14 ستمبر, 2017

کیا کبھی کوئی رسول قتل نہیں کئے گے؟


غامدی صاحب نے نبی و رسول کے درمیان منصب اور درجے کے لحاظ سے امتیاز کرتے ہوئے یہ گوہرافشانی کی ہے کہ  اللہ عزوجل کے نبیوں کو ان کی قوم بعض اوقات قتل کر دیتی تھی لیکن کبھی کسی قوم کے ہاتھوں کوئی رسول قتل نہیں ہوا۔ اس امر کو وہ ایک اصول ایک عقیدہ اور قانون الٰہی مانتے ہیں کہ نبی کے لیئے وفات پانے یا قتل ہونے کی دونوں صورتیں ممکن ہیں  مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ :۔
رسولوں کے بارے میں اس اہتمامکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ زمین پر خدا کی کامل حجت بن کر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبیوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم بارہا ان کی تکذیب ہی نہیں کرتی بلکہ ان کے قتل کے درپے بھی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔لیکن قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے متعلق اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے۔
(میزان حصہ اول ص21 مطبوعہ 1985)
مزید کہتے ہیں کہ
نبی اپنی قوم کے مقابلے میں ناکام ہو سکتا ہے لیکن رسولوں کے لیئے غلبہ لازمی ہے
(میزان جلد اول ص 23 مطبوعہ 1985)
غامدی صاحب کا یہ مؤقف جسے وہ قانون الٰہی بھی قرار دینے سے نہیں چوکتے ، قرآن کے بلکل متضاد ہے ۔ قرآن کے مطابق نہ صرف نبی بلکہ رسول بھی قتل کیئے جاتے رہے ۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد الٰہی ہے کہ :۔
اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَـرْتُـمْ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُـمْ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ (البقرہ:87)
جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ حکم لایا جسے تمہارے دل نہیں چاہتے تھے تو تم اکڑ بیٹھے، پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کیا۔
اس آیت سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں کئی رسول قتل ہوئے۔
مزید ایک جگہ ارشاد ہے :۔
لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ وَاَرْسَلْنَـآ اِلَيْـهِـمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَآءَهُـمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَـهْوٰٓى اَنْفُسُهُـمْ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ (مائدہ:70)
ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا تھا اور ان کی طرف کئی رسول بھیجے تھے، جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس وہ حکم لایا جو ان کے نفس نہیں چاہتے تھے تو (رسولوں کی) ایک جماعت کو جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کر ڈالا۔
اس آیت سے بھی صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے اللہ عزوجل کے بھیجے ہوئے کئی رسولوں کو قتل کیا۔
مزید سورہ آل عمران میں بنی اسرائیل کے لیئے ارشاد ہوا :۔
اَلَّـذِيْنَ قَالُوٓا اِنَّ اللّـٰهَ عَهِدَ اِلَيْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّـٰى يَاْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْكُلُـهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِىْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّـذِىْ قُلْتُـمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْهُـمْ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ (آل عمران:183)
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ ہم کسی پیغمبر پر ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس قربانی لائے کہ اسے آگ کھا جائے، کہہ دو مجھ سے پہلے کتنے رسول نشانیاں لے کر تمہارے پاس آئے اور یہ نشانی بھی (لے کر آئے) جو تم کہتے ہو، پھر انہیں تم نے کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو۔
اس مقام پر واضح طور پر ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عقیدہ تھا  کہ اللہ عزوجل نے ان سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ کسی ایسے رسول پر ایمان نہ لائیں جو ان کے سامنے قربانی کو آسمانی آگ سے جلا کر نہ دکھائے۔
اللہ عزوجل نے اس دعوے کا یہ جواب دیا ہے کہ اے نبی ﷺ ان سے کہہ دیں اگر یہی بات ہے تو جو رسول ان کے پاس مذکورہ معجزہ لاتے رہے  انہیں تم نے کیوں قتل کیا۔
یہ قرآن مجید کی واضح ترین نصوص ہیں جن کے مطابق رسول بھی قتل ہوتے رہے۔ بالخصوص بنی اسرائیل نے کئی رسولوں کو جھٹلایا اور کئی رسولوں کو قتل کیا۔ مذکورہ دلائل و براہین کے بعد یہ دعویٰ کرنے کی کیا گنجائش بچتی  ہے کہ قانون الٰہی ہی یہی رہا ہے کہ کوئی رسول قتل نہیں ہوا؟

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں