29 اکتوبر, 2017

شخصیت پرستی اور اس کے نقصانات

شخصیت پرستی اور اس کے نقصانات  (قسط نمبر3 ) اس وقت امت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شخصیات کو دین کے اصول و قوانین پر پرکھا نہیں جاتا بلکہ شخصیات دین سے زیاده اہمیت اختیار کرتی جارہی ہیں ۔
اور اس خطرناک روش کے سبب نئے نئے نظریات جنم لے رہے ہیں۔ چلو آگے بڑھتے ہیں ۔
پچھلے مضمون میں میں نے عرض کیا تھا کہ ،
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں میں چار گروہ بنے جن میں ایک اہل تشیع، جس کا نام اس وقت تک شیعان علی تھا۔ جو ایک سیاسی گروہ تھا۔
پھر آگے چل کر شخصیات کی اندھی پیروی نے لوگوں  پر کیاکیا اثرات مرتب کئے ان پر ایک نظر۔
لیکن اس ساری گفتگو میں کسی مسلک ، نظریہ ، یا سوچ کی نفی کرنا یا جھوٹا کہنا مقصد نہیں ، مقصد صرف شخصیت پرستی کے سبب سے جو امت مسلمہ ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اس حقیقت کو واضح کرنا ہے۔
آج تذکرہ اہل تشیع کا جو خود کو امام جعفر صادق کی نسبت سے (مقلد فقہ جعفریہ )کہتے ہیں ۔
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔امام جعفر صادق کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام جعفر صادق کی زندگی میں ہی ہو گئی۔
جب امام جعفر صادق کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثرلوگوں نے امام کاظم کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، یہ لوگ "اسماعیلی" کہلائے۔ اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری(بارہ اماموں کے ماننے والے ) نہ تھے۔
جن لوگوں نے امام جعفر صادق کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا ۔ جب اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے "خلافت فاطمی" کی بنیاد رکھی۔
آگے چل کے ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے" بوھرہ" ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے "آغا خانی" ہیں۔
بوہری اور آغا خانی  اور اثنا ء عشری رافضیوں کی  اصل ایک ہے۔ان ہی کی روایات کے مطابق؛
دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی۔
لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں سلطان صلاح الدّین ایّوبی نے پے در پے حملوں کے بعد اس شیعہ اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔ جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان اور یمن کو اپنا مرکز بنالیا۔ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے، البتہ ان کے ہاں اب "داعیوں" کا سلسلہ شروع ہوا۔ برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال ماضی قریب میں ہوا۔
آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے؛
  (1) داؤدی بوہرہ اور   (2)سلیمانی بوہرہ۔
اہل تشیع میں فرقے۔
بارہ امامی یا شیعہ اثنا عشریہ (یعنی بارہ اماموں والے)، اہل تشیع (یعنی شیعہ) کا سب سے بڑا گروہ ہے۔ قریباً 80 /70 فیصد شیعہ اثنا عشریہ اہل تشیع ہیں۔ ایران، آذربائیجان، لبنان، عراق اور بحرین میں ان کی اکثریت ہے۔
اسماعیلی اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت جعفر صادق (پیدائش 702ء) کی امامت تک اثنا عشریہ سے اتفاق پایا جاتا ہے۔
زیدیہ فرقہ امام زین العابدین کے بعد امام محمد باقر کی بجائے ان کے بھائی امام زید بن زین العابدین کی امامت کے قائل ہیں۔
کیسانیہ“ ایک ایسے فرقہ کا نام ہے جو پہلی صدی ہجری کے پچاس سال بعد شیعوں کے درمیان پیدا ہوا اور تقریباًایک صدی تک چلتا رہا پھر بالکل ختم ہو گیا۔
فرقہ علویہ"یہ بھی اپنے عقائد نظریات میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔
علامہ ابن جوزی جو تفصیل لکھی ہے
١۔ علویہ، ٢۔امریہ، ٣۔شیعیہ، ٤۔ اسحاقیہ، ٥۔ نادوسیہ، ٦۔ امامیہ، ٧۔زیدیہ، ٨۔عباسیہ، ٩۔متناسخہ، ١٠۔رجعیہ، ١١۔لاغیہ، ١٢۔متربصہ۔۔۔
از (تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ
اہل تشیع میں دو فقہی مذاہب ہیں ۔
1۔فقہ جعفریہ
2 ۔فقہ زیدیہ
جو کچھ میں نے تحریر کیا ان میں سے آپ بہت نہیں جانتے ہونگے مگر کسی صاحب علم اہل تشیع سے آپ کو بہت کچھ جاننے کو مل سکتا ہے ۔
اگلا عنوان ممکن ہے کہ " خارجیت "کے متعلق ہو۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں