31 اگست, 2017

قربانی کی کھالیں اور اُن کا درست استعمال


قربانی کی کھالیں اور اُن کا درست استعمال۔
فرزندان توحید اللہ کے حکم اور سنت ابراہیمی کی بجا آوری کیلئے جانوروں کی خریداری میں مصروف ہیں، بہت سے لوگوں نے کئی ہفتوں سے جانور خریدرکھے ہیں، یقیناایسے لوگ اپنی نیت کے مطابق ثواب کے حق دارہیں۔
زمانے کے بدلتی ضروریات،، بدلتے تقاضوں کے سبب قربانی کی کھال بھی ایک باقاعدہ صنعت اختیار کر چکی ہے۔
سال 2014 کی رپورٹ ،، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر 70لاکھ سے زائد کھالیں جمع کی گئیں جو فلاحی تنظیموں اور بیوپاریوں کے ذریعے ٹینرز انڈسٹری کو فروخت کی گئیں۔ ان کھالوں میں گئے بیل کی 25لاکھ کھالیں، بکرے کی 40 لاکھ کھالیں جبکہ بھیڑوں کی 10لاکھ کھالیں شامل ہیں۔ ملک بھر میں 25ہزار سے زائد اونٹوں کی بھی قربانی کی گئی۔
سال 2016میں 12.2ملین جانور ذبح ہوئے۔
اس طرح ہر سال جذبہ ایمانی بڑھ رہا ھے اور یہ کاروبار بھی ۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 15 ارب روپے سے زائد کی قربانی کی کھالوں کا کاروبار ہوتا ہے یقیناً ،رفاہی ادارے ، دینی مدارس ، دیگر مذہبی جماعتیں ، اور مجاہدین کے نام پر قربانی کی کھالوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ قربانی کی کھالیں جس دینی مدرسے ، جماعت،  یا ادارے کو دیں یہ تسلی ضرور کریں اس کا غلط استعمال تو نہیں ھو گا،
اس سے پہلے ہمارے ساتھ یہ حادثہ ہو چکا کہ ہمارے دیئے ہوئے چندے اور عطیات سے ہم پر ہی مشرک کا لیبل لگایا گیا ،اور اب یہی اربوں روپے کی کھالیں کہیں دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں نہیں جائیں، 
  اگر آپ سوچتے ہیں کہ دو چار سو سے ہو گا !       آپ کے دو چار سو کی بات نہیں۔ اگر کوئی دہشت گرد تنظیم قربانی کی کھالوں کا 15 حصہ بھی لے جائے تو ایک ارب روپے سے زائد رقم دہشت گردی  کے لئے استعمال ہو سکتی ہے ۔ اور یہ خطرے سے خالی نہیں ،یہ یاد رکھئے اگر آپ نے ایک کھال بھی کسی دہشت گرد تنظیم، یا سہولت کار کو دے دی، تو آپ بھی اس دہشت گردی کے جرم میں برابر کےشریک ہیں ۔
تحریر!  محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

27 اگست, 2017

آگہی ، اپنی پہچان


خود کو قرآن مجید میں ڈھونڈیں. انتہائی​ دلچسپ اور سبق آموز
ميں قرآن ميں کہاں ہوں ؟
-------
ایک درویش صفت مومن ايک دن کہیں بيٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے يہ آيت پڑھی

لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورۃ انبياء 10)
(ترجمہ) ”ہم نے تمہاری طرف ايسی کتاب نازل کی جس ميں تمہارا تذکرہ ہے، کيا تم نہيں سمجھتے ہو“۔

وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجيد تو لاؤ۔ اس ميں، ميں اپنا تذکرہ تلاش کروں، اور ديکھوں کہ ميں کن لوگوں کے ساتھ ہوں، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟
انہوں نے قرآن مجيد کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعريف يہ کی گئی تھی
كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ o وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ o وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ِ (الذريٰت-17،18،19)
(ترجمہ) ”رات کے تھوڑے حصے ميں سوتے تھے، اور اوقات سحر ميں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال ميں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا“۔

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال يہ تھا،
تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (السجدہ۔ 16)
(ترجمہ) ”ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہيں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُميد سے پکارتے ہيں۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو ديا ہے، اس ميں سے خرچ کرتے ہيں“۔

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال يہ تھا،
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (الفرقان۔ 64)
(ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتيں بسر کرتے ہيں“۔

اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ ميں ہے،
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (اٰل عمران۔ 134)
(ترجمہ) ”جو آسودگی اور تنگی ميں (اپنا مال خدا کي راہ ميں) خرچ کرتے ہيں، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہيں، اور خدا نيکو کاروں کو دوست رکھتا ہے“۔

اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت يہ تھی،
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر۔ 9)
(ترجمہ) ”(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہيں خواہ ان کو خود احتياج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا ليا گيا تو ايسے ہی لوگ مُراد پانے والے ہوتے ہيں“۔

اور کچھ لوگوں کی زيارت ہوئی جن کے اخلاق يہ تھے،
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوريٰ۔ 37)
(ترجمہ) ”اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حيائی کی باتوں سے پرہيز کرتے ہيں، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر ديتے ہيں“۔
اور کچھ کا ذکر یوں تھا،
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (الشوريٰ۔ 38)
(ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہيں اور نماز پڑھتے ہيں، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہيں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمايا ہے اس ميں سے خرچ کرتے ہيں“۔

وہ يہاں پہنچ کر ٹھٹک کر رہ گئے، اور کہا : اے اللہ ميں اپنے حال سے واقف ہوں، ميں تو ان لوگوں ميں کہیں نظر نہيں آتا!
پھر انہوں نے ايک دوسرا راستہ ليا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال يہ تھا،
إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ o وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ (سورہ صافات۔ 35،36)
(ترجمہ) ”ان کا يہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئي معبود نہيں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ايک ديوانہ شاعر کے کہنے سے کہيں اپنے معبودوں کو چھوڑ دينے والے ہيں؟

پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت يہ تھی،
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر۔45)
(ترجمہ) ”اور جب تنہا خدا کا ذکر کيا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ايمان نہيں رکھتے انکے دل منقبض ہو جاتے ہيں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کيا جاتا ہے تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہيں“۔

کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گيا،
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ o قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ o وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ o وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ oوَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ o حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ (المدثر۔ 47-42)
(ترجمہ) ”کہ تم دوزخ ميں کيوں پڑے؟ وہ جواب ديں گے کہ ہم نماز نہيں پڑھتے تھے اور نہ فقيروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتيں بنانے والوں کے ساتھ باتيں بنايا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار ديتے تھے، يہاں تک کہ ہميں اس يقيني چيز سے سابقہ پيش آگيا“۔

يہاں بھی پہنچ کر وہ تھوڑی دير کے لئے دم بخود کھڑے رہے۔ پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا: اے اللہ! ان لوگوں سے تيری پناہ! ميں ان لوگوں سےبری ہوں۔
اب وہ قرآن مجيد کے اوراق کو ا لٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، يہاں تک کہ اس آيت پر جا کر ٹھہرے:
وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (التوبہ۔ 102)
(ترجمہ) ”اور کچھ اور لوگ ہيں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا ديا تھا قريب ہے کہ خدا ان پرمہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے“۔

اس موقع پر اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں! يہ بے شک ميرا حال ہے !!
تو ہم کن لوگوں میں سے ہیں..؟؟؟ 
سوچئے گا !!
الله هميں عمل كى توفیق دے..

24 اگست, 2017

دنیاپرست علماء سے بچو


       دنیاپرست علماء سے بچو
             دنیا پرست علماء سے بچو
             ┄┅════❁❁════┅┄
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: رُبَّ عابدٍ جاھلٍ عالمٍ فاجرٍ  فاحذُروُا الجُھّال من العُبّادِ الفجارَ مِن العُلَمَاءِ؛ یعنی بہت عابد جاہل ہوںگے اور بہت عالم تباہ کار ہوں گے. تو جاہل عابدوں اور تباہ کار عالموں لیڈروں قائدوں سے بچو،
قدوة الکاملین زبدة الواصلین سیدنا سرکار داتا گنج بخش سید علی بن عثمان ہجویری رضی اللہ تعالی عنہ کشف المحجوب شریف میں فرماتے ہیں: "شیخ المشائخ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمة اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے، " تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو ¹ ایک غافل علماء سے،² دوسرے مداہنت کرنے والے اور ³ تیسرے جاہل صوفیاء سے، غافل علماء وہ ہیں جنہوں نے دنیا کو اپنے دل کا قبلہ بنا رکھا ہے اور شریعت میں آسانی کے متلاشی رہتے ہیں، بادشاہوں کی پرستش کرتے،ظالموں کا دامن پکڑتے ہیں، ان کے دروازوں کا طواف کرتے ہیں،خلق میں عزت و جاہ کو اپنی محراب گردانتے ہیں،اپنے غرور و تکبر اور اپنی خودپسندی پر فریفتہ ہوتے ہیں، دانستہ اپنی باتوں میں رقت و سوز پیدا کرتے ہیں،ائمہ و پیشواؤں کے بارے میں زبانِ طعن کرتے ہیں، بزرگان دین کی تحقیر کرتے ہیں،اور ان پر زیادتی کرتے ہیں،اگر ان کے ترازو کے پلڑے میں دونوں جہاں کی نعمتیں رکھ دو تب بھی وہ اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آئیںگے، کینہ و حسد کو انہوں نے اپنا شعارِ مذہب قرار دےلیا ہے،بھلا ان باتوں کا علم سے کیا تعلق، علم تو ایسی صفت ہے جس سے جہل و نادانی کی باتیں، اربابِ علم کے دلوں سے فنا ہوجاتی ہے
[کشف المحجوب مترجم،ص/۴۷]
جاہل عابد اور فاسق علماء نے پیٹھ توڑدی
امیرالمؤمنین مولاعلی کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں: دو شخصوں نے میری پیٹھ توڑی(یعنی وہ بلائے بے درماں ہیں) جاہل عابد اور عالم جو علانیہ بیباکانہ گناہوں کا ارتکاب کرے، [ فتاوی رضویہ شریف مترجم جلد/۲۱، ص/ ۵۲۷] 

21 اگست, 2017

اسم کی اقسام



اسم کی اقسام
اسم کیا ہے؟
اسم سے مراد کسی کا نام ہے یا وہ کلمہ جو کسی شخص ۔ جگہ۔ چیز یا مقام کا نام ہو۔ جس میں زمانہ اور کام بیک وقت دونوں موجود نہ ہوں۔ اسم کہلاتا ہے۔
اسم کی اقسام؛
معنی کے لحاظ سے اسم کی دو اقسام ہیں جن میں اسم معرفہ اور اسم نکرہ شامل ہے۔
اسم معرفہ؛
یہ وہ اسم ہے جو کسی خاص ۔شخص۔ جگہ۔ چیز۔ مقام یا پھر کسی خاص کیفیت کو ظاہر کرے۔ اسم معرفہ کہلاتی ہے۔اس کی آگے پانچ اقسام ہیں جن میں اسم علم۔ اسم ضمیر۔ اسم اشارہ۔ اسم موصول اور اسم منادی شامل ہیں۔
ا۔اسم علم؛
وہ اسم ہے جو کسی شخص کی پہچان کے لیے علامت کا کام کرے۔اس کی بھی آگے پانچ اقسام ہیں جن میں عرف۔ لقب۔ کنیت۔ تخلص  اور خطاب شامل ہیں۔
ب۔اسم ضمیر؛
یہ وہ اسم ہے جو کلام میں کسی دوسرے اسم کی جگہ پر آتا ہے جیسے عائشہ اچھی بچی ہے۔ وہ وقت پر اپنا کام کرتی ہے ۔اس سے سب پیا ر کرتے ہیں۔ یہاں ۔۔وہ۔۔ اور ۔۔ اس۔۔ ضمیریں ہیں جو عائشہ کے بجائے استعمال ہوتے ہیں اور عائشہ ان کی مرجع ہے۔اس کی مزید سات اقسام یہ ہیں؛ ضمیر شخصی۔ ضمیر موصولہ۔ ضمیر استفہامیہ۔ ضمیر اشارہ۔ ضمیر تاکیدی۔ ضمیر تنکیری اور ضمیر صفتی۔
ج۔اسم اشارہ؛
وہ اسم ہے جو کسی چیز کے قریب اور دور ہونے کا تعین کرے۔ جس طرف اشارہ ہو اسے مشارہ الیہ کہتے ہیں۔ نزدیک کی شے کے لیے اشارہ قریب اور دور کی شے کے لیے اشارہ بعید ہے۔ اشارہ قریب کے لیے ۔۔ اس۔ ادھر۔ یہ۔ یہی۔ ۔ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جبکہ اشارہ بعید کے لیے ۔۔اُس۔ اُدھر۔وہ وہی۔ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
د۔اسم موصول؛
وہ ناتمام اسم ہے جس کا مطلب پورے جملے کے بغیر سمجھ میں نہیں آتا۔ جیسے جو کرے گا سو بھرے گا۔ اس میں جو کا لفظ اسم موصول اور وہ اسم ناقص ہے جو اپنے معنی خود نہیں دیتا بلکہ کسی جملے کے ساتھ مل کر دیتا ہے۔چند مثالیں یہ ہیں؛جو۔ جونسا۔ جتنا۔ جس نے۔ جس کو۔ جنہوں نے۔ جن کو۔ جو کچھ جہاں ۔جب وغیرہ
ہ۔ اسم مُنادیٰ؛
اس کے معنی بلایا گیا کے ہیں۔صدا دی گئی۔ اس کے لیے ندا استعمال ہوتے ہیں جیسے ارے تم کیا کر رہے ہو۔ میں ارے حرفِ ندا ہے۔ اور تم ضمیر ہے۔ وغیرہ۔
اسم نکرہ؛
یہ وہ اسم ہے جس میں کوئی خصوصیت یہ ہو اور جو عام جگہ۔ چیز۔ شخص یا کیفیت کا نام ہو اس کی کل دس قسمیں ہیں۔جن میں اسم ذات۔ اسم کنایہ ۔اسم استفہام۔ اسم صفت۔ اسم مصدر۔ اسم حاصل مصدر۔ اسم فاعل۔ اسم مفعول۔ اسم معاوضہ اور اسم حا لیہ شامل ہیں

حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت



حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت 
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحتکرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ لوگوں کے سامنے (تکبر سے) اپنے گال مت پھلاؤ۔ یعنی لوگوں سے ملاقات اور ان سے گفتگو کے وقت ان سے منہ پھیر کر گفتگو نہ کرو جو اُن سے اعراض کرنے اور تکبر کرنے کی علامت اور اخلاق شریفانہ کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے متعلق قرآن کریم (سورۃ القلم: ۴) میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ اور یقیناًتم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد) غرضیکہ حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کی نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کرکے پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ اچھے اخلاق پیش کرنے چاہئیں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)

حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً زمین پر اِتراتے ہوئے مت چلو۔ یعنی زمین کو اللہ تعالیٰ نے سارے عناصر سے پست افتادہ بنایا ہے، تم اسی سے پیدا ہوئے، اسی پر چلتے پھرتے ہو، اپنی حقیقت کو پہچانو، اِتراکر نہ چلوجو متکبرین کا طریقہ ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا ےُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ یقین جانواللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگاوہ جنت میں نہیں جائے گا۔ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! آدمی چاہتاہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کا جوتا عمدہ ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے۔ کبر اور غرور تو حق کو ناحق کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ (مسلم ۔ کتاب الایمان ۔ باب تحریم الکبر) یعنی اپنی وسعت کے مطابق اچھا لباس پہننا کبر اور غرور نہیں بلکہ لوگوں کو حقیر سمجھنا تکبر اور غرور ہے۔حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَاقْصِدْ فِیْ مَشْےِکَ اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو۔ یعنی انسان کو درمیانی رفتار سے چلنا چاہئے، رفتار نہ اتنی تیز ہو کہ بھاگنے کے قریب پہنچ جائے اور نہ اتنی آہستہ کہ سستی میں داخل ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص جماعت کی نماز کو حاصل کرنے کے لئے جارہا ہو تو اس کو بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاگنے سے منع فرماکر اطمینان وسکون کے ساتھ چلنے کی تاکید فرمائی ہے۔حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو ایک اور اہم نصیحت : وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اپنی آواز آہستہ رکھو۔آہستہ آواز رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ انسان اتنا آہستہ بولے کہ سننے والے کو دقت پیش آئے بلکہ مراد یہ ہے کہ جن کو سنانا مقصود ہے، اُن تک تو آواز وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے، لیکن اس سے زیادہ چیخ چیخ کر بولنا اسلامی آداب کے خلاف ہے۔ غرضیکہ ہمیں اتنی ہی آواز بلند کرنی چاہئے جتنی اُس کے مخاطبوں کو سننے اور سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِےْرِ بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔آخر میں آداب معاشرت سے متعلق چار نصیحتیں ذکر کی گئیں۔ اوّل لوگوں سے گفتگو اور ملاقات میں متکبرانہ انداز سے رخ پھیر کر بات کرنے سے منع کیا گیا۔ دوسرے زمین پر اکڑکر چلنے سے منع کیا گیا۔ تیسرے درمیانی رفتار سے چلنے کی ہدایت دی گئی۔ اور چوتھے بہت زور سے شور مچاکر بولنے سے منع کیا گیا۔ ان تمام ہی نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وقت ہم دوسروں کا خیال رکھیں، کسی شخص کو بھی خواہ وہ مسلمان ہو یاکافر، ہم اس کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن ہماری طرف سے کوئی تکلیف کسی بھی بشر کو نہیں پہنچنی چاہئے، مگر ہم ان امور میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں، حالانکہ ان امور کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد میں حق تلفی انسان کے بڑے بڑے نیک اعمال کو ختم کردے گی، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی ان قیمتی نصیحتوں پر عمل کرکے ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل دیں۔

20 اگست, 2017

دو قومی نظریہ

دو قومی نظریہ
  اسی دو قومی نظریہ کو کہا جاتا ہے جو پاکستان کی اساس ہے۔
 اسی کا اعلان مسلم یہ ہے۔یا ایھا الکافرون لا اعبد ما تعبدون
اے کافرو! میں اس کی عبادت نہیں کرتا ۔جس کی تم عبادت کرتے ہو۔
اور اسی تقسیم کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتا ہے
ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مؤمن و اللہ بما تعملون بصیر
وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پس تم میں سے کوئی کا فر ہو گیا ،اور تم میں سے کوئی مؤمن ہوگیا۔
یعنی اللہ کے نزدیک دو ہی گروہ ہیں ۔مسلمان اور کافر
آئیے! ہم دیکھتے ہیں کہ قائد اس بارے میں کیا فرماتے ہیں۔
قائد اعظم نے بمبئی میں 14 اگست 1924ء کواپنے ایک خصوصی انٹرویو میں فرمایا۔
جو آپ نے Daily Herald of London کو دیا 
’’نہیں!مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اسے کبھی بھی پاٹا جا سکتا ہو۔آپ ان لوگوں کو کس طرح ایک ساتھ اکٹھا کر سکتے ہیں جو ایک چھت کے نیچے کھانا کھانے کے لیے تیار نہیں؟کیا آپ کر سکتے ہیں؟یا مجھے یہ بات اس طرح کہنے دیں کہ ہندو گائے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان اس کو کھانا چاہتے ہیں۔پھر مصالحت کہاں ہو سکتی ہے؟
آئیے!اس کی وجوہات پہ غور کرتے ہیں
 ہندی اردو جھگڑے کے باعث 1867ء میں جو نظریہ پیش کیا ، اسے ہم دو قومی نظریے کے نام سے جانتے ہیں۔ اس نظریے کی آسان تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کے مطابق نہ صرف ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظرئیے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان ہی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علیحدہ اورکامل قومیں قراردیا گیا.اوراردو کے خلاف ہندوؤں کی تحریک ایک ناقابل فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا .جس نے دوقومی نظریےکو مزید قوت دی،ہندی اور اردو کے درمیان اس قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں برآمد ہوا۔
مسلم لیگ
1906 ءسے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز دو قومی نظریہ ہی رہا ہے۔یعنی 40سال تک دو قومی نظریے پر ہی کام ہوتا رہا، اس ضمن میں آل انڈیا کانگریس، ہندو مہا سبھا دیگر ہندو تنظمیں اورہندو رہنما اپنی تمام تر کوششوں ، حربوں اور چالوں میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو دو قومی نظریے سے برگشتہ کیا جاسکے اور اس نظریے کو غلط مفروضے کے طور پر پیش کیا جائے سکے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ 
مسلم لیگ کے قیام کے اسباب
کانگریس کا ہندوؤں کی جماعت بننا            اردو ہندی تنازعہ                              گاؤ کشی کی مخالفت
انتہا پسند ہندو تحریکیں       تقسیم بنگال پر ہندوؤں کا رد عمل        متعصب ہندو لیڈروں کی سرگرمیاں
انگریزوں کا رویہ             مسلمانوں کی محرومیت            مسلمانوں کا سیاسی طور پر نظر انداز کیا جانا
شملہ وفد کی کامیابی                  فرقہ واریت                           سیاسی اصلاحات کا اعلان
ڈاکٹر علامہ اقبال 
 ڈاکٹر علامہ اقبال نے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا۔ تو آپ کے سیاسی نظریات سامنے آئے ۔ 1930ء میں الٰہ آباد کے مقام پرآل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے نہ صرف دو قومی نظرئیے کی کھل کر وضاحت کی بلکہ اسی نظرئیے کی بنیاد پر آپ نے مسلمانان ہند کی ہندوستان میں ایک الگ مملکت کے قیام کی پیشن گوئی بھی کر دی۔ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران آپ نے محمد علی جناح سے کئی ملاقاتیں کیں جن کا مقصد دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا تھا۔ 1936ء سے 1938ء تک آپ نے قائداعظم کو جو مکتوبات بھیجے ہیں ان میں بھی دو قومی نظرئیے کا عکس صاف اور نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
 محمد علی جناح
بانی پاکستان دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں آپ نے نہ صرف آل انڈیا کانگریس کے تا حیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیوبند اورمسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی۔ لیکن دو قومی نظرئیے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظرئیے ہی کی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر ہی آل انڈیا سلم لیگ کو ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد مسلمانوں کی واحد نمائندہ اور سیاسی جماعت منوائی ۔ دو قومی نظرئیے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی کو جاتا ہے۔
نظریہ پاکستان کا تاریخی پہلو
نظریہ پاکستان دراصل ایمان بھی ہے ،اتحاد بھی ہے اور تنظیم بھی ہے ۔
حضرت مجدد الف ثانی بر صغیر میں پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا ۔ پھر شاہ ولی اللہ ، علامہ اقبال اور دیگر علمائے کرام نے نظریہ پاکستان کی وضاحت کی
دو مختلف معاشرتی نظام
البیرونی اپنی مشہور کتاب، کتاب الہند میں1001میں لکھتے ہیں ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں کی طرح اپنی اپنی راہ چل رہے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے کو چھو تو لیتے ہیں لیکن مدغم نہیں ہوتے۔
اسلام اور ہندو دھرم دو مختلف معاشرتی نظام قائد اعظم نے قرار دار لاہور 23، مارچ 1940ء کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہيں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا ۔ ہندو اور مسلمان نہ آپس میں شادی کر سکتے ہيں نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہيں ۔ ان کی رزمیہ نظمیں ، ان کے ہیرو اور ان کے کارنامے مختلف ہيں ۔
پاکستان کے قیام کے کئی اغراض و مقاصد تھے ۔ جن مین سے چند کا ذکر مندرجہ ذیل ہے ۔
ـاسلامی ریاست کے قیام کی خواہش      اسلامی معاشرے کا قیام             اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ
اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ                 دو قومی نظریہ کا تحفظ              اردو زبان کا تحفظ و ترقی
مسلم تہذیب و ثقافت کی ترقی              مسلمانوں کی آزادی                مسلمانوں کی معاشی بہتری
مسلمانوں کی سیاسی و معاشی ترقی       ہندوؤں کے تعصب سے نجات            کانگرس سے نجات
رام راج سے نجات                            انگریزوں سے نجات                     تاریخی ضرورت    پر امن فضا کا قیام         اسلام کا قلعہ       ملی و قومی اتحاد


اتحاد عالم اسلام
30 دسمبر، 1906ء میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے اختتام پر بر صغیر کے قائدین کا اجلاس نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کی رہائش گاہ پر ہوا ۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ ہوا ۔
1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933ء میں پاکستان کا نام دیا ۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938ء میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی ۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930ء میں علاحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940ء تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ۔
قرار داد پاکستان کے اہم بنیادی نکات
23 مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے قافلے کی صورت سفر کرکے شرکت کی اور ایک قرار داد منظور کی جس کے مطابق مسلمانان ہند انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں سے بھی علاحدہ ریاست چاہتے تھے ۔
قرار داد پاکستان کے اہم بنیادی نکات۔


آزاد مسلم حکومت کا قیام            تقسیم کے علاوہ دوسری اسکیم کی نامنظوری              ہندو علاقوں میں مسلمانوں کا تحفظ

متعہ اور اس کی شرعی حیثیت


متعہ کیا چیز ہے
متعہ کیا چیز ہے؟ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا کوئی صحابی اس کا قائل تھا۔ شیعہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا ثبوت پیش کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں متعہ کا حکم واضح فرمائیں۔الجواب ۔متعہ کا لغوی معنی فائدہ حاصل کرنا ہے جیسا کہ امام ابو بکر جصاص نے احکام القرآن ۲/۱۴۲ میں لکھا ہے۔الا ستمتاع ھو الانتفاع اوراصطلاح میں معتہ کا معنی یہ ہے کہ خاص مدت کے لئے کسی قدر معاوضہ پر نکاح کیا جائے۔ لیکن فقہ جعفریہ کی اصطلاح میں جب کوئی مرد کسی عورت کو وقت مقررہ اور اجرت مقررہ کے عوض مجامعت کی خاطر ٹھیکہ پر حاصل کرے تو اس فعل کو متعہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ شیعہ کی کتاب فروع کافی۲/۱۹۱ پر لکھا ہے کہ:
 إنما  هى  مستاجرة. ممنوعہ عورت ٹھیکہ کی چیز ہوتی ہے۔ 
ابتدائے اسلام میں متعہ حلال تھا جسے بعد میں قطعی طور پر حرام قرار دے دیا گیا شروع اسلام میں جتنی مرتبہ بھی متعہ حلال ہوا وہ صرف ضرورت شدید ہ اور غزوات وغیرہ میں حالتِ سفر میں ہوا ہے کسی موقعہ پر بھی اس کی حلت حضر میں نہیں ہوئی۔
 چنانچہ امام ابو بکر محمد بن موسیٰ حازمی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الاعتبار ۳۳۱١ پر راقم طراز ہیں۔ إنما  كان ذلك يكون فى أسفارهم  ولم  يبلغنا أن النبى  صلى الله عليه وسلم  أباحة  لهم  وهم  فى بيوتهم 
متعہ کی حلت سفروں میں ہوئی اور ہمیں کوئی حدیث نہیں ملی جس میں یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے حالتِ حضر میں متعہ کی اجازت دی ہو۔
سیدنا ابو ذر فرماتے ہیں جیسا کہ السنن الکبری۷/۲۰۷ میں ہے کہ۔ إنما  كانت المتعة  لخوفنا   و لحربنا .حالت خوف اور غزوات کی وجہ سے متعہ حلال ہوا تھا، ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ متعہ صرف اضطرار اورضرورت شدیدہ کے وقت مباح تھا عام حالات میں نہیں جیسا کہ شیعہ حضرات سمجھتے ہیں۔ قرآنی نصوص اور احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ متعہ قطعی طور پر حرام ہو چکا ہے اور اسلام نے نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ ہی طریقے روا رکھے ہیں چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:  وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین (لونڈیاں) ہوں وہ قابل ملامت نہیں البتہ جو ان کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔(المومنون : ۵۷۔۲۳' المعارج : ۳۱۔۲۹'۷۰)  اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن نے حلت جماع کو دو چیزوں (زوجیت و ملک یمین) میں منحصر کر دیا ہے زن متعہ ان دو صورتوں میں سے کسی بھی میں بھی داخل نہیں۔ زوجہ اس لئے نہیں کہ لوازم زوجیت، میراث ، طلاق ، عدت ، نفقہ، ایلاء و ظہار، لعان وغیرہ کی یہاں مستحق نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مملوکہ بھی نہیں کیونکہ اس کی بیع، ہبہ اور اعتاق وغیرہ بھی جائز نہیں۔  علماء شیعہ بھی اس بات کے معترف ہیں کہ زن متعہ زوجیت میں داخل نہیں چنانچہ کتاب اعتقادات ابنِ بابویہ میں تصریح ہے کہ۔ أسباب حل المرأة  عندنا  أربعة  ألنكاح  و ملك  اليمين  و المتعة  و التحليل و قد روى  أبو  بصير  فى البصحيح  عن أبى  عبد الله  الصادق أنه  سئل  عن المتعة  أهى من الأربعة  قال لا۔ہمارے ہاں عورت کی حلت کے چار اسباب ہیں(۱) نکاح(۲) ملک یمین(۳) متعہ(۴) حلالہ۔
 اور ابو بصیر نے صحیح میں امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ کیا متعہ چار سے ہے تو فرمایا نہیں۔امام قرطبی اپنی تفسیر الجامع لا حکام القرآن۱۲/۷۲ پر رقمطراز ہیں۔هذا يقتضى تحريم – نكاح  المتعة  لأن  المتمتع  بها لا تجرى  مجرى الزوجات  لا ترث  ولا تورث  ولا يلحق به  ولدها ولا يخرج  من نكاحها  بطلاق  يستأنف لها و إنما  يخرج  بانقضاء التى عقدت  عليها  و صارت  كالمستاجرة۔یہ آیت حرمت متعہ پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ممتوعہ عورت زوجات کے حکم میں نہیں ہے۔ ممتوعہ عورت نہ خود کسی کی وارث ہوتی ہے اور نہ اس کا کوئی وارث ہوتا ہے اور نہ بچے کا الحاق متعہ کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے اور نہ ہی طلاق کے ساتھ اس سے جدا ہوتی ہے بلکہ طے شدہ مدت کے ختم ہوتے ہی خود بخود اس سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ بیوی کے حکم میں نہیں بلکہ یہ اجرت پر حاصل شدہ چیز ہے۔ اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ 
ہے۔جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین اور چار چار سے نکاح کرو لیکن اگر تمہیں ان کے ساتھ انصاف نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لائو جو تمہارے قبضہ میں ہیں۔(النساء : ۳)  اس آیت سے معلوم ہوا کہ نکاح چار تک محدود ہے اور متعہ میں کوئی عدد مقرر نہیں ہوتا جیسا کہ شیعہ کی معتبر کتاب تہذیب الاحکام کتاب النکاح میں ہے۔
تزوج منهن ألفا فإنهن  مستأجرات۔ چاہے ہزار سے متعہ کرے کیونکہ وہ ٹھیکہ کی چیز ہے، اس آیت سے دوسرا مقصود ایسی صورتوں کا بیان کرنا ہے جس میں حق تلفی کا کوف نہ ہو اور یہ معنی متعہ و حلالہ میں بہ نسبت منکوحہ و مملوکہ کے زیادہ ہے کیونکہ مملوکہ کے کچھ ایسے حقوق ہیں جن کو ادا نہ کرنا ظلم ہے بخلاف زن متعہ کے کہ اس کا سوائے اُجرت مقررہ کے اور کوئی حق نہیں اور حلالہ میں تو یہ بھی نہیں ہے مفت کا سودا ہے پس اگر متعہ و حلالہ مباح ہوتے تو اس موقع پر ان کا ذکر ضرور ہوتا کیونکہ ان میں حق تلفی کا کوئی خوف نہیں۔ حرمت متعہ کے متعلق قرآنی دو آیات کے بعد اب چند ایک صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں۔وَعَنْ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَتْحَ مَكَّةَ، قَالَ: فَأَقَمْنَا بِهَا خَمْسَةَ عَشَرَ، فَأَذِنَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي مُتْعَةِ النِّسَاءِ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ إلَى أَنْ قَالَ: فَلَمْ أَخْرُجْ حَتَّى حَرَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -» وَفِي رِوَايَةٍ «أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إنِّي كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنْ النِّسَاءِ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهُ وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا   
سبرۃ  جہنی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگوں میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لئے حرام کر دیا ہے سو جن کے پاس ان میں کوئی ہوتو چاہیے کہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز تم ان کو دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔ابو دائود۲۹۰، مسلم۱/۴۵۱، نیل الاوطار ۴/۱۳۴)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ۔  حرم  المتعة الطلاق و العدة  و الميراث۔   رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ سے منع فرما دیا اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے۔ (مسلم۱۴۰۷،۱۰۲۷)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔  عن على قال حرم  رسول الله  صلى الله  عليه و سلم  يوم  خيبر  لحوم  الحمر الأهلية  ونكاح المتعة۔طلاق ، عدت اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔ امامیہ شیعہ کی معتبر کتاب فروع کافی اور تہذیب الاحکام میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کا گوشت اور متعہ حرام کر دیا۔ (تہذیب الاحکام۲/۱۸۶، استبصار۳/۱۴۲، فروع کافی۲/۱۹۲)   
سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق جو کہا جاتا ہے کہ وہ متعہ کو حلال سمجھتے تھے اس کی حقیقت یہ ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ تک متعہ کو اضطرار اور شدید ضرورت میں جائز سمجھتے رہے پھر بعد میں انہین اس کے نسخ و حرمت کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اس سے بھی رجوع کر لیا تھا او ر اس کے بعد ہمیشہ متعہ کو حرام ہی سمجھتے رہے۔
 امام ترمذی نے ترمذی شریف میں باب ما جاء فی نکاح المتعۃ کا باب قائم کر کے دو حدیثیں نقل کی ہیں پہلی حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جو اوپر ذکر کر دی گئی ہے اور دوسری حدیث یہ ہے۔
عن ابن عباس قال إنما كانت  المتعة  فى أول الإسلام  حتى  إذا  نزلت الأية (الّا علیٰ ازواجھم اوماملکت ایمانھم) قال  ابن  عباس فكل فرج سوا هما فهو حرام۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ متعہ اوّل اسلام میں جائز تھا یہاں تک کہ آیت (الّا علیٰ ازواجھم اوماملکت ایمانھم)نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہو گیا اس کے بعد ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زوجہ اور مملوکہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔   (ترمذی۱/۱۳۳)
امام ابو بکر جصاص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے رجوع کے متعلق فرماتے ہیں۔ ولا نعلم  أحدا من الصحابة  روى عنه  تجريد القول فى إباحة  المتعة  غير  ابن عباس  و قد  رجع عنه حين  استقر عنجه  تحريمها  بتواتر  الأخبار من جبهة الصحابة۔
تمام صحابہ رضی اللہ عنہ میں سوائے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے کوئی بھی حلت متعہ کا قائل نہیں اور انہوں نے بھی متعہ کے جواز سے اس وقت رجوع کر لیا تھا جب تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعہ کی حرمت ان کے ہاں تواتر کے ساتھ ثابت ہو گئی۔ (احکام القرآن۲/۱۵۶)
مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ متعہ النساء قیامت تک حرام ہے۔ واللہ ورسولہ اعلم ۔

19 اگست, 2017

دہشت گردی کی تعریف اور اسکے اسباب


اگر دہشت گردی کی تعریف کریں تو اس کے پیچھے کوئی بھی سوچ یا نظریہ کارفرما ہوسکتا ہے۔مثلاََ مذہب کے نام پر ہونے والے واقعات،فاشزم کی آڑ ہونے والی جنگیں، نظریاتی تبدیلی کے نام پر، کشور کشائی اور فتوحات کے نام پر ،لوٹ مار ،قتل و غارت، آبروریزی ،طاقت کے حصول، یا معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ کی خاطر  ہونے والی لڑائیاں ۔یہ تمام دہشت گردی کی اقسام ہیں۔


دہشت گردی دو طرح کی ہے انفرادی اور دوسری حکومتی یا اجتماعی، ہمیشہ انفرادی دہشت گردی کو حکومتی دہشت گردی جنم دیتی ہے۔

دنیاکی بڑی بڑی طاقتوں نے ہمیشہ دہشت گردی کو جنم  دیا اور پھر اس دہشت گردی کو مٹانے کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کیا جس کا نتیجہ امن کی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔

اس وقت دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا مقابلہ دو طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔

نمبر1

بحیثیت قوم ایک ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اپنے گردوپیش پر نظر رکھیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ان کی نگرانی کریں۔ ہمارے بچے کہاں اٹھتے بیٹھتے ہیں، دوست کون ہیں، اساتذہ کس طرح کے ہیں، اور اس بات کی تسلی کریں کہ اگر وہ کسی دینی ادارے کے ساتھ، یا مسجد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تو وہاں انتہا پسندانہ سوچ تو  پروان نہیں  چڑھ رہی،اور آجکل یونیورسٹیوں میں نگرانی کی بھی ضرورت ہے ۔

اور دوسری بات کو سمجھنے سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں بٹھائیں، اور کوئی شخص بھی اس بات  کو درست نہیں کہہ سکتا ،کہ اگر کسی  نے میرے بھائی کو ماراتومیں اپنے ہمسایہ کو نہیں چھوڑوں گا۔عقل کا تقاضا یہ کہ مجرم کو سزا دی جائے۔ نہ کے ہمسائے کو، مگر اس وقت ایک شخص اپنے بھائی کا بدلہ اپنے ہمسائے سے لینے پر بضد ہے، اوراس کو درست یاجائز سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرتا ہے ۔
نمبر2


ھاں بہت سے سوالات یورپ و امریکہ جیسی بڑی طاقتوں پر اٹھتے ہیں۔ لیکن ان وجوہات کو جاننے کے باوجود ھمارے پاس اس کا کوئی حل نہیں۔۔
(1)سوال یہاں آج یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ داعش کا وجود آخر کیسے عمل میں آیا؟۔
اگر اس کا جواب یہ ھے ۔
کہ عالمی طاقتوں کے بغیر یہ ممکن نظر نہیں آتا تو پھر کیا ھم داعش کی حمایت کر کے ان عالمی طاقتوں کے آلہ کار بنیں نہیں ھرگز نہیں۔ 
اِس سوال کی درجنوں وجوہات اپنی جگہ مگر اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اِس تمام تر عمل میں برین واش کی تھیوری سرفہرست ہے ۔۔
(2)سوال یہ بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ داعش، بوکو حرام اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے....؟

امن دشمن چاہتے ہیں کہ کسی طرح عوام میں انتشار و اختلاف پیدا کریں جس کے لئے وہ مذہبی، لسانی اور علاقائی سمیت دیگر تعصبات کو فروغ دے کر اقوام کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے بعض ممالک ، کچھ اسلامی ممالک مثلاََ افغانستان،پاکستان،شام،اوردیگرممالک  میں اپنے نظریات کو فروغ دینے کے لئے مختلف علاقوں میں بے پناہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں جن میں سے تکفیری  نظریات کو فروغ دینے والے ممالک اور طاقتیں سرفہرست ہیں۔ انہی نظریات کی ترویج کا نتیجہ آج دہشت گردی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
 جبکہ دوسری طرف متعدد ایسے دینی مدارس بھی ہیں جن میں موجود ہیں جن کو بیرون ممالک سے بھرپور فنڈنگ کی جاتی ہے اور ان مدارس میں علی الاعلان تکفیریت اور جہاد کی تبلیغ و ترویج کی جا رہی ہے۔+
بعض متشدد اور متعصب علماء کی جانب سے سرعام دیگر مسالک و مذاہب کے ماننے والوں کی تکفیر بھی کی جاتی ہے۔ اوراسلام کے نام پر متعدد مدارس کو فنڈنگ کرنے والے ممالک کے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

16 اگست, 2017

وحدت ادیان کی حقیقت


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُون
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُواْ مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون
اردو ترجمہ : 
مسلمان ہوں ، یہودی ہوں ، نصاری ہوں یا صابی ہوں ، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔
اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور پہاڑ لا کھڑا کر دیا (اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا ہے ، اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکو۔  ( البقرة:2 - آيت:62-63 
بعض جدید مفسرین کو اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی لگی ہے۔
اور اِس آیت سے انہوں نے ایک گمراہ فلسفے "وحدت ادیان" کو کشید کرنے کی مذموم سعی کی ہے۔
یعنی یہ کہ ۔۔۔ رسالتِ محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے ، ا س کی نجات ہو جائے گی۔
یہ فلسفہ سخت گمراہ کن ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت (بقرہ:62) سے قبل والی آیات میں یہود کی بد عملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحقِ عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہو سکتا تھا کہ اُن یہود میں جو لوگ صحیح تھے ، کتاب الٰہی کے پیرو کار تھے اور اپنے پیغمبر کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے،ان کے ساتھ اللہ تعلیٰ نے کیا معاملہ فرمایا؟
یا کیا معاملہ فرمائے گا ؟ 
اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہود ہی نہیں ، نصاریٰ اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صا لح کرتے رہے ، وہ سب نجات اخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح اب رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے 
ایمان باللہ وایمان بالیوم الآ خر اورعمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقیناً آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔
نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا ، وہاں بے لاگ فیصلہ ہوگا۔
چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہم۔
اس کی تائید بعض مرسل آثار سے ہوتی ہے۔
مثلاً مجاہد حضرت سلمان فارسی سے نقل کرتے ہیں ، جس میں کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) سے ان اہلِ دین کے بارے میں پوچھا جو میرے ساتھی تھے ، عبادت گزار اور نمازی تھے (یعنی رسالت محمدیہ سے قبل وہ اپنے دین کے پابند تھے) تو اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی :
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ ....
قرآن کریم کی دوسری آیات کچھ یوں ہیں:
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔
( آل عمران:3 - آيت:19 )
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِين
جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہوگا ، وہ ہرگز قبول نہیں ہوگا۔
( آل عمران:3 - آيت:85 )
ان دو آیات میں اور سورہ البقرہ کی آیت:62 میں تطبیق یوں ہوگی کہ :
ہر نبی کا تابعدار اور اس نبی کو ماننے والا ، ایمان والا اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا ہے لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس کا انکار کرے تو کافر ہو جائے گا۔
کسی شخص کا کوئی عمل ، کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعتِ محمدیہ کے مطابق نہ ہو ۔۔۔۔ مگر یہ اُس وقت ہے جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اُس زمانے میں تھے ، ان کے لیے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے۔
اور احادیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے وضاحت فرما دی ہے کہ اب میری رسالت پر ایمان لائے بغیر کسی شخص کی نجات نہیں ہو سکتی۔
آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے فرمایا :
والذي نفس محمد بيده لا يسمع بي احد من هذه الامة يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي ارسلت به الا كان من اصحاب النار
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میری اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے ، وہ یہودی ہو یا عیسائی ، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔صحيح مسلم , كتاب الايمان
اس کا مطلب یہ ہے کہ وحدت ادیان کی گمراہی ، جہاں دیگر آیاتِ قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے ، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔
اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیثِ صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
بحوالہتفسیر ابن کثیر . تفسیر احسن البیان

مرزا محمد علی کااعتراض نمبر2اور جواب


آج ہم خارجی مرزا محمد علی کے دوسرے اعتراض کا جواب دیں گے انشاء الله اور پھر فیصلہ مرزا محمد علی کے اصول کے مطابق عوام پر چھوڑیں گے تاکہ وہ اس چھپے ہوئے خارجی کو پہچان سکیں
''شمالی ہوا ''پر تحقیقی جائزہ
انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں:
علماء کا نظریہ:جب مجمع ہوا کفار کا مدینہ پر کہ اسلام کا قلع قمع کردیں، یہ ’غزوہ احزاب کا واقعہ ہے، رب عزوجل نے مدد فرمانی چاہی اپنے حبیب کی، شمالی ہوا کو حکم ہوا جا اور کافروں کو نیست ونابود کر دے ۔ اس نے کہا ’بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں تو اللہ تعالی نے اس کو بانجھ کر دیا ،اسی وجہ سے شمالی ہوا سے کبھی پانی نہیں برستا،  پھر صبا سے فرمایا تو اس نے عرض کیا ہم نے سنا اور اطاعت کی، وہ گی  اور کفار کو برباد کرنا شروع کیا
۔[بریلوی:مولانا احمد رضاخان صاحب ملفوظات حصہ چہارم ص۳۷۷ بک کارنر جہلم] 
وحی کا نظریہ:إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔سورة يس: آية 82
ترجمہ: اس اللہ کا حکم تو ایسا  نافذ ہے کہ جب کبھی کسی چیز کا اراداہ کرتا ہے تو اسے اتنا فرمادینا کافی ہے کہ ہو جا،تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔
(اندھا دھند پیروی کا انجام ص: 1رقم:2)
الجواب بعنوان الوھاب: 
مرزا صاحب کا یہ اعتراض بغض اہل سنت میں اپنے غیر مقلدین اکابرین کی تقلید کا  ثبوت ہے ۔مذکورہ واقعہ کو مشہور محدث ’’صاحب ِ مسند بزار‘‘ شیخ ابوبکر احمد ابن عمروبن عبدالخالق (المتوفی ۲۹۲ھ) نے اپنی "مسند" میں نقل فرمایا ہے،  جیساکہ علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
’’روی ابن مردویہ   والبزار وغیر ھما برجال الصحیح عن ابن عباس قال لما کانت لیلۃ الاحزاب قال الصباللشمال اذھبی بنا ننصر رسول الله فقالت ان الحرائر لاتہب باللیل فغضب اﷲ علیہا فجعلھا عقیما وارسل الصبا فاطفات نیرانہم وقطعت الحنابہم فقال نصرت بالصباء واھلکت عاد بالدبور‘‘۔
(زرقانی شرح مواہب صفحہ نمبر۱۲۱،۱۲۲ مطبوعہ مصر ، از علامہ محمد عبدالباقی زرقانی علیہ الرحمۃ)
اس کے علاوہ اس واقعہ کو ’’صاحب سیرۃ حلبیہ‘‘ اور ’’صاحب مدارج النبوۃ‘‘ نے بھی نقل فرمایاہے:
’’و عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قالت الصبا للشمال: اذہبی بنا ننصر رسول اﷲ فقالت:  ان الحرائر لاتہب باللیل ، فغضب اﷲ علیہا فجعلہا عقیما ، ویقال لہا الدبور، فکان نصرہ بالصباء وکان اہلاک عاد بالدبور ، وھی الریح الغربالسیرۃ
(السیرۃ الحلبیہ صفحہ نمبر۶۵۴ ،جلد ۲،مطبوعہ بیروت از علامہ علی بن برہان الدین حلبی متوفی ۱۰۴۴ھ)
ابن مردویہ اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے ایک عجیب نکتہ بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ احزاب والی رات میں بادصباء نے بادِ شمال سے کہا آؤ ہم دونوں رسول خدا کی مدد کریں، بادِ شمال نے جواب میں بادِصبا سے کہا: ان الحرۃ لاتسیر باللیل، حرہ یعنی اصیل و آزاد عورت رات کو نہیں چلا کرتی ۔ باد صباء نے کہا حق تعالیٰ تجھ پر غضب کرے ۔ اور اسے عقیم یعنی بانجھ بنا دیا ۔ تو جس ہوا نے اس رات رسول اللہ کی مدد کی وہ بادِ صبا تھی ۔ اسی لئے حضور  نے فرمایا: میری مدد بادِ صبا سے کی گئی اورقوم عاد دبور یعنی باد شمال سے ہلاک کی گئی ۔ 
( مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ نمبر۳۰۱ مطبوعہ کراچی از شیخ عبدالحق محدث دہلوی 
یہی واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ معتبر کتب تفاسیرمیں بھی موجود تفسیر
تفسیر القرآن العظیم از حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر القرشی الدمشقی متوفی ۷۷۴ھ جلد ۳ صفحہ نمبر۴۷۰ مطبوعہ لاہور ، پاکستان
’’عن عکرمہ قال: قالت الجنوب للشمال لیلۃ الاحزاب انطلقی ننصر رسول اﷲ فقالت الشمال ان الحرۃ لاتسری باللیل قال فکانت الریح التی ارسلت علہیم الصبا‘‘۔
جامع البیان فی تفسیر القرآن از ابی جعفر محمد بن جریر طبری المتوفی ۳۱۰ ھ جلد۱۱ صفحہ نمبر۱۵۳ مطبوعہ بیروت ، لبنان۱۹۹۵ء۔
’’حدثنا محمد بن المثنی قال ثنا عبدالاعلی قال ثنا داؤد عن عکرمہ قال قالت الجنوب للشمال لیلۃ الاحزاب انطلقی ننصر رسول اﷲ فقالت الشمال ان الحرۃ لاتسری باللیل قال فکانت الریح التی ارسلت علیہم الصبا‘‘۔
الجامع لاحکام القرآن از محمد بن احمد الانصاری القرطبی المتوفی ۶۶۸ھصفحہ نمبر۱۴۳ جز ۱۴ مطبوعہ بیروت۔
’’قال عکرمۃ: قالت الجنوب للشمال لیلۃ الاحزاب : انطلقی نصرۃ النبی  ا، فقالت الشمال : ان محوۃ لاتسری بلیل ، فکانت الریح التی ارسلت علیہم الصبا‘‘۔

یہی واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ معتبر کتب احادیث میں اسانید صحیحہ کے ساتھ بھی موجود ہے:
عن عكرمةَ قالَ: لمَّا كانت ليلةُ الأحزابِ قالت الجنوبُ للشمالِ: انطَلقي بنا نمدُّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقالَت الشمالُ: إنَّ الحُرةَ لا تَسري بالليلِ، فكانَت الريحُ التي أُرسِلت عليهم الصَّبا.عيون الاخبار 
(211/1حدثني زياد بن يحيى)، و(المجالسة (۱۱۴۰)حدثنا زيد بن إسماعيل: حدثنا أبي،
كلاهما (زياد بن يحيى وإسماعيل) عن بشر بن المفضل، عن داود بن أبي هند، عن عكرمة .. (الايماء إلى زوائد الاأمالي والاجزاء: ۷۱۶۰)
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالُ لَيْلَةَ الْأَحْزَابِ، فَقَالَ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لَا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -الصَّبَا».رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ۱۰۱۵۱۸[
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالَ لَيْلَةَ الأَحْزَابِ، فَقَالَتْ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، وَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبَا.[كشف الاستار عن زوائد البزار:۱۸۱۱[
حدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا زَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، نَا أَبِي، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ؛ قَالَ لَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الأَحْزَابِ قَالَتِ الْجَنُوبُ لِلشَّمَالِ: انْطَلِقِي بِنَا نمد رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحَرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ. فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي أُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الصَّبَا [المجالسة وجواهر العلم:۱۱۴۰ [

اگر مذکورہ واقعہ نقل کرنے کی بنا پر فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ (نعوذ باللہ) گمراہ و بے دین ہیں، تو مندرجہ ذیل علمائے سلف و خلف جنہوں نے اس واقعہ کوروایت اور نقل کیا ہے، جناب ان کے متعلق کیا حکم صادر فرمائیں گے۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس  رضى الله عنہ (م ۶۸ھ)۔
٭ حضرت ابو عبداللہ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ (م۱۰۶ھ)۔
٭ حضرت ابوبکر بن موسیٰ بن مردویہ رحمۃ اللہ علیہ (م۴۱۶ھ)۔
٭ حضرت ابوبکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق صاحب ِ مسند بزار (م۲۹۲ھ)۔
٭ حضرت علامہ علی بن برہان الدین صاحب ِ سیرۃ حلبیہ (م۱۰۴۴ھ)۔
٭ حضرت علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۱۲۴ھ)۔
٭ حضرت شیخ عبدالحق محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۰۵۲ھ)۔
٭ حضرت علامہ ابن کثیر قرشی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ(م۷۷۴ھ)۔
٭ حضرت علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ(م۳۱۰ھ) ۔
٭ حضرت علامہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (م۶۶۸ھ)۔
٭ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ
٭ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ
٭ امام بزار رحمۃ اللہ علیہ
٭ امام الدینوری رحمۃ اللہ علیہ
تشریح:’’فارسلنا علیہم ریحاً وجنودا لم تروھا‘‘۔         (سورۃ الاحزاب آیت نمبر۹)
ترجمہ:’’تو ہم نے ان پر آندھی اور لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے کافروں پر ہوا بھیجی، اور حدیث میں ہے کہ پروائی نے شمال سے کہا:  چلو رسول خدا کی مدد کریں۔ ان دونوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے کہ حکم ربانی، شمالی کو بھی ہوا مگر بذریعہ باد صبا یعنی اللہ تعالیٰ نے بادصبا کو حکم دیا کہ تم اور شمالی دونوں جاؤ اور میرے حبیب کی مدد کرو۔ شمالی نے سرتابی کی، مورد غضب ہو کر سزایاب ہوئی۔اگر یہ فرض کیا جائے کہ باد شمالی کو حکم ربانی نہیں ہوا تو اسے مورد غضب ٹھہرانے اور سزا دینے کی وجہ کیا تھی ؟! 
توضیح مزید کیلئے یوں کہہ لیجئے ، یہاں تین احتمالات ہیں :
اوّل: حکم ربانی دونوں میں کسی کو نہیں تھا، بادِ صبا اپنی خوشی سے گئی تھی، تو ’’فأرسلنا علیہم ریحاً‘‘ فرمانا غلط ہوا۔
دوم: حکم ربانی صرف پروائی کوتھا، اس نے اپنی طرف سے شمالی سے کہا، تو شمالی پر غضب اور اس کو سزا بے قصور ہوئی اور یہ ظلم ہوا ۔ 
سوم: حکم دونوں کوتھا ایک کو براہِ راست، دوسرے کو بذریعہ صبا ، بادِ صبا نے تعمیل حکم کی اور سرخرو ہوئی ۔ شمالی نے نافرمانی کی سزایاب ہوئی ۔ یہی ہمارا مدعا ۔
اسی واقعہ کو فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے ملفوظات حصہ چہارم میں بیان فرمایا ہے ۔  
( تحقیقات ،صفحہ نمبر۱۳۷ ،۱۳۸ مطبوعہ انڈیاازمولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی) 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے:’’ فغضب اﷲ علیہا فجعلہا عقیماً ‘‘، یعنی اللہ تعالیٰ نے باد شمالی کو بانجھ کردیا ۔ بانجھ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اس سے پانی نہیں برستا۔( سیرۃ حلبیہ صفحہ نمبر۶۵۴،جلد۲)
علامہ محمد احمد الانصاری القرطبی المتوفی ۶۶۸ھ فرماتے ہیں:
’’قال عکرمۃ: قالت الجنوب للشمال لیلۃ الاحزاب: انطلقی لنصرۃ النبی، فقالت الشمال: ان محوۃ لاتسری بلیل ، فکانت الریح التی ارسلت علیہم الصبا‘‘۔ (الجامع لاحکام القرآن صفحہ نمبر۱۴۳ جز۱۴ مطبوعہ بیروت)
حضرت عکرمہ نے فرمایا: (جنگ) احزاب کی رات میں باد جنوب نے باد شمال سے کہا کہ حضور   کی مدد کیلئے چلو ۔ بادِ شمال نے جواب دیا کہ کنواری عورت رات کو نہیں چلتی ۔ جو ہوا (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کیلئے) بھیجی گئی وہ بادِ صبا تھی۔
حاشیہ تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں لفظ ’’محوۃ‘‘ کے تحت منقول ہے ۔ 
محوۃ:  من اسماء الشمال،’’لا نہا تمحو السحاب وتذہب بہا‘‘۔(الجامع لاحکام القرآن صفحہ نمبر۱۴۳ جلد۱۴ حاشیہ نمبر۱)
ترجمہ: (محوۃ) بادشمالی کے اسماء میں سے ایک نام ہے۔ (وجہ تسمیہ) کیونکہ وہ بادلوں کو زائل کرتی ہے اور انہیں لے جاتی ہے، یعنی اس سے بارش نہیں ہوتی ۔
یہ واقعہ مدینہ منورہ عرب شریف کا ہے ۔ عربوں سے پوچھ لو وہاں بادشمالی سے پانی کبھی نہیں برستا ۔ ہندوستان پر عرب کو قیاس کرنا سراسر باطل ہے ۔
فاضل بریلوی پر الزام کی حقیقت:
مذکورہ واقعہ سے خداوند قدوس کی ’’بے اختیاری ثابت کرنا‘‘ عقل و فہم کا قصور اور جہالت و حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ 
تعمیل حکم نہ کرنے اور حکم نہ چلنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ حکم نہ چلنا، حاکم کے عجز کی دلیل ہے اور کسی سرکش کا تعمیل حکم نہ کرنا اور تمرد و نافرمانی کی سزا پانا، عجزکی دلیل نہیں  بلکہ حاکم کے قادر ہونے کی دلیل ہے، یہاں دوسری صورت ہے پہلی صورت نہیں ۔  
قارئین کرام !غور کریں:
٭ اللہ تعالیٰ نے ابلیس لعین کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر، اس نے سجدہ نہیں کیا، یہ شیطان کی سرکشی و نافرمانی ہے، اس کی تعبیر یہ ہے کہ شیطان نے نافرمانی کی ۔ یہ تعبیر غلط ہے کہ شیطان پر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ چلا ۔ 
٭ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو حکم دیا کہ ایمان لاؤ اکثر نے نافرمانی کی ۔ اس کی صحیح تعبیر یہی ہے کہ اکثر نے نافرمانی کی، یہ تعبیر غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں چلا ۔ 
٭ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اوامر شرعیہ کی پابندی کرو، نواہی سے بچو ۔ اکثر نے نافرمانی کی،  اس کی صحیح تعبیر یہی ہے کہ اکثر نے نافرمانی کی ۔ یہ تعبیر غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں چلا ۔
٭ اسی طرح بادِ شمال کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ کافروں کو نیست و نابود کر ، اس نے نافرمانی کی۔ اس کی بھی صحیح تعبیر یہی ہے کہ اس نے تعمیل حکم نہیں کی، نافرمانی کی ، اس کو بدل کر یوں کہنا کہ اس سے لازم آیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم بادِ شمال پر نہ چلا اور نعوذ باللہ ’’خدا بے اختیار ہے ‘‘، دنیائے صحافت کا بدترین جرم ہے ۔ (تحقیقات صفحہ نمبر۱۴۰)
ثانیا :اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ حیوانات ، نباتات اور جمادات میں مادۂ معصیت پائے جانے اور اس کی وجہ سے سزا یاب ہونے کے متعلق ذکر کیا ہے ،اگر انسانوں اور جنوں کے علاوہ اور کوئی چیز کسی بات کی مکلف نہیں تھی تو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یہ کیوں ارشاد فرمایا : {و ما من دابۃ في الأرض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امم امثالکم ما فرطنا في الکتاب من شيء ثم الی ربھم یحشرون }[الأنعام : ۳۹[
زمین میں جتنے جانور اور دو بازؤوں سے اڑنے والے پرندے ہیں سب تمہاری طرح مخلوق ہیں ( جن کے انواع کا حساب بھی انسان کی طاقت سے باہر ہے مگر ) ہماری نوشت سے کوئی باہر نہیں پھر سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے [ترجمہ : ثناء اللہ امرتسری ] ۔
اس آیت کی تفسیر میں غیر مقلد وہابی محمد داؤد راز سلفی لکھتا ہے کہ : ’’سلف میں سے ایک جماعت کے نزدیک دریائی و خشکی کے تمام چرند پرند الگ الگ امت ہیں، ہر ایک کے واسطے جدا تسبیح و ذکر ہے، آیات و احادیث میں پتھروں وغیرہ کی تسبیح بھی ثابت ہے آنحضرت صلعم [ﷺ] نے دو بکریوں کو لڑتے دیکھ کر ابو ذر ؓ سے فرمایا تھا: اے ابو ذر! تم جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں ؟ ابو ذر ؓ نے عرض کیا کہ نہیں، آپ نے فرمایا: لیکن اللہ خوب جانتا ہے اور قیامت میں دونوں کے درمیان انصاف کرے گا اور حضرت عثمان ؓ سے مروی ہے کہ قیامت کے روز سینگوں والے سے بے سینگوں والے کا بھی قصاص دیا جائیگا۔ رواہ ابن احمد فی مسند ابیہ۔ اور مروی ہے کہ اللہ پاک ان کا فیصلہ کر کے فرما دے گا کہ تم سب خاک ہو جاؤ اس حال کو دیکھ کر کافر تمنا کریں گے کہ کاش آج ہم بھی خاک ہو جاتے، رواہ عبد الرزاق ۔(ثنائی ترجمہ والا قرآن مجید ۱۵۸،حاشیہ :۳)
یہی لا مذہب داؤد راز لکھتا ہے کہ : ’’ یعنی مخلوق میں سے ہر چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے، لیکن اے لوگو! تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو اس لئے کہ وہ تمہاری زبان میں نہیں، حیوانات نباتات جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں ۔۔۔۔۔اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا ۔(ثنائی ترجمہ والا قرآن مجید ،پارہ ۱۵ ،ص ۳۴۳حاشیہ :۱(
ایک اور لا مذہب صلاح الدین یوسف اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ :’’ ان آیات و صحیح احادیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جس کوہم نہ سمجھ سکیں ، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ۔ (احسن البیان، پارہ: ۱۵، ص ۳۷۴)
مذکورہ بالا لا مذہبوں کے ترجمہ اور تفسیر سے معلوم ہوا کہ ہر مخلوق کے لئے جدا جدا نماز اور ذکر و تسبیح مقرر ہے اور ہر مخلوق خواہ اس کا تعلق جمادات سے ہے یا نباتات سے ،اس میں ایک خاص قسم کا شعور بھی موجود ہے، جس کی بنا پر وہ اللہ رب العالمین کی تسبیح و نماز ادا کرتی ہے۔
ہوا بھی مخلوقات میں شامل ہے ،پس ہر مخلوق سے اس کو عطا کردہ شعور کے مطابق روز قیامت سوال ہوگا،جیسا کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :
عن ابی ہریرۃ في قولہ عزوجل {أمم أمثالکم }قال : یحشر الخلق کلھم یوم القیمۃ البھائم والدواب والطیر و کل شيء ، فیبلغ من عدل اللہ أن یأخذ للجماء من القرناء ، ثم یقول : کونی ترابا ، فذلک یقول الکافر :{یا لیتني کنت أخرجہ أخرجہ الحاکم في المستدرک ،کتاب التفسیر ج۳ س ۴۳ ح ۳۲۸۴، وقال: جعفر الجزي ھذا ھو ابن برقان ، قد احتج بہ مسلم ، وھو صحیح علی شرطہ ولم یخرجاہ (
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالی کے فرمان {أمم أمثالکم }کی تفسیر میں فرمایا کہ :روز قیامت تمام مخلوقات کو جمع کیا جائے گا ، چوپائے ، جانور ، پرندے اور دوسری تمام مخلوقات، پس اللہ تعالی کا عدل ان تک پہنچے گا، پس ایسا جانور جس کے سینگ نہیں، اس کے لئے وہ سینگ والے کو پکڑے گا پھر فرمائے گا کہ مٹی ہو جا، پس اس وقت کافر کہیں گے ’’کاش میں بھی مٹی ہو جاتا ‘‘ ۔
پس حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت اور مذکورہ بالا غیر مقلدین کی عبارات سے واضح ہو گیا کہ تمام مخلوقات کو ہمیں سمجھ نہ آنے والا شعور عطا کیا گیا ہے، جس کی بنا پر ان میں اطاعت و معصیت کا مادہ موجود ہے ،پس اسی اطاعت و معصیت کی وجہ سے روز قیامت ان کو اللہ کی بارگاہ میں جمع کیا جائے گا اور اسی کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ ہو گا، اگر وہ اس پر مکلف نہیں تو ان سے مؤاخذہ کیوں ؟ ۔
اگر ہر لحاظ سے جن وانس کے علاوہ دوسری مخلوقات قوتِ اختیاری سے لا تعلق ہے تو ان سے کئے ہوئے اعمال پر مؤاخذہ ظلم ہے، کیا اللہ رب العالمین بغیر کسی نافرمانی کے ان کو سزا دے گا ؟ ۔
ان وجوہات کی بناپر نہ تو ’’کن فیکون ‘‘ میں کچھ فرق واقع ہوتا ہے اور نہ ہی اللہ رب العزت کے ذات میں کوئی عیب ظاہر ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کو عطا کیا گیا، ان کے احوال کے مطابق شعور ہی ان کی اطاعت و نافرمانی کا سبب ہے، جس پر انہیں اللہ رب العالمین اپنی شان کے مطابق جزا وسزا دیتا ہے ،اور دے گا ۔
ثالثا :  سيدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی اس عبارت پر غیر مقلدین کے سرخیل زبیر علیزئی نے بھی اعتراض کیے ہیں، لگے ہاتھوں ان کا جواب بھی پیش خدمت ہے۔ جناب علیزئی صاحب بار بار اپنی تحریر میں لفظ ’’انکار ‘‘ استعمال کر تے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ :’’ تابعین کے اقوال کی بنیاد پر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ شمالی ہوا نے اللہ تعالی کے حکم سے انکار کر دیا تھا ‘‘۔ (الحدیث ، شمارہ ۸۶ ص ۳۲) اور کبھی كہتے ہیں کہ :’’احمد رضا خان بریلوی کا یہ دعوی ہے کہ شمالی ہوا نے اللہ تعالی کا حکم نہیں مانا ‘‘۔(الحدیث شمارہ ۸۶ ص ۳۰ )وغیرہما ۔
حالانکہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی پوری عبارت میں لفظ ’’انکار ‘‘موجود نہیں، بلکہ باد ِشمالی کا جواب مذکور ہے کہ اس نے جواب دیا کہ : ’’بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں ‘‘،جبکہ ان کے اسلاف و ہمنواؤں نے اللہ تعالی کے حکم پر آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں کا انکار کرنا لکھا ہے 
ملاحظہ ہو : اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ : {انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فأبین أن یحملنھا وأشفقن منھا و حملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا } [الأحزاب :۷۲ [

’’ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈرگئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔
] ترجمہ: صلاح الدین یوسف [

اس آیت کی تفسیر میں یہی لا مذہب لکھتا ہے کہ : ’’ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ اور آسمان وزمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا ؟ اور انسانوں نے اسے کس وقت قبول کیا ؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں نہ اسے بیان کر سکتے ہیں، ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق میں ایک خاص قسم کا احساس و شعور رکھا ہے، گو ہم اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں لیکن اللہ تعالی تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہو گا، جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا اور یہ انکار انہوں نے سر کشی و بغاوت کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کر سکے تو اس کی سخت سزا ہمیں بھگتنی ہو گی‘‘۔ ( تفسیر احسن البیان ، ۵۶۰، دار السلام )
اور اسی آیت کی تفسیر میں داؤد راز غیر مقلد لکھتا ہے کہ : فابین کا ولی اللّٰہی ترجمہ یہی ہے کہ انہوں نے انکار کر دیا، مطابق رائے بیشتر مترجمین و مفسرین ترجیح اسی ترجمہ کو حاصل ہے ۔
( ثنائی ترجمہ والا قرآن مجید ،۵۱۲ ،فاروقی کتب خانہ ملتان )
علیزئی جی ! کیا آسمان و زمین اور پہاڑوں کا پیدا کرنے والا اللہ نہیں ؟ کیا اس نے ان کو مسخر نہیں کیا ہوا ؟ اگر ان کے انکار کرنے کی تاویل خوف سے کی جا سکتی ہے تو بادِ شمالی کی تاویل بھی پہلی عمومی عادت کی وجہ ’’ بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں ‘‘کہناسے کی جا سکتی ہے۔ مگر جناب ہیں کہ صحیح روایت کی موجودگی میں بھی تعصب و عناد کا نشان بنے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کر رہے ہیں ۔ 
انکار ِصریح اور جواب ِغیر صریح میں کتنا فرق ہے، یہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے، جس کی ایک مثال قرآن مجید فرقان حمید میں انسان کی تخلیق کے حوالہ سے موجود ہے کہ اللہ رب العالمین نے فرشتوں سے فرمایا : {اني جاعل في الأرض خلیفۃ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک }[البقرۃ : ۳۰[
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر (اپنا ) ایک نائب بنانے کو ہوں ( جو سب دنیا کی آبادی پر حکمرانی کرے ) وہ بولے کیا آپ ایسے شخص کو نائب بناتے ہیں جو اس (زمین ) میں فساد کرے اور خون بہائے اور اگر خلیفہ ہی بنانا منظور ہو تو ہم اس کے قابل ہیں اس لئے کہ ) ہم تیری خوبیاں بیان کرتے ہیں اور تجھے پاکی سے یاد کرتے ہیں خدا نے کہا یقینا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ‘‘۔[ترجمہ : ثنائی [
مزید وضاحت کی ضرورت نہیں، جناب کے بزرگ کے ترجمہ میں موجود الفاظ ’’ اگر خلیفہ ہی بنانا منظور ہو تو ہم اس کے قابل ہیں‘‘سے بہت کچھ واضح ہو رہا ہے ۔ جبکہ فرشتوں کے بارے میں واضح طور پر قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ : {ویفعلون ما یؤمرون }[النحل :۵۰[
’’اور جس بات کاان کو حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں ‘‘۔اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب اور انکی ہمنوا جماعت غیر مقلدین کا یہ اعتراض لغو اور باطل ہے۔

بلاگ میں تلاش کریں