23 اکتوبر, 2017

اسلام اور شخصیات کے منفی و مثبت نتائج

اسلام اور شخصیات کے منفی و مثبت نتائج (قسط اول)
آئیے ! ۔: یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہماری زندگی اور مذہب پر شخصیات سے کیا مثبت و منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
شخصیات کی اندھی تقلید و پیروی بنیادی طور پر ایک ایسا رویہ ہے جس میں حق و اِنصاف اور عقل و فکر کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر کسی مذہبی و سیاسی رہنما سے اس قدر محبت و عقیدت پیدا کی جائے کہ اس کے قول و عمل کو رفقاء اور پیروکاروں میں نفسیاتی سطح پر عقیدہ کا درجہ مل جائے۔۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے رہنما کی علمی برتری کو ہی معیار بنایا جاتا ہے ۔۔۔۔
مگر قرآن اس بارے میں رہنمائی فرماتا ہے
وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ( (الشورٰی: )ترجمہ:"اور انہوں نے تفرقہ پیدا نہیں کیا مگراس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا تھا،آپس کی ضد کی وجہ سے۔
مفسر امام ابو العالیہؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں "بغیا علیٰ الدنیا و ملکھا و زخرفھا و زینتھا و سلطانھا۔۔۔
ترجمہ: حبِ دنیا، اقتدار کی چاہ، اس کی زیب و زینت اور سلطنت کی محبت پیدا ہوئی تو تفرقہ ظاہر ہوا۔اور ایسے رہنماؤں نے علمی برتری کے سبب سے خود کو ایک فرقے میں جا ڈھالا۔
اوراگر مذہبی رہنما ہو تو کہنے کو تو بات سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی ہو رہی ہوتی ہے۔ مگر ہر حال میں لوگ اسی کی پیروی کرنا چاہتے ہیں صحیح ہو یا غلط۔۔۔۔۔
جو علمائے حق ہیں وہ اپنے پیروکاروں کی تربیت کرتے رہتے ہیں ۔اور اپنی بڑائی سے منع کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔
اور علمائے سوء اپنی بڑائی پر اپنی عزت پر اپنی علمی قابلیت پر فخر کرتے رہتے ہیں اور مریدوں کی تربیت بھی ایسی ہی کرتے ہیں۔۔۔
ہمارے ہاں اگر کوئی مذہبی و سیاسی رہنما سے علمی یا انتظامی نوعیت کا بھی اختلاف کرنے کی کوشش کرے تو اسے دین و مذہب اور جماعت و تحریک سے غیر مْخلص اور منافق سمجھاجاتا ہے۔۔۔
ہمارے ہاں اس کمزوری نے ایک المیہ کی صورت اختیار کرلی ھے۔۔ ہم حکمرانوں ۔علماء ، دانشوروں کو آئیڈیل بناتے ہیں ۔اور پھر بھول جاتے ہیں کہ کامل صرف اللہ کی ذات ہے انسان چاہے جتنا ہی بہترین و کامل کیوں نہ ہو غلطی کر سکتا ہے ۔
کیسی بدنصیبی ہے کہ ہم سیاسی و مسلکی اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ان کی غلطیوں کو جواز دینے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر دلائل گھڑتے ہیں ۔ گناہگاروں کو نیکوکار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلطی کو حکمت عملی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔
پس ایسے رہنماؤں کے پیچھے لگ جانا جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطیعِ فرمان نہ ہوں اور اپنے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی قائدین کے اَعمال کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر ان کی اطاعت کرتے رہنا، شخصیت پرستی ہی ہے۔۔۔
شخصیت پرستی کا توڑ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے میسر آتا ہے، حضرت خالد بن ولید نے اسلام قبول کیا ، سیف اللہ کا لقب پایا ،مشرق و مغرب میں اسلام کی دعوت کو لے کر پہنچے اور سرخرو ہوئے، اور شام اور ایران کی فتوحات کا سہرا ان ہی کے سر سجا ، لوگوں کے پسندیدہ تھے میدانِ جہاد کے بہترین شاہ سوار تھے، صرف ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے خلاف ،کوئی واقعہ خلاف عدل سرزد ہوا ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آپ کو عہدے سے ہٹادیا ، ان کی ساری خدمات کو نہیں دیکھا گیا بلکہ ان کے موجودہ عمل کی وجہ سے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ تاکہ بعد والوں کے لیے ایک مثال قائم ہو۔۔۔۔۔۔
اس کی ایک مثال ہمیں حضرت مجدد الف ثانی رحمت اللہ علیہ کی اُس نصیحت میں ملتی ہے ، کہ آپ سے کسی سائل نے عرض کیا: حضرت! کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا:
بیٹے! دو نصیحتیں ہیں۔ زندگی میں نہ کبھی خدا بننے کی کوشش کرنا اور نہ کبھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننے کی‘‘۔
وہ بڑی حیرانی سے عرض کرنے لگا: ’حضرت! اللہ معاف فرمائے، کوئی مسلمان بھلا ایسا بھی کرسکتا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا:۔
اس کا معنی یہ ہے کہ یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ جو چاہے کر ے۔۔۔۔لہٰذا کبھی یہ گمان اپنے بارے میں نہ کرنا کہ میں جو چاہوں گا وہ اسی طرح کروں گا۔ کبھی کوئی کام تیرے چاہنے کے موافق ہوگا اور کبھی خلاف۔ اگر کام تیری مرضی کے موافق نہ ہو غصےاور جلال میں نہ آجانا ۔ ۔ کیونکہ یہ اللہ کی شان ہے کہ اس کی منشاء کے مطابق ہر چیز وقوع پذیر ہوتی ہے۔ تو بندہ ہے اور بندے کا یہ منصب نہیں کہ وہ جو چاہے وہی ہو جائے۔ اگر تیری مرضی کے مطابق ہو تو شکر کر،اور اگر مرضی کے مخالف ہو کر صبر کر۔۔۔۔
یہی شان بندگی ہے۔
رسول بننا یہ ہے کہ چونکہ اللہ کا رسول جو کچھ کہے اس کونہ ماننے والا کافر ہو جاتا ہے۔۔۔
اس لیے اگر تو بھی یہ چاہے کہ تیری ہر بات مانی جائے اور نہ ماننے والا تیرے نزدیک تیرا بدترین دشمن بن جائے ، یہ سمجھ کہ تو اپنے آپ کو منصب رسالت پر بٹھا رہا ہے۔ یہ حق تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہوتا ہے کہ جس نے ان کی بات مان لی وہ مومن ہو گیا اور جس نے رد کردی وہ کافر۔۔۔۔
یہی رویہ شخصیت پرستی کی وہ شکل ہے جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔۔۔
ذرا ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ منظر دیکھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا خطبہ فرما رہے ہیں ۔کہ لوگوں اگر میں صحیح چلوں تو میری پیروی کرو اگر میں قرآن و سنت سے ہٹ کر راہ اپناؤں تو مجھے روک دو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مسجد نبوی میں کھڑے ہیں ، حق مہر کی رقم کا تعین کیا جا رہا ہے ، ایک عورت کھڑی ہوتی ہے اور آپ سے مخاطب ہوتی ہے اے عمر تم کون ہوتے ہو تعین کرنے والے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے تعین نہیں کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں ، لوگو اس معاملے میں میں غلط تھا اور یہ عورت ٹھیک تھی اور اپنا حکم واپس لے لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا ان سارے واقعات کو پڑھیئے ۔ اور آج کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے ماننے والوں کو دیکھئے ہر ایک کی نظر میں دوسرے رہنماء کا ماننے والا بد ترین گمراہ ہے کیونکہ وہ میرے رہنماء کو نہیں مانتا۔۔۔۔۔
عقیدت ہونی چاہئے مگر اس کے لیے قرآنی معیار پیشِ نظر رہے۔۔۔۔
عقیدت و اِحترام کا قرآنی معیار؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق دینی اور سیاسی رہنما خواہ عقیدت و احترام کے کتنے ہی اونچے منصب پرفائز ہو جائے ۔۔۔
اختلاف و تنقید سے ماورا نہیں ہوتا ۔
غیر مشروط اِطاعت و فرماں برداری صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کیلئے ہے۔ باقی سب سے عقیدت و محبت مشروط ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
يٰـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اﷲَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکمُ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَیﷲِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ' ذٰلِکَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۔
(النساء، 4 : 59)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع(جھگڑا ) ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا۔۔۔۔۔
یہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ جو حکم دیا ہے ۔۔ اس آیتِ کریمہ سے یہ سمجھ آتی ہے کہ قرآن و سنت سے فیصلہ ہوگا ۔ یا اہل علم جن کو اولی الامر کہا گیا وہ فیصلہ کریں گے۔۔۔
مگر آج یہ فیصلے ہر پیر کے مرید،ہر عالم ماننے والے،ہر استاد کے شاگرد، اور ہر سیاستدان کے ورکرز کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
اگلا مضمون انتہائی اہم ہوگا ۔۔۔اسلام ہیں فرقے کس طرح وجود میں آئے ۔۔۔ ضرور مطالعہ کیجئے گا ۔
علمائے کرام کی مشاورت کے بعد اوپری عنوان میں تبدیلی کی ہے ۔۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں