21 اگست, 2017

حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت



حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت 
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحتکرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ لوگوں کے سامنے (تکبر سے) اپنے گال مت پھلاؤ۔ یعنی لوگوں سے ملاقات اور ان سے گفتگو کے وقت ان سے منہ پھیر کر گفتگو نہ کرو جو اُن سے اعراض کرنے اور تکبر کرنے کی علامت اور اخلاق شریفانہ کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے متعلق قرآن کریم (سورۃ القلم: ۴) میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ اور یقیناًتم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد) غرضیکہ حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کی نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کرکے پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ اچھے اخلاق پیش کرنے چاہئیں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)

حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً زمین پر اِتراتے ہوئے مت چلو۔ یعنی زمین کو اللہ تعالیٰ نے سارے عناصر سے پست افتادہ بنایا ہے، تم اسی سے پیدا ہوئے، اسی پر چلتے پھرتے ہو، اپنی حقیقت کو پہچانو، اِتراکر نہ چلوجو متکبرین کا طریقہ ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا ےُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ یقین جانواللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگاوہ جنت میں نہیں جائے گا۔ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! آدمی چاہتاہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کا جوتا عمدہ ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے۔ کبر اور غرور تو حق کو ناحق کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ (مسلم ۔ کتاب الایمان ۔ باب تحریم الکبر) یعنی اپنی وسعت کے مطابق اچھا لباس پہننا کبر اور غرور نہیں بلکہ لوگوں کو حقیر سمجھنا تکبر اور غرور ہے۔حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَاقْصِدْ فِیْ مَشْےِکَ اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو۔ یعنی انسان کو درمیانی رفتار سے چلنا چاہئے، رفتار نہ اتنی تیز ہو کہ بھاگنے کے قریب پہنچ جائے اور نہ اتنی آہستہ کہ سستی میں داخل ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص جماعت کی نماز کو حاصل کرنے کے لئے جارہا ہو تو اس کو بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاگنے سے منع فرماکر اطمینان وسکون کے ساتھ چلنے کی تاکید فرمائی ہے۔حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو ایک اور اہم نصیحت : وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اپنی آواز آہستہ رکھو۔آہستہ آواز رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ انسان اتنا آہستہ بولے کہ سننے والے کو دقت پیش آئے بلکہ مراد یہ ہے کہ جن کو سنانا مقصود ہے، اُن تک تو آواز وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے، لیکن اس سے زیادہ چیخ چیخ کر بولنا اسلامی آداب کے خلاف ہے۔ غرضیکہ ہمیں اتنی ہی آواز بلند کرنی چاہئے جتنی اُس کے مخاطبوں کو سننے اور سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِےْرِ بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔آخر میں آداب معاشرت سے متعلق چار نصیحتیں ذکر کی گئیں۔ اوّل لوگوں سے گفتگو اور ملاقات میں متکبرانہ انداز سے رخ پھیر کر بات کرنے سے منع کیا گیا۔ دوسرے زمین پر اکڑکر چلنے سے منع کیا گیا۔ تیسرے درمیانی رفتار سے چلنے کی ہدایت دی گئی۔ اور چوتھے بہت زور سے شور مچاکر بولنے سے منع کیا گیا۔ ان تمام ہی نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وقت ہم دوسروں کا خیال رکھیں، کسی شخص کو بھی خواہ وہ مسلمان ہو یاکافر، ہم اس کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن ہماری طرف سے کوئی تکلیف کسی بھی بشر کو نہیں پہنچنی چاہئے، مگر ہم ان امور میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں، حالانکہ ان امور کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد میں حق تلفی انسان کے بڑے بڑے نیک اعمال کو ختم کردے گی، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی ان قیمتی نصیحتوں پر عمل کرکے ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل دیں۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں