27 ستمبر, 2017

کیا ہم کعبہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں

کعبہ ہمارا قبلہ ہے، یعنی وہ سمت جس کی طرف منہ کر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ مسلمان نمازوں میں کعبہ کی طرف رُخ کرتے ہیں لیکن وہ کعبہ کو پوجتے ہیں نہ اس کی عبادت کرتے ہیں بلکہ مسلمان صرف اللہ کے آگے جھکتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔
اس کا ذکر سورۃ البقرہ میں ہے
قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا ۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭوَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ
ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں ۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے  اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں ۔سورۃ البقرہ:۱۴۴
قبلہ اتحاد و اتفاق کا ذریعہ ہے
اسلام وحدت کا دین ہے، چنانچہ مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کے لیے اسلام نے ان کا ایک قبلہ متعین کیا ہے اور ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، نماز کے وقت کعبے کی طرف رُخ کریں۔ جو مسلمان کعبے کے مغرب کی طرف رہتے ہیں، وہ اپنا رُخ مشرق کی طرف کریں گے اور جو مشرق کی طرف رہتے ہیں وہ اپنا رُخ مغرب کی طرف کریں گے۔
کعبہ نقشہ عالم کے وسط میں ہے
یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے دنیا کا نقشہ بنایا۔ ان کے نقشوں میں جنوب اوپر کی طرف تھا اور شمال نیچے کی طرف اور کعبہ درمیان میں تھا۔ بعد میں مغربی نقشہ نگاروں نے جو نقشے بنائے، ان میں شمال اوپر اور جنوب نیچے کی طرف دکھایا گیا جیسا کہ آج کل دنیا کے نقشے بنائے جاتے ہیں۔ بہرحال الحمد اللہ کعبہ دنیا کے نقشے کے تقریباً وسط میں ہے۔
طوافِ کعبہ
جب مسلمان مکہ کی مسجد حرام میں جاتے ہیں، وہ کعبے کے گرد چکر لگا کر طواف کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل واحد سچے معبود  پر ایمان اور اس کی عبادت کی علامت ہے۔ جیسے ہر دائرے کا ایک ہی مرکز ہوتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ایک ہے جو عبادت کے لائق ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں عقیدہ توحید
جہاں تک سیاہ پتھر، یعنی حجرِ  اسود کی حرمت کا تعلق ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سے واضح ہے۔
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ وَالْمُقَدَّمِيُّ وَأَبُو کَامِلٍ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ کُلُّهُمْ عَنْ حَمَّادٍ قَالَ خَلَفٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ رَأَيْتُ الْأَصْلَعَ يَعْنِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُقَبِّلُکَ وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ وَأَنَّکَ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَکَ مَا قَبَّلْتُکَ وَفِي رِوَايَةِ الْمُقَدَّمِيِّ وَأَبِي کَامِلٍ رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 575 حدیث مرفوع , صحيح. متفق علیہ 9
خلف بن ہشام، مقدمی، ابوکامل، قتیبہ بن سعید، حماد، حماد بن زید، حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں اللہ کی قسم! اے حجر اسود میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نقصان دے سکتا ہے اور نہ ہی تو نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔
مزید دیکھئے؛ صحیح البخاری، الحج، باب ماذکر فی الحجر الاسود، حدیث:۱۵۹۷
کعبے کی چھت پر اذان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگ کعبہ کی چھت کے اُوپر کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے۔ [ تجلیات نبوت، ص۲۲۶]۔
اب جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں تو بھلا کون سا بتوں کو پوجنے والا اس بُت کے اُوپر کھڑا ہوتا ہے جس کی وہ پوجا کرتا ہے؟
عرض ہے کہ اسلام میں پوجنے اور عبادت کرنے کا تصور صرف ذات باری تعالیٰ کے لیے ہے۔ حجر، شجر، شخصیات یا استھان کی پوجا کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام نے تو ایسی جگہ پر بھی عبادت سے روک دیا ہے جہاں اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا شبہ پیدا ہو سکتا ہے، مثلاً قبرستان میں نماز ادا کرنا، یا ایسی جگہ عبادت کرنا جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہو، ممنوع ہے۔ اسلام میں اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا تصور ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس لائق تھے کہ آپ کی قبر کو قبلہ بنایا جاتا اور اس کی عبادت کی جاتی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع کر دیا،پھر یہ بات بھی بتوں کے پجاری تو بت خانے میں جا کر عبادت کرتے ہیں یا ان بتوں کے ماڈل بنا کر سامنے رکھتے ہیں جب کہ مسلمان قبولیت عبادت کے لیے خانہ کعبہ جانے کو شرط قرار دیتے ہیں نہ اس کا ماڈل اپنے سامنے رکھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ تہ جہتِ کعبہ کو سامنے رکھ کر کعبہ کے بجائے رب کعبہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے بھی معبود ہیں وہ سب باطل ہیں اور ہر طرح کی عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں