16 اگست, 2017

مرزا محمد علی کااعتراض نمبر2اور جواب


آج ہم خارجی مرزا محمد علی کے دوسرے اعتراض کا جواب دیں گے انشاء الله اور پھر فیصلہ مرزا محمد علی کے اصول کے مطابق عوام پر چھوڑیں گے تاکہ وہ اس چھپے ہوئے خارجی کو پہچان سکیں
''شمالی ہوا ''پر تحقیقی جائزہ
انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں:
علماء کا نظریہ:جب مجمع ہوا کفار کا مدینہ پر کہ اسلام کا قلع قمع کردیں، یہ ’غزوہ احزاب کا واقعہ ہے، رب عزوجل نے مدد فرمانی چاہی اپنے حبیب کی، شمالی ہوا کو حکم ہوا جا اور کافروں کو نیست ونابود کر دے ۔ اس نے کہا ’بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں تو اللہ تعالی نے اس کو بانجھ کر دیا ،اسی وجہ سے شمالی ہوا سے کبھی پانی نہیں برستا،  پھر صبا سے فرمایا تو اس نے عرض کیا ہم نے سنا اور اطاعت کی، وہ گی  اور کفار کو برباد کرنا شروع کیا
۔[بریلوی:مولانا احمد رضاخان صاحب ملفوظات حصہ چہارم ص۳۷۷ بک کارنر جہلم] 
وحی کا نظریہ:إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔سورة يس: آية 82
ترجمہ: اس اللہ کا حکم تو ایسا  نافذ ہے کہ جب کبھی کسی چیز کا اراداہ کرتا ہے تو اسے اتنا فرمادینا کافی ہے کہ ہو جا،تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔
(اندھا دھند پیروی کا انجام ص: 1رقم:2)
الجواب بعنوان الوھاب: 
مرزا صاحب کا یہ اعتراض بغض اہل سنت میں اپنے غیر مقلدین اکابرین کی تقلید کا  ثبوت ہے ۔مذکورہ واقعہ کو مشہور محدث ’’صاحب ِ مسند بزار‘‘ شیخ ابوبکر احمد ابن عمروبن عبدالخالق (المتوفی ۲۹۲ھ) نے اپنی "مسند" میں نقل فرمایا ہے،  جیساکہ علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
’’روی ابن مردویہ   والبزار وغیر ھما برجال الصحیح عن ابن عباس قال لما کانت لیلۃ الاحزاب قال الصباللشمال اذھبی بنا ننصر رسول الله فقالت ان الحرائر لاتہب باللیل فغضب اﷲ علیہا فجعلھا عقیما وارسل الصبا فاطفات نیرانہم وقطعت الحنابہم فقال نصرت بالصباء واھلکت عاد بالدبور‘‘۔
(زرقانی شرح مواہب صفحہ نمبر۱۲۱،۱۲۲ مطبوعہ مصر ، از علامہ محمد عبدالباقی زرقانی علیہ الرحمۃ)
اس کے علاوہ اس واقعہ کو ’’صاحب سیرۃ حلبیہ‘‘ اور ’’صاحب مدارج النبوۃ‘‘ نے بھی نقل فرمایاہے:
’’و عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قالت الصبا للشمال: اذہبی بنا ننصر رسول اﷲ فقالت:  ان الحرائر لاتہب باللیل ، فغضب اﷲ علیہا فجعلہا عقیما ، ویقال لہا الدبور، فکان نصرہ بالصباء وکان اہلاک عاد بالدبور ، وھی الریح الغربالسیرۃ
(السیرۃ الحلبیہ صفحہ نمبر۶۵۴ ،جلد ۲،مطبوعہ بیروت از علامہ علی بن برہان الدین حلبی متوفی ۱۰۴۴ھ)
ابن مردویہ اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے ایک عجیب نکتہ بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ احزاب والی رات میں بادصباء نے بادِ شمال سے کہا آؤ ہم دونوں رسول خدا کی مدد کریں، بادِ شمال نے جواب میں بادِصبا سے کہا: ان الحرۃ لاتسیر باللیل، حرہ یعنی اصیل و آزاد عورت رات کو نہیں چلا کرتی ۔ باد صباء نے کہا حق تعالیٰ تجھ پر غضب کرے ۔ اور اسے عقیم یعنی بانجھ بنا دیا ۔ تو جس ہوا نے اس رات رسول اللہ کی مدد کی وہ بادِ صبا تھی ۔ اسی لئے حضور  نے فرمایا: میری مدد بادِ صبا سے کی گئی اورقوم عاد دبور یعنی باد شمال سے ہلاک کی گئی ۔ 
( مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ نمبر۳۰۱ مطبوعہ کراچی از شیخ عبدالحق محدث دہلوی 
یہی واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ معتبر کتب تفاسیرمیں بھی موجود تفسیر
تفسیر القرآن العظیم از حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر القرشی الدمشقی متوفی ۷۷۴ھ جلد ۳ صفحہ نمبر۴۷۰ مطبوعہ لاہور ، پاکستان
’’عن عکرمہ قال: قالت الجنوب للشمال لیلۃ الاحزاب انطلقی ننصر رسول اﷲ فقالت الشمال ان الحرۃ لاتسری باللیل قال فکانت الریح التی ارسلت علہیم الصبا‘‘۔
جامع البیان فی تفسیر القرآن از ابی جعفر محمد بن جریر طبری المتوفی ۳۱۰ ھ جلد۱۱ صفحہ نمبر۱۵۳ مطبوعہ بیروت ، لبنان۱۹۹۵ء۔
’’حدثنا محمد بن المثنی قال ثنا عبدالاعلی قال ثنا داؤد عن عکرمہ قال قالت الجنوب للشمال لیلۃ الاحزاب انطلقی ننصر رسول اﷲ فقالت الشمال ان الحرۃ لاتسری باللیل قال فکانت الریح التی ارسلت علیہم الصبا‘‘۔
الجامع لاحکام القرآن از محمد بن احمد الانصاری القرطبی المتوفی ۶۶۸ھصفحہ نمبر۱۴۳ جز ۱۴ مطبوعہ بیروت۔
’’قال عکرمۃ: قالت الجنوب للشمال لیلۃ الاحزاب : انطلقی نصرۃ النبی  ا، فقالت الشمال : ان محوۃ لاتسری بلیل ، فکانت الریح التی ارسلت علیہم الصبا‘‘۔

یہی واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ معتبر کتب احادیث میں اسانید صحیحہ کے ساتھ بھی موجود ہے:
عن عكرمةَ قالَ: لمَّا كانت ليلةُ الأحزابِ قالت الجنوبُ للشمالِ: انطَلقي بنا نمدُّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقالَت الشمالُ: إنَّ الحُرةَ لا تَسري بالليلِ، فكانَت الريحُ التي أُرسِلت عليهم الصَّبا.عيون الاخبار 
(211/1حدثني زياد بن يحيى)، و(المجالسة (۱۱۴۰)حدثنا زيد بن إسماعيل: حدثنا أبي،
كلاهما (زياد بن يحيى وإسماعيل) عن بشر بن المفضل، عن داود بن أبي هند، عن عكرمة .. (الايماء إلى زوائد الاأمالي والاجزاء: ۷۱۶۰)
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالُ لَيْلَةَ الْأَحْزَابِ، فَقَالَ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لَا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -الصَّبَا».رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ۱۰۱۵۱۸[
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالَ لَيْلَةَ الأَحْزَابِ، فَقَالَتْ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، وَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبَا.[كشف الاستار عن زوائد البزار:۱۸۱۱[
حدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا زَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، نَا أَبِي، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ؛ قَالَ لَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الأَحْزَابِ قَالَتِ الْجَنُوبُ لِلشَّمَالِ: انْطَلِقِي بِنَا نمد رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحَرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ. فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي أُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الصَّبَا [المجالسة وجواهر العلم:۱۱۴۰ [

اگر مذکورہ واقعہ نقل کرنے کی بنا پر فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ (نعوذ باللہ) گمراہ و بے دین ہیں، تو مندرجہ ذیل علمائے سلف و خلف جنہوں نے اس واقعہ کوروایت اور نقل کیا ہے، جناب ان کے متعلق کیا حکم صادر فرمائیں گے۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس  رضى الله عنہ (م ۶۸ھ)۔
٭ حضرت ابو عبداللہ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ (م۱۰۶ھ)۔
٭ حضرت ابوبکر بن موسیٰ بن مردویہ رحمۃ اللہ علیہ (م۴۱۶ھ)۔
٭ حضرت ابوبکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق صاحب ِ مسند بزار (م۲۹۲ھ)۔
٭ حضرت علامہ علی بن برہان الدین صاحب ِ سیرۃ حلبیہ (م۱۰۴۴ھ)۔
٭ حضرت علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۱۲۴ھ)۔
٭ حضرت شیخ عبدالحق محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۰۵۲ھ)۔
٭ حضرت علامہ ابن کثیر قرشی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ(م۷۷۴ھ)۔
٭ حضرت علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ(م۳۱۰ھ) ۔
٭ حضرت علامہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (م۶۶۸ھ)۔
٭ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ
٭ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ
٭ امام بزار رحمۃ اللہ علیہ
٭ امام الدینوری رحمۃ اللہ علیہ
تشریح:’’فارسلنا علیہم ریحاً وجنودا لم تروھا‘‘۔         (سورۃ الاحزاب آیت نمبر۹)
ترجمہ:’’تو ہم نے ان پر آندھی اور لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے کافروں پر ہوا بھیجی، اور حدیث میں ہے کہ پروائی نے شمال سے کہا:  چلو رسول خدا کی مدد کریں۔ ان دونوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے کہ حکم ربانی، شمالی کو بھی ہوا مگر بذریعہ باد صبا یعنی اللہ تعالیٰ نے بادصبا کو حکم دیا کہ تم اور شمالی دونوں جاؤ اور میرے حبیب کی مدد کرو۔ شمالی نے سرتابی کی، مورد غضب ہو کر سزایاب ہوئی۔اگر یہ فرض کیا جائے کہ باد شمالی کو حکم ربانی نہیں ہوا تو اسے مورد غضب ٹھہرانے اور سزا دینے کی وجہ کیا تھی ؟! 
توضیح مزید کیلئے یوں کہہ لیجئے ، یہاں تین احتمالات ہیں :
اوّل: حکم ربانی دونوں میں کسی کو نہیں تھا، بادِ صبا اپنی خوشی سے گئی تھی، تو ’’فأرسلنا علیہم ریحاً‘‘ فرمانا غلط ہوا۔
دوم: حکم ربانی صرف پروائی کوتھا، اس نے اپنی طرف سے شمالی سے کہا، تو شمالی پر غضب اور اس کو سزا بے قصور ہوئی اور یہ ظلم ہوا ۔ 
سوم: حکم دونوں کوتھا ایک کو براہِ راست، دوسرے کو بذریعہ صبا ، بادِ صبا نے تعمیل حکم کی اور سرخرو ہوئی ۔ شمالی نے نافرمانی کی سزایاب ہوئی ۔ یہی ہمارا مدعا ۔
اسی واقعہ کو فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے ملفوظات حصہ چہارم میں بیان فرمایا ہے ۔  
( تحقیقات ،صفحہ نمبر۱۳۷ ،۱۳۸ مطبوعہ انڈیاازمولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی) 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے:’’ فغضب اﷲ علیہا فجعلہا عقیماً ‘‘، یعنی اللہ تعالیٰ نے باد شمالی کو بانجھ کردیا ۔ بانجھ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اس سے پانی نہیں برستا۔( سیرۃ حلبیہ صفحہ نمبر۶۵۴،جلد۲)
علامہ محمد احمد الانصاری القرطبی المتوفی ۶۶۸ھ فرماتے ہیں:
’’قال عکرمۃ: قالت الجنوب للشمال لیلۃ الاحزاب: انطلقی لنصرۃ النبی، فقالت الشمال: ان محوۃ لاتسری بلیل ، فکانت الریح التی ارسلت علیہم الصبا‘‘۔ (الجامع لاحکام القرآن صفحہ نمبر۱۴۳ جز۱۴ مطبوعہ بیروت)
حضرت عکرمہ نے فرمایا: (جنگ) احزاب کی رات میں باد جنوب نے باد شمال سے کہا کہ حضور   کی مدد کیلئے چلو ۔ بادِ شمال نے جواب دیا کہ کنواری عورت رات کو نہیں چلتی ۔ جو ہوا (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کیلئے) بھیجی گئی وہ بادِ صبا تھی۔
حاشیہ تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں لفظ ’’محوۃ‘‘ کے تحت منقول ہے ۔ 
محوۃ:  من اسماء الشمال،’’لا نہا تمحو السحاب وتذہب بہا‘‘۔(الجامع لاحکام القرآن صفحہ نمبر۱۴۳ جلد۱۴ حاشیہ نمبر۱)
ترجمہ: (محوۃ) بادشمالی کے اسماء میں سے ایک نام ہے۔ (وجہ تسمیہ) کیونکہ وہ بادلوں کو زائل کرتی ہے اور انہیں لے جاتی ہے، یعنی اس سے بارش نہیں ہوتی ۔
یہ واقعہ مدینہ منورہ عرب شریف کا ہے ۔ عربوں سے پوچھ لو وہاں بادشمالی سے پانی کبھی نہیں برستا ۔ ہندوستان پر عرب کو قیاس کرنا سراسر باطل ہے ۔
فاضل بریلوی پر الزام کی حقیقت:
مذکورہ واقعہ سے خداوند قدوس کی ’’بے اختیاری ثابت کرنا‘‘ عقل و فہم کا قصور اور جہالت و حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ 
تعمیل حکم نہ کرنے اور حکم نہ چلنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ حکم نہ چلنا، حاکم کے عجز کی دلیل ہے اور کسی سرکش کا تعمیل حکم نہ کرنا اور تمرد و نافرمانی کی سزا پانا، عجزکی دلیل نہیں  بلکہ حاکم کے قادر ہونے کی دلیل ہے، یہاں دوسری صورت ہے پہلی صورت نہیں ۔  
قارئین کرام !غور کریں:
٭ اللہ تعالیٰ نے ابلیس لعین کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر، اس نے سجدہ نہیں کیا، یہ شیطان کی سرکشی و نافرمانی ہے، اس کی تعبیر یہ ہے کہ شیطان نے نافرمانی کی ۔ یہ تعبیر غلط ہے کہ شیطان پر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ چلا ۔ 
٭ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو حکم دیا کہ ایمان لاؤ اکثر نے نافرمانی کی ۔ اس کی صحیح تعبیر یہی ہے کہ اکثر نے نافرمانی کی، یہ تعبیر غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں چلا ۔ 
٭ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اوامر شرعیہ کی پابندی کرو، نواہی سے بچو ۔ اکثر نے نافرمانی کی،  اس کی صحیح تعبیر یہی ہے کہ اکثر نے نافرمانی کی ۔ یہ تعبیر غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں چلا ۔
٭ اسی طرح بادِ شمال کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ کافروں کو نیست و نابود کر ، اس نے نافرمانی کی۔ اس کی بھی صحیح تعبیر یہی ہے کہ اس نے تعمیل حکم نہیں کی، نافرمانی کی ، اس کو بدل کر یوں کہنا کہ اس سے لازم آیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم بادِ شمال پر نہ چلا اور نعوذ باللہ ’’خدا بے اختیار ہے ‘‘، دنیائے صحافت کا بدترین جرم ہے ۔ (تحقیقات صفحہ نمبر۱۴۰)
ثانیا :اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ حیوانات ، نباتات اور جمادات میں مادۂ معصیت پائے جانے اور اس کی وجہ سے سزا یاب ہونے کے متعلق ذکر کیا ہے ،اگر انسانوں اور جنوں کے علاوہ اور کوئی چیز کسی بات کی مکلف نہیں تھی تو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یہ کیوں ارشاد فرمایا : {و ما من دابۃ في الأرض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امم امثالکم ما فرطنا في الکتاب من شيء ثم الی ربھم یحشرون }[الأنعام : ۳۹[
زمین میں جتنے جانور اور دو بازؤوں سے اڑنے والے پرندے ہیں سب تمہاری طرح مخلوق ہیں ( جن کے انواع کا حساب بھی انسان کی طاقت سے باہر ہے مگر ) ہماری نوشت سے کوئی باہر نہیں پھر سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے [ترجمہ : ثناء اللہ امرتسری ] ۔
اس آیت کی تفسیر میں غیر مقلد وہابی محمد داؤد راز سلفی لکھتا ہے کہ : ’’سلف میں سے ایک جماعت کے نزدیک دریائی و خشکی کے تمام چرند پرند الگ الگ امت ہیں، ہر ایک کے واسطے جدا تسبیح و ذکر ہے، آیات و احادیث میں پتھروں وغیرہ کی تسبیح بھی ثابت ہے آنحضرت صلعم [ﷺ] نے دو بکریوں کو لڑتے دیکھ کر ابو ذر ؓ سے فرمایا تھا: اے ابو ذر! تم جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں ؟ ابو ذر ؓ نے عرض کیا کہ نہیں، آپ نے فرمایا: لیکن اللہ خوب جانتا ہے اور قیامت میں دونوں کے درمیان انصاف کرے گا اور حضرت عثمان ؓ سے مروی ہے کہ قیامت کے روز سینگوں والے سے بے سینگوں والے کا بھی قصاص دیا جائیگا۔ رواہ ابن احمد فی مسند ابیہ۔ اور مروی ہے کہ اللہ پاک ان کا فیصلہ کر کے فرما دے گا کہ تم سب خاک ہو جاؤ اس حال کو دیکھ کر کافر تمنا کریں گے کہ کاش آج ہم بھی خاک ہو جاتے، رواہ عبد الرزاق ۔(ثنائی ترجمہ والا قرآن مجید ۱۵۸،حاشیہ :۳)
یہی لا مذہب داؤد راز لکھتا ہے کہ : ’’ یعنی مخلوق میں سے ہر چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے، لیکن اے لوگو! تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو اس لئے کہ وہ تمہاری زبان میں نہیں، حیوانات نباتات جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں ۔۔۔۔۔اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا ۔(ثنائی ترجمہ والا قرآن مجید ،پارہ ۱۵ ،ص ۳۴۳حاشیہ :۱(
ایک اور لا مذہب صلاح الدین یوسف اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ :’’ ان آیات و صحیح احادیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جس کوہم نہ سمجھ سکیں ، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ۔ (احسن البیان، پارہ: ۱۵، ص ۳۷۴)
مذکورہ بالا لا مذہبوں کے ترجمہ اور تفسیر سے معلوم ہوا کہ ہر مخلوق کے لئے جدا جدا نماز اور ذکر و تسبیح مقرر ہے اور ہر مخلوق خواہ اس کا تعلق جمادات سے ہے یا نباتات سے ،اس میں ایک خاص قسم کا شعور بھی موجود ہے، جس کی بنا پر وہ اللہ رب العالمین کی تسبیح و نماز ادا کرتی ہے۔
ہوا بھی مخلوقات میں شامل ہے ،پس ہر مخلوق سے اس کو عطا کردہ شعور کے مطابق روز قیامت سوال ہوگا،جیسا کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :
عن ابی ہریرۃ في قولہ عزوجل {أمم أمثالکم }قال : یحشر الخلق کلھم یوم القیمۃ البھائم والدواب والطیر و کل شيء ، فیبلغ من عدل اللہ أن یأخذ للجماء من القرناء ، ثم یقول : کونی ترابا ، فذلک یقول الکافر :{یا لیتني کنت أخرجہ أخرجہ الحاکم في المستدرک ،کتاب التفسیر ج۳ س ۴۳ ح ۳۲۸۴، وقال: جعفر الجزي ھذا ھو ابن برقان ، قد احتج بہ مسلم ، وھو صحیح علی شرطہ ولم یخرجاہ (
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالی کے فرمان {أمم أمثالکم }کی تفسیر میں فرمایا کہ :روز قیامت تمام مخلوقات کو جمع کیا جائے گا ، چوپائے ، جانور ، پرندے اور دوسری تمام مخلوقات، پس اللہ تعالی کا عدل ان تک پہنچے گا، پس ایسا جانور جس کے سینگ نہیں، اس کے لئے وہ سینگ والے کو پکڑے گا پھر فرمائے گا کہ مٹی ہو جا، پس اس وقت کافر کہیں گے ’’کاش میں بھی مٹی ہو جاتا ‘‘ ۔
پس حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت اور مذکورہ بالا غیر مقلدین کی عبارات سے واضح ہو گیا کہ تمام مخلوقات کو ہمیں سمجھ نہ آنے والا شعور عطا کیا گیا ہے، جس کی بنا پر ان میں اطاعت و معصیت کا مادہ موجود ہے ،پس اسی اطاعت و معصیت کی وجہ سے روز قیامت ان کو اللہ کی بارگاہ میں جمع کیا جائے گا اور اسی کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ ہو گا، اگر وہ اس پر مکلف نہیں تو ان سے مؤاخذہ کیوں ؟ ۔
اگر ہر لحاظ سے جن وانس کے علاوہ دوسری مخلوقات قوتِ اختیاری سے لا تعلق ہے تو ان سے کئے ہوئے اعمال پر مؤاخذہ ظلم ہے، کیا اللہ رب العالمین بغیر کسی نافرمانی کے ان کو سزا دے گا ؟ ۔
ان وجوہات کی بناپر نہ تو ’’کن فیکون ‘‘ میں کچھ فرق واقع ہوتا ہے اور نہ ہی اللہ رب العزت کے ذات میں کوئی عیب ظاہر ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کو عطا کیا گیا، ان کے احوال کے مطابق شعور ہی ان کی اطاعت و نافرمانی کا سبب ہے، جس پر انہیں اللہ رب العالمین اپنی شان کے مطابق جزا وسزا دیتا ہے ،اور دے گا ۔
ثالثا :  سيدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی اس عبارت پر غیر مقلدین کے سرخیل زبیر علیزئی نے بھی اعتراض کیے ہیں، لگے ہاتھوں ان کا جواب بھی پیش خدمت ہے۔ جناب علیزئی صاحب بار بار اپنی تحریر میں لفظ ’’انکار ‘‘ استعمال کر تے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ :’’ تابعین کے اقوال کی بنیاد پر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ شمالی ہوا نے اللہ تعالی کے حکم سے انکار کر دیا تھا ‘‘۔ (الحدیث ، شمارہ ۸۶ ص ۳۲) اور کبھی كہتے ہیں کہ :’’احمد رضا خان بریلوی کا یہ دعوی ہے کہ شمالی ہوا نے اللہ تعالی کا حکم نہیں مانا ‘‘۔(الحدیث شمارہ ۸۶ ص ۳۰ )وغیرہما ۔
حالانکہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی پوری عبارت میں لفظ ’’انکار ‘‘موجود نہیں، بلکہ باد ِشمالی کا جواب مذکور ہے کہ اس نے جواب دیا کہ : ’’بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں ‘‘،جبکہ ان کے اسلاف و ہمنواؤں نے اللہ تعالی کے حکم پر آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں کا انکار کرنا لکھا ہے 
ملاحظہ ہو : اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ : {انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فأبین أن یحملنھا وأشفقن منھا و حملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا } [الأحزاب :۷۲ [

’’ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈرگئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔
] ترجمہ: صلاح الدین یوسف [

اس آیت کی تفسیر میں یہی لا مذہب لکھتا ہے کہ : ’’ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ اور آسمان وزمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا ؟ اور انسانوں نے اسے کس وقت قبول کیا ؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں نہ اسے بیان کر سکتے ہیں، ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق میں ایک خاص قسم کا احساس و شعور رکھا ہے، گو ہم اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں لیکن اللہ تعالی تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہو گا، جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا اور یہ انکار انہوں نے سر کشی و بغاوت کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کر سکے تو اس کی سخت سزا ہمیں بھگتنی ہو گی‘‘۔ ( تفسیر احسن البیان ، ۵۶۰، دار السلام )
اور اسی آیت کی تفسیر میں داؤد راز غیر مقلد لکھتا ہے کہ : فابین کا ولی اللّٰہی ترجمہ یہی ہے کہ انہوں نے انکار کر دیا، مطابق رائے بیشتر مترجمین و مفسرین ترجیح اسی ترجمہ کو حاصل ہے ۔
( ثنائی ترجمہ والا قرآن مجید ،۵۱۲ ،فاروقی کتب خانہ ملتان )
علیزئی جی ! کیا آسمان و زمین اور پہاڑوں کا پیدا کرنے والا اللہ نہیں ؟ کیا اس نے ان کو مسخر نہیں کیا ہوا ؟ اگر ان کے انکار کرنے کی تاویل خوف سے کی جا سکتی ہے تو بادِ شمالی کی تاویل بھی پہلی عمومی عادت کی وجہ ’’ بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں ‘‘کہناسے کی جا سکتی ہے۔ مگر جناب ہیں کہ صحیح روایت کی موجودگی میں بھی تعصب و عناد کا نشان بنے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کر رہے ہیں ۔ 
انکار ِصریح اور جواب ِغیر صریح میں کتنا فرق ہے، یہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے، جس کی ایک مثال قرآن مجید فرقان حمید میں انسان کی تخلیق کے حوالہ سے موجود ہے کہ اللہ رب العالمین نے فرشتوں سے فرمایا : {اني جاعل في الأرض خلیفۃ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک }[البقرۃ : ۳۰[
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر (اپنا ) ایک نائب بنانے کو ہوں ( جو سب دنیا کی آبادی پر حکمرانی کرے ) وہ بولے کیا آپ ایسے شخص کو نائب بناتے ہیں جو اس (زمین ) میں فساد کرے اور خون بہائے اور اگر خلیفہ ہی بنانا منظور ہو تو ہم اس کے قابل ہیں اس لئے کہ ) ہم تیری خوبیاں بیان کرتے ہیں اور تجھے پاکی سے یاد کرتے ہیں خدا نے کہا یقینا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ‘‘۔[ترجمہ : ثنائی [
مزید وضاحت کی ضرورت نہیں، جناب کے بزرگ کے ترجمہ میں موجود الفاظ ’’ اگر خلیفہ ہی بنانا منظور ہو تو ہم اس کے قابل ہیں‘‘سے بہت کچھ واضح ہو رہا ہے ۔ جبکہ فرشتوں کے بارے میں واضح طور پر قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ : {ویفعلون ما یؤمرون }[النحل :۵۰[
’’اور جس بات کاان کو حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں ‘‘۔اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب اور انکی ہمنوا جماعت غیر مقلدین کا یہ اعتراض لغو اور باطل ہے۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں