31 اگست, 2017

قربانی کی کھالیں اور اُن کا درست استعمال


قربانی کی کھالیں اور اُن کا درست استعمال۔
فرزندان توحید اللہ کے حکم اور سنت ابراہیمی کی بجا آوری کیلئے جانوروں کی خریداری میں مصروف ہیں، بہت سے لوگوں نے کئی ہفتوں سے جانور خریدرکھے ہیں، یقیناایسے لوگ اپنی نیت کے مطابق ثواب کے حق دارہیں۔
زمانے کے بدلتی ضروریات،، بدلتے تقاضوں کے سبب قربانی کی کھال بھی ایک باقاعدہ صنعت اختیار کر چکی ہے۔
سال 2014 کی رپورٹ ،، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر 70لاکھ سے زائد کھالیں جمع کی گئیں جو فلاحی تنظیموں اور بیوپاریوں کے ذریعے ٹینرز انڈسٹری کو فروخت کی گئیں۔ ان کھالوں میں گئے بیل کی 25لاکھ کھالیں، بکرے کی 40 لاکھ کھالیں جبکہ بھیڑوں کی 10لاکھ کھالیں شامل ہیں۔ ملک بھر میں 25ہزار سے زائد اونٹوں کی بھی قربانی کی گئی۔
سال 2016میں 12.2ملین جانور ذبح ہوئے۔
اس طرح ہر سال جذبہ ایمانی بڑھ رہا ھے اور یہ کاروبار بھی ۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 15 ارب روپے سے زائد کی قربانی کی کھالوں کا کاروبار ہوتا ہے یقیناً ،رفاہی ادارے ، دینی مدارس ، دیگر مذہبی جماعتیں ، اور مجاہدین کے نام پر قربانی کی کھالوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ قربانی کی کھالیں جس دینی مدرسے ، جماعت،  یا ادارے کو دیں یہ تسلی ضرور کریں اس کا غلط استعمال تو نہیں ھو گا،
اس سے پہلے ہمارے ساتھ یہ حادثہ ہو چکا کہ ہمارے دیئے ہوئے چندے اور عطیات سے ہم پر ہی مشرک کا لیبل لگایا گیا ،اور اب یہی اربوں روپے کی کھالیں کہیں دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں نہیں جائیں، 
  اگر آپ سوچتے ہیں کہ دو چار سو سے ہو گا !       آپ کے دو چار سو کی بات نہیں۔ اگر کوئی دہشت گرد تنظیم قربانی کی کھالوں کا 15 حصہ بھی لے جائے تو ایک ارب روپے سے زائد رقم دہشت گردی  کے لئے استعمال ہو سکتی ہے ۔ اور یہ خطرے سے خالی نہیں ،یہ یاد رکھئے اگر آپ نے ایک کھال بھی کسی دہشت گرد تنظیم، یا سہولت کار کو دے دی، تو آپ بھی اس دہشت گردی کے جرم میں برابر کےشریک ہیں ۔
تحریر!  محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں