10 اگست, 2017

جہیز کی شرعی حیثیت، Jahaiz ki Shariee Haisiat


مرد بکتے ہیں اس بازار میں
 جہیز کا لفظ کہاں سے لیا گیا
وَ لَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِم           (سورۃیوسف:۵۹)
جب(یوسف علیہ السلام کے کارندوں نے ) برادرانِ یوسف علیہ السلام کا(واپسی کا) سامان(سفر) تیار کر دیا۔
جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنْ اللَّيْلِ  (صحیح بخاری: ۳۷۱)حضرت اُمّ سلیم رضی اللہ عنہانے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکو تیار کیا اور اُن کو شب باشی کی لیے نبیﷺ  کی خدمت میں پیش کردیا۔
جنگِ خیبر سے واپسی پر رسولﷺ  نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے اُن سے نکاح کر لیا تھا،اس حدیث میں اس کا تذکرہ ہے
ثم جهزها من عنده وبعث بها إلىٰ رسول اﷲﷺ… وجهازها کل من عند النجاشی  (مسند احمد: ۶۴۲۷)
پھر نجاشی نے سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہاکو اپنے پاس سے تیار کیا اور ان کو رسول اللّٰہﷺ  کی طرف بھیج دیا،اور اُن کی ساری تیاری نجاشی کی طرف سے تھی۔
نجاشی(شاہ حبشہ) کی طرف سے سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا  کا نکاح بذریعہ وکالت نبیﷺ  کے ساتھ کر کے، نبیﷺ  کی خدمت میں ایک صحابی حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا، اس حدیث میں اسی کا تذکرہ ہے۔
ان دونوں احادیث میںجهیز ،دلہن سنوارنا، یعنی دلہن کو عروسی لباس اور آرائش وزیبائش سے آراستہ کرنے کے معنی میں ہے۔ أثاث البیت( گھریلو سامان) دینے کے معنی میں نہیں ہے جس کو آج کل جہیز کا نام دے دیا گیا ہے، حالانکہ ان احادیث میں جہیز کا لفظ ان معنوں میں ہرگز استعمال نہیں ہوا ہے۔
مسند احمد میں مزید جهاز کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کا مطلب یہاں حق مہر کی ادائیگی ہے جو کہ سامانِ آرائش و زیبائش کے علاوہ مکمل طور پر نجاشی ہی کی طرف سے ادا کیا گیا تھا، اس لیے جهازها کل من عند الله کہا گیا ہے۔
جَهَّزَ رَسُولُ الله ﷺ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ (سنن نسائی: ۳۳۸۲)
رسول اللہ ﷺ  نے(حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجنے کے لیے) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہاکو تیار کیا، ایک چادر، مشک اور تکیہ کے ساتھ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔
چندغورطلب اہم سوال
(1) تحفہ دینا سنت ہے، اگر کوئی اپنی بہن بیٹی کو تحفہ دیتا ہے (بشرطیکہ نمائش نہ کرے) تو یہ غلط نہیں ہے، اگر یہ غلط ہے تو اس کی دلیل قرآن و حدیث سے چاہیے۔
(2) لازمی نہیں کہ ہر والدین مجبور ہو اپنی اولاد کو سامان دینے سے، کچھ لوگ جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے وہ بخوشی بھی دیتے ہیں، فرض کریں ایک لڑکی سات آٹھ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہو، اور اس کے سات آٹھ بھائیوں کی آمدنی بھی اچھی ہو تو ہر بھائی یہی کوشش کرے گا کہ وہ اپنی اکلوتی بہن کو کچھ نہ کچھ ضرور لے کر دے۔ تو اس میں کیا حرج ہے؟
(3) اور لازمی نہیں کہ جہیز صرف والدین ہی دیں یا بہن بھائی ہی دیں، جہیز تیسرا بندہ دے سکتا ہے، فرض کریں میرا کوئی دوست ہو وہ غریب ہے جس لڑکی سے شادی کر رہا ہے وہ بھی غریب ہے دونوں نکاح کر کے زندگی گزارنا چاہتے ہیں اب کیا کیا جائے ؟ اب اگر اس صورت حال میں میں اس لڑکی کو گھر کی تمام ضروریات کا سامان خرید کر دیتا ہوں اور وہ دونوں ہنسی خوشی رہتے ہیں تو کیا یہ ناجائز ہے؟
جہیز کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اورہماری رسومات
جہیز کو ختم کرنا ہوگا تو ہمیں جہیز قبول کرنے سے انکار کرنا ہوگا، تاکہ عوام میں بیداری پیدا کی جاسکے،جو خوشی سے دے رہا ہے ،سوال اس کا نہیں بلکہ اس کا ہے جو بہت دکھ اٹھا کر جہیز جمع کررہا ہے صرف اس وجہ سے کہ معاشرے میں اتنا دیا جانا رائج ہے، وگرنہ معاشرے میں بے عزتی ہوگی۔دوسری بات کہ کوئی اپنی بیٹی کو نہیں دیتا یہ خام خیالی ہے بلکہ جہیز سسرال والوں کو خوش کرنے کے لئے دیا جاتا ہے،
اگر جہیز بیٹی کو دیا جاتا ہے تو موٹر سائیکل کا کیا کام، چار پہیہ گاڑی کا کیا کام ، کیا یہ سب بیٹی چلائے گی۔ کئی جگہوں پر اب خوشی سے سسرال والوں کو پانچ دس لاکھ رقم دی جاتی ہے۔ جاکر پوچھئیے اس میں سے بیٹی کو کتنا ملتا ہے۔یہ سب کچھ بیٹی کے رشتے کو محفوظ بنانےکےلئے،سسرال والوں کو خوش کرنے کے لئے دیا جاتا ہے تاکہ وہ خوش رہیں اور بیٹی کو بھی خوش رکھیں،ہمارا معاشرہ انتہائی لالچی قسم کے افراد پر مشتمل ہے،جو نہایت بھونڈے طریقے سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھر نہ ملے تو بہو کا سکھ چین چھین لیتے ہیں۔                      
   نکاح کے عمل یعنی شادی بیاہ کو طریقہ سنت پر واپس لانا بہت ضروری ہے،ہماری بہن بیٹیاں کتنی ایسی ہیں جو بن بیاہے گھروں میں بیٹھی ہیں، اور والدین جہیز کی فکر میں خود کو ہلکان کیئے جارہے ہیںآج لڑکی اور لڑکے والوں نے اپنے معیار اور اصول بنائے ہوئے ہیں، اور اس سے کم پر نکاح کے لئے راضی نہیں ہوتے، جس سے بچوں کی عمر بڑھتی جاتی ہے، اور وہ گناہ کی جانب بڑھنے لگتے ہیں ۔
    آج کا زمانہ ہی وہ زمانہ ہے جس میں زنا تو کسی قدر آسان ہے مگر نکاح انتہائی مشکل اللہ تعالی جہیز اور دیگر ہندوانہ رسوم جو اہل اسلام میں در آئیں ہیں ان سے ہم مسلمانوں کو محفوظ فرمائے،اور جہیز جیسی مکروہ وبا سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو محفوظ فرمائے۔                     
نکاح کس سے کرے
موجودہ دور میں اکثر اہل اسلام رشتہ تلاش کرتے وقت یہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں اس گھر سے رشتہ ملے جس گھر والے زیادہ سے زیادہ جہیز دے سکیں۔ بے محنت حاصل ہونے والی دولت کے یہ متلاشی عورتوں کی دینداری‘ حسن و جمال اور نسبی شرافت اور قرابت کو کچھ بھی اہمیت نہیں دیتے۔ اس لئے ایسے رشتے میں خیروبرکت کا فقدان ہوتا ہے۔ کیونکہ میاں بیوی کو ساری زندگی ایک رشتہ میں منسلک رکھنے والے اوصاف دونوں میں موجود ہوں گے تو وہ خو ش گوار زندگی بسر کرسکیںگے ورنہ ان کی زندگی وبال جان بن کر رہ جائے گی‘ خواہ کتنا زیادہ جہیزکیوں نہ ملا ہو۔
زیادہ برکت والا نکا ح وہ ہو گاجس نکاح میں اخراجات کی کمی ہوگی‘  یقیناوہ زیادہ برکت والا ہوگا۔ لڑکی والوں کو جہیز تیار کرنے کی مصیبت جھیلنی نہیں پڑے گی۔ لڑکے والوں کو زیادہ زیورات اور مہر کی رقوم مہیا کرنے کی زحمت اٹھانی نہیں پڑے گی۔ اور زوجین بے جا  شادی کے اخراجات کی وجہ سے قرضوں کے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہیں گے۔ میکے سے جہیز نہ لانے والی عورت یہ سمجھے گی کہ مجھے جو کچھ ملا ہے خاوند کی طرف سے ملا ہے‘ اس لئے وہ  خاوند کی خدمت گار بن کر رہنا چاہے گی۔ لڑکا سمجھے گا میرے گھر میں جو کچھ ہے میری اپنی کمائی کا ہے‘ اس لئے وہ احساس کمتری میں مبتلا ہونے سے بچا رہے گا۔
انہی وجوہات کی بناء پر دانائے غیوب نبی امیﷺ  نے ارشاد فرمایا۔ ان اعظم النکاح برکۃ یسرہ ،،مومن کے لئےبلاشبہ سب سے بڑی برکت والا نکاح وہ ہے جس میں اخراجات میں سب سے زیادہ کمی پائی جاتی ہے۔
شیخ محقق دہلوی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں!’’بدرستی کہ بزرگ ترین نکاح ازروئے برکت آسان ترین آنست ازروئے باروگرانی و تعب و مشقت درتہیہ اسباب‘‘ یعنی سب سے بڑی برکت والا نکاح وہ ہے جس کا سامان تیار کرنے میں سب سے زیادہ آسان بوجھ اور مشقت اٹھائی جاتی ہے (اشعۃ اللمعات ص ۱۰۴‘ ج ۳)
کاش مسلمان اس حدیث نبوی کو پڑھیں اور اس پر عمل کریں تو کتنے پھندوں سے نجات مل سکتی ہے ۔ واﷲ یہدی من یشاء الی صراط المستقیم ،اور اللہ جسے چاہتا ھے سیدھے رستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
جہیز کی خاطر رشتہ کرنا شرعا مذموم ہےبھاری جہیز غریب لوگوں کی بچیوں کی شادی میں سخت رکاوٹ بن جاتا ہے۔ سالہا سال وہ اپنے میکے میں جوانی کا عرصہ گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں، اس لئے شریعت مطہرہ نے جہیز کی خاطر رشتہ کرنے کو مذموم قرار دیا ہے۔
 رسول کریمﷺ  ارشاد فرماتے ہیں۔ترجمہ: یعنی عورت سے (چار وجوہ سے) نکاح کیا جاتا ہے۔ (۱)اس کی مالداری کے سبب سے(۲) اور اس کی خاندانی شرافت کے سبب سے(۳) اور اس کے حسن و جمال کے سبب سے(۴) اور اس کی دینداری کے سبب سے۔ سو تو دین والی عورت پر کامیابی حاصل کر تیرے دونوں ہاتھ غبار آلود ہوں۔(رواہ الشیخان فی صحیحھما عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘ مشکوٰۃ ص ۲ ج ۲) 
صرف حسن و جمال نہ دیکھے
اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:ترجمہ: حدیث شریف میں مروی ہے کہ جو شخص عورت کے مال و جمال کے سبب سے اس سے شادی کرے وہ اس کے مال و جمال سے محروم رہتا ہے اور جو شخص عورت کی دینداری کے سبب سے اس سے شادی کرے ،تواﷲ اسے اس عورت کا مال و جمال بھی عطا کردیتا ہے (نزہۃ الناظرین ص ۱۴۵)اور بعض بزرگ فرماتے ہیں:جو شخص غنی عورت سے شادی کرے وہ اس کی طرف سے پانچ آفتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے(۱)مہر کی زیادتی (۲)رخصتی میں دیری(۳) خدمت سے محرومی(۴) اخراجات کی زیادتی(۵) اور جب وہ اس کو طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اس کا جہیز چلے جانے کے ڈر سے قدرت نہیں رکھتا اور غریب عورت سے شادی کرنے میں ان پانچ آفتوں سے حفاظت رہتاہے (نزہۃ الناظرین ص ۱۴۵)
مسلمان بزرگان دین کے ان ارشادات عالیہ پر غور فرمائیں اور یقین جانیں کہ اس دور میں ازدواجی زندگی کا بگاڑ زیادہ تر اسی وجہ سے پایا جاتا ہے کہ جہیز حاصل کرنے کی غرض سے امیروں کی لڑکیاں بیاہی جاتی ہیں اور غریبوں کی بچیوں سے روگردانی کی جاتی ہے۔ 
اگر مسلمان آج بھی سنبھل جائیں اور مالداری کی بجائے دینداری کو بنیاد بنالیں تو اور کسی قسم کی ناچاقی کے واقع ہونے کا خدشہ نہیں ہوگا۔واﷲ یہدی من یشاء الی صراط المستقیم نیک بیوی سعادت مندی کی علامت ہےنیک بیوی نیک بختی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ رسول اﷲﷺ  نے ارشاد فرمایا۔’’دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے‘‘
تقویٰ اور نیک بیوی
اور فرمایا ’’تقویٰ کے بعد مومن کے لئے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔(۱) اگر وہ اسے حکم کرے تو وہ اس کی اطاعت کرتی ہے (۲)اور اگر اسے دیکھتے تو اسے خوش کرتی ہے(۳) اور اگر وہ اس پر قسم کھا بیٹھے تو وہ اس کی قسم کو سچا کردیتی ہے(۴) اور اگر وہ کہیں چلا جائے تو وہ اپنے نفس ،عزت،اوراس کی امانت کی حفاظت کرتی ہے۔ (مشکوٰۃ ص ۲ ج ۲)
اور فرمایا:’’جس شخص کو چار چیزیں ملیں‘ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل جاتی ہے۔ (۱)شکر گزار دل (۲)یاد الٰہی کرنے والی زبان(۳) بلائوںپر صبر کرنے والا بدن(۴) اور ایسی بیوی جو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی متلاشی نہ ہو (مشکوٰۃ ص ۱۴ ج ۲)
اور فرمایا: !تین چیزیں آدمی کی نیک بختی سے ہیں اور تین چیزیں بدبختی سے نیک بختی کی چیزوں میں سے(۱) نیک عورت اور(۲) اچھا مکان(۳) اور اچھی سواری ہے اور بدبختی کی چیزوں میںسے(۱) بری عورت اور(۲) برا مکان اور (۳)بری سواری ہے۔اور فرمایا ’’جسے اﷲ نے نیک بیوی نصیب کی اس کے نصف دین پر اعانت فرمائی تو باقی نصف میں اسے ڈرنا چاہئے۔
اور فرمایا جس شخص کو پانچ چیزیں دی گئیں۔ اسے آخرت کے عمل کے ترک پر معذور قرار نہیں دیا جائے گا(۱) نیک بیوی(۲) نیک اولاد(۳)لوگوں سے اچھا میل جول (۴)اپنے شہر میں روزگار(۵) اور آل رسولﷺ  کی محبت (جامع صغیر ص ۷ ج ۲)
اور فرمایا  ! کیا میں تجھے خبر نہ دوں اس بہترین چیز کے بارے میں جو مرد جمع کرتا ہے‘ وہ نیک عورت ہے کہ جب وہ اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کرے اور جب اسے حکم کرے تو وہ اطاعت کرے اور جب وہ موجود نہ ہوتو حفاظت کرے (جامع صغیر ص ۷۲‘ ج ۱)  ۔
مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ میں ہے۔
استفتاء!کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی لڑکی کے نکاح میں لڑکے والوں سے کہا کہ مہر کے علاوہ بغیر قرض اگر آپ اس شرط پر روپیہ دیں گے تو میں بارات کا کھانا کھلا سکتا ہوں،ورنہ نہیں، یہ روپیہ لینا جائز ہے یا نہیں
الجواب بعون الملک الوہاب: یہ سوال ناجائز ہے اس لئے کہ اگر روپیہ کی شرط پر نکاح کرتا ہے کہ بغیر اس کے ادا کئے نکاح کرے تو یہ رشوت ہے اور رشوت لینا حرام ہے، اور اگر یہ روپیہ شرط نکاح نہیں ہے بلکہ ویسے دعوت کے لئے مانگتا ہے، تو سوال ہے، اور مہمانوں کی دعوت اتنی ضروری نہیں کہ اس کے لئے سوال جائز ہو (فتاویٰ نعیمیہ )
جہیز اگر دینا ہی ہو
جہیز کے لئے قرض اٹھانا مذموم ہےبعض لوگ جہیز کی رسم پوری کرنے کے لئے بے جا قرضہ اٹھاتے ہیں، یہ بھی شرعا مذموم ہے کہ جس کام کو شریعت نے لازم قرار نہیں دیا۔ اس کے لئے قرضہ میں زیر بار ہونا دانشمندی نہیں۔ اور کچھ دینا ضروری یا مجبوری ہے توبہتر ہے کہ لڑکی کے والدین چند سال تک تھوڑا تھوڑا جہیز تیار کرتے رہیں تاکہ بروقت پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جہیز عورت کی ملکیت ہوتا ہےبعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ میاں بیوی کی ناچاقی کی صورت پیدا ہوتی ہے اور ان میں طلاق واقع ہوجاتی ہے تو خاوند مہر میں دیا ہوا زیور بھی لے لیتا ہے اور عورت کا جہیز بھی ہڑپ کرلیتا ہے، یہ شرعا سخت حرام اور ظلم عظیم ہے۔ 
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی کتاب احکام شریعت ص ۱۷۸ میں یہ فتویٰ درج ہے ’’
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ جہیز کس کا حق ہوتا ہے؟ لڑکی والوں کا یا لڑکے والوں کا بعد وفات زوجہ کے اس میں تقسیم فرائض ہوگی یا نہیں، زید سلیمہ کا شوہر تھا، سلیمہ کے مرنے کے بعد کہتا ہے کہ میں نے اس کو کھلایا پلایا ہے،لہذا جہیز میرا حق ہے،یہ قول زید کا صحیح ہے یا باطل ،اگر جہیز میں تقسیم فرائض نہ ہو تو آیا صرف والدین کو ملے گایا اور کس کس کو۔ بینو اوتو جروا
الجواب: جہیز عورت کی ملک ہے۔ اس کے مرنے کے بعد حسب شرائط فرائض ورثہ پر تقسیم ہوگا،زید کا دعویٰ باطل محض ہے،نفقہ کے عوض میں کچھ نہیں لے سکتا کہ نفقہ اس پر شرعا واجب تھا۔  
چند اہم گزارشات
آپ کے سامنےاحادیث کے دفتر موجود ہیں۔ ہر مشرب کی کتب فقہ رکھی ہوئی ہیں۔ آپ کو ہر جگہ (زر مہر )کی تصریح ملے گی۔ قرآن نے اسے فریضہ ،صدقات اور اجر کہا ہے، احادیث میں اسے صداق اور مہر بھی کہا گیا ہے، کتب فقہ میں اس کے مستقل ابواب ہیں اور ہر جگہ اسے ایک واجب الادا فرض بتایا گیا ہے،حتیٰ کہ مسند احمد کی روایت ہے کہ جوشخص ایک عورت سے کسی مہر پر نکاح کرے اور نیت یہ ہو کہ وہ اسے ادا نہیں کرے گا تو اس کا شمار زانیوں میں ہے۔
اور قرآن پاک میں اس کی بار بار تاکید آئی ہے۔ کہ عورتوں کا ان کا مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو۔ سب کا ذکر یہاں مقصود نہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ مہر کے سارے احکام قرآن میں ،احادیث میں اور فقہ، میں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں، لیکن جو چیز آپ کو کہیں نہ ملے گی وہ ہے جہیز کا ذکر قرآن اس ذکر سے قطعا خالی ہے۔ احادیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ حتی کہ فقہ میں کہیں کوئی باب الجہیز موجود نہیں۔ اب خود ہی سوچئے کہ یہ جہیز سنت کیسے بن گیا۔
پھر اس پر غور فرمایئے کہ حضورﷺ  کی اور بھی تین صاحبزادیاں تھیں۔ زینب‘ رقیہ‘ ام کلثوم رضی اﷲ عنہن۔ کیا آپ نے کبھی یہ بھی سنا کہ حضورﷺ  نے زینب‘ رقیہ ،یا  ام کلثوم رضی اﷲ عنہن کو جہیز دیا۔ جس میں فلاں فلاں چیزیں تھیں۔ اسے بھی جانے دیجئے۔ حضورﷺ  کے شرف زوجیت میں کتنی امہات المومنین آئیں۔ لیکن آپ نے کبھی یہ بھی پڑھا ہے کہ عائشہ کے جہیز میں یہ چیزیں تھیں یا حفصہ یا سودہ یا دوسری ازدواج النبیﷺ  فلاں فلاں چیز جہیز میں لائی تھیں۔ 
دوسرے بے شمار صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بھی شادیاں فرمائیں۔ لیکن کتنوں کے متعلق آپ نے کبھی یہ ذکر پڑھا ہے کہ ان کی ازواج سنت رسولﷺ  کی طرح جہیز لائی تھی پھر ذرا عقل پر زور دے کر سوچئے کہ آخر یہ سنت رسول کی کون سی قسم ہے جو ازدواج کے سوا اور کہیں بھی نظر نہیں آتی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حقیقت کچھ اور ہے اور ہم نے کچھ اور فرض کرلیا ہو؟ ہاں یقینا یہی بات ہے۔
طریق مصطفٰی کو چھوڑ نا وجہ بربادی                            ظالم معاشرہ یہ رسم و رواج ہر کوئی پریشان ہے مگر اس سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتا           
کیا ٹیلیفون پر نکاح دُرُست ہے؟
سُوال:کیا ٹیلیفون پر نکاح دُرست ہے؟  
جواب:ایسا نکاح جس میں اِیجاب کرنے والا کسی اور مقام پر ہو اور قبول کرنے والا دوسرے مقام پر تو یہ نکاح نہیں ہو گا۔ نکاح میں  اِیجاب وقبول دونوں کا ایک مجلس میں ہونا ضَروری ہے جیسا کہ فقۂ حنفی کی مشہور و معروف کتاب دُرِّمُختار میں ہے:اِیجاب تمام عُقود میں مجلس سے غائب کسی شخص کے قبول پر مَوقُوف نہیں ہو سکتا۔ وہ عقدِ نکاح ہو یا خرید و فروخت یا اِن کے علاوہ کوئی  اور عقد ۔ غائب والی صُورت میں اِیجاب با طِل ہو جا ئے گا اور بعد میں اُسے جا ئز قرار دینے سے بھی نکاح صحیح نہ ہو گا۔(2)فتاویٰ  ہندیہ  میں ہے:نکاح کے لیے دو گواہوں کا ایک ساتھ اِیجاب وقبول کے اَلفاظ سُننا شرط ہے۔(1)جبکہ ٹیلی فون پر دونوں گواہ ایک ساتھ نہیں سُن سکتے نیز  ٹیلی فون پر بولنے والا فرد کون ہے؟عموماً اس کی پہچان بھی مشکل ہوتی ہے کیونکہ ٹیلی فون پر ایک کی آواز دوسرے سے ملتی جلتی ہو  سکتی ہے  اس وجہ سے اس کے سننے والا گواہ نہیں بن سکتا  جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے :اگر پردے کے اندر سے اِقرار  سُنا تو رَوا نہیں ہے کہ کسی شخص پر گواہی دے کیونکہ اس میں غیر کا اِحتمال ہے اس لیے کہ  آواز ،آواز کے مشابہ ہوا کرتی ہے ۔(2)
مفتیٔ اعظم پاکستان،وقارُ الملت حضرتِ مولانا مفتی محمد وَقار الدّین قادِری رَضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:نکاح صحیح ہونے کی بہت سی شرطیں ہیں: ان میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ایجاب وقبول دونوں ایک مجلس میں ہوں اور دوسری شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کے اَلفاظ دو عاقل و بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ایک ساتھ سُنیں ۔ ٹیلی فون پر ظاہر بات ہے کہ مجلس ایک نہیں ہے لہٰذا پہلی شرط نہ پائی جانے کی وجہ سے نکاح باطل ہے اور دوسری شرط بھی نہیں پائی جاتی  اس لیے کہ ٹیلی فون سے ایک آدمی سُنتا ہے ،اگر قاضی نے سنا تو گواہوں نے کچھ نہ سُنا اور جب گواہ سُنیں تو دوبارہ ٹیلی فون کرنے والابولے گا اس نے نئے اَلفاظ سنے وہ جو پہلے والے نے نہ سُنے تھے اس طرح دوسرا گواہ بھی سنے گا اس لیے دونوں گواہوں کا ایک ساتھ سُننا بھی نہیں پایا جائے گا اور تیسری وجہ باطل ہونے کی یہ ہے کہ ٹیلی فون پر صرف آواز سُنی جاتی ہے، کون شخص قبول کر رہا ہے ؟ یہ معلوم نہیں ہوتا ہے اور صرف آواز سے یہ متعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ  فُلاں شخص کی آواز ہے اس لئے کہ آواز دوسرے کی طرح بنائی جا سکتی ہے۔ لوگ جانوروں کی آوازوں کی اس طرح نقل کرتے ہیں کہ اگر سامنے نہ ہو تو پہچانا نہیں جا سکتا کہ یہ آواز جانور کی ہے یا انسان نقل کر رہا ہے۔ بہر حال ٹیلی فون پر نکاح باطل ہے۔ (1)فتاویٰ فیض ُ الرّسول میں ہے:ٹیلی فون کے ذریعے نکاح پڑھنا ہرگز صحیح نہیں۔(2) 
  [1]فتاویٰ  ھندیة ،کتاب النکاح ،الباب الاول  فی  تفسیرہ (2)فتاویٰ  ھندیة ،کتاب الشھادة ،الباب الثانی  فی  بیان  تحمل  الشھادة.
وُکلاء کے ذریعے نکاح کی صورت
سُوال: کیا کوئی ایسی صورت نہیں جس سے ٹیلیفون پر نکاح کرنا  دُرست ہو جائے؟
جواب:ٹیلیفون پر نکاح دُرست ہونے کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی خط یا ٹیلیفون کے ذریعے کسی شخص کو اپنا وکیل بنا دےمثلاً  لڑکا  کسی کو اپنا وکیل بناتے ہوئے یہ  کہے کہ میں  فُلانہ بنتِ فُلاں بن فُلاں سے اتنے  حق مہر کے بدلے میں نکاح کرنا چاہتا ہوں یا لڑکی کہے کہ میں فُلاں بن فُلاں  سے اتنے حق مہر کے بدلے میں نکاح کرنا چاہتی ہوں۔اب  وہ وکیل لڑکے یا لڑکی کی طرف سے دوسری جگہ دو گواہوں کے سامنے مجلس ِنکاح میں ایجاب وقبول کرے تو  اس طرح نکاح ہو جائے گا۔     
شادی کی رسومات میں ایک رسم جہیز ہے۔ یہ رسم البتہ ایسی ہے کہ اس کی اصل حیثیت میں اختلاف ہے کہ یہ واقعی دیگر غیر ضروری رسومات کی طرح ایک رسم محض ہے یا کسی لحاظ سے اس کا شرعی جواز بھی ہے؟
ہمارے نزدیک اس رسم کے دو پہلو ، دو رخ یا دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت میں اس کا جواز ہے اور دوسری صورتوں میں ناجائز۔اس کو سمجھنے کے لیے ان صورتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے جن کے پیش نظر جہیز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
یہ حسبِ ذیل ہیں:!
ان میںشان و شوکت کااظہار،نمو دو نمائش، اسراف و تبذیر،وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ ،دیکھا دیکھی رسم کے طور پر،عدم استطاعت کے باوجود قرض لے کر اس کا اہتمام کرنا،
ان چھ صورتوں میں یہ ایک محض رسم ہے، اس لیے ناجائز ہے۔ اور اس ناجائز صورت میں اکثر و بیشتر مذکورہ ساری ہی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ اس اعتبار سے جہیز کی رسم تمام مذکورہ خرابیوں کا مجموعہ ہے، 
اسے کس طرح جائز قرار دیا جا سکتا ہے 
اس میںشان و شوکت کا اظہار بھی ہوتا ہے، نمودو نمائش کا جذبہ بھی،اسراف و تبذیر کی حد تک اس کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس لیے ہر چیز دینے کی کوشش کی جاتی ہے، چاہے ان کی ضرورت ہو یا نہ ہو اور لڑکے والوں کے پاس اتنا غیر ضروری سامان رکھنے کی جگہ بھی ہو یا نہ ہو۔
جس کے پاس استطاعت نہیں ہوتی، وہ قرض لے کر، حتیٰ کہ قرض حسنہ نہ ملے تو سود پر قرض لے کر یہ رسم پوری کرتا ہے۔
بھرپور جہیز دینے میں وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے۔ بالخصوص اصحابِ حیثیت اس نیّت سے لاکھوں روپے جہیز کی نذر کردیتے ہیں اور پھر واقعی ان کے بیٹے اپنے جائداد والے باپ کی وفات کی بعد اپنی بہنوں کو وراثت سے ان کا شرعی حق نہیں دیتے اور یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ باپ نے جہیز کی صورت میں اپنی بیٹیوں کو جو دینا تھا دے دیا، اب یہ ساری جائداد صرف بیٹوں کی ہے۔ اس طرح یہ رسم ہندؤوں کی نقل ہے۔ ہندو مذہب میں وراثت میں لڑکیوں کا حصہ نہیں ہے، اس لیے وہ شادی کے موقعے پر لڑکی کو ’دان‘ دے دیتے ہیں۔یہی دان کا تصور(وراثت سے محرومی کا بدل) مسلمانوں میں جہیزکے نام سے اختیار کر لیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ خالص ہندوانہ رسم ہے۔اگر جہیزمیں مذکو رہ تصورات کار فرما ہوں تو جہیز کی یہ رسم سراسر ناجائز ہے، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے اس کے خلاف بھی جہاد ضروری ہے، کیونکہ جہیز دینے والے بالعموم ایسے ہی تصوارت کے تحت جہیز دیتے ہیں اور اس رسم کو بھی پورا کرنا نا گزیر سمجھتے ہیں۔ 
جہیز کی جائز صورت تعاون ہدیہ اور صلہ رحمی کے طور پر
تعاون ہدیہ اور صلہ رحمی کے طور پر۔
البتہ جہیز کی ایک جائز صورت بھی ہے جس کا ذکر ساتویں شکل میں کیا گیا ہے اور وہ ہے تعاون، صلہ رحمی اور ہدیے(تحفے،عطیے) کے طور پر اپنی لڑکی کو شادی کے موقعے پر کچھ دینا،اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی بڑی فضیلت ہے، اس طرح ایک دوسرے کو ہدیہ، تحفہ دینے کی بھی ترغیب ہے۔ اور اگر تعاون یا ہدیے کا معاملہ اپنے قریبی رشتے داروں کے ساتھ کیا جائے تو اس کوصلہ رحمی کہا جاتا ہے اور اس کی بھی بڑی تاکید ہے اور اس کو دگنے اَجر کا باعث بتلایا گیا ہے۔
اس اعتبار سے اپنی بچی کو،اگر وہ واقعی ضرورت مند ہے یا بطورِتحفہ کچھ دینا، بالکل جائز، بلکہ مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ لیکن اس کے لیے کیاضروری ہے ۔
 آیئے ذرا اس پر غور کریں۔
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضورﷺ  وہ چیزیںجو جناب فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو دیں‘ لیکن کیا وہی چیز تھی جسے ہم عرف عام میں جہیز کہتے ہیں۔ یقینا انہیں مروجہ جہیز کی اصطلاح سے، اسے دور کا بھی واسطہ نہیں،پھر یہ کیا تھا؟ اس لئے اس پر اس وقت غور کرنا ہے۔
ذرا توجہ سے کام لے کر حقیقت حال  پر غور فرمایئے۔حضورﷺ  نے جناب فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دونوں کے کفیل اور سرپرست تھے۔ اس لئے دونوں کی شادی کا اہتمام بھی حضورﷺ  کوہی کرنا تھا۔ جناب علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی گھر بسانا تھا‘ اس لئے اسی کا انتظام بھی حضورﷺ  ہی فرما رہے تھے۔
خانہ داری کے انتظام کے لئے جو کچھ مختصر انتظام حضورﷺ  نے مناسب سمجھا کردیا، سونے کیلئے چارپائی اور اذخر گھاس سے بھری رضائی اور تکیہ ،مشکیزہ ، گھڑا،اورچکی،رہا چاندی کا ہار تو وہ یوں بھی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہی کا تھا،جو آپ کو سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے ترکے میںسے ملا تھا،یہ سارا انتظام حضورﷺ  کو اس لئے کرنا پڑا کہ آپﷺ  کوحضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئےایک الگ گھر بسانا تھا، اگر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پہلے ہی سے کوئی الگ گھر ہوتا تو حضورﷺ  شاید اتنا کچھ نہ کرتے۔
  حضرت ابو العاص کا گھر پہلے سے موجود تھا۔ اس لئے سیدہ زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکو بیاہنے کے لئے حضورﷺ  نے ایسا کوئی انتظام نہ کیا،سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا الگ گھر بھی پہلے موجود تھا۔ اس لئے سیدہ رقیہ اور ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے نکاح میں حضورﷺ  کو ایسے کسی انتظام کی ضرورت نہ پڑی۔
اسی طرح حضورﷺ  کی زوجیت میں جو امہات المومنین آئیں ان کے والدین کو بھی ایسے کسی انتظام کی حاجت نہ تھی، لیکن سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حیثیت ان سے مختلف تھی اب تک وہ حضورﷺ  کے ساتھ ہی رہتے تھے اور جب حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکا نکاح ہوا تو سارا اہتمام ازسر نو کرنا پڑا۔ سیدنا علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس کوئی الگ گھر نہ تھا۔
  ایک انصاری حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا ایک گھر حضورﷺ  کی خدمت میں اسی خدمت کے لئے بخوشی پیش کردیا، جس میں یہ پاکیزہ نیا جوڑا منتقل ہوگیا، اور خانہ داری کے مختصر اسباب وہاں بھیج دیئے گئے،یہ جہیز نہ تھا صرف ایک انتظام خانہ داری تھا، اس کے جہیز نہ ہونے کی ایک اور دلیل بھی سن لیجئے۔
جناب خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کےترکہ سے سوا دوسری چیزیں حضورﷺ  نے کہاں سے مہیا فرمائی تھیںیہ بھی یاد رکھنے کے قابل چیز ہے، حضورﷺ  نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے حق مہر پہلے ہی لے لیا تھا ایک زرہ تھی جو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سوا سو روپے کی رقم (تقریبا پانچ سو درہم) میں فروخت کی تھی،یہی رقم حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضورﷺ  کی خدمت میں لے کر آئے اور اسی رقم سے حضورﷺ  نے خانہ داری کا سب سامان اور کچھ خوشبو وغیرہ منگوائی تھی۔
ذرا سوچئے! کیا جہیز کی یہی صورت ہوتی ہے۔ اگر لوگ فی الواقع جہیز کو سنت سمجھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اسےمہر کی رقم سے ہی مہیا کریں۔                        میں نےیہ بھی پڑھاہے کہ جو سامان حضور ﷺ  نے عنایت فرمایا تھا وہ مولا علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مال سے بنوایا تھا۔
مگر ہمارےبعض خطباء بیان فرماتے ہیں کہ جہیز دینا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور لینا مولا علی پاک کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی سنت مبارکہ ہے۔
اگروالدین کے لئے ضروری ہو جیسا پہلے بیان کیا گیا،تو صرف والدین اپنی طاقت کے مطابق اس کی ضروریات پوری کریں،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ  نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ضرورت کو پورا کیا تھا۔
اس کے لیے قرض لے کر مصیبت میں گرفتار نہ ہوں،نمائش اور رسم کے طور پر ایسا نہ کریں،ضروریاتِ زندگی کی اس فراہمی میں شادی کے موقعے پر ضروریات کا جائزہ لیے بغیر تعاون کرنا جائز نہیں ہوگا۔ بلکہ شادی کے بعددیکھا جائے کہ اس گھر میں کن چیزوں کی ضرورت ہے اورلڑکے والے اُن کو مہیا کرنے سے واقعی قاصر ہیں، تواُ ن کو وہ اشیا مہیا کرنے میں حسبِ استطاعت ان سے تعاون کیا جائے۔
 لیکن !حسب ذیل شرائط کے ساتھ
اس تعاون کو وراثت کا بدل سمجھ کر اسے وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ نہ ہو۔
بیک وقت تعاون کی استطاعت نہ ہو تو مختلف اوقات میں تعاون کردیا جائے۔
اگر بچی کو گھریلو اشیاے ضرورت کی ضرورت نہ ہواور والدین صاحب استطاعت ہوں اور وہ بچی کو تحفہ دینا چاہتے ہوں تو داماد کی مالی پوزیشن کے مطابق اس کو ایسا تحفہ دیں جس سے اس کا مستقبل بہتر ہوسکے۔ مثلاً، اس کے پاس سرماے کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ کاروباری مشکلات کا شکار ہے، اس کو نقد رقم کی صورت میں ہدیہ دے دیا جائے تاکہ وہ اپنا کاروبار بہتر کر سکے، یا اُس کو پلاٹ لے دیا جائے تاکہ وہ آہستہ آہستہ اپنا مکان بنا سکے، اگر اس کے پاس مکان نہیں ہے یا وہ مشترکہ خاندان میں رہائش پذیر ہے اور وہاں جگہ کی تنگی ہے، ان دونوں صورتوں میں یہ پلاٹ، یا گھر کی تعمیر، یا کاروبار میں مالی تعاون میاں بیوی(بیٹی اور داماد) کے لیے ایسا بہترین تحفہ ہے جو صرف انہی کے نہیں بلکہ آئندہ نسل کے بھی کام آئے گا۔ نیزتعاون کی ایسی صورت ہے جس میں رسم، نمود ونمائش، بلا ضرورت زیر بار ہونے کی کار فرمائی نہیں بلکہ خیر خواہی اور تعاون کا صحیح جذبہ ہے جو عنداللہ نہایت پسندیدہ ہے۔یہ جہیز نہیں بلکہ صلہ رحمی، تعاون اور خیرخواہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس صورت کو جہیزنہیں کہنا چاہیے بلکہ یہ تعاون اور صلہ رحمی یا ہدیہ ہے۔ جہیز کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔ احادیث میں اس مروّجہ جہیز کا کوئی ذکر نہیں۔ رسول اللّٰہﷺ کی متعدد ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی اپنے ساتھ جہیز لے کر نہیں آئی، اسی طرح رسول اللّٰہﷺ  نے اپنی چار بیٹیوں میں سے کسی ایک بیٹی کو بھی ،،قبل از نبوت اور بعد از نبوت،، جہیز نہیں دیا۔ صرف حضرت فاطمہ ؓ کی بابت مشہور ہے کہ آپ نے اُن کو تین چار چیزیں بطورِ جہیز دی تھیں۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے، اس کا کوئی تعلق مروّجہ رسم جہیز سے نہیں ہے،جیسا کہ اس کی وضاحت کی جاچکی ہے۔
جہیز ایک سماجی بیماری
جہاں ہندو سماج سے دیگر بہت ساری خرافات مسلم معاشرے کا حصہ بن گئیں ہیں وہیں جہیز بھی ہمارے سماج کا اٹوٹ انگ بن گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹی ﷲ پاک کی طرف سے انمول تحفہ ہے مگر اس غلط رسم کے شروع ہونے سے زحمت سمجھی جانے لگی ہے ۔۔ بیٹی پبدا ہوتے ہی والدین کو جو پہلا جھٹکا لگتا ہے وہ یہ ظالم جہیز ہی ہے 
ذرا غور کیجیئے آج کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہوں گی جو دلہن بن جانے کا سپنا دیکھتے دیکھتے بوڑھی ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور بس اتنا تھا کہ انہوں نے ایک غریب و نادار خاندان میں آنکھ کھولی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں کسی چیز کی کمی نہ تھی قدرت کا دیا سب کچھ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس نہیں تھی تو دولت نہیں تھی جو ان کے سپنوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی تھی ۔
لڑکے والوں کی ہٹ دھرمی بلکہ بدمعاشی ملاحظہ ہو کہ اس لعنت ( جہیز )کو اپنا پیدائشی حق سمجھ رکھا ہے ۔۔ طرح طرح کے مطالبات لڑکی والوں سے زبردستی منوائے جاتے ہیں اور اس پر ساس سسر فخر کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے بے غیرت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنا بیٹا بیچ کھاتے ہیں 
ذرا چشم تصور میں لائیں کہ ایک غریب آدمی جو تین چار بیٹیوں کا باپ ہو جس کی عمر بھر کی جمع پونجی صرف ایک بیٹی کے ہاتھ بمشکل پیلے کر پاتی ہو وہ تین چار بیٹیوں کو کیسے رخصت کر پائے گا ۔۔۔۔۔۔۔؟ 
شریعت میں جہیز دینے کی کوئی پابندی نہیں ۔۔۔ یہ سب اسلام سے دوری کا شاخسانہ ہے 
ہمارے نبی حضرت محمد صلی ﷲعلیہ وسلم نے اپنی چہتی بیٹی حضرت فاطمہ کو کتنا جہیز دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا آپ اپنی بیٹی کو جہیز نہیں دے سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کل ملا کر ایک چکی ۔۔ پانی کا برتن اور ایک تکیہ وغیرہ دے دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سامان بھی آپ نے حضرت علی کی ذِرہ فروخت کر کے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے خرید کر دیا تھا۔۔ آپ کی دوسری بیٹیوں سے متعلق ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کسی اور بیٹی کو جہیز دیا ہو 
آج کے زمانے میں بس ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے ۔۔ ہر کوئی دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں مگن ہے اور ایسے میں غریب گہیوں میں گھن کی طرح پِسا جا رہا ہے ۔۔۔ اس سماجی برائی کی بیج کنی حکومتی سرپرستی میں کی جانی چاہیے ۔۔۔ سخت قوانین بنا کر اس کا سدباب کیا جا سکتا ہے
اگر نوجوان نسل چاہے تو یہ لعنت ختم کر سکتی ہے ۔۔۔ ہر لڑکا جہیز لینے سے انکار کرے تو بس قصہ ہی ختم
اٹھارہ سال میں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ گزارے 
اٹھارہ سال میں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ گزارے ---------- میں خوش تھی، پھر دو سال میں نے ----- میں نے کہاں گزارے، ہاں شادی ہو گئی تھی میری ---------- ایف اے کے بعد ----- مجاہد سے ----- میں مٹھیوں میں خواب لے کر اس کے گھر آئی تھی- ہر لڑکی یہی کرتی ہے ----- میں بھی خواب لے کر ایک سراب میں داخل ہو گئی تھی- میرا خیال تھا مجھے چاہا جائے گا- سب لوگ یہی کہتے تھے مجھ میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی ---------- خوبصورتی، اخلاق، ایثار، خوش مزاجی، نرم خوئی، برداشت، تحمّل، سمجھداری، سلیقہ----------
گنتی ان سے شروع نہیں ہوئی تھی- گنتی کہیں اور سے شروع ہوئی تھی- ٹی وی، وی سی آر، فریج، زیور، موٹر سائیکل، میں شاکڈ رہ گئی، خوف نے مجھے اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا- پہلی بار مجھے احساس ہوا، میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا- جو تھا، وہ بے مول تھا ---------- ساس، سسر، نندیں، شوہر، ہر ایک کی زبان پر ایک جیسے لفظ تھے ----- وہ تلخ تھے، زہریلے تھے، کانٹے تھے-
وقت گزرنے کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا -----" میں ہر بار خود کو یہی کہہ کر تسلی دیتی-
سسرال والے ایسی باتیں کرتے ہی ہیں-" میں سوچتی "میں اپنی خدمات سے ان کے دل جیت لوں گی-"
ہاں! خدمت سے دلوں کو جیتا جا سکتا ہے- مگر جن لوگوں کے وجود کے اندر دلوں کے بجائے ہوس اور لالچ کے بت پیوست ہوں ----- ان کو ----- ان کو-----دنیا کی دولت سے ہی و قتی سکون میسر آتا ہے۔۔۔۔۔مگرچین پھربھی نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔ایسےہی جیسے کوئی مرض میںمبتلا ہو ۔۔۔۔۔۔اور اس کو انجیکشن سےکچھ وقت کے لئے سکون ملے۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی ہوس کا پجاری ،مال و  دولت کا دیوانہ مال کے مل جانے پر کچھ دیر کے لئے خوش ہو جاتاہے۔۔۔۔مگر پھر وہی۔۔۔۔
مرد بھی بکتے ہیں جہیز کے لیے
دور رواں نفسہ نفسی کا دور ہے ہمارے معاشرے میں لاتعداد مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے ان مسائل میں ایک اہم اور بڑا مسئلہ جہیز بھی ہے جو موجودہ دور میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ عام طور پر سلیقہ مند ،پڑھی لکھی، خوب رو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کے باعث آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں اور پھر ایک خاص عمر کے بعد تو یہ سہانا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرکے بقایا زندگی اک جبر مسلسل کی طرح کاٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں
دلہن بننا ہر لڑکی کا خواب ہی نہیں اسکا حق بھی ہے لیکن افسوس اسے اس حق سے محض غربت کے باعث محروم کر دیا جاتا ہے سرمایہ داروں کے اس دور میں‌ لڑکیوں کو بھی سرمایہ سمجھا جاتا ہے اور اس سرمایہ کاری کے بدلے انکے گھر والے خصوصا مائیں بہنیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے سرگرداں رہتی ہیں۔
وہ لڑکی کا رشتہ لینے جاتی ہیں یا یوں کہیں اپنے بیٹے ،بھائی کا کاروبار کرنے نکلتی ہیں لڑکی سے زیادہ اس کی امارات دیکھتی ہیں، لڑکی والوں کے ہاں جا کر انکا ذہنی کیلکولیٹر بڑی تیزی سے حساب کتاب مکمل کر لیتا ہے اور وہاں‌ سے کچھ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں وہ پوری طرح سے آگاہ ہوجاتی ہیں
گاڑی، کوٹھی اور دیگر قیمتی سازوسامان تو ان کی فہرست میں‌ لازمی مضامین کی طرح شامل ہوتے ہیں
ان کے بعد کہیں جا کر لڑکی کی باقی خوبیوں (جن میں اسکا خوش شکل ہونا بھی شامل ہے) کو پرکھا جاتا ہے چنانچہ جس خوش قسمت لڑکی کے پاس دینے کو قیمتی اور‌ڈھیر سارا جہیز ہو نیز خوبصورت بھی ہو وہ تو بیاہی جاتی ہے اور جن بدقسمت لڑکیوں کے پاس یہ سب کچھ موجود نہیں ہوتا وہ سوائے اپنی تقدیر سے گلہ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی با اخلاق و مذہبی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آیات قرآنی اور ‌احادیث نبویﷺ بیان کرتے نہیں تھکتے لیکن معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا ہو تو ساری آیتیں ،حدیثیں بھلا کر اس کے دام وصول کرنے لگتے ہیں ۔
کوئی تو ملے جو کہے ہاں میں خود دار نہیں
آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ ۔۔۔ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی۔۔۔۔۔ جتنے ملے سب شرفاء ملے ۔۔۔۔۔ ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔الحمدلله ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے ۔
جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرے کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے ؟
جب وہ اور اُن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا ؟ پوچھئے تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں :
ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے ۔۔۔۔۔۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی خوشی سے
دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں ۔
گھر میں عزت کے حصول کے لئے ایک عمل
آپ عورت ہیں، شادی شدہ ہیں اور گھر میں عزت پانا چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ آپ گھر والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائیں تو یہ عمل کریں۔ مجھے یہ عمل ایک بزرگ نے دیا ہے۔ جب بھی نماز پڑھیں تو نماز کی آخری التحیات میں سلام پھیرنے کے بعد یہ دعا پھر لیں    ربَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوٰجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان)اس دعا کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ آپ کے گھر کے سارے افراد کیلئے آپ کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنادیں گے۔ اس وظیفہ کی اجازت تمام عورتوں کو ہے۔ نوٹ: غیر شادی شدہ بچیاں بھی کرسکتی ہیں۔ جب ان کا وقت آئے گا تو وہ بھی اس دعا کے اثرات دیکھیں گی۔ ان شاء اللہ
 سوال کرنایا گداگر
ماہرین گداگری کو ایک ایسا سماجی رویہ قرار دیتے ہیں جس کے تحت معاشرے کا محروم طبقہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دوسروں کی امداد کا محتاج ہوجاتا ہے۔ یہ طبقہ امیر افراد سے براہ راست اشیائے خوردو نوش، لباس اور دیگر ضروریات کیلئے رقم کا مطالبہ شروع کردیتا ہے۔مگر جن لوگوں کے وجود کے اندر دلوں کے بجائے ہوس اور لالچ کے بت پیوست ہوں -تووہ دلہن والوں کے سامنے بھی دست سوال درازکرناشروع کر دیتے مانگنے کا طریقہ ذرامختلف ہوتا ہے۔کبھی سامان کی لسٹیں ، کبھی گاڑی کا مطالبہ ،اور کبھی کاروباری مشکلات دور کرنے کے لئے روپے پیسے کی ڈیمانڈ، میرے نزدیک یہ بھی سوالی اور گداگرہی ہیں۔
اس لعنت کا اندازہ کیجئے!
بی بی سی : کی رپورٹ کے مطابق  !  انڈیا کی پارلیمان میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2012 سے2014 میں تین برس کے درمیان جہیز کے لین دین سے منسلک 24,700 اموات درج کی گئیں۔
نیشنل کرائم بیورو کے ریکارڈ کے مطابق سنہ 2012 میں 8,233 نئی شادی شدہ خواتین کی جہیز کے لین دین کے حوالے سے موت ہوئی۔
سنہ 2013 میں 8,083 اور 2014 میں 8,455 نئی شادی شدہ خواتین موت کا شکار ہوئیں۔
تین برس کی اس مدت میں جہیز کے 30 ہزار سے زیادہ مقدمات درج کیے گئے تھے۔
پولیس کے کرائم ریکارڈ بیورو کے پورے ملک سےجمع کیے گئے اعداد و شمار کےمطابق تین برس کی مدت میں 24,700 خواتین کی موت رجسٹر کی گئی ۔ اس لحاظ سے اوسطً ہرروز 22 نئی شادی خواتین جہیزکی بھینٹ چڑھیں۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں