12 نومبر, 2017

فوٹو کا شرعی حکم

فوٹو کا شرعی حکم
کچھ دوستوں کے اصرار پر اس موضوع پر پوسٹ کر رہا ہوں اس فتوے کو باقاعدہ طور پر میرے پیرومرشد صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر دامت برکاتہم القدسیہ
نے اپنی کتاب " جدید شرعی مسائل" میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔۔۔ اسی کا خلاصہ ہے یہ پوسٹ ۔
تصویر کے بارے میں امام ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس بارے میں علماء کے چار اقوال ہیں۔
لیکن یہاں اس میں سے صرف مطلوبہ قول کے بارے میں بات کروں گا ۔۔
کہ چار نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ تصویر مطلقاً جائز ہے خواہ وہ آدھے جسم کی ہو۔ یا پورے جسم کی وہ کسی کپڑے پر، کاغذ پر ، بستر پر،یا تکیہ پر چھپی ہوئی ہو ہر قسم کی تصویر جائز ہے۔
اور اس کی دلیل یہ حدیث مبارک ہے
حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت طلحہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔
بے شک جس گھر میں تصویر ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے بسر کہتے ہیں۔ حضرت زید بیمار ہو گئے ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تو ان کے دروازے پر ایک پردہ ہم نے دیکھا جس میں تصویر تھی۔ وہ کہتے ہیں میں نے عبیداللہ خولانی رضی اللہ تعالٰی جو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے تھے ان سے پوچھا کہ پہلے زید ہم کو تصویروں سے منع کرتے تھے اس پر عبیداللہ نے کہا کیا تم نے نہیں سنا کہ وہ کپڑوں پر منقش تصویروں کا استثناء کرتے تھے۔
اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں بیان فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔ اور صحیح ہے۔
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ مطلقا تصویر کے جواز کے قائل ہیں۔ وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ علامہ ابن حجر اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ حنبلیوں کے مذہب میں کپڑوں پر منقش تصاویر مطلقا جائز ہیں۔
دوسری حدیث مبارکہ۔۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس جبریل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ رات آپ کے پاس آیا تھا۔  مجھے آپ کے پاس آنے سے جس چیز نے روکا وہ دروازہ پر مورتیاں اور مجسمے تھے اور گھر میں سرخ اون کا تصویروں والا پردہ پڑا ہوا تھا۔ اور گھر میں ایک کتا بھی تھا۔
پس حکم دیجئے مورتیوں کے سر کاٹ دئیے جائیں، تاکہ وہ درختوں کی طرح ہو جائیں۔ اور تصویر دار پردہ کے لئے حکم فرمائیں کے ان پردوں کو کاٹ کر مسندیں بنالی جائیں۔ جو زمین پر ڈال کے پاؤں سے روندی جائیں۔
( مسند ابوداود، سنن ترمذی، سنن النسائی ،ابن حبان)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو میں نے کھڑکی پر ایک تصویر والا منقش پردہ ڈال دیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو آپ نے اس کو پھاڑ دیا اور فرمایا کے قیامت کے روز ان لوگوں پر سخت عذاب ہوگا جو اللہ کی خلق سے مشابہت پیدا کرتے ہیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے اس پردے کے ایک یا دو تکیے بنائے ۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس کے دو گدے بنا لیے جس پر گھر میں بیٹھا جاتا تھا۔
اسی طرح کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے۔۔۔آثار صحابہ کرام اور تابعین
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے گھر میں عجائب مخلوق کی تصویریں تھیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی انگوٹھی میں دو مکھیوں کی تصویریں تھیں۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی انگوٹھیوں کے نگینوں میں دو شیرنیوں کی تصویریں تھیں۔
امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ایک قول ہے  امام احمد نے نقل فرمایا ہے جن کپڑوں فرش تکیوں میں تصویریں ہوں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں البتہ پردوں میں ممنوع ہے۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ وہ تصاویر جن کی تعظیم نہ کی جائے تو وہ جائز ہیں ۔ جس طرح کریم صلی اللہ علی وسلم نے پردوں کو مسندیں (بیٹھنے کے گدے) بنانے کا حکم دیا ۔ اور کھڑکی کے پردے سے جو تکیہ بنا اس کو بھی استعمال کیا ، جبکہ اس پر تصویر بنی ہوئی تھی۔ لیکن یہ یاد رہے بلا ضرورت گھروں میں تصویریں لٹکانا درست نہیں ۔ حتی کہ مذہبی شخصیات کی بھی ، بلا ضرورت تصاویر کو رواج دینے بچنا چاہیے ۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں