16 نومبر, 2017

ایمان والے ایک جسم کی مانند ہیں


نابینا اور آنکھ والا
ایک نابینا شخص سیدھا چلتا چلتا گڑھے کی طرف جا رہا تھا۔ دو شخص قریب یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، ان میں سے ایک شخص یہ کہنے لگا کہ اس نابینا کو گڑھے میں گرنے سے بچانا چاہیے۔ دوسرا شخص کہنے لگا اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دو اس کو خود ہی سوچ سمجھ کر چلنا چاہیے۔ مگر جو انسانیت کا درد رکھتا تھا ، عین ٹائم پر اس نے آواز دی اور نابینا شخص کو گڑھے میں گرنے سے بچا لیا ۔
دوسری کہانی
ایک نوجوان، تندرست ،توانا، خوبصورت، جوانی کے عالم میں ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ماں باپ کے لاڈ پیار میں پلا ہوا ۔ خطرناک طریقے سے ون ویلنگ کر رہا تھا دو شخص قریب یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ایک شخص کہنے لگا اس کو روکنا چاہیے ، کہیں اس کی جان ہی نہ چلی جائے ۔۔ دوسرا شخص کہنے لگا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو عقلمند بھی ہے ، نوجوان بھی ہے، پڑھا لکھا بھی ، اس کو خود اپنا فکر کرنا چاہئے۔ لیکن جو انسانیت کا درد رکھتا تھا اُس نے کہا نہیں، اس کو آواز دینا چاہیے کہیں جذبات میں اپنی جان ہی نہ کھو بیٹھے، اس شخص نے آواز دی ۔ اور اس نوجوان کو سمجھایا ،اور ون ویلنگ سے منع کردیا۔۔
تیسری کہانی
ایک نوجوان اپنے ماں باپ کا گستاخ و نافرمان تھا،  دو شخص اس کی حقیقت سے واقف تھے ، ایک کہنے لگا اس کو سمجھانا چاہئے دوسرا کہنے لگا چھوڑو خود سمجھ دار ہے اسے اس کے حال پہ چھوڑ دو ، لیکن جو انسانیت کا درد رکھنے والا تھا،  اس نے نوجوان کو سمجھایا، نوجوان ماں باپ کا فرمانبردار ہوا اور جنت کا حقدار بنا۔
بےدرد شخص کو ان کو بچانے کا خیال اس لیے نہ آیا کہ اس نے ان کو غیر سمجھا اگر ان تینوں آدمیوں کی جگہ اس کا اپنا بیٹا ہوتا تو کیا ؟
وہ پھر بھی ایسا خیال رکھتا  چلو ان  کو مرنے دو یہ اسلام کا درس نہیں اسلام نے جو رشتہ قائم کیا ہے قرآن کریم میں ہے ۔ان المؤمنون اخوہ۔ کہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔۔۔۔۔
اسلام تو کہتا هے مسلمان جسم واحد کی طرح ہیں
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے، صحابہ کرام نے عرض کی اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو؟آپ نے ارشادفرمایا : وہ اپنے ہاتھ سے کسب کرے اور اپنی جان کو فائدہ پہنچا دے اورصدقہ کرے ، عرض کی گئی، اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے یا اگروہ ایسا نہ کرے ،تو حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشادفرمایا: مفلوک الحال ضرورت مند کی مدد کردے، انہوں نے استفسارکیا :اگر وہ ایسا بھی نہ کرے تو ، آپ نے ارشادفرمایا : پس وہ نیکی کاحکم دے ، پھر استفسار کیاگیا، اگروہ ایسا بھی نہ کرپائے تو؟حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: وہ شر سے رک جائے اس کا شر سے رک جانا ہی اس کے لیے صدقہ ہے۔
(بخاری ، مسلم ، نسائی ، مصنف ابن ابی شیبہ)
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشادفرمایا :اے ابوذر! نیکی میں سے کسی چیزکو بھی حقیر نہ سمجھنا ، اگر چہ تو اپنے بھائی کو کشادہ چہرے اور خندہ پیشانی سے ملے۔
(مسلم، ترمذی، مشکوٰۃ ، احمد ، الجامع الصغیر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: انسانوں کے ہر جوڑ پر صدقہ لازم ہے ، ہر وہ دن جس میں آفتاب (افق مشرق سے )طلوع ہوتا ہے ، تم دو افراد کے درمیان عدل کرو تو تمہارا یہ عدل کرنا صدقہ ہے تم ایک مسافر انسان کو اس کی سواری میں مدد دو اور اسے اس پر سوار کرادو یا اسے سامان اٹھا کردے دو، تمہارا یہ عمل صدقہ ہے ،کلمہ طیبہ (کاذکر )صدقہ ہے اورہر وہ قدم جس سے تم نماز کی طرف چلتے ہو، تمہارا ہر قدم اٹھانا ، صدقہ ہے ، اوراگر تم اذیت دینے والی کسی چیز کو راستے سے ہٹا دوتو یہ بھی صدقہ ہے۔
(بخاری، مسلم، شعب الایمان:بیہقی ، کنزالعمال) 
کوئی مسلمان ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ورنہ وہ خود بھی تباہ ہوجائے گا اس کشتی کی مثال سے سبق حاصل کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روایت ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے ۱؎ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ کی حدود میں سستی کرنے والوں۲؎ اور ان میں گرنے والوں کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے
--- کشتی ---
میں قرعہ ڈالا پس کچھ لوگ اس کے نچلے حصے میں رہے اور کچھ اوپر والے میں نیچے والے پانی لے کر اوپر والوں کے پاس سے گزرے انہیں اسپر تکلیف دی جاتی تو انہوں نے کلہاڑی لی اور
--- کشتی ---
کا نچلہ حصہ توڑنا شروع کردیا فریق ثانی نے آکر کہا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہا کہ میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے اور مجھے پانی کی ضرورت ہے اگر وہ اس کا ہاتھ پکڑ لیں تو اسے بچالیں گے اور اپنی جانوں کو بھی اوراگر چھوڑ دیں تو اسے ہلاک کردیں گے اور اپنی جانوں کو بھی ہلاک کرلیں گے۳؎ (بخاری)
شرح
۱؎ ابوعبداللہ حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ انصاری ہیں،آپ ہجرت کے بعد انصار میں سب سے پہلے پیدا ہونے والے ہیں،رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے وقت آپ کی عمر آٹھ سال نو مہینے تھی،آپ کے والدین بھی صحابی تھے،حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں آپ کوفہ کے والی تھے، ۷۴ھ؁ میں آپ کو اہل حمص نے شہید کیا،آپ سے ایک جماعت نے احادیث روایت کیں جن میں آپ کے صاحبزادے محمد اور حضرت امام شعبی(رضی اللہ عنہم)بھی شامل ہیں۔۲؎ المدھن اسم فاعل مداھنت سے بنا ہے جس کا معنی فریب کرنا دھوکہ دینا ہے یہاں سستی کرنا مراد ہے۔حدود حد کی جمع وہ شرعی سزائیں جو مقرر ہیں۔ استھمو جمع مذکر فعل ماضی باب استفعال قرعہ اندازی کی۔صاریصیر ہوجانا،باب ضرب یضرب،اجوف یائی۔تاذوا انہوں نے اذیت پائی،باب تفعل سے فعل ماضی جمع مذکر کا صیغہ ہے اور مہموز الفا ناقص یائی ہے۔ینقر باب نصر ینصر سے مضارع واحد مذکر کا صیغہ ہے سوراخ کرنا توڑنا۔اخذواعلی یدیہ کسی کا ہاتھ روکنا۔انجوا باب افعال سے انہوں نے بچایا اور نجوا ثلاثی مزید باب تفعیل ہے جو کہ متعدی اھلك باب افعال کسی کو ہلاک کرنا یا اس کو ہلاکت کا سبب بتانا اور ھلك نصر فتح سمع تینوں طرح آتا ہے اور اس کا معنی ہلاک ہوا دونوں ماضی کے صیغے ہیں۔۳؎ اس حدیث شریف میں ایک مثال کے ذریعہ برائی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے کی اہمیت کو واضح کیا گیا اور بتایا گیا کہ اگر یہ سمجھ کر امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ترک کردیا جائے کہ برائی کرنے والا خود نقصان اٹھائے گا ہمارا کیا نقصان ہے تو یہ سوچ غلط ہے اس لیے کہ اس کے گناہ کے اثرات تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور جس طرح
--- کشتی ---
توڑنے والا اکیلا ہی نہیں ڈوبتا بلکہ وہ سب لوگ ڈوبتے ہیں جوکشتی میں سوار ہیں اسی طرح برائی کرنے والے چند افراد کا یہ جرم تمام معاشرے میں ناسور بن کر پھیلتا ہے۔
آج کل کچھ لوگ یہ کہتے ہیں جو کچھ بھی کر رہا ہے اس کو کرنے دو اس کے حال پر چھوڑ دو۔۔۔۔۔
ٹھیک ھے نابینا کی مدد نہ کرو،  اسے اس کے حال پہ چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔  لیکن یہ انسانیت کا تقاضا نہیں۔
ون ویلنگ کرنے والے کو مت روکو اس کی اپنی زندگی ہے۔۔۔۔
نہیں مگر انسانیت کا تقاضا ہے اس کی زندگی کا سوال ہے۔۔
دینے دو گالیاں ماں باپ کو کرنے دو نافرمانی۔۔۔۔۔۔
نہیں مگر اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے، اسے سمجھانا چاہئے۔
                 دوستوں حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی کسی کو جہنم سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے ، تو پھر کہتے ہیں نہیں یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے ۔۔
کسی کو جہنم سے بچانا جنت کی ترغیب دینا ایمان بھی ہے اور انسانیت بھی ہے۔۔
کسی کی دنیاوی اعتبار سے مدد کرنا ، یا دینی لحاظ سے مدد کرنا صدقہ ہے، اور یہ صدقہ دیتے رہنا چاہیے۔۔۔۔
تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلاگ میں تلاش کریں