25 مئی, 2019

اعتکاف قرآن میں اعتکاف کاحکم

اعتکاف
قرآن میں اعتکاف کاحکم
اللہ تعالی ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کو حکم دیتا ہے۔۔۔
وَّ طَہِّرْ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الْقَآئِمِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ 
ترجمہ :اور میرا گھر ستھرا رکھ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لیے ۔(پ 17،الحج:26)
ددوسرے مقام پر ان الفاظ میں حکم دیا......
یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اللہ کے نبی مسجد کی صفائی کریں مگر ہم سمجھیں کے ہماری شان کے لائق نہیں ہیں کیا عجیب بات ہے
وعھدنا الٰی ابرٰھیم واسمٰعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود 
ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَا تُبَاشِرُوۡھُنَّ وَاَنۡتُمْ عٰکِفُوۡنَ فِی الْمَسٰجِدِ ؕ 
عورتوں سے مباشرت نہ کرو، جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کیے ہوئے ہو۔
فقہاء نے لکھا کہ
سنۃ مؤکدۃ فی العشر الاخیر من رمضان ای سنۃ کفایۃ 
رمضان المبارک کے آخر ی عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے 
اعتکاف تین قسم کاہے: (1)اعتکاف فرض جیسے نذر مانا ہوا اعتکاف،اس میں روزہ شرط ہے اور اس کی مدت کم از کم ایک دن اور رات ہے۔ (2)اعتکاف سنت،یہ بیسویں رمضان کی عصر سے عید کا چاند دیکھنے تک ہے۔(3) اعتکاف نفل اس میں نہ روزہ شرط ہے نہ اس کی مدت مقرر جب بھی مسجد میں جائے تو کہہ دے میں نے اعتکاف کی نیت کی : نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَافِ۔
روایت ہے زید ابن ثابت سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی کا حجرہ بنایا اور اس میں اعتکاف کیا (مسلم،بخاری)
حضرت ابوسعید خدری سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا ،پھر ترکی خیمہ کے اندر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا ،پھر سر مبارک خیمہ سے نکال کر فرمایا کہ ہم نے اس رات کی تلاش میں پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا ، پھر ہمارے پاس آنے والا آیا اور مجھے بتایا گیا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، تو جس نے ہمارے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کرے ،مجھے یہ رات دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی ، لہذا تم اسے آخری عشرہ میں ڈھونڈو ہر طاق تاریخ میں تلاش کرو(مسلم ،بخاری )۔
صحیحین میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مروی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رمضان کے آخرعشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے۔ 
ابو داود ام المومنین صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے راویت لائے، آپ کہتی ہیں: معتکف پر سنت یہ ہے کہ نہ مریض کی عیادت کوجائے نہ جنازہ میں حاضر ہو، نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ اس (بیوی)سے مباشرت کرے اور نہ کسی حاجت کے لیے جائے، مگر اس حاجت کے لیے جا سکتا ہے جو ضروری ہے اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں اور اعتکاف جماعت والی مسجد میں کرے۔۔۔۔۔۔۔
اعتکاف کرنے کا ثواب
ابن ماجہ ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنھما سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا: 'وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اُسے اُس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اُس نے تمام نیکیاں کیں۔
جو اللہ عزوجل کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتاہے اللہ عزوجل اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں بنادیتا ہے اور ان میں سے دو خندقوں کا درمیانی فاصلہ مشرق و مغرب کے فاصلے سے زیادہ ہے۔ (التر غیب والترہیب، کتاب الصو م)
حضرتِ سیدنا علی بن حسین اپنے والد سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، 'جس نے رمضان میں دس دن اعتکا ف کیاتو یہ اس کے لئے دو حج اور دوعمرے کرنے کی طرح ہے۔ ( شعب الایمان ،باب فی الاعتکاف )
معتکف اعتکاف کی برکت سے چالیس نمازیں تکبیر اولیٰ سے مسجد میں ادا کر لیتا ہے۔
ابن ماجہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی حضورنبی ٔرحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى فِي مَسْجِدٍ جَمَاعَةً أَرْبَعِينَ لَيْلَةً لَا تَفُوتُهُ الرَّكْعَةُ الْأُوْلٰى كَتَبَ اللّٰهُ لَهُ بِهَا عِتْقًا مِنْ النَّار
ِیعنی جو شخص چالیس راتیں پہلی رکعت فوت کیے بغیرادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم سے آزادی لکھ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورسب بڑھ کر لیلۃ القدر کو پالیتا پے۔۔۔۔
لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ3﴾تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ
ترجمہ :شب ِقدر ہزار مہینوں سے بہتر اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں۔۔۔۔۔
مگر کسی کی حاجت پوری کرنااعتکاف سے بڑا ثواب
حضرتِ سیدنا ابن ِعباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا،بندے کا اپنے بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلنا اس کے لئے دس سال اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔
اعتکاف قرب الٰہی کا ذریعہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خداوند کریم کا یہ حکم ہوا کہ وہ چالیس راتیں کوہِ طور پر اعتکاف کریں اس کے بعد انہیں کتاب (توراۃ) دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر چلے گئے اور آپ چالیس دن تک دن بھر روزہ دار رہ کر ساری رات عبادت میں مشغول رہے،اور پھر اللہ نے تورات عطا کی۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا 'عبدالمطلب یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد و زاہد تھے۔ 'غار حرا میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِ حرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اسی طرح اعلانِ نبوت سے پہلے رسول اللہ ﷺ بھی غار حرا میں اعتکاف اور عبادات کرتے تھے۔
حضر ت مالک بن دینار علیہ الرحمۃ دمشق میں سکونت پذیر تھے اور حضرت امير معاويہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تیار کردہ مسجد ميں اعتکاف کيا کرتے تھے ۔
چند احتیاطیں
معتکف و غیر معتکف کے لئے مسجد میں کچا لہسن، پیاز کھانا یا کھا کر جانا جائز نہیں، جب تک بو باقی ہو کہ فرشتوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جو اس بدبودار درخت سے کھائے، وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کہ ملائکہ کو اس چیز سے ایذا ہوتی ہے۔ اس حدیث کو بُخاری و مُسلِم نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔ یہی حکم ہر اس چیز کا ہے جس میں بدبُو ہو۔ 
جیسے مولی،کچا گوشت، مٹی کا تیل، وہ دیا سلائی جس کے رگڑنے میں بُو اُڑتی ہے، ریاح خارج کرنا وغیرہ وغیرہ۔ (درمختار، ردالمحتار وغیرہما) 
تحریر :۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

صدقہ فطر

صدقہ فطر 
صدقہ فطر سوا دو کلو گندم یا ساڑھے چار کلو کھجور، جو، کشمش……… 
پاکستان میں گندم کے لحاظ سےتقریباََ سو100 روپیہ صدقہ فطر بنتا ہے…… 
اور کشمش کے لحاظ سے سے تقریباََ انیس سو 1900 روپیہ بنتا ہے………
اور مالدار لوگوں کو چاہیے کہ صدقہ فطر کبھی کشمش(سونگی) کے لحاظ سے بھی ادا کریں…… 
صدقہ فطر لغو اور بے ہودہ کلام سے روزے کی طہارت کرتا ہے۔۔۔۔۔حدیث
جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتا تو روزے زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں… حدیث
صدقہ فطر واجب ہے اور عمر بھر اس کا وقت ہے اگرعید تک ادا نہیں کر سکے تو جب وقت ملے ادا کر دیجیے…
صدقہ فطر شخص پر واجب ہے ،مال پر نہیں…
افضل یہ ہے کہ صدقہ فطر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ادا کر دیا جائے تاکہ کسی کی ضرورت پوری ہو سکے۔۔ ۔۔۔۔
عید الفطر کی صبح صادق ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے…
اور جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتا تھا صدقہ فطر ہرشخص کے ذمہ باقی رہتا ہے…
صدقہ فطر ادا کرنے کے لیے روزہ دار ہونا شرط نہیں اگر کوئی بیماری، سفر، یا کسی بھی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اس پر بھی صدقہ فطرلازم ہے…
باپ پر لازم ہے کہ اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے…
اگر بچے بالغ ہوں اورصاحب روزگار ہوں،اور والد چاہے تو ان کی اجازت سے ادا کرے…
اگر عید الفطر کی صبح کوئی مہمان گھر میں آجائے تو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرے ،اگر اس نے ادا نہیں کیا……
ایسا ملازم یا خادم جس کی کفالت بھی مالک ہی کر رہا ہو اس کا فطرانہ بھی مالک پر واجب ہے……
بالغ اولاد کا فطرانہ اگر ادا کردیا تو ادا ہوگیا، بشرطیکہ وہ اس کی کفالت میں ہوں……
اگر بالغ اولاد بر سر روزگار ہے تو ان کو مشورہ دے کہ صدقہ فطر ادا کر یں…
یورپ یا دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے وہاں کی مقامی کرنسی کے اعتبار سے صدقہ فطر ادا کریں……
اگر کوئی شخص بیرون ملک ہے اور اس نے اپنے اہل خانہ کو کہا کہ میری طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کر دو تو اسے چاہیے کہ اپنی مقامی کرنسی (مثلا یورو، ڈالر، ریال وغیرہ ) کی قیمت کے مطابق ان سے دلوائے……
ماں باپ، دادا دادی، نابالغ بھائی، اور دیگر رشتہ داروں کا فطرانہ واجب نہیں ،ہاں اگر کوئی آپ کےزیرکفالت ہے تو اس کاصدقہ فطر واجب ہے…
ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین کو دینا بہتر ہے اگر تقسیم کردیا تو پھر بھی جائز ہے……
صدقہ فطر کے مصارف بھی وہی ہیں (یعنی وہی لوگ حقدار ہیں)جو زکوۃ کے ہیں……
صدقہ فطر کے لیے مال پر زکوٰۃ کی طرح سال گزرنا ضروری نہیں، اگر کسی کے پاس عید کے دن ہی مال آیا تو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہوگا……
اگر کوئی سوال رہ گیا ہو تو کمنٹس میں اس کا جواب مل سکتا ہے……

18 مارچ, 2019

سانحہ نیوزی لینڈ کے منفی و مثبت پہلو

سانحہ نیوزی لینڈ کے منفی و مثبت پہلو
 

سب سے بڑا منفی پہلو تو یہ ہے.. 
چارلی ہیبڈو کے واقعے پر پوری ملت کفر متحد نظر آئی، مشرق سے لے کر مغرب تک کے عیسائی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تھے، مسلمانوں کی عالمی تنظیم "او آئی سی" سمیت کسی بھی مسلمان ملک کے صدر، وزیر اعظم اور بادشاہ و وزیر نے ان کے جنازوں میں شرکت نہ کی۔ 
سانحہ نیوزی لینڈ میں مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا کہ سوائے طیب اوردگان کے کسی کے منہ سے ایک جملہ بھی نہیں نکلا.. 
عالم کفر کو ہم پتھر سمجھتے ہیں مگر وہ پتھر بھی تسبیح میں پروئے ہوئے نظر آئے تسبیح نما نظر آئے ... 
اور عالم اسلام جس کو ہم قیمتی موتی تصّور کرتے ہیں وہ تسبیح کے بکھرے ہوئے موتیوں کی مانند گندگی میں گرے پڑے نظر آئے..
ہمارا میڈیا آرمی کے اعلی افسران حکومتی عہدیداران کی,, پی ایس ایل،، میں حاضری کو تو دکھاتا رہا مگر مسلمانوں کے درد کے لئے ایک جملہ ادا نہ ہوا. 
کاش کوئی آئے اور مسلم حکمرانوں کو گندگی کے اس ڈھیر سے نکال کر دھو کر ان کو نمایاں کر دے، اور پھر سے تسبیح میں پرو دے...
مثبت پہلو 
جب یہ تحریک زوروں پر تھی کہ دوپٹہ اپنی آنکھوں پر باندھ لو تو اللہ نے ایک غیر مسلم حکمران کو دوپٹہ اُڑھا کر پوری دنیا کے سامنے کر دیا کے دیکھ لو دوپٹے میں کوئی برائی نہیں
ایک پولیس کی اعلی آفیسر سے خطبہ پڑھوا دیا کہ دیکھ لو اسلام ابھی اتنا بھی کمزور نہیں ہوا..
نیوزی لینڈ کے غیر مسلموں میں اسلام سے متعلق جاننے کی خواہش پیدا ہو گی ۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جاتا تھا وہاں اب مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ایسے ممالک بھی ہیں جو انتہائی مجبوری میں ہمدردی جتانے پر مجبور ہیں ۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور انتظامیہ اس معاملے میں خاص طور پر قابل تعریف ہیں ۔ 
یہ سانحے آتے تو اس لئے ہیں کہ انسان سنبھل جائے.. 
میں پُچھیا اقبال توں دس، اقبال بولیا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا
علامہ اقبال نے تو کہا تھا کہ ہزاروں لاکھوں ستارے چھپتے ہیں تو پھر سحر ہوتی ہے... 
اللہ نے قرآن میں بھی ارشاد فرمایا
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا 
تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔
جس طرح 9/11 کے بعد غیرمسلموں نے اسلام کو پڑھنا شروع کیا... 
میں سمجھتا ہوں کہ اس حادثہ عظیمہ کے بعد بھی غیر مسلم بڑی تعداد میں اسلام کی طرف رخ موڑیں گے.. 
یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے غلامی کی زنجیریں اپنے گلے میں ڈالی ہوئی ہیں.. 
اقبال کہتے ہیں... 
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
علامہ اقبال یقین پیدا کرنے کی تلقین کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اگر تو ایک ملّت بننا چاہتا ہے رنگ و خوں بتّوں کو توڑ کر ملّت بن جا......
پھر اقبال بولے
بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہو جا
نہ تُورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
پھر اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صرف ایک ہی غلامی ہے کہ جس پر ناز کیا جاسکتا ہے جس پر ہزار آزادیاں قربان کی جاسکتی ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہے..... 
حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی غلامی پہ ناز کرتے ہیں
اقبال کہتے ہیں.. 
چمک اُٹھا جو ستارہ ترے مقدّر کا
حبَش سے تجھ کو اُٹھا کر حجاز میں لایا
ہُوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
پھر اقبال نے کہا کہ وہ کون سی صفتیں ہیں جن کو اپنا کر توں اپنی قوت کو بڑھا سکتا ہے... 
تو پھر کہا صرف جدید اسلحہ سے لیس ہو جانا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لئے کچھ اور لوازمات بھی ہیں وہ کیا ہیں؟ 
یقیں محکم، عمل پیہم، محبّت فاتحِ عالم
جہادِ زِندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
حملہ آور کی,, گنیں،، ہمیں ایک سبق دے گئیں کہ قومیں اپنا ماضی کبھی نہیں بھولا کرتیں تم اگر بھول جاؤ تو تمہاری مرضی.. 
تاتاریوں کی قتل و غارت، چنگیزیوں کی تباہیاں، سقوطِ بغداد فرنگیوں کے ظلم وستم، عراق و افغانستان وشام و فلسطین و کشمیر وبرما کی تباہیاں اور مسلم نوجوانوں کی نسل کشی بیٹیوں کی لٹتی عزتی بھول جاؤ تو تمہاری مرضی.... 
آخر میں
شہدائے نیوزی لینڈ کے لئے دعا کرتے ہیں اللہ تبارک و تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے.. 
تحریر :۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

09 مارچ, 2019

خواتین کا عالمی دن اور اسلام کی تعلیمات


خواتین کا عالمی دن اور اسلام کی تعلیمات
دین اسلام کی بیٹی تو اللہ کے دئیے حقوق پہ راضی ہے، باقی تیری مرضی 
خواتین کے عالمی دن کی کہانی 1907ء سے شروع ہوتی ہے.
یعنی سو سال پہلے........... 
مگر اسلام ساڑھے چودہ سو سال پہلے سارے اصول وضابطے مہیا کردیتا ہے.... 
اسلام پر پہلا اعتراض ہے، مرد کو طاقت ور کہا گیا... 
جی جی بالکل طاقتور کہاں نہیں گیا بلکہ طاقتور ہے اس لئے کہ تم نے چوکیدار رکھنا ہو تو کمزور چوکیدار تم بھی نہیں رکھتے اگر کمزور ہو تو گن یا پستول کے ساتھ اس کی قوت کو بڑھا دیتے ہو..... 
اللہ تعالی بھی قرآن میں فرماتا ہے. 
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ
مرد عورتوں پر قوام(محافظ) ہیں
تو محافظ کا کام گھر کی حفاظت کرنا ہے طاقت اور قوت سے..... 
قوام کا ایک معنی ستون بھی کیا گیا ہے، کیونکہ قوام کھڑے ہونے بھی کہتے ہیں... 
اگر مرد کو ستون کہیں تو گھر کی عمارت کو سہارا دینے والا تصور کیا جائے... 
مرد کے قوام ہونے کا تعلق حقوق سے نہیں فرائض سے ہے، کیونکہ حقوق مانگے جاتے ہیں اور فرائض ادا کئے جاتے ہیں... یعنی اس کے فرائض میں شامل ہے کہ اپنے گھر کی دیکھ بھال کرے اس کی حفاظت کرے ہر طرح کی نقب زنی سے اپنے گھر کو محفوظ کرے..... 
دنیا میں اس وقت ہر پانچواں شخص مسلمان ہے. 
اور جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں بہت سے مختلف کلچرز کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کہیں پر اسلام کی تعلیمات نافذ ہیں کہیں پر نہیں. 
مگر اسلام کیا کہتا ہے... اسلام عورت کو برابری کی بنیاد پر مخاطب کرتا ہے... 
اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَ الۡمُسۡلِمٰتِ وَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں.. 
ماں کے لئیے دین کہتا ہے. 
وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ 
اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہے.. 
عورت کے معاشی حقوق بارے 
اسلام نے عورت کو جائیداد رکھنے اور اس کی خریدوفروخت کرنے کا حق آج سے چودہ سو سال پہلے دیا. 
جبکہ یہی حق برطانیہ نے 1870 عیسوی میں آ کر دیا..
اسلام معاشی ذمہ داریاں مرد کے سپرد کرتا ہے مگر اسکے باوجود عورت کے کمانے یا کام کرنے کی ممانعت نہیں کرتا... 
نکاح و شادی پر ہی ایک نظر ڈال لیجئے.. 
مرد پابند ہے کہ عورت کو مکان مہیا کرے، اس کے کھانے پینے کا انتظام کرے، نکاح سے پہلے حق مہر عورت کی ڈیمانڈ کے مطابق ادا کرے
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً ؕ فَاِنۡ طِبۡنَ لَکُمۡ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنۡہُ نَفۡسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓـئًا مَّرِیۡٓـئًا
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ خوش دلی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں(معاف کر دیں ) تو اسے پاکیزہ، خوشگوار (سمجھ کر) کھاؤ۔......... 
ہاں ایک خرابی ہے مسلمان معاشرے پر دیگر ثقافتوں کے اثرات کچھ زیادہ ہی ہیں... 
مثلًا لڑکے والے اپنی حیثیت کے مطابق مہر تو دیتے نہیں البتہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز کا مطالبہ یا امید ضرور رکھتے ہیں.... 
مگر اسلام تو طلاق دے دینے کے بعد بھی عدت کے پورے دورانیے کے نان نفقہ کا ذمہ دار شوہر کو ہی بناتا ہے.....
عورت کے معاشرتی حقوق
عورت کو بحثیت بیٹی، بیوی، ماں، بہن اسلام کی نظر سے دیکھئے آپ کو اسلام کے حسن کا اندازہ ہو سکے.. 
اللہ تعالی تو ان بدبختوں سے کلام بھی نہیں کرے گا ان کا جرم بھی نہیں پوچھے گا جنہوں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی، بلکہ اللہ کا سوال بیٹیوں سے ہوگا.... 
وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ﴿۹﴾
اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟
ہر چیز کا درست اور غلط استعمال بھی ہوتا ہے جس طرح
جدید سائنس نے بہت کچھ اچھا دیا، مگر وہاں پر حمل گرانے کے آسان رستے بھی فراہم کر دیے... 
زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو قتل کیا جاتا تھا زمانہ جدید میں ماں کے پیٹ میں ہی اس کو موت دے دی جاتی ہے... 
وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکُمۡ وَ اِیَّاہُمۡ ۚ 
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں ان کو بھی رزق دیں گے.. 
حالانکہ ہمیں تو دین نہیں سکھایا تھا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی اور ان کا خیال رکھا محبت کے ساتھ انہیں پالا وہ شخص جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا( آپ نے اپنی دو انگلیوں کو کھڑا کر کے بتایا)...... 
دوسری حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے..... 
کل قیامت کے دن ایک بیٹی اپنے باپ کے لیے اللہ سے جھگڑ رہی ہوگی کہ اللہ جب تک میرا باپ جنت میں نہیں جائے گا میں بھی جنت میں داخل نہیں ہو نگی اس نے مجھے بہت محبت سے پالا.... 
عورت بحثیت زوجہ .. 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں.. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 
جس نے نکاح کرلیا اس نے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیا... 
اور قران میں اللہ فرماتا ہے.. 
وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا.. 
اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو پھر اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے. 
قرآن تو برابری ہی سیکھاتا ہے
اللہ تعالی پہلے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ 
مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں.
پھر عورتوں کو حکم دیا جاتا ہے
وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ 
اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں..
ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ؕ 
وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس...... 
اب لباس کا کام ہے 
عیب چھپاتا ہے، حسن نکھارتا ہے، سردی گرمی سے بچاتا ہے، باوقار بناتا ہے،
مرد و عورت بھی ایک دوسرے کے لیے اسی کی مانند ہیں
علمی میدان میں اسلام کی تعلیمات کو دیکھنا ہے تو صرف سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ہی دیکھ لیا جائے کہ جن سے 22 سو سے زیادہ احادیث مروی ہیں.. 
سیاسی میدان میں بھی خواتین کے حقوق ہیں. 
یاایھا النبی اذا جاءک المؤمنات...... الخ
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں..................... تو ان سے بیعت لے لو. . 
الغرض میدان کوئی بھی ہو اسلام میں خواتین کے حقوق کو بہت خوبصورتی سے بیان فرما دیا ہے ضرورت صرف عمل کرنے کی ہے.. 
اللہ تعالی نے مرد کو معاشی منتظم بنایا عورت کو گھریلو منتظم.... 
نان نفقہ مرد کے ذمہ گھر اور بچوں کی تربیت عورت کے ذمہ، 
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلام کا چہرہ واضح کریں..... 
تحریر:---
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

خواتین کا عالمی دن

تو پریشان کیوں ہے اللہ تعالی نے فیصلہ کردیا ہے جو تو ہے تجھے وہی ملے گا.
 
اللہ کا فرمان ہے.. 
اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ
گندیاں گندوں کے لیے اور گندے گندیوں کے لیے اور ستھریاں ستھروں کے لیے اور ستھرے ستھریوں کے لیے.... 
اللہ کی بارگاہ میں تو ان الفاظ کے ساتھ دعا کی جاتی ہے
یَا مَنْ یُّظْہِرُ الْجَمِیْلَ، وَیَسْتُرُ عَلَی الْقَبِیْحِ
ترجمہ:اے اچھائیوں کوظاہرکرنے والے اور برائیوں کی پردہ پوشی فرمانے والے۔''
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی صفت سے متصف ہوکیونکہ وہ عیبوں پرپردہ ڈالنے والا ہے.....
بندہ وہی جو عیبوں کوچھپائے عیب اپنے ہوں یا بیگانے ۔
کہاجاتاہے اللہ کے پسندیدہ بندوں کے سینے رازوں کی قبریں ہیں۔
اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ بیوقوف کادل اس کے منہ میں ہوتاہے....
اورعقل مند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے۔
تم کہتی ہو
تم مکینک ہو ! تم ٹائر بدل لیتی ہو !
مگر میرا شوہر تو میرے ہاتھوں کو میلا نہیں ہونے دیتا....!
تم ساتھ کھانا بنانے کا کہتی ہو!
میرا شوہر آفس سے آتے ہوئے پوچھتا ہے کیا لیتا ہوا آؤں
تم موزہ ڈھونڈنے کا کہتی ہو !
مگر شاید کوئی تجھے ڈھونڈنے والا نہ ہو...!
تم بیٹھ گئی ہو صحیح سے......!
تمہارے اس طرح بیٹھنے کا شیطان کو بڑی شدت سے انتظار تھا......!
تم کہتی ہو میں آوارہ، میں بدچلن، میں آزاد...!
تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ تمہارے کہنے کا انکار کرے، تمہاری بات پر یقین ہے اور سو فیصد یقین ہے کہ سچ تمہارے منہ سے نکلا ہے......!
جو تو ہے وہ تو ظاہر ہو گئی، جو تجھے ملے گا تو پھر شکوہ کیسا.....
اپنی اداؤں پر ذرا غور کر

03 مارچ, 2019

خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
    حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی عبداللہ ہے۔ آپ کے اجداد کے اسماء یہ ہیں: عبداللہ (ابو بکر صدیق) بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمروبن کعب بن سعد بن تَیم بن مرّہ بن کعب بن لوی بن غالب قرشی۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نسب پاک سے مرّہ میں ملتا ہے ۔ آپ کا لقب عتیق و صدیق ہے۔ ابو یعلی نے اپنی مسند میں اور ابن سعد و حاکم نے ایک حدیثِ صحیح ام المؤمنین حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ایک روز میں مکان میں تھی اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب صحن میں تھے میرے ان کے درمیان پردہ پڑا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو ''عَتِیْقُ مِّنَ النَّار''(1)کا دیکھنا اچھا معلوم ہو وہ ابوبکر کودیکھے۔ اس روزسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب عتیق ہوگیا۔ آپ کا ایک لقب صدیق ہے۔ ابن اسحق حسن بصری اور قتادہ سے راوی کہ صبحِ شبِِ معراج سے آپ کا یہ لقب مشہور ہوا۔(2)
     مستدرک میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مشرکین پہنچےاور واقعہ معراج جو انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سناتھا۔حضر ت ابو بکر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کو سنا کر کہنے لگے کہ اب حضور کی نسبت کیا کہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: لَقَدْ صَدَقَ اِنِّیْ لَاُصَدِّقُہٗ (حضور نے یقینا سچ فرمایا، میں حضور کی تصدیق کرتا ہوں) اسی وجہ سے آپ کا لقب صدیق ہوا۔ (1)
    حاکم نے مستدرک میں نزال بن سبرہ سے باسناد جید روایت کی کہ ہم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے بزبان جبریلِ امین و بزبانِ سرورِانبیا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم صدیق رکھا ، وہ نمازمیں حضور کے خلیفہ تھے۔حضور نے انھیں ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تو ہم اپنی دنیا کے لئے ان سے راضی ہیں۔ (2) (یعنی خلافت پر )
     دار قطنی وحاکم نے ابو یحییٰ سے روایت کیا کہ میں شمار نہیں کرسکتا کتنی مرتبہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبرسرِمنبر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر ابو بکر کا نام صدیق رکھا۔ (3)
    طبرانی نے بسندِجید صحیح حکیم بن سعد سے روایت کی ہے کہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحلف فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا۔(4)

1۔۔۔۔۔۔یعنی آتشِ دوزخ سے آزاد۔۱۲منہ  2۔۔۔۔۔۔مسند ابی یعلٰی، مسند عائشۃ، الحدیث:۴۸۷۸،ج۴، ص۲۸۲/و تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی اسمہ ولقبہ،ص۲۳1۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، الاحادیث المشعرۃ    ۔۔۔۔۔ بتسمیۃ ابی بکر صدیقاً، الحدیث:۴۴۶۳، ج۴،ص۴۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، الاحادیث المشعرۃ /بتسمیۃ ابی بکرصدیقاً، الحدیث:۴۴۶۲ ،ج۴،ص۴/وتاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی اسمہ ولقبہ،ص۲۳ /3۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی اسمہ ولقبہ،ص۲۳ /4۔۔۔۔۔۔المعجم الکبیر للطبرانی،الحدیث:۱۴،ج۱،ص۵۵
مشاہد میں حضور کے ساتھ حاضر ہوئے۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور اپنے عیال و اولاد کوخدا اور رسول کی محبت میں چھوڑ دیا۔آپ جو دوسخا میں اعلیٰ مرتبہ رکھتے ہیں۔ اسلام لانے کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزار دینار تھے۔یہ سب اسلام کی حمایت میں خرچ فرمائے۔ بردوں کو آزاد کرانا، مسلمان اسیروں کو چھڑانا آپ کا ایک پیار ا شغل تھا۔ بذل و کرم میں حاتم طائی کو آپ سے کچھ بھی نسبت نہیں۔ (1)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم پر کسی شخص کا احسان نہ رہا، ہم نے سب کا بدلہ کر دیا سوائے ابو بکر کے کہ ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت عطا فرمائے گا اور مجھے کسی کے مال نے وہ نفع نہیں دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا۔ ( )(رواہ الترمذی عن ابی ہریرہ)
    زہے نصیب صدیق کے کہ حضور انورسلطان دارین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی شان میں یہ کلمے ارشاد فرمائے۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام میں سب سے اعلم واذکیٰ ہیں۔اس کا بارہاصحابہ کرام نے اعتراف فرمایا ہے۔قرأتِ قرآن، علمِ انساب، علمِ تعبیرمیں آپ فضلِ جلی رکھتے ہیں۔قرآنِ کریم کے حافظ ہیں۔(3) 

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی صحبتہ ومشاہدہ،۔۔۔(ذکرہ النووی فی التہذیب)
ص۲۷ و فصل فی انفاقہ مالہ علی رسول اﷲ...الخ،ص۲۹ملخصاً 
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، 
الحدیث:۳۶۸۱،ج۵،ص۳۷۴
3۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ،فصل فی علمہ...الخ،ص۳۱۔۳۳ملخصاً
افضلیت
   اہل ِسنت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد تمام عالَم سےافضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں،
 ان کے بعدحضرت عمر،ان کے بعدحضرت عثمان ، ان کے بعد حضرت علی،ان کے بعد تمام عشرہ مبشرہ ، ان کے بعد باقی اہل بدر، ان کے بعد باقی اہل احد، ان کے بعد باقی اہل بیعت ، پھر تمام صحابہ۔ یہ اجماع ابو منصور بغدادی نے نقل کیاہے۔ابن عسا کر نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی فرمایا کہ ہم ابو بکر و عمرو عثمان و علی کو فضیلت دیتے تھے بحالیکہ سروراکرم علیہ الصلوٰۃ و السلام ہم میں تشریف فرما ہیں۔ اما م احمد وغیرہ نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا کہ اس امت میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے بہتر ابوبکر و عمر ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ذہبی نے کہا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بتواتر منقول ہے۔(1)
    ابن عساکر نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی کہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے فرمایا: جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا تو میں اس کو مُفْتَرِی کی سزادوں گا۔(2)     حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں بہت آیتیں اوربکثرت حدیثیں واردہوئیں جن سے آپ کے فضائل جلیلہ معلوم ہوتے ہیں۔ چند احادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں:
    ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرما یا :تم میرے صاحب ہو

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی انہ افضل الصحابۃ 
وخیرہم،ص۳۴ 
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی انہ افضل الصحابۃ 
وخیرہم،ص۳۵

حوض کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔
     ابن عساکرنے ایک حدیث نقل کی کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: نیکی کی تین سو ساٹھ خصلتیں ہیں۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ حضور ان میں سے کوئی مجھ میں بھی ہے۔ فرمایا: تم میں وہ سب ہیں تمھیں مبارک ہو۔ انھیں ابن عساکرنے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ابوبکر کی محبت اور ان کا شکر میری تمام امت پر واجب ہے۔ (2)
    بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ابوبکر ہمارے سیّد وسردار ہیں۔(3)
     طبرانی نے اوسط میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، آپ نے فرمایا :بعد رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے بہتر ابوبکر و عمر ہیں، میری محبت اور ابوبکر و عمر کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہ ہوگا۔(4)


1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،الحدیث:۳۶۹۰،ج۵،ص۳۷۸
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث الواردۃ فی 
فضلہ...الخ،ص۴۴
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب بلال بن رباح...الخ، 
الحدیث:۳۷۵۴،ج۲،ص۵۴۷
4۔۔۔۔۔۔المعجم الاوسط للطبرانی،الحدیث:۳۹۲۰،ج۳،ص۷۹ملخصاً
خلافت
    بکثرت آیات واحادیث آپ کی خلافت کی طرف مشیر ہیں۔ ترمذی وحاکم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
جولوگ میرے بعد ہیں، ابوبکر و عمر، ان کا اتباع کرو۔(1)
     ابن عسا کرنے ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ ایک عورت حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ کچھ دریافت کرتی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا :پھر آئے گی۔ عرض کی: اگر میں پھرحاضر ہوں اور حضورکو نہ پاؤ ں یعنی اس وقت حضورپردہ فرما چکیں۔ اس پر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو آئے او ر مجھے نہ پائے تو ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوجانا کیونکہ میرے بعد وہی میرے خلیفہ ہیں۔ (2)
    بخاری ومسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام مریض ہوئے اور مرض نے غلبہ کیا تو فرمایا کہ ابوبکر کو حکم کروکہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وہ نرم دل آدمی ہیں آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھاسکیں گے۔ فرمایا:حکم دو ابوبکر کو کہ نماز پڑھائیں۔حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پھر وہی عذر پیش کیا۔ حضور نے پھر یہی حکم بتاکید فرمایا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک میں نماز پڑھائی۔ یہ حدیث متواتر ہے۔حضرت عائشہ و ابن مسعود و ابن عباس وابن عُمر و عبداللہ بن زمعہ وابو سعید وعلی بن ابی طالب و حفصہ وغیرہم سے مروی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس پربہت واضح دلالت ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مطلقاً تمام صحابہ سے افضل اور خلافت و امامت کے لئے سب سے احق واولیٰ ہیں۔(1)
    اشعری کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت کاحکم دیاجب کہ انصار ومہاجرین حاضر تھے ۔اور حدیث میں ہے کہ قوم کی امامت وہ کرے جو سب میں اَقْرَء ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ میں سب سے اقرء اور قرآن کریم کے سب سے بڑے عالم تھے۔ اسی لئے صحابہ کرام نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اَحَقْ بِالْخِلَافَہ ہونے کااستدلال کیاہے۔ ان استدلال کرنے والوں میں سے حضرت عمر اور حضرت علی بھی ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ ایک جماعت علماء نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت آیات قرآنیہ سے مُسْتَنْبَطْ کی ہے۔(2)
 وَقَدْ ذَکَرَھَا الشَّیْخُ جَلاَلُ الدِّیْن اَلسُّیُوْطِیُّ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فِیْ تَارِیْخِہٖ۔
    علاوہ بریں اس خلافتِ راشدہ پر جمیع صحابہ اور تمام امت کا اجماع ہے۔ لہٰذا اس خلافت کا منکر شرع کا مخالف اور گمراہ بددین ہے۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ خلافت مسلمانوں کے لئے ظِلِّ رحمت ثابت ہوا اور دین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جو خطرات عظیمہ اور ہولناک اندیشے پیش آگئے تھے وہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے صائب، تدبیر صحیح اور کامل دینداری و زبردست اتباع سنت کی برکت سے دفع

1۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم،احادیث فضائل الشیخین، 
الحدیث:۴۵۱۱،ج۴،ص۲۳
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث والآیات 
المشیرۃ الی خلافتہ...الخ،ص۴۷
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب اہل العلم والفضل...الخ، الحدیث:۶۷۸، 
ج۱،ص۲۴۲و تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث 
والآیات المشیرۃ الی خلافتہ...الخ، ص۴۷،۴۸ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث والآیات 
المشیرۃ الی خلافتہ...الخ،ص۴۸-۴۹
 ہوئے اور اسلام کو وہ استحکام حاصل ہوا کہ کفار و منافقین لرزنے لگے اور ضعیف الایمان لوگ پختہ مومن بن گئے آپ کی خلافت راشدہ کا عہدا گر چہ بہت تھوڑا اور زمانہ نہایت قلیل ہے لیکن اس سے اسلام کو ایسی عظیم الشان تائیدیں اور قوتیں حاصل ہوئیں کہ کسی زبردست حکومت کے طویل زمانہ کو اس سے کچھ نسبت نہیں ہوسکتی۔
    آپ کے عہد مبارک کے چند اہم واقعات یہ ہیں کہ آ پ نے جیشِ اسامہ کی تَنْفِیْذکی جس کو حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے عہد مبارک کے آخر میں شام کی طرف روانہ فرمایاتھا۔ ابھی یہ لشکر تھوڑی ہی دو ر پہنچا تھا اور مدینہ طیبہ کے قریب مقامِ ذی خُشُب ہی میں تھا کہ حضور اقدس علیہ الصلوٰ ۃ و السلام نے اس عالم سے پردہ فرمایا ۔یہ خبر سن کر اطرافِ مدینہ کے عرب اسلام سے پھر گئے اور مرتد ہوگئے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مجتمع ہو کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر زوردیا کہ آپ اس لشکر کو واپس بلالیں۔ اس وقت اس لشکر کاروانہ کرنا کسی طرح مَصْلَحَتْ نہیں،مدینہ کے گِرْد تو عرب کے طوائف کثیرہ مرتد ہوگئے اور لشکر شام کو بھیج دیا جائے۔ اسلام کے لئے یہ نازک ترین وقت تھا، حضور اقد س علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے کفار کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ان کی مردہ ہمتوں میں جان پڑگئی تھی، منافقین سمجھتے تھے کہ اب کھیل کھیلنے کا وقت آگیا۔ ضعیفُ الایمان دین سے پھر گئے۔ مسلمان ایک ایسے صدمے میں شکستہ دل اور بے تاب وتواں ہور ہے ہیں جس کا مثل دنیا کی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا۔ان کے دل گھائل ہیں اور آنکھوں سے اشک جاری ہیں، کھانا پینا برا معلوم ہوتا ہےزندگی ایک ناگوار مصیبت نظرا ۤتی ہے۔ اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین کو نظم قائم کرنا، دین کا سنبھالنا ، مسلمانوں کی حفاظت کرنا، ارتداد کے سیلاب کو روکنا کس قدر دشوار تھا۔ باوجود اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روانہ کئے ہوئے لشکر کو واپس کرنا اور مرضئ مبارکہ کے خلاف جرأت کرنا صدیق سراپا صدق کا رابطہ نیا ز مندی گوارانہ کرتاتھا اور اس کو وہ ہر مشکل سے سخت ترسمجھتے تھے۔اس پر صحابہ کا اصرار کہ لشکر واپس بلالیاجائے اور خود حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لوٹ آنا اورحضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کرنا کہ قبائل عر ب آمادۂ جنگ اور درپے تخریب ِاسلام ہیں اور کار آزمابہادر میرے لشکر میں ہیں انھیں اس وقت روم پر بھیجنا اور ملک کوایسے دلاور مردانِ جنگ سے خالی کرلینا کسی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا۔یہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اور مشکلات تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اعتراف کیا ہے کہ اس وقت اگرحضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ دوسرا ہوتا تو ہرگز مستقل نہ رہتا اور مصائب وافکار کا یہ ہجوم اور اپنی جماعت کی پریشان حالت مبہوت کر ڈالتی مگر اللہ اکبر حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پائے ثبات کوذَرَّہْ بھر لغزش نہ ہوئی اور ان کے استقلال میں ایک شمّہ فرق نہ آ یا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر پرند میری بوٹیاں نوچ کھائیں تومجھے یہ گوارا ہے مگر حضور انور سیّدعالَم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مرضئ مبارک میں اپنی رائے کودخل دینا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روانہ کئے ہوئے لشکر کو واپس کرنا ہرگز گوارا نہیں۔یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ایسی حالت میں آپ نے لشکر روانہ فرمادیا۔
اس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیرت انگیز شجاعت و لیاقت اور کمالِ دلیری و جوانمردی کے علاوہ ان کے توَكّلِ صادق کا پتہ چلتا ہے اور دشمن بھی انصافاً یہ کہنے پر مجبور ہوتاہے کہ قدرت نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعدخلافت و جانشینی کی اعلیٰ قابلیت و اہلیت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمائی تھی۔اب یہ لشکر روانہ ہوا اور جو قبائل مرتد ہونے کے لیے تیار تھے اور یہ سمجھ چکے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے بعد اسلام کا شیرازہ ضرور درہم برہم ہوجائے گا اور اس کی سَطْوَت وشوکت باقی نہ رہے گی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ لشکر اسلام رومیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوگیا اسی وقت ان کے خیالی منصوبے غلط ہوگئے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ سید عالم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے عہد مبارک میں اسلام کے لیے ایسا زبردست نظم فرمادیا ہے جس سے مسلمانوں کا شِیْرَازَہ درہم برہم نہیں ہوسکتا اور وہ ایسے غم و اَنْدُ وْہ کے وقت میں بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے سامنے اقوام عالم کو سَرْنِگُوْں کرنے کے لیے ایک مشہور و زبردست قوم پر فوج کَشی کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ اسلام مٹ جائے گا اور اس میں کوئی قوت باقی نہ رہے گی بلکہ ابھی صبر کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ یہ لشکر کس شان سے واپس ہوتاہے۔ فضلِ الٰہی سے یہ لشکرِ ظفر پیکر فتحیاب ہوا، رومیوں کو ہزیمت ہوئی۔
    جب یہ فاتح لشکر واپس آیا وہ تمام قبائل جو مرتد ہونے کا ارادہ کرچکے تھے اس ناپاک قصد سے باز آئے اور اسلام پر صدق کے ساتھ قائم ہوئے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صائب الرائے صحابہ علیہم الرضوان جو اس لشکر کی روانگی کے وقت نہایت شدت سے اختلاف فرمارہے تھے اپنی فکر کی خطا اور صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے مبارک کے صائب اور ان کے علم کی وسعت کے معترِف ہوئے۔(1)
    اسی خلافت مبارکہ کا ایک اہم واقعہ مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ عَزْمِ قِتال ہے جس کا مختصر حال یہ ہے جب حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر مدینہ طیبہ کے حوالی و ا طراف میں مشہو ر ہوئی تو عرب کے بہت گروہ مرتد ہوگئے اور انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے قتال کرنے کے لئے اٹھے، امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے وقت کی نزاکت ،اسلام کی نو عمری ،دشمنوں کی قوت، مسلمانوں کی پریشانی،پَراگَنْدَہ خاطِری کا لحاظ فرماکر مشورہ دیا کہ اس وقت جنگ کے لئے ہتھیار نہ اٹھائے جائیں مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ارادہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا! جو لوگ زمانہ اقدس میں ایک تسمہ کی قدر بھی ادا کرتے تھے اگر آج انکار کریں گے تو میں ضرور ان سے قتال کروں گا۔ آخر کار آپ قتال کے لئے اٹھے اور مہاجرین و انصار کو ساتھ لیا اور اعراب اپنی ذریتوں کولے کر بھاگے۔ پھر آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر لشکر بنایا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح دی اور صحابہ نے خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحتِ تدبیر اور اِصابتِ رائے کا اعتراف کیااور کہا :خداکی قسم! اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ کھول دیا جو انہوں نے کیا حق تھا۔(1)     اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اگر اس وقت کمزوری دکھائی جاتی تو ہر قوم اور ہر قبیلہ کو احکامِ اسلام کی بے حرمتی اور ان کی مُخالَفَت کی جرأٔت ہوتی اور دینِ حق کا نظم باقی نہ رہتا۔ یہاں سے مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے کہ ہر حالت میں حق کی حمایت اور ناحق کی مخالفت ضروری ہے اور جو قوم ناحق کی مخالفت میں سستی کرے گی جلد تباہ ہوجائے گی۔ آج کل کے سادہ لوح فرقِ باطلہ کے رد کرنے کو بھی منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس   

1۔۔۔۔۔۔الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،القسم الثانی،الباب الاول فی مناقب خلیفۃ رسول اﷲ ابی بکر الصدیق...الخ، الفصل التاسع فی خصائصہ، ذکر شدۃ باسہ وثبات قلبہ...الخ،ج۱، الجزء۱،ص۱۴۸،۱۴۹ملخصاً۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی ما وقع فی خلافتہ، ۔۔۔۔ص۵۶۔۵۷ملخصاً
وقت آپس کی جنگ موقوف کرو۔ انھیں حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طریق عمل سے سبق لینا چاہیے کہ آ پ نے ایسے نازک وقت میں بھی باطل کی سرشِکَنی میں توقف نہ فرمایا۔ جو فرقے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ان سے غفلت کرنا یقیناً اسلام کی نقصان رسانی ہے۔ 
    پھر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکر لے کریمامہ کی طرف مسیلمہ کذاب کے قتال کے لئے روانہ ہوئے۔ دونوں طرف سے لشکر مقابل ہوئے ، چند روزجنگ رہی۔ آخِرُ الا َمْر مسیلمہ کذاب ، وحشی (قاتل حضرت امیر حمزہ) کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مسیلمہ کی عمر قتل کے وقت ڈیڑھ سو برس کی تھی۔ 12ھ ؁ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علا ابن حضرمی کو بحرین کی طرف روانہ کیا۔ وہاں کے لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ جُواثيٰ میں ان سے مقابلہ ہوا اور بکرمہ تعالیٰ مسلمان فتح یاب ہوئے۔ عمان میں بھی لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ وہاں عکرمہ ابن ابی جہل کو روانہ فرمایا۔ نجیر کے مرتد ین پر مہاجربن ابی امیہ کو بھیجا۔ مرتدین کی ایک اور جماعت پر زیاد بن لبید انصاری کو روانہ کیا اسی سال مرتدین کے قتال سے فارغ ہوکر حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرزمین بصرہ کی طرف روانہ کیا۔ ا ۤپ نے اہل ابلہ پر جہاد کیا اور ابلہ فتح ہوا اور کسریٰ کے شہر جو عراق میں تھے فتح ہوئے۔ اس کے بعد آ پ نے عمر وبن عاص اور اسلامی لشکروں کو شام کی طرف بھیجا اور جمادی الاولیٰ13ھ؁میں واقعہ اجنادین پیش آیا او ر بفضلہٖ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اسی سال واقعہ مرج الصفرہوا اور مشرکین کو ہزیمت ہوئی۔(1)   حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے تھوڑ ے سے زمانہ میں شب و روز کی پیہم سعی سے بدخواہان اسلام کے حو صلے پست کردئیے اور ارتداد کاسیلاب روک دیا۔ کفار کے قلوب میں اسلام کا وقار راسخ ہوگیا اور مسلمانوں کی شوکت و اقبال کے پھریرے عرب و عجم بحروبر میں اڑنے لگے۔
    آپ قرآن کریم کے پہلے جامع ہیں اور آپ کے عہد مبارک کا زرین کارنامہ ہے کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جہادوں میں وہ صحابہ کرام جو حافظِ قرآن تھے شہید ہونے لگے تو آپ کو اندیشہ ہوا کہ اگر تھوڑے زمانہ بعد حفاظ باقی نہ رہے تو قرآن پاک مسلمانوں کو کہا ں سے میسر آئے گا۔ یہ خیال فرماکر آپ نے صحابہ کوجمعِ قرآن کا حکم دیا اور مصاحف مرتب ہوئے۔




1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی ما وقع فی خلافتہ، 
ص۵۸ ملخصاً




حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات
    آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا اصلی سبب حضور انور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہے جس کا صدمہ دمِ آخر تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلب مبارک سے کم نہ ہوا اور اس روزسے برابر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم شریف گھلتا اور دبلا ہوتا گیا ۔
    7 جمادی الاخر ی 13 ھ؁ روز دو شنبہ کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غسل فرما یا ، دن سرد تھا ، بخار آگیا۔ صحابہ عیادت کے لئے آئے۔ عرض کرنے لگے: اے خلیفۂ رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ورضی اللہ تعالی عنہ اجازت ہوتو ہم طبیب کو بلائیں جو آپ کو دیکھے۔ فرمایا کہ طبیب نے تو مجھے دیکھ لیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ پھر طبیب نے کیا کہا؟ فرمایا کہ اس نے فرمایا: اِنِّیْ فَعَّالٌ لِّمَا اُرِیْدُ۔ یعنی میں جو چاہتا ہو ں کرتاہوں۔ مراد یہ تھی کہ حکیم اللہ تعالیٰ ہے اس کی مرضی کو کوئی ٹال نہیں سکتا، جو مشیت ہے ضرور ہوگا۔یہ
حضرت کاتوکلِ صادق تھا اور رضائے حق پر راضی تھے۔
     اسی بیماری میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبدالرحمن عوف اور حضرت علی مرتضی اور حضرت عثمان غنی وغیر ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بعد خلافت کے لئے نامزد فرمایااور پندرہ روز کی علالت کے بعد 22 جمادی الاخری 13 ھ؁ شب ِسہ شنبہ کو تریسٹھ سال کی عمر میں اس دارِنا پائیدار سے رحلت فرمائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
    حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ کی نماز پڑھائی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی وصیت کے مطابق پہلوئے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں مدفون ہوئے۔ 
    آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو سال اور سات ماہ کے قریب خلافت کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات سے مدینہ طیبہ میں ایک شور برپا ہوگیا۔ آپ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کی عمر اس وقت ستانوے برس کی تھی۔ دریافت کیا کہ یہ کیسا غوغا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ کے فرزند رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رحلت فرمائی۔ کہا بڑی مصیبت ہے ان کے بعد کارِ خلافت کو ن انجام دے گا؟ کہا گیا: حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ آپ کی وفات سے چھ ماہ بعد آپ کے والد ابو قحافہ نے بھی رِحْلَت فرمائی۔(1)
    کیا خوش نصیب ہیں خود صحابی، والد صحابی ، بیٹے صحابی ، پوتے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہم و رضواعنہ۔




1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی مرضہ ووفاتہ...الخ، 
ص۶۲۔۶۶ملتقطاً





02 مارچ, 2019

کس کا کہا مانیں؟

کس کا کہا مانیں؟ 
چار تعلق ایسے ہیں جن کا حکم ماننے کا پابند اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، ممکن ہے کوئی اور بھی ہو لیکن اس وقت میرے ذہن میں یہ چار ہیں۔
پہلا : اللہ تعالی
اللہ تعالی کا ہر حال میں حکم ماننا ہر صاحب ایمان پر ضروری ہے ۔
دوسرا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے جو دیں وہ لے لیں، جس سے روکیں اس سے رک جائیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآ ؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃُ ُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَآ أَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِی سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (التوبۃ:) 
’’آپ کہہ دیجئیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے ا ور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو،اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیزہیں ،تو اللہ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو۔اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا۔‘‘
تیسرا: والدین
سورہ لقمان میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴿۱۴﴾وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا.. 
میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔میری ہی طرف لوٹنا ہے۔
اور اگر وہ دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دے-
چوتھا: استاد 
استاد کو اسلام نے روحانی باپ کا درجہ دیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن ماجہ۔229)
یہ اعزاز کیا کم ہے کہ پہلا معلم خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے جس نے آدم علیہ سلام کو تمام اسمائے گرامی سکھا دئیے،
جس نے رسول اللہ سے فرمایا۔
پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا"۔(العلق ۔6) 
حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔
یہ چار تعلق تھے جو دین اسلام نے ہمیں سکھائے اور انکے حکم ماننے کا بھی پابند فرمایا۔
ایک پانچواں تعلق ہمارے بزرگان دین نے ہمیں سکھایا جس کو آج کی زبان میں ہم پیرومرشد کہتے ہیں۔
میرا ماننا یہ ہے کہ اگر ہم چار ہستیوں کی فرمابرداری کر لیں تو شاید پانچویں کی ضرورت پیش نہ آئے۔
لیکن اگر ماننا ہی ہے تو پھر اس کی بھی حدود اور شرائط ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے. 
آخری بات کو سمجھنے سے پہلے ایک بار کھلے لفظوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پیر کا بیٹا پیر نہیں ہوتا جب تک وہ شریعت مطہرہ کے تمام تقاضے پورے نہ کر رہا ہو۔
اب پانچواں تعلق پڑھیے
پانچواں : پیر و مرشد 
بیعت کے معنی : بیعت کے معنی بیچنے کے ہیں ۔درحقیقت مرید اپنی مرضی کو مرشد کامل کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اسی وجہ سے اس عمل کو بیعت کہتے ہیں ۔
اب ظاہر ہے کہ بیچنے کی کچھ شرائط ہیں، 
بیعت کرنے والا (بکنے والا) خریدار (پیر) سے چار شرائط پر سودا طے کرتا ھے وہ شرائط اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے بیان فرمائی ہیں ۔
(1) سُنی صحیح العقیدہ ہو۔
(2) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔
(3) فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو
(4) اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ )
بیعت کرنی بھی چاہیے اس لئے کہ حدیبیہ کے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت لی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اپنے ہی ہاتھ کو بیعت کے لئے عثمان کا ہاتھ قرار دیا ۔
اللہ نے اس کا تذکرہ اپنی رضا کے اعلان کے ساتھ قرآن میں فرمایا۔
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ اور بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے، 
کہ جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے۔
اس بات کو اس حدیث مبارکہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دل ایک ایسے پر کی مثل ہے جسے ہوا الٹتی پلٹتی رہتی ہے ۔(مشکوٰۃ) 
تو ہم سمجھتے ہیں کہ پیر و مرشد اس ہوا کو روکنے والی دیوار ہے کہ جو بندے کے دل کو الٹ پلٹ کرتی ہے ۔
تو دوستو : اپنا ہاتھ اس مرشد کامل کے ہاتھ میں دیجئے جو آپ کے لئے دیوار کا کام کر سکے۔
آخری جملہ 
آج کل بہت مسندوں پر گدی نشین نہیں بلکہ
: گندی مشین: ہیں ۔
ولایت کا تعلق صاحبزادہ ہونے سے نہیں صاحب کردار ہونے سے ہے، اور صاحب کردار وہ ہے جس نے تقوی کو اختیار کیا۔
اگر کوئی سیاستدان اپنے بڑوں کے کردار کے قصیدے پڑھے تو سمجھیے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
اور اگر کسی جگہ پر کوئی گدی نشین اپنے بڑوں کی کرامتیں بیان کرے تو سمجھیے اپنے عمل سے اس نے بھی کچھ نہیں کیا ۔
محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

جادو، معجزہ اور کرامت

جادو، معجزہ اور کرامت
اولیاء اللہ کی نسبت سے ربیع الثانی میں کرامات پر ایک تحریر۔
جادو ،معجزہ اور کرامت کو سمجھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشین رکھیئے۔
کرامت اللہ کے ولی کی پہچان کی ختمی شکل نہیں
اگر اللہ کے ولی کی پہچان کا معیار کرامت کو ہی بنا لیا جائے، کرامت کو ہی معیار ولایت سمجھنے والے، یا کرامت کے دھوکے میں شعبدہ بازی دکھانے والے کو ولی اللہ سمجھنے لگیں۔
اگر ایسے لوگ سامری جادوگر کے زمانے میں ہوتے تو اس کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کردیتے یا سامری کو بڑا پہنچا ہوا سمجھنا شروع کردیتے۔
فرعون کے جادوگروں کو تو بڑا ولی اللہ سمجھ بیٹھتے کہ رسیوں کے سانپ بنا دیئے ۔
ذرا غور کیجیے! 
کل ان لوگوں کا کیا حال ہوگا ۔
کہ جب دجال آئے گا اور اپنے دائیں اور بائیں جنت و دوزخ لیے ہوئے ہو گا، جس کو چاہے گا نفع پہنچائے گا جس کو چاہے گا نقصان پہنچائے گا، مردے زندہ کردے گا۔
تو نعوذ باللہ کیا ہم اس کو اللہ کا ولی سمجھ لیں گے؟ 
تو دوستو اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم معیار ولایت سمجھیں۔
لیکن یہ مت سمجھئے کہ آج کرامت نہیں ہو سکتی اللہ کے ولی قیامت تک آتے رہیں گے اور کرامت کا ظہور بھی ہوتا رہے گا کیونکہ اللہ کے ولیوں کی کرامت کا تذکرہ قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔
آصف بن برخیا: یعنی تخت بلقیس کو لے کر آنے والے کی کرامت۔
حضرت مریم علیہ السلام کی کرامتیں، اصحاب کہف، وغیرہ 
لیکن اللہ کے ولی کی پہچان صرف کرامت سے نہیں بلکہ
اللہ کے ولی کی پہچان تین بنیادی چیزوں پر ہے. 
نمبر 1
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے
ان اولیآؤہ الّاالمتّقون
بے شک متقی (ولی اللہ) وہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں. 
نمبر 2
اللہ کی طرف بلانے والا ہو، اورخود ایسا ہو کہ اسے دیکھ کر خدا یاد آ جائے. 
نمبر 3
رزق حلال ہی اس کا ذریعہ ہو بلکہ شبہ والی چیزوں سے بھی اپنے آپ کو بچا کر رکھنے والا ہوں۔
اللہ کے ولی کا اللہ تعالی سے ڈر اور خوف دنیا والوں کی طرح نہیں ہے کہ جس سے وحشت پیدا ہوتی ہے، 
بلکہ اللہ کا ولی اللہ کی معرفت حاصل کرلیتا ہے اللہ کو پا لیتا ہے تو اس کا ڈر محبوب والا ڈر بن جاتا ہے
محبوب والاڈر کیا ہوتا ہے؟ 
کہ محبوب کی رضا ، چاہت اور قرب کے لئے کام کرتا ہے نہ کے محبوب کے خوف کی وجہ سے ۔
اب آتے ہیں کہ ان تینوں چیزوں کی تھوڑی سی پہچان ہو جائے
بظاہر ایک جیسے نظر آنے والے یہ تین کام جادو، معجزہ اور کرامت ۔
1) جادو، اللہ کی طرف سے حرام کر دیا گیا۔
2) معجزہ، اب ہو نہیں سکتا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
3) کرامت، اولیاء اللہ کی کرامتوں کا ظہور ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔
جادو، معجزہ اور کرامت کی تعریف۔
جادو
جادو، دین میں ہلاکت لانے والے کئی امور کا مجموعہ ہے۔مثلا جنّوں اور شیاطین سے مدد طلب کرنا، غیر اللہ کا دل میں خوف، شیطان جادو گر کو بھڑکاتا ہے کہ جادوگر اللہ کے بندوں کو اذیت و تکلیف پہنچائے، اس کی ایک دو مثال قرآن کریم سے عرض کردیتا ہوں
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے :
فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ
وہ ان سے وہ ( جادو ) سیکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ میاں بیوی کے مابین تفریق و علیحدگی پیدا کر دیتے ہیں۔
اور دوسری جگہ پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ
وہ ایسی چیز ( جادو ) سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان ہی پہنچاتا ہے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
معجزہ 
معجزہ مِن جانبِ اللہ ہوتا ہے، معجزہ کا صدُور اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول کے ذرِیعہ ہوتا ہے، معجزہ قوانینِ فطرت کے خلاف نظر آتا ہے، اور عالمِ اَسباب کے برعکس ہوتا ہے، معجزہ نبی اور رسول کا ذاتی نہیں بلکہ عطائی فعل ہوتا ہے، معجزے کے سامنےعقلِ اِنسانی ماند پڑ جاتی ہے ۔
اب کسی سے معجزہ کا ظہور نہیں ہوگا اس لیے کہ اللہ تعالی نے نبوت کا دروازہ خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بند کر دیا ہے۔
اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے آج کل ہمارے بعض جہلاء میں معجزہ کے نام پر کچھ کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں جو کہ سراسر تعلیمات اسلامی کے خلاف ہیں۔
کرامت
کرامات دو قسم کی ہیں۔ (۱) حسی۔ (۲) معنوی۔
عام مسلمان تو صرف حسی کرامت کو ہی کرامت سمجھتے ہیں، مثلاً کسی کے دل کی بات بتا دینا، پانی پر چلنا، فوراً دعا کا قبول ہو جانا وغیرہ۔ جس طرح حضرت خضر علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں موجود ہے۔
اور کچھ اس میں جعلی کرامتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں، 
مثلاً ! بنانا کا چھلکا اتارے بغیر اندر سے کٹا ہوا ہونا، حالانکہ وہ کپڑے سینے والی سوئی اس کیلے کے درمیان میں داخل کرکے گھماتے ہیں اور اس کو کاٹ دیتے ہیں،
انڈے میں سے سوئیاں نکالنا، حالانکہ انڈے کو سرکے میں بھگو دیتے ہیں اور اس کا چھلکا نرم ہوجاتا ہے اور اس میں سوئیاں داخل کر دیتے ہیں۔
اس طرح کے بے شمار شعبدوں کو لوگ کرامت تصور کرلیتے ہیں ۔
مگر میری گفتگو کا لبِ لباب یہ ہے کہ 
کرامت معنوی جو خواص اہل اللہ کے یہاں معتبر ہے وہ یہ ہے۔
کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو شریعت مطہرہ کی پابندی نصیب کرے،
نیک اخلاق کا مالک ہو،
فرائض، واجبات اور سنتوں پر عمل کرے، 
برے اخلاق مثلاً دھوکہ دہی، حسد، کینہ اور ہر بری خصلت سے دل پاک و صاف رکھے۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
خرق عادت(خلاف عادت کسی بات کا ظاہر ہونا) نہ تو ولایت کے لئے شرط ہے، نہ رکن۔
تاہم اولیاء اللہ سے کرامات کا ظاہر ہونا مشہور و معروف ہے، لیکن کثرت کرامت کا ظاہر ہونا کسی کے افضل ہونے کی دلیل نہیں، افضلیت کا مدار اللہ تعالیٰ کے حضور قرب درجات پر ہے۔

تحریر:۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

نسب یا تقویٰ

نسب یا تقویٰ
آجکل سادات کرام اور ان کی حمایت یا مخالفت میں ہونے والی پوسٹوں کے تناظر میں اہم تحریر....... مکمل پڑھیں 
(1)نسبت اول ایمان و تقویٰ 
قالﷲ تعالی: انما المومنون اخوۃ۔
ﷲتعالی نے فرمایا بیشک تمام مومن بھائی بہن ہیں۔
معلوم ہوا ایک نسبتِ ایمان بھی ہے۔
قرآن میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا
شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ
تمہیں شاخیں اور قبیلے بنایا کہ آپس میں پہچان رکھو۔
بندہ عرض کرتا ہے اے اللہ : پھر عزت کا معیار کیا ہے؟ 
جواب آتا ہے
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ 
بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔
کہیں ہم پڑھتے ہیں کہ اہل بیت رسول، آل رسول افضل ہیں، اور کہیں قرآن میں 
ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم
بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو سب سے بڑا پرہیزگارہے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے افضل کون ہیں، اہل بیت رسول یا تقوی والے۔
میرے نزدیک یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی پوچھنے والا پوچھےکہ کھانوں میں سب سے مزیدارکھانا کون سا ہے ؟
تو ایک کہے کہ نمکین سب سے زیادہ مزیدارہے، 
تو دوسرا شخص اُس کا رد کرنے کی لئے یہ کہے: نہیں بلکہ سب سے زیادہ مزیدار میٹھی چیزہے۔
جس طرح نمکین اور میٹھا کا مزے دار ہونا موقع کی مناسبت سے ہے اسی طرح اہل تقوی اور اہلبیت رسول ان دونوں کے بھی اپنے اپنے مقام ہیں۔
سادات کرام اگر بخشے جائیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔
لیکن متقی بھی نسبت رسول سے ہی بخشے جائیں گے،مگر وہ قرآن و سنت کے مطابق بخشوائیں گے بھی، اور اگر سید بھی ہو اور عالم و متقی بھی تو سونے پہ سہاگا ہے۔
(2)نسبت دوم آل رسول و سادات کرام
قرآن کریم کی یہ آیات مبارکہ دو مفہوم بیان کرتی ہے ایک یہ کہ اہل تقوی کا فائدہ ان کی اولادوں کو پہنچتا ہے۔
اور یہ کہ سادات کرام کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کا نفع پہنچے گا۔
قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے ۔
وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ 
وہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یا علی ان اول اربعۃ یدخلون الجنۃ انا وانت والحسن والحسین وذرار ینا خلف ظھورنا۔
اے علی! سب میں پہلے وہ چار کہ جنت میں داخل ہوں گے میں ہوں اور تم، حسن اور حسین، اور ہماری ذریتیں۔ ہمارے پس پشت ہوں گی۔ (طبرانی) 
دوسری حدیث 
اول من یرد علی الحوض اھل بیتی ومن احبنی من امتی۔
سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر آنیوالے میرے اہل بیت ہیں اور میری امت سے میرے چاہنے والے۔ 
تیسری حدیث 
اللھم انھم عترۃ رسولک فھب مسیئھم لمحسنھم وھبہم لی۔
الہی! وہ تیرے رسول کی آل ہیں، تو ان کے بدکار ان کے نیکوکاروں کو دے ڈال اور ان سب کو مجھے ہبہ فرمادے۔
پھر فرمایا:ﷲ تعالی نے ایسا ہی کیا۔ 
اس روایت سے ایک بات تو واضح ہے کہ آل رسول کی بخشش کا مدار رسول اللہ کی سفارش پر ہے اسی طرح جس طرح اس امت کے گناہ گاروں کا مدار رسول اللہ کی شفاعت پر ہے۔
ایک روایت میں ہے 
بے شک اللہ عزوجل کی تین حرمتیں ہیں۔ جو ان کی حفاظت کرے اللہ تعالی اس کے دین ودنیا محفوظ رکھے، اور جو ان کی حفاظت نہ کرے اللہ اس کے دین کی حفاظت فرمائے نہ دنیا کی، ایک اسلام کی حرمت، دوسری میری حرمت، تیسری میری قرابت کی حرمت، 
معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کی عزت لازم ہے ان کی اتباع نہیں۔
کسی کی پیروی علم اور تقویٰ کی بنیاد پر ہوگی۔
(3) نسبت سوم علم اور علماء 
(1)…علماء زمین کے چراغ اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے وارث ہیں ۔
(2)…ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔
(3)…علم کی مجالس جنت کے باغات ہیں ۔
(4)…علم کی طلب میں کسی راستے پر چلنے والے کے لئے اللہ تعالی جنت کا راستہ اسان کر دیتا ہے۔
(5)…قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کا وزن کیا جائے گا تو ان کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آجائے گی۔
(6)…عالم کے لئے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے حتی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں ۔
(7)…علماء کی تعظیم کرو کیونکہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے وارث ہیں ۔
(8)…اہل جنت ،جنت میں بھی علماء کے محتاج ہوں گے۔
(9)…علماء آسمان میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے۔
(10)…قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد علماء شفاعت کریں گے۔
ان تمام روایات کو ان کتابوں سے منتخب کیا گیا ہے
کنزالعمال،مسند الفردوس، مسلم شریف، ترمذی شریف،معجم الکبیر، ابن عساکر، 
(4) نسبت چہارم غلام یا نو مسلم
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: 
مولی القوم انفسھم 
کسی قوم کا آزاد کردہ غلام ان میں سے ہے۔(صحیح بخاری) 
نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
من اسلم من اھل فارس فھو قرشی 
اہل فارس سے جو اسلام لائے وہ قرشی ہے ۔ (کنز العمال)
ہماری دعا بھی یہی ہے کہ
جعلنا اللہ تعالی فی الدنیا و الاخرۃ من موالیھم فان مولی القوم منہم ۔
اللہ تعالی ہمیں دنیا و آخرت میں ان کے غلاموں میں رکھے کیونکہ کسی قوم کا آزاد کردہ غلام اسی قوم سے شمار ہوتا ہے ۔
(5) نسبت پنجم منقطع نسب 
حضرت سیدنا نوح علیہ السلام سے منقطع نسب 
وقال تعالی :
قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَھلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۔
اے پیارے نوح علیہ السلام یہ آپ کی اہل میں سے نہیں بیشک اس کے کام بڑے نالائق( غیر صالح) ہیں
قرآن میں ہے
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ ۔ 
تو جب صور پھونکا جائے گا تو نہ ان میں رشتے رہیں گے نہ کوئی ایک دوسرے کی بات پوچھے ۔
اور ہمارے علمائے کرام نے یزید کو بھی نسب کا فائدہ نہیں دیا
تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ آج کے سیدوں کو ان کی نسبتوں کی وجہ سے ہم قابل اطاعت سمجھیں۔
جبکہ عمل کی کوتاہیاں واضح نظر آ رہی ہوں...... 
حدیث مسلم: 
عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالی عنہ من ابطأبہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جو عمل میں پیچھے ہوا اسکا نسب نفع بخش نہ ہوگا۔ 
لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: 
وہ صعقہ اولی (قیامت کی پہلی کڑک) ہے اس میں رشتے کام نہ آئیں گے۔...... 
پوری تحریر کا لب لباب یہ ہے سادات کرام کی عزت و توقیر لازم ہے مگر اتباع لازم نہیں اتباع اس وقت کی جائے گی جب ان میں سے کسی کو قرآن وسنت کا صحیح عالم یا متقی پائیں گے. 
عالم چاہے سادات میں سے ہوں یا کسی بھی قوم و گروہ سے
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں... 
تحریر : ۔ محمد یعقوب نقشبندی اٹلی

بلاگ میں تلاش کریں