20 اگست, 2017

دو قومی نظریہ

دو قومی نظریہ
  اسی دو قومی نظریہ کو کہا جاتا ہے جو پاکستان کی اساس ہے۔
 اسی کا اعلان مسلم یہ ہے۔یا ایھا الکافرون لا اعبد ما تعبدون
اے کافرو! میں اس کی عبادت نہیں کرتا ۔جس کی تم عبادت کرتے ہو۔
اور اسی تقسیم کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتا ہے
ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مؤمن و اللہ بما تعملون بصیر
وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پس تم میں سے کوئی کا فر ہو گیا ،اور تم میں سے کوئی مؤمن ہوگیا۔
یعنی اللہ کے نزدیک دو ہی گروہ ہیں ۔مسلمان اور کافر
آئیے! ہم دیکھتے ہیں کہ قائد اس بارے میں کیا فرماتے ہیں۔
قائد اعظم نے بمبئی میں 14 اگست 1924ء کواپنے ایک خصوصی انٹرویو میں فرمایا۔
جو آپ نے Daily Herald of London کو دیا 
’’نہیں!مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اسے کبھی بھی پاٹا جا سکتا ہو۔آپ ان لوگوں کو کس طرح ایک ساتھ اکٹھا کر سکتے ہیں جو ایک چھت کے نیچے کھانا کھانے کے لیے تیار نہیں؟کیا آپ کر سکتے ہیں؟یا مجھے یہ بات اس طرح کہنے دیں کہ ہندو گائے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان اس کو کھانا چاہتے ہیں۔پھر مصالحت کہاں ہو سکتی ہے؟
آئیے!اس کی وجوہات پہ غور کرتے ہیں
 ہندی اردو جھگڑے کے باعث 1867ء میں جو نظریہ پیش کیا ، اسے ہم دو قومی نظریے کے نام سے جانتے ہیں۔ اس نظریے کی آسان تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کے مطابق نہ صرف ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظرئیے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان ہی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علیحدہ اورکامل قومیں قراردیا گیا.اوراردو کے خلاف ہندوؤں کی تحریک ایک ناقابل فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا .جس نے دوقومی نظریےکو مزید قوت دی،ہندی اور اردو کے درمیان اس قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں برآمد ہوا۔
مسلم لیگ
1906 ءسے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز دو قومی نظریہ ہی رہا ہے۔یعنی 40سال تک دو قومی نظریے پر ہی کام ہوتا رہا، اس ضمن میں آل انڈیا کانگریس، ہندو مہا سبھا دیگر ہندو تنظمیں اورہندو رہنما اپنی تمام تر کوششوں ، حربوں اور چالوں میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو دو قومی نظریے سے برگشتہ کیا جاسکے اور اس نظریے کو غلط مفروضے کے طور پر پیش کیا جائے سکے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ 
مسلم لیگ کے قیام کے اسباب
کانگریس کا ہندوؤں کی جماعت بننا            اردو ہندی تنازعہ                              گاؤ کشی کی مخالفت
انتہا پسند ہندو تحریکیں       تقسیم بنگال پر ہندوؤں کا رد عمل        متعصب ہندو لیڈروں کی سرگرمیاں
انگریزوں کا رویہ             مسلمانوں کی محرومیت            مسلمانوں کا سیاسی طور پر نظر انداز کیا جانا
شملہ وفد کی کامیابی                  فرقہ واریت                           سیاسی اصلاحات کا اعلان
ڈاکٹر علامہ اقبال 
 ڈاکٹر علامہ اقبال نے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا۔ تو آپ کے سیاسی نظریات سامنے آئے ۔ 1930ء میں الٰہ آباد کے مقام پرآل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے نہ صرف دو قومی نظرئیے کی کھل کر وضاحت کی بلکہ اسی نظرئیے کی بنیاد پر آپ نے مسلمانان ہند کی ہندوستان میں ایک الگ مملکت کے قیام کی پیشن گوئی بھی کر دی۔ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران آپ نے محمد علی جناح سے کئی ملاقاتیں کیں جن کا مقصد دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا تھا۔ 1936ء سے 1938ء تک آپ نے قائداعظم کو جو مکتوبات بھیجے ہیں ان میں بھی دو قومی نظرئیے کا عکس صاف اور نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
 محمد علی جناح
بانی پاکستان دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں آپ نے نہ صرف آل انڈیا کانگریس کے تا حیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیوبند اورمسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی۔ لیکن دو قومی نظرئیے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظرئیے ہی کی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر ہی آل انڈیا سلم لیگ کو ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد مسلمانوں کی واحد نمائندہ اور سیاسی جماعت منوائی ۔ دو قومی نظرئیے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی کو جاتا ہے۔
نظریہ پاکستان کا تاریخی پہلو
نظریہ پاکستان دراصل ایمان بھی ہے ،اتحاد بھی ہے اور تنظیم بھی ہے ۔
حضرت مجدد الف ثانی بر صغیر میں پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا ۔ پھر شاہ ولی اللہ ، علامہ اقبال اور دیگر علمائے کرام نے نظریہ پاکستان کی وضاحت کی
دو مختلف معاشرتی نظام
البیرونی اپنی مشہور کتاب، کتاب الہند میں1001میں لکھتے ہیں ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں کی طرح اپنی اپنی راہ چل رہے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے کو چھو تو لیتے ہیں لیکن مدغم نہیں ہوتے۔
اسلام اور ہندو دھرم دو مختلف معاشرتی نظام قائد اعظم نے قرار دار لاہور 23، مارچ 1940ء کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہيں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا ۔ ہندو اور مسلمان نہ آپس میں شادی کر سکتے ہيں نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہيں ۔ ان کی رزمیہ نظمیں ، ان کے ہیرو اور ان کے کارنامے مختلف ہيں ۔
پاکستان کے قیام کے کئی اغراض و مقاصد تھے ۔ جن مین سے چند کا ذکر مندرجہ ذیل ہے ۔
ـاسلامی ریاست کے قیام کی خواہش      اسلامی معاشرے کا قیام             اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ
اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ                 دو قومی نظریہ کا تحفظ              اردو زبان کا تحفظ و ترقی
مسلم تہذیب و ثقافت کی ترقی              مسلمانوں کی آزادی                مسلمانوں کی معاشی بہتری
مسلمانوں کی سیاسی و معاشی ترقی       ہندوؤں کے تعصب سے نجات            کانگرس سے نجات
رام راج سے نجات                            انگریزوں سے نجات                     تاریخی ضرورت    پر امن فضا کا قیام         اسلام کا قلعہ       ملی و قومی اتحاد


اتحاد عالم اسلام
30 دسمبر، 1906ء میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے اختتام پر بر صغیر کے قائدین کا اجلاس نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کی رہائش گاہ پر ہوا ۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ ہوا ۔
1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933ء میں پاکستان کا نام دیا ۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938ء میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی ۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930ء میں علاحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940ء تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ۔
قرار داد پاکستان کے اہم بنیادی نکات
23 مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے قافلے کی صورت سفر کرکے شرکت کی اور ایک قرار داد منظور کی جس کے مطابق مسلمانان ہند انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں سے بھی علاحدہ ریاست چاہتے تھے ۔
قرار داد پاکستان کے اہم بنیادی نکات۔


آزاد مسلم حکومت کا قیام            تقسیم کے علاوہ دوسری اسکیم کی نامنظوری              ہندو علاقوں میں مسلمانوں کا تحفظ

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں