25 مئی, 2019

اعتکاف قرآن میں اعتکاف کاحکم

اعتکاف
قرآن میں اعتکاف کاحکم
اللہ تعالی ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کو حکم دیتا ہے۔۔۔
وَّ طَہِّرْ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الْقَآئِمِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ 
ترجمہ :اور میرا گھر ستھرا رکھ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لیے ۔(پ 17،الحج:26)
ددوسرے مقام پر ان الفاظ میں حکم دیا......
یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اللہ کے نبی مسجد کی صفائی کریں مگر ہم سمجھیں کے ہماری شان کے لائق نہیں ہیں کیا عجیب بات ہے
وعھدنا الٰی ابرٰھیم واسمٰعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود 
ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَا تُبَاشِرُوۡھُنَّ وَاَنۡتُمْ عٰکِفُوۡنَ فِی الْمَسٰجِدِ ؕ 
عورتوں سے مباشرت نہ کرو، جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کیے ہوئے ہو۔
فقہاء نے لکھا کہ
سنۃ مؤکدۃ فی العشر الاخیر من رمضان ای سنۃ کفایۃ 
رمضان المبارک کے آخر ی عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے 
اعتکاف تین قسم کاہے: (1)اعتکاف فرض جیسے نذر مانا ہوا اعتکاف،اس میں روزہ شرط ہے اور اس کی مدت کم از کم ایک دن اور رات ہے۔ (2)اعتکاف سنت،یہ بیسویں رمضان کی عصر سے عید کا چاند دیکھنے تک ہے۔(3) اعتکاف نفل اس میں نہ روزہ شرط ہے نہ اس کی مدت مقرر جب بھی مسجد میں جائے تو کہہ دے میں نے اعتکاف کی نیت کی : نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَافِ۔
روایت ہے زید ابن ثابت سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی کا حجرہ بنایا اور اس میں اعتکاف کیا (مسلم،بخاری)
حضرت ابوسعید خدری سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا ،پھر ترکی خیمہ کے اندر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا ،پھر سر مبارک خیمہ سے نکال کر فرمایا کہ ہم نے اس رات کی تلاش میں پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا ، پھر ہمارے پاس آنے والا آیا اور مجھے بتایا گیا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، تو جس نے ہمارے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کرے ،مجھے یہ رات دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی ، لہذا تم اسے آخری عشرہ میں ڈھونڈو ہر طاق تاریخ میں تلاش کرو(مسلم ،بخاری )۔
صحیحین میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مروی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رمضان کے آخرعشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے۔ 
ابو داود ام المومنین صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے راویت لائے، آپ کہتی ہیں: معتکف پر سنت یہ ہے کہ نہ مریض کی عیادت کوجائے نہ جنازہ میں حاضر ہو، نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ اس (بیوی)سے مباشرت کرے اور نہ کسی حاجت کے لیے جائے، مگر اس حاجت کے لیے جا سکتا ہے جو ضروری ہے اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں اور اعتکاف جماعت والی مسجد میں کرے۔۔۔۔۔۔۔
اعتکاف کرنے کا ثواب
ابن ماجہ ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنھما سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا: 'وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اُسے اُس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اُس نے تمام نیکیاں کیں۔
جو اللہ عزوجل کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتاہے اللہ عزوجل اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں بنادیتا ہے اور ان میں سے دو خندقوں کا درمیانی فاصلہ مشرق و مغرب کے فاصلے سے زیادہ ہے۔ (التر غیب والترہیب، کتاب الصو م)
حضرتِ سیدنا علی بن حسین اپنے والد سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، 'جس نے رمضان میں دس دن اعتکا ف کیاتو یہ اس کے لئے دو حج اور دوعمرے کرنے کی طرح ہے۔ ( شعب الایمان ،باب فی الاعتکاف )
معتکف اعتکاف کی برکت سے چالیس نمازیں تکبیر اولیٰ سے مسجد میں ادا کر لیتا ہے۔
ابن ماجہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی حضورنبی ٔرحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى فِي مَسْجِدٍ جَمَاعَةً أَرْبَعِينَ لَيْلَةً لَا تَفُوتُهُ الرَّكْعَةُ الْأُوْلٰى كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ بِهَا عِتْقًا مِنْ النَّار
ِیعنی جو شخص چالیس راتیں پہلی رکعت فوت کیے بغیرادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم سے آزادی لکھ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورسب بڑھ کر لیلۃ القدر کو پالیتا پے۔۔۔۔
لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ3﴾تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ
ترجمہ :شب ِقدر ہزار مہینوں سے بہتر اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں۔۔۔۔۔
مگر کسی کی حاجت پوری کرنااعتکاف سے بڑا ثواب
حضرتِ سیدنا ابن ِعباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا،بندے کا اپنے بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلنا اس کے لئے دس سال اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔
اعتکاف قرب الٰہی کا ذریعہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خداوند کریم کا یہ حکم ہوا کہ وہ چالیس راتیں کوہِ طور پر اعتکاف کریں اس کے بعد انہیں کتاب (توراۃ) دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر چلے گئے اور آپ چالیس دن تک دن بھر روزہ دار رہ کر ساری رات عبادت میں مشغول رہے،اور پھر اللہ نے تورات عطا کی۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا 'عبدالمطلب یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد و زاہد تھے۔ 'غار حرا میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِ حرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اسی طرح اعلانِ نبوت سے پہلے رسول اللہ ﷺ بھی غار حرا میں اعتکاف اور عبادات کرتے تھے۔
حضر ت مالک بن دینار علیہ الرحمۃ دمشق میں سکونت پذیر تھے اور حضرت امير معاويہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تیار کردہ مسجد ميں اعتکاف کيا کرتے تھے ۔
چند احتیاطیں
معتکف و غیر معتکف کے لئے مسجد میں کچا لہسن، پیاز کھانا یا کھا کر جانا جائز نہیں، جب تک بو باقی ہو کہ فرشتوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جو اس بدبودار درخت سے کھائے، وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کہ ملائکہ کو اس چیز سے ایذا ہوتی ہے۔ اس حدیث کو بُخاری و مُسلِم نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔ یہی حکم ہر اس چیز کا ہے جس میں بدبُو ہو۔ 
جیسے مولی،کچا گوشت، مٹی کا تیل، وہ دیا سلائی جس کے رگڑنے میں بُو اُڑتی ہے، ریاح خارج کرنا وغیرہ وغیرہ۔ (درمختار، ردالمحتار وغیرہما) 
تحریر :۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

صدقہ فطر

صدقہ فطر 
صدقہ فطر سوا دو کلو گندم یا ساڑھے چار کلو کھجور، جو، کشمش……… 
پاکستان میں گندم کے لحاظ سےتقریباََ سو100 روپیہ صدقہ فطر بنتا ہے…… 
اور کشمش کے لحاظ سے سے تقریباََ انیس سو 1900 روپیہ بنتا ہے………
اور مالدار لوگوں کو چاہیے کہ صدقہ فطر کبھی کشمش(سونگی) کے لحاظ سے بھی ادا کریں…… 
صدقہ فطر لغو اور بے ہودہ کلام سے روزے کی طہارت کرتا ہے۔۔۔۔۔حدیث
جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتا تو روزے زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں… حدیث
صدقہ فطر واجب ہے اور عمر بھر اس کا وقت ہے اگرعید تک ادا نہیں کر سکے تو جب وقت ملے ادا کر دیجیے…
صدقہ فطر شخص پر واجب ہے ،مال پر نہیں…
افضل یہ ہے کہ صدقہ فطر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ادا کر دیا جائے تاکہ کسی کی ضرورت پوری ہو سکے۔۔ ۔۔۔۔
عید الفطر کی صبح صادق ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے…
اور جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتا تھا صدقہ فطر ہرشخص کے ذمہ باقی رہتا ہے…
صدقہ فطر ادا کرنے کے لیے روزہ دار ہونا شرط نہیں اگر کوئی بیماری، سفر، یا کسی بھی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اس پر بھی صدقہ فطرلازم ہے…
باپ پر لازم ہے کہ اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے…
اگر بچے بالغ ہوں اورصاحب روزگار ہوں،اور والد چاہے تو ان کی اجازت سے ادا کرے…
اگر عید الفطر کی صبح کوئی مہمان گھر میں آجائے تو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرے ،اگر اس نے ادا نہیں کیا……
ایسا ملازم یا خادم جس کی کفالت بھی مالک ہی کر رہا ہو اس کا فطرانہ بھی مالک پر واجب ہے……
بالغ اولاد کا فطرانہ اگر ادا کردیا تو ادا ہوگیا، بشرطیکہ وہ اس کی کفالت میں ہوں……
اگر بالغ اولاد بر سر روزگار ہے تو ان کو مشورہ دے کہ صدقہ فطر ادا کر یں…
یورپ یا دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے وہاں کی مقامی کرنسی کے اعتبار سے صدقہ فطر ادا کریں……
اگر کوئی شخص بیرون ملک ہے اور اس نے اپنے اہل خانہ کو کہا کہ میری طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کر دو تو اسے چاہیے کہ اپنی مقامی کرنسی (مثلا یورو، ڈالر، ریال وغیرہ ) کی قیمت کے مطابق ان سے دلوائے……
ماں باپ، دادا دادی، نابالغ بھائی، اور دیگر رشتہ داروں کا فطرانہ واجب نہیں ،ہاں اگر کوئی آپ کےزیرکفالت ہے تو اس کاصدقہ فطر واجب ہے…
ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین کو دینا بہتر ہے اگر تقسیم کردیا تو پھر بھی جائز ہے……
صدقہ فطر کے مصارف بھی وہی ہیں (یعنی وہی لوگ حقدار ہیں)جو زکوۃ کے ہیں……
صدقہ فطر کے لیے مال پر زکوٰۃ کی طرح سال گزرنا ضروری نہیں، اگر کسی کے پاس عید کے دن ہی مال آیا تو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہوگا……
اگر کوئی سوال رہ گیا ہو تو کمنٹس میں اس کا جواب مل سکتا ہے……

بلاگ میں تلاش کریں