے نمبر بتانے والوں اور جعلی عاملوں کا نام طریقت رکھ دیا اور معاذ اﷲ یہ بہتان اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ پر لگایا جاتا ہے کہ یہ انہوں نے سکھایا ہے۔ امام اہلسنت کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت سامنے آجاتی ہے چنانچہ:
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ طریقت نام ہے ’’وصول الی اﷲ کا‘‘ محض جنون و جہالت ہے دو حرف پڑھا ہوا جانتا ہے طریق طریقہ طریقت راہ کو کہتے ہیں نہ کہ پہنچ جانے کو۔ تو یقیناًطریقت بھی راہ ہی کا نام ہے۔ اب اگر وہ شریعت سے جدا ہو تو بشارت قرآن عظیم خدا تعالیٰ تک نہ پہنچائے گی بلکہ شیطان تک لے جائے گی‘ جنت میں نہ لے جائے گی بلکہ جہنم میں کہ شریعت کے سوا سب راہوں کو قرآن عظیم باطل و مردود فرماچکا (مقال العفاء باعزاز شرع و علماء مطبوعہ کراچی ص7)
جشن ولادت کا چراغاں
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ میلاد شریف میں جھاڑ (یعنی پنج شاخہ مشعل) فانوس‘ فروش وغیرہ سے زیب و زینت اسراف ہے یا نہیں؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ علماء فرماتے ہیں یعنی اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں (ملخصا‘ تفسیر کشاف‘ سوؤ فرقان تحت الایۃ 67 جلد سوم ص 293)
جس شے سے تعظیم ذکر شریف مقصود ہو ہرگز ممنوع نہیں ہوسکتی
(ملفوظات شریف ص 174 مطبوعہ مجلس المدینۃ العلمیہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی)
امام غزالی علیہ الرحمہ نے احیاء العلوم میں حضرت سید ابو علی رودباری علیہ الرحمہ سے نقل کیا کہ ایک بندہ صالح نے مجلس ذکر شریف ترتیب دی ہے اور اس میں ایک ہزار شمعیں روشن کیں۔ ایک شخص ظاہر بین پہنچے اور یہ کیفیت دیکھ کر واپس جانے لگے۔ بانی مجلس نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے جاکر فرمایا کہ جو شمع میں نے غیر خدا کے لئے روشن کی وہ بجھا دیجئے۔ کوشش کی جاتی تھیں اور کوئی شمع ٹھنڈی نہ ہوتی (احیاء علوم الدین‘ الجز الثانی‘ کتاب آداب الاکل ص 26)
جناب رسالت مآبﷺ  کو ادب کے ساتھ پکارنا
ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ جناب رسالت مآبﷺ  کو آپ کے ذاتی نام محمد ﷺ  سے نہ پکارا جائے اور نہ ہی نعت شریف میں پڑھا جائے بلکہ یا رسول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ‘ یا نبی اﷲ اور یا رحمتہ للعالمینﷺ  کہہ کر ندا دی جائے۔
جہاں کہیں مساجد میں‘ محرابوں میں‘ پوسٹروں اور بینروں میں بھی ’’یامحمدﷺ  کی جگہ یارسول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ یا نبی اﷲ اور یارحمۃ للعالمینﷺ  ہی تحریر کیا جائے تاکہ حضورﷺ  کا ادب و احترام ملحوظ رہے۔
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
قرآن مجید کی آیت ہے کہ رسول کا پکارنا اپنے میں ایسا نہ ٹہرالو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو‘ اب ایک دوسرے میں باپ اور مولا اور بادشاہ سب آگئے۔ اسی لئے علماء فرماتے ہیں نام پاک لے کر ندا کرنا حرام ہے۔ اگر روایت میں مثلا یا محمدﷺ آیا ہو تو اس کی جگہ بھی یارسول اﷲﷺ کہے۔ اس مسئلہ کا بیان امام اہلسنت علیہ الرحمہ کا رسالہ ’’تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین‘‘ میں دیکھئے
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 15 ص 171 ‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
مرد کا بال بڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ اکثر بال بڑھانے والے لوگ حضرت گیسو دراز کو دلیل لاتے ہیں۔
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ جہالت ہے۔ حضورﷺ  نے بکثرت احادیث صحیحہ میں ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں سے مشابہت پیدا کریں اور عورتوں پر جو مردوں سے (صحیح بخاری‘ کتاب اللباس حدیث 5885 ص 4)
اور تشبہ کے لئے ہر بات میں پوری وضع بنانا ضروری نہیں (صرف) ایک ہی بات میں مشابہت کافی ہے (ملفوظات شریف ص 297‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
مرد کو چوٹی رکھنا حرام ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض فقیر رکھتے ہیں۔
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ حرام ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں (مسند احمد بن حنبل‘ حدیث 3151‘ جلد اول ص 727)
(ملفوظات شریف ص 281‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی)
اﷲ تعالیٰ کو عاشق اور حضورﷺ  کو معشوق کہنا ناجائز ہے؟
سوال: اﷲ تعالیٰ کو عاشق اور حضورﷺ  کو اس کا معشوق کہنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ناجائز ہے کہ معنی عشق اﷲ تعالیٰ کے حق میں محال قطعی ہیں اور ایسا لفظ بے ورود ثبوت شرعی اﷲ تعالیٰ کی شان میں بولنا ممنوع قطعی (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 21 ص 114 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و گناہ ہے
سوال: کیا حکم شرع شریف کا اس بارے میں کہ مدینہ شریف کو ’’یثرب‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں؟ جو شخص یہ لفظ کہے اس کی نسبت کیا حکم ہے؟جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہ گار
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے‘ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے (اسے امام احمد نے بسند صحیح براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا)(مسند امام احمد بن حنبل‘ المکتب الاسلامی بیروت 285/4)فتاویٰ رضویہ جدید جلد 21 ص 116‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مدینہ منورۃ مکۃ المکرمہ سے بھی افضل ہے
سوال: حضورﷺ  کا مزار اقدس بلکہ مدینہ طیبہ عرش وکرسی و کعبہ شریف سے افضل ہے یا نہیں؟
الجواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں تربت اطہر یعنی وہ زمین کہ جسم انور سے متصل ہے کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے (مسلک متقسط مع ارشاد الساری‘ باب زیارۃ سید المرسلینﷺ‘ ص 336‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت)
باقی مزار شریف کا بالائی حصہ اس میں داخل نہیں کہ کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے ہاں اس میں اختلاف ہے کہ مدینہ طیبہ سوائے موضع تربت اطہر اور مکہ معظمہ سوائے کعبہ مکرمہ ان دونوں میں کون افضل ہے‘ اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلک اول اور یہی مذہب فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ہے۔طبرانی شریف کی حدیث شریف میں تصریح ہے کہ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے افضل ہے (المعجم الکبیر للطبرانی‘ حدیث 4450‘ جلد 4ص 288‘ مطبوعہ المکتبہ الفیصلیہ بیروت)(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 ص 711‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب)
حرام مال پر نیاز دینا وبال ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو شخص حرام مال پر نیاز دیتا ہے اور کہتا ہے کہ حضورﷺ  قبول فرمالیتے ہیں اس شخص کا یہ قول غلط صریح و باطل قبیح اور حضورﷺ  پر افترائے فضیح ہے۔
 مال حرام قابل قبول نہیں‘ نہ اسے راہ خدا میں صرف کرنا روا‘ نہ اس پر ثواب ہے بلکہ نرا وبال ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 21 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور ص 105)
جاہلانہ رسم
سوال: یہ جو بعض جہلاء غرض ڈورے کیا کرتے ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ خاتون جنت ہر کسی گھر ماہ ساون بھادوں میں جایا کرتی اور ایک ایک ڈورا ان کے کان میں باندھ کر یہ کہا کرتیں کہ پوریاں پکا کر فاتحہ دلا کر لانا ‘ اس کی کچھ سند ہے یا واہیات ہے؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ ڈوروں کی رسم محض بے اصل و مردود ہے اور حضرت خاتون جنت کی طرف اس کی نسبت محض جھوٹ برا افتراء ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 23ص 272 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ماہ صفر المظفر منحوس نہیں
عوام میں بیماری پھیلی ہوئی ہے کہ ماہ صفر المظفر منحوس ہے اس میں بلائیں اترتی ہیں‘ اس ماہ میں کوئی خوشی کی تقریب منعقد نہ کی جائے خصوصا شروع ماہ کی تیرہ تاریخوں میں اور آخری تاریخوں میں۔۔۔
سوال: اکثر لوگ 3‘ 13 یا 23‘ 8‘ 18‘ 28 وغیرہ تواریخ اور پنج شنبہ و یکشنبہ و چہارشنبہ وغیرہ ایام کو شادی وغیرہ نہیں کرتے۔ اعتقاد یہ ہے کہ سخت نقصان پہنچے گا ان کا کیا حکم ہے؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ سب باطل و بے اصل ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 23ص 272‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
آخری بدھ کی شرعی حیثیت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ماہ صفر المظفر کی آخری بدھ کی کوئی اصل نہیں۔ نہ اس دن حضورﷺ کی صحت یابی کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وصال شریف ہوا‘ اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے اور ایک حدیث مرفوع میں آیا ہے ابتلائے ایوب علیہ السلام اسی دن تھی (فتاویٰ رضویہ جلد 10ص 117)
یزید کیلئے مغفرت والی نماز کی روایت بے اصل ہے
سوال: بعد سلام مسنون معروض خدمت ہوں کہ نماز غفیرا کی بابت میں ذکر الشہادتیں دیکھا ہے کہ حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے یزید کے واسطے مغفرت کی بتائی تھی مجھے اس نماز کی تلاش ہے‘ میں پڑھنا چاہتی ہوں براہ مہربانی اس مسئلہ پر التفات مبذول فرما کر ترتیب نماز سے اطلاع دیجئے؟
جواب: وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ و برکاتہ۔ یہ روایت محض بے اصل ہے۔ حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ سے کوئی نماز یزید پلید کی مغفرت کے لئے اس کو تعلیم نہ فرمائی۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 28‘ص 52‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوجاتا ہے
اللہ کی ناخوشی کی راہو ں سے اپنا دل خوش نہ کرو، اگر دل میں حرام خوشی درآمد ہوگئی تو رو رو کے اﷲ کو منالو، توبہ کا جلاّب لے لو، سب گناہ معاف ہو جائیں گے ان شاء اللہ تعا لیٰ،اللہ کے خوف کے آنسوؤں سے، ندامت سے، توبہ سے بالکل صاف ہو جاؤ گے جیسے کہ گناہ ہوا ہی نہیں۔ حدیث میں ہے اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ کہ گنا ہ سے توبہ کرنے والا اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے کہ گناہ کیا ہی نہیں۔ اور اللہ کا حبیب بھی ہو جاتا ہے، عجیب معاملہ ہے، دنیا والے معاف کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ معاف توکر دیا لیکن اب تمہیں دوست نہیں بناؤں گا، اب تم کبھی میرے سامنے نہ آنا، تم کو دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے گناہ گارو، اگر تم توبہ کرلو تو میں تمہاری توبہ قبول کروں گا، اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ  اور تم سے محبت بھی کروں گا، تمہیں اپنا محبوب بھی بنالوں گا، پیارا بھی بنالو ں گا۔
 نگاہوں کی حفاظت کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں دیا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ
ترجمہ: اے نبی! آپ ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی بعض نگاہوں کی حفاظت کریں۔ 
یعنی نا محرم لڑکیوں اور عورتوں کو نہ دیکھیں۔ اسی طرح بے داڑھی مونچھ والے لڑکوں کو نہ دیکھیں یا اگر داڑھی مونچھ آبھی گئی ہے لیکن ان کی طرف میلان ہوتا ہے تو ان کی طرف بھی دیکھنا حرام ہے۔غرض اس کا معیار یہ ہے کہ جن شکلوں کی طرف دیکھنے سے نفس کو حرام مزہ آئے ایسی شکلوں کی طرف دیکھنا حرام ہے ۔حفاظتِ نظر اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں عورتوں کو الگ حکم دیا یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں،جبکہ نمازروزہ اور دوسرے احکام میں عورتوں کو الگ سے حکم نہیں دیا گیا بلکہ مردوں کو حکم
 دیا گیا اور عورتیں تابع ہونے کی حیثیت سے ان احکام میں شامل ہیں۔ 
اور بخاری شریف کی حدیث ہے:
زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ 
ترجمہ: آنکھوں کا زنا ہے نظر بازی۔ 
نظر باز اور زنا کار اللہ کی ولایت کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا جب تک کہ اس فعل سے سچی تو بہ نہ کرے۔اور مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے:
لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ
ترجمہ:اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے بد نظری کرنے والے پراو رجو خود کو بد نظری کے لیے پیش کرے۔ 
پس ناظر اور منظور دونوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی بددُعا فرمائی ہے۔ بزرگوں کی بددعا سے ڈرنے والےسیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے ڈریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے صدقے ہی میں بزرگی ملتی ہے ۔ لہٰذا اگر کسی حسین پر نظر پڑجائے تو فوراً ہٹا لو ایک لمحہ کو اس پر نہ رُکنے دو۔ پس قرآنِ پاک کی مندرجہ بالا آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بد نظری کرنے والے کو تین بُرے القاب ملتے ہیں:
۱)...اللہ و رسول کا نا فرمان ۲)...آنکھوں کا زنا کار ۳)...ملعون

قلب کی حفاظت کرنا 
نظر کی حفاظت کے ساتھ دل کی بھی حفاظت ضروری ہے ۔ بعض لوگ نگاہِ چشمی کی تو حفاظت کر لیتے ہیں لیکن نگاہِ قلبی کی حفاظت نہیں کرتے یعنی آنکھوں کی تو حفاظت کر لیتے ہیں لیکن دل کی نگاہ کی حفاظت نہیں کرتے اور دل میں حسین شکلوں کا خیال لا کر حرام مزہ لیتے ہیں خوب سمجھ لیں کہ یہ بھی حرام ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 
یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کی چوری کو او رتمہارے دلوں کے رازوں کو خوب جانتاہے۔ 
ماضی کے گناہوں کے خیالات کا آنا بُرا نہیں لانا بُرا ہے۔ اگر گندا خیال آجائے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں لیکن خیال آنے کے بعد اس میں مشغول ہوجانا یا پرانے گناہوں کو یاد کر کے اس سے مزہ لینا یا آئندہ گناہوں کی اسکیمیں بنانا یا حسینوں کا خیال دل میں لانا یہ سب حرام ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائیں اور ان حرام کاموں سے بچائیں جس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ تمام گناہوں سے بچنا آسان ہوجائے گا

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں