23 اکتوبر, 2017

اسلام میں فرقوں کا آغاز کب ہوا


اسلام میں فرقوں کا آغاز کب ہوا
میرے نقطہ نظر سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اختلاف رائے کا حق سب کو ہے دلیل سے
لیکن جو میں نے سمجھا جب دین و مذہب سے زیادہ اہمیت جب شخصیت کو دی جائے تو پھر فرقے جنم لیتے ہیں۔۔

اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی پیغام لے کر اٹھا۔ )
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ( (سورۃ النساء: ۱)ترجمہ:"اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا" ،کے ذریعے اسلامی مساوات ِ باہمی بھاری چارہ کو عام کیا تو )
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة( (سورۃ الحجرات: ۱۰)ترجمہ:"بےشک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں"کہہ کر تمیزِ بندہ و آقا کے سارے بت توڑ دیے۔۔۔۔
دین و مذہب سے زیادہ اہمیت کا حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، کیونکہ زبان رسول صل اللہ علیہ وسلم سے جو نکلا وہی دین ہے ۔آپ شارع ہیں ۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب عمل کرنے والے ہیں۔
اب آتے ہیں فرقوں کی کچھ بنیاد کے متعلق۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں شخصیات کے ساتھ لگاؤ اور محبت کی وجہ سے فرقے وجود میں آئے۔
لیکن یہ یاد رہے کہ ان تمام گروہوں کی بنیاد سیاسی تھی مذہبی نہیں تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سیاسی حکمت عملی کے تحت کوفہ کو اپنا مرکز بنا چکے تھے۔
(1) پہلا سیاسی گروہ شیعان علی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ۔ یہ وہ لوگ تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ہر صورت میں حمایت کرتے تھے۔ بعد میں یہی لوگ،، اہل تشیع ،، شیعہ اور فقہ جعفریہ والے کہلائے ۔۔آگے چل کر ان کی کئی شاخیں ہیں۔۔۔ وہ اگلی قسط میں بیان کروں گا۔۔۔۔۔
(2) دوسرا سیاسی گروہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ ہو تعالئ عنہ کا حمایتی تھا۔ وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بطور گورنر ہم نے دیکھا ہے بڑے اچھے حکمران ہیں ۔اس لئے مسلمانوں کا امیر بھی انہی کو ہونا چاہیے۔ اور دوسری بات یہ کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے قتل کا بدلہ لینے کی آواز بھی یہاں سے بلند ہو رہی تھی۔۔۔۔۔غالبًا اس کے اثرات آج بھی ایک جماعت میں یزید کی حمایت کی صورت پائے جاتے ہیں۔ 
(3)تیسرا گروہ ۔ یہ اسلام میں پہلا مذہبی فرقہ تھا جس نے شعائر سے ہٹ کر اپنا الگ گروہ بنایا۔ یہ گروہ جس کی اکثریت بدوی عراقیوں کی تھی۔ جنگ صفین کے موقع پر سب سے پہلے نمودار ہوا۔ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے اس بنا پر علیحدہ ہوگئے۔ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی تجویز منظور کر لی تھی۔ خارجیوں کا نعرہ تھا کہ ’’حاکمیت اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ انھوں نے شعث بن راسبی کی سرکردگی میں مقام حرورا میں پڑاؤ ڈالا اور کوفہ، بصرہ، مدائن وغیرہ میں اپنے عقائد کی تبلیغ شروع کر دی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ دینی معاملات میں انسان کو حاکم بنانا کفر ہے اور جو لوگ ایسے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ واجب القتل ہیں۔
خارجیوں کے اعتقاد کے مطابق علی المرتضی خلیفہ برحق تھے۔ ان کی بیعت ہر مسلمان پر لازم تھی۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا وہ اللہ اور رسول اللہ کے دشمن تھے۔ اس لیے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے خلاف جنگ ضروری اور قتل جائز ہے۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی صلح کرنا ازروئے قرآن کفر ہے۔ 
اور پھر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر بھی کفر کا فتوی لگا دیا۔ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے چونکہ ان کے ساتھ مصالحت کرنے اور حکم قرآنی میں ثالث بنانے کا جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی خلافت بھی ناجائز ہوگئ۔۔۔۔ اس کا نام ہر دور میں مختلف رہا لیکن ان کا کام مسلمانوں کے بارے میں کفر و شرک کے فتوے لگا کر قتل کو جائز قرار دینا رہا۔۔۔۔
(4)چوتھا گروہ۔ اس گروہ میں اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کی اولادیں۔ مکہ ومدینہ کے رہنے والے۔ اور تمام اسلامی علاقوں میں رہنے والے متوازن لوگ۔ ان کا خیال تھا کہ خلافت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا حق ہے۔ لیکن اگر مسلمانوں کے اتفاق اور اتحاد کے لئے ضروری ہو تو ہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی خلیفہ قبول کرلیں گے۔
حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد اس گروہ کی ترجمانی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کی، مسلمانوں کے اتفاق اور اتحاد کے لئے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سپرد کردی۔۔۔ ابتدا میں اس گروہ کا نام جمہور امت ، اہل سنت ،جماعت صحابہ۔۔۔۔۔
ان میں سے تین گروہوں کا تعلق خالصتاً سیاسی تھا مذہبی نہیں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک فقہی مذہب کی شکل اختیار کرتے گے۔
لیکن خارجیوں نے اس وقت ہی علیحدہ مذہب کی بنیاد رکھ دی تھی جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔خارجیوں کے نام بدلتے رہتے ہیں لیکن فتوے آج بھی ان کے وہی ہیں۔ فرقوں کی کچھ تفصیلات اگلی قسط میں۔۔۔۔۔۔۔۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں